کیا 8 جنوری 53ء کو دہرانے کا وقت آگیا
آج پھر وقت آواز دے رہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو جمہورکش اقدامات کیے جا رہے ہیں ان کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔
KARACHI:
ملک میں نہ صرف سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی نقل جاری ہے، بلکہ جمہوریت کے نام پر نئی نسل کو بدترین غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا سلسلہ بھی سے چل رہا ہے۔ بظاہر کئی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ مگر اقتصادی امور پر سب ایک ہیں۔ جمہوریت کے نام کا (ن) لیگ کا ہر آن ورد ہے مگر طلبا یونین پر جنرل ضیا الحق نے جو پابندی لگائی تھی وہ چالیس برس بعد بھی جاری ہے مگر جمہوریت، جمہوریت کا کھیل جاری ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کی طرف سے کئی بار آواز بلند ہوئی کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال ہونے کو ہے مگر ان آوازوں کو سنتے ہوئے بھی کئی سال بیت گئے۔
قومی اسمبلی ہے تو اس کا کورم پورا نہیں ہوتا۔ کسی موضوع پر غور نہیں محض مراعات پر پروانہ وار قربان ہونے کو تیار ہیں۔ ہمارے سامنے کی بات ہے امریکی سابق صدر اور برطانوی لیبر پارٹی کے چیئرمین بسوں میں سفر کرتے دیکھے گئے اور نوکری سے وقت گزار رہے ہیں۔ مگر قرضوں کے بوجھ سے دبا ہوا ملک کا صوبائی وزیر چارٹرڈ پلین یا ذاتی جہاز پر سفرکرتا ہے۔ اب ملک کو ادھارکی دولت میں نہ صرف ڈوبنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں بلکہ (Do More) ''مزید کرو'' کی آوازیں بلند ہونے پر زور دیا جانے لگا ہے۔
کیونکہ کسی کو ملک کے لیے کوئی ہوم ورک کرنے کی ضرورت نہیں۔لہٰذا ایسی صورتحال میں چیف جسٹس کا عمل قابل تحسین ہے کہ انھوں نے بے راہ روی کی کمر توڑ دی، مگرکہاں کہاں کس کس کا احتساب ہو۔ صورتحال کچھ ایسی تبدیل ہوچلی ہے کہ ہر شعبہ زندگی پر عدلیہ کو نگرانی کرنی پڑے گی۔ کیونکہ صورت کچھ ایسی ہوچلی ہے کہ اگر عدلیہ خاموش رہی تو تمام غیر قانونی اقدامات کو بحال کرکے پاکستان کو دنیا بھر میں ناکام اور بدنام ریاست قرار دیا جائے گا۔ اب تک تو صرف دہشتگردی کے الزام میں ہماری گردنیں جھکی ہوئی ہیں پھر تو دنیا بھر میں ہماری ڈگریاں اور علوم مشکوک ہوجائیں گے۔
کہیں دور کی بات نہیں اسی اخبار ایکسپریس میں ثانوی بورڈ کے امتحان کے نتائج کا کرپشن کا راز فاش کیا گیا تھا جس میں لڑکا امتحانی کاپی میں فیل تھا لیکن ٹیبولیشن میں پاس تھا اور اس کی مارکس کی تصویر بھی شایع کی گئی تھی جو واضح نشاندہی تھی مگر یہ نہیں معلوم کہ انجام کیا ہوا۔ اب یہ مذاق میڈیکل کی ڈگریوں کے ساتھ بھی شروع ہوگیا ہے۔
چونکہ معروف میڈیکل کالجوں میں تو مارکس کا مقابلہ ہے اور میرٹ کے علاوہ فوری اضافی ٹیسٹ بھی ہے تو وہاں تو بے ایمانی چل نہ سکی تو کیا ہوا کہ زیادہ تر بڑے گنے کی کرشنگ والوں نے یہ مصنوعی میڈیکل کالج قائم کرنے شروع کردیے روپیہ کا روپیہ اور خرچ بھی نہیں۔ 5 سے آٹھ لاکھ روپے سالانہ داخلے کے لیے اور سماج میں مقام بھی، جو داخلہ لے وہ ڈاکٹر مریض کا کیا حال ہو سیٹھ کو بھلا کیا پروا۔ آپ ذرا سوچیں کہ 2011ء میں ایک میڈیکل جرنل کو مقام لینے میں اس قدر دقت اور کہاں یہ کہ گھر بیٹھے ڈینٹل اور میڈیکل کالجوں کو بروئے کار لانے کے لیے چند کمروں کا اہتمام جہاں میڈیکل اسٹوڈنٹس کی کلاسیں کہاں۔ آئے دن امریکا سے خبریں آتی رہتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے ڈاکٹر نہایت اعلیٰ تصور کیے جاتے ہیں تو ایسے نقلی ڈاکٹروں کا عالم میں ہمارا مقام جاتا رہے گا یہاں بھی بھارت ہی بھارت کا مقام بلند ہوگا۔
یہ بات تو رہی ایک طرف جب کہ دوسری جانب آپ خود فیصلہ کریں 2011ء میں پاکستان کی کرنسی مضبوط تھی ملک میں صدر مشرف کی حکومت تھی لیکن کرپشن سرعام نہ تھا۔ کہ ایم ڈی سی پر بھی ننگ دنیا ننگ دین ننگ وطن قابض ہوں اور اس کے اجازت نامے منسوخ نہ ہوئے۔ ان میڈیکل کالجوں کے کھلنے کی بھی کئی وجوہات ہیں پہلی وجہ تو یہ ہے کہ میڈیکل کالجوں کی سند یافتہ خواتین کو معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل ہوتا ہے اور میڈیکل برائڈ یعنی اس لڑکی کی شادی بہ آسانی ہوجاتی ہے اسی لیے اس وقت میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی تعداد تقریباً 85 فیصد ہے خواہ وہ شادی کے بعد ہاؤس وائف ہی کیوں نہ ہو جو عام صورتحال ہے۔
پھر پیسوں کی بنیاد پر داخلہ لینے میں مزید خواتین ڈاکٹر عام ہوجائیں گی اور اس دوڑ میں اضافہ اور پیسے والوں کی لڑکیاں بھی محرومی سے نجات پالیں گی اور سیٹھوں کی آمدنی میں مزید اضافہ ہوگا۔ معیار تعلیم گرتا ہے تو بلا سے گرے رقم تو آرہی ہے کا کلچر تو فروغ پائے گا اس سے اندازہ لگائیے۔ مشرف حکومت کے دور سے یہ جمہوری دور کس قدر کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔
آخر ایسی جمہوریت کے مقابلے میں کیا یہ آمرانہ حکومت بہتر ہے یا نہیں کیونکہ اس جمہوری دور میں گورنمنٹ کی ملازمت بھی رشوت دے کر ملتی ہے اور تعلیم کے نام پر بھی رقم دو اور ڈگری لو کا خیال عام ہوگیا ہے۔ لہٰذا سرزنش کرنے والا اور قانون شکن ٹولا اس قدر مضبوط ہوگیا ہے کہ اس کو اقتدار کی کرسی سے ہٹانا بھی ایک بڑا کام ہے۔ عوام دشمن ٹولا اس قدر مضبوط ہوگیا ہے کہ وہ عدل اور عدلیہ کا بھی مذاق اڑا رہا ہے لہٰذا نام نہاد جمہوری حکومتیں اسٹوڈنٹس یونین کو بحال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ کیونکہ کرپشن کی ناک میں طلبا ہی نکیل ڈالتے ہیں اور یہ شفاف سیاست کی بنیادیں رکھتے ہیں۔
ایسے ہی حالات 1952ء سے پروان چڑھنے لگے تھے تعلیم مہنگی خصوصاً میڈیکل تعلیم کو پڑھنے اور محنت کرنے والوں کے نصیب سے دور ہوتی جا رہی تھی کتابیں عام نہ تھیں ان کی خریداری بھی آسان نہ تھی اور عام تعلیم آمدنی کے اعتبار سے بڑی کم تھیں۔ کراچی شہر ملک کا دارالحکومت تھا بسوں کا نظام اور ٹرام وے کا نظام اور وکٹوریہ عام سواری تھی سائیکل رکشہ بھی شہر کی سستی سواری تھی صنعتی ڈھانچہ زیر تعمیر تھا تنخواہوں کا تناسب چند سو روپے ماہانہ تھا مگر اجناس نہایت سستے تھے۔ا
یسے میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے تحریک کا آغاز کیا کہ تعلیم کے اخراجات کم کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مفت یکساں اور عام کی جائے، اس وقت ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن روشن خیال رنگ نسل اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے پہلے پوسٹر، چاکنگ پوسٹر شہر کراچی میں لگائے گئے فوٹو اسٹیٹ مشین نہ تھی اسٹنسل (Stencil) کے ذریعے نکالے گئے پمفلٹ شہر میں تقسیم کیے گئے۔
کیونکہ کراچی اس وقت دارالسلطنت تھا۔ اس لیے سیاسی طور پر بڑی حساس پوزیشن تھی۔ لہٰذا 8 جنوری 1953ء کو ڈاؤ میڈیکل کالج سے جلوس نکالا گیا کہ طلبا اسمبلی ہال کی طرف مارچ کریں گے کئی ہزار طلبا کی قیادت ڈاکٹر محمد سرور کر رہے تھے ان کے اس وقت کے ساتھیوں میں ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر ہارون احمد اور نمایاں نام ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ہے۔
اس تحریک میں طلبا زخمی بھی ہوئے اور دس بارہ طلبا نے جسم کا نذرانہ پیش کیا جس کے بعد حکومت ہل گئی اور طلبا کو آسانیاں میسر آئیں اور تعلیمی دروازے عام لوگوں کے لیے کھلے۔ مگر ڈی ایس ایف ممنوع قرار دے دی گئی اور حکومت نے اپنی طرف سے این ایس ایف قائم کی جس کو ڈی ایس ایف کے سابق ارکان نے رفتہ رفتہ قبضہ کرلیا اس میں نمایاں نام ڈاکٹر محبوب احمد کا ہے اور ڈاکٹر شیرافضل ملک کا ہے۔
جب سے 8 جنوری 1953ء کی یاد ہر سال منائی جاتی ہے مگر رفتہ رفتہ طلبا یونینوں پر پابندی کے باعث یہ روایت جاتی رہی حالانکہ 1970ء میں یحییٰ خان کا مارشل لا تھا پھر بھی راقم نے جو اس وقت این ایس ایف کا جنرل سیکریٹری تھا ڈی جے سائنس کالج میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا اور جلوس نکالا مگر حکومت وقت نے میرے ساتھیوں میں مرحوم خالد شیخ اور جناب امیر حیدر کاظمی کو بھی اس جرم میں گرفتار کیا اور مجھے اضافی سزا سنائی گئی مگر اب ساتھی بکھر گئے اور اکثر گزر گئے حالانکہ تعلیم میں آج کرپشن عروج پر ہے مگر اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ صورتحال تو یہ ہے کہ خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہنے والا بادشاہوں سے استقامت کی سوغات مانگ رہے ہیں۔
مجھ سے پہلے کی نسل زمیں دوز ہوچکی ہے ادیب رضوی جو 8 جنوری 1953ء کے بہادروں میں سے ایک ہیں اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔ انھوں نے کم ازکم ایس آئی یو ٹی قائم کرکے نہ صرف لوگوں کو مفت علاج فراہم کیا اور تیمارداروں کو اعلیٰ ترین سہولتیں فراہم کیں بلکہ اپنے ملازمین کو بھی حد درجہ مراعات دیں۔
آج پھر وقت آواز دے رہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو جمہورکش اقدامات کیے جا رہے ہیں ان کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک سال سے پٹرول کی قیمتوں میں بلاجواز ایک دو یا چار روپے اضافہ کیا جا رہا ہے جس سے اقتصادی پلڑا مسلسل ارتعاش میں ہے۔ لہٰذا خاندانی جمہوریت کی بادشاہی کو ختم کرنا ہی ہوگاکیونکہ جمہوریت کی آڑ میں ملوکیت پاؤں پھیلا رہی ہے۔
ملک میں نہ صرف سرمایہ دارانہ جمہوری نظام کی نقل جاری ہے، بلکہ جمہوریت کے نام پر نئی نسل کو بدترین غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا سلسلہ بھی سے چل رہا ہے۔ بظاہر کئی قوتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ مگر اقتصادی امور پر سب ایک ہیں۔ جمہوریت کے نام کا (ن) لیگ کا ہر آن ورد ہے مگر طلبا یونین پر جنرل ضیا الحق نے جو پابندی لگائی تھی وہ چالیس برس بعد بھی جاری ہے مگر جمہوریت، جمہوریت کا کھیل جاری ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین کی طرف سے کئی بار آواز بلند ہوئی کہ اسٹوڈنٹس یونین بحال ہونے کو ہے مگر ان آوازوں کو سنتے ہوئے بھی کئی سال بیت گئے۔
قومی اسمبلی ہے تو اس کا کورم پورا نہیں ہوتا۔ کسی موضوع پر غور نہیں محض مراعات پر پروانہ وار قربان ہونے کو تیار ہیں۔ ہمارے سامنے کی بات ہے امریکی سابق صدر اور برطانوی لیبر پارٹی کے چیئرمین بسوں میں سفر کرتے دیکھے گئے اور نوکری سے وقت گزار رہے ہیں۔ مگر قرضوں کے بوجھ سے دبا ہوا ملک کا صوبائی وزیر چارٹرڈ پلین یا ذاتی جہاز پر سفرکرتا ہے۔ اب ملک کو ادھارکی دولت میں نہ صرف ڈوبنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں بلکہ (Do More) ''مزید کرو'' کی آوازیں بلند ہونے پر زور دیا جانے لگا ہے۔
کیونکہ کسی کو ملک کے لیے کوئی ہوم ورک کرنے کی ضرورت نہیں۔لہٰذا ایسی صورتحال میں چیف جسٹس کا عمل قابل تحسین ہے کہ انھوں نے بے راہ روی کی کمر توڑ دی، مگرکہاں کہاں کس کس کا احتساب ہو۔ صورتحال کچھ ایسی تبدیل ہوچلی ہے کہ ہر شعبہ زندگی پر عدلیہ کو نگرانی کرنی پڑے گی۔ کیونکہ صورت کچھ ایسی ہوچلی ہے کہ اگر عدلیہ خاموش رہی تو تمام غیر قانونی اقدامات کو بحال کرکے پاکستان کو دنیا بھر میں ناکام اور بدنام ریاست قرار دیا جائے گا۔ اب تک تو صرف دہشتگردی کے الزام میں ہماری گردنیں جھکی ہوئی ہیں پھر تو دنیا بھر میں ہماری ڈگریاں اور علوم مشکوک ہوجائیں گے۔
کہیں دور کی بات نہیں اسی اخبار ایکسپریس میں ثانوی بورڈ کے امتحان کے نتائج کا کرپشن کا راز فاش کیا گیا تھا جس میں لڑکا امتحانی کاپی میں فیل تھا لیکن ٹیبولیشن میں پاس تھا اور اس کی مارکس کی تصویر بھی شایع کی گئی تھی جو واضح نشاندہی تھی مگر یہ نہیں معلوم کہ انجام کیا ہوا۔ اب یہ مذاق میڈیکل کی ڈگریوں کے ساتھ بھی شروع ہوگیا ہے۔
چونکہ معروف میڈیکل کالجوں میں تو مارکس کا مقابلہ ہے اور میرٹ کے علاوہ فوری اضافی ٹیسٹ بھی ہے تو وہاں تو بے ایمانی چل نہ سکی تو کیا ہوا کہ زیادہ تر بڑے گنے کی کرشنگ والوں نے یہ مصنوعی میڈیکل کالج قائم کرنے شروع کردیے روپیہ کا روپیہ اور خرچ بھی نہیں۔ 5 سے آٹھ لاکھ روپے سالانہ داخلے کے لیے اور سماج میں مقام بھی، جو داخلہ لے وہ ڈاکٹر مریض کا کیا حال ہو سیٹھ کو بھلا کیا پروا۔ آپ ذرا سوچیں کہ 2011ء میں ایک میڈیکل جرنل کو مقام لینے میں اس قدر دقت اور کہاں یہ کہ گھر بیٹھے ڈینٹل اور میڈیکل کالجوں کو بروئے کار لانے کے لیے چند کمروں کا اہتمام جہاں میڈیکل اسٹوڈنٹس کی کلاسیں کہاں۔ آئے دن امریکا سے خبریں آتی رہتی ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے ڈاکٹر نہایت اعلیٰ تصور کیے جاتے ہیں تو ایسے نقلی ڈاکٹروں کا عالم میں ہمارا مقام جاتا رہے گا یہاں بھی بھارت ہی بھارت کا مقام بلند ہوگا۔
یہ بات تو رہی ایک طرف جب کہ دوسری جانب آپ خود فیصلہ کریں 2011ء میں پاکستان کی کرنسی مضبوط تھی ملک میں صدر مشرف کی حکومت تھی لیکن کرپشن سرعام نہ تھا۔ کہ ایم ڈی سی پر بھی ننگ دنیا ننگ دین ننگ وطن قابض ہوں اور اس کے اجازت نامے منسوخ نہ ہوئے۔ ان میڈیکل کالجوں کے کھلنے کی بھی کئی وجوہات ہیں پہلی وجہ تو یہ ہے کہ میڈیکل کالجوں کی سند یافتہ خواتین کو معاشرے میں اعلیٰ مقام حاصل ہوتا ہے اور میڈیکل برائڈ یعنی اس لڑکی کی شادی بہ آسانی ہوجاتی ہے اسی لیے اس وقت میڈیکل کالجوں میں لڑکیوں کی تعداد تقریباً 85 فیصد ہے خواہ وہ شادی کے بعد ہاؤس وائف ہی کیوں نہ ہو جو عام صورتحال ہے۔
پھر پیسوں کی بنیاد پر داخلہ لینے میں مزید خواتین ڈاکٹر عام ہوجائیں گی اور اس دوڑ میں اضافہ اور پیسے والوں کی لڑکیاں بھی محرومی سے نجات پالیں گی اور سیٹھوں کی آمدنی میں مزید اضافہ ہوگا۔ معیار تعلیم گرتا ہے تو بلا سے گرے رقم تو آرہی ہے کا کلچر تو فروغ پائے گا اس سے اندازہ لگائیے۔ مشرف حکومت کے دور سے یہ جمہوری دور کس قدر کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔
آخر ایسی جمہوریت کے مقابلے میں کیا یہ آمرانہ حکومت بہتر ہے یا نہیں کیونکہ اس جمہوری دور میں گورنمنٹ کی ملازمت بھی رشوت دے کر ملتی ہے اور تعلیم کے نام پر بھی رقم دو اور ڈگری لو کا خیال عام ہوگیا ہے۔ لہٰذا سرزنش کرنے والا اور قانون شکن ٹولا اس قدر مضبوط ہوگیا ہے کہ اس کو اقتدار کی کرسی سے ہٹانا بھی ایک بڑا کام ہے۔ عوام دشمن ٹولا اس قدر مضبوط ہوگیا ہے کہ وہ عدل اور عدلیہ کا بھی مذاق اڑا رہا ہے لہٰذا نام نہاد جمہوری حکومتیں اسٹوڈنٹس یونین کو بحال کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ کیونکہ کرپشن کی ناک میں طلبا ہی نکیل ڈالتے ہیں اور یہ شفاف سیاست کی بنیادیں رکھتے ہیں۔
ایسے ہی حالات 1952ء سے پروان چڑھنے لگے تھے تعلیم مہنگی خصوصاً میڈیکل تعلیم کو پڑھنے اور محنت کرنے والوں کے نصیب سے دور ہوتی جا رہی تھی کتابیں عام نہ تھیں ان کی خریداری بھی آسان نہ تھی اور عام تعلیم آمدنی کے اعتبار سے بڑی کم تھیں۔ کراچی شہر ملک کا دارالحکومت تھا بسوں کا نظام اور ٹرام وے کا نظام اور وکٹوریہ عام سواری تھی سائیکل رکشہ بھی شہر کی سستی سواری تھی صنعتی ڈھانچہ زیر تعمیر تھا تنخواہوں کا تناسب چند سو روپے ماہانہ تھا مگر اجناس نہایت سستے تھے۔ا
یسے میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے تحریک کا آغاز کیا کہ تعلیم کے اخراجات کم کیے جائیں، ابتدائی تعلیم مفت یکساں اور عام کی جائے، اس وقت ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن روشن خیال رنگ نسل اور تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے پہلے پوسٹر، چاکنگ پوسٹر شہر کراچی میں لگائے گئے فوٹو اسٹیٹ مشین نہ تھی اسٹنسل (Stencil) کے ذریعے نکالے گئے پمفلٹ شہر میں تقسیم کیے گئے۔
کیونکہ کراچی اس وقت دارالسلطنت تھا۔ اس لیے سیاسی طور پر بڑی حساس پوزیشن تھی۔ لہٰذا 8 جنوری 1953ء کو ڈاؤ میڈیکل کالج سے جلوس نکالا گیا کہ طلبا اسمبلی ہال کی طرف مارچ کریں گے کئی ہزار طلبا کی قیادت ڈاکٹر محمد سرور کر رہے تھے ان کے اس وقت کے ساتھیوں میں ڈاکٹر رحمان علی ہاشمی، ڈاکٹر ہارون احمد اور نمایاں نام ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی کا ہے۔
اس تحریک میں طلبا زخمی بھی ہوئے اور دس بارہ طلبا نے جسم کا نذرانہ پیش کیا جس کے بعد حکومت ہل گئی اور طلبا کو آسانیاں میسر آئیں اور تعلیمی دروازے عام لوگوں کے لیے کھلے۔ مگر ڈی ایس ایف ممنوع قرار دے دی گئی اور حکومت نے اپنی طرف سے این ایس ایف قائم کی جس کو ڈی ایس ایف کے سابق ارکان نے رفتہ رفتہ قبضہ کرلیا اس میں نمایاں نام ڈاکٹر محبوب احمد کا ہے اور ڈاکٹر شیرافضل ملک کا ہے۔
جب سے 8 جنوری 1953ء کی یاد ہر سال منائی جاتی ہے مگر رفتہ رفتہ طلبا یونینوں پر پابندی کے باعث یہ روایت جاتی رہی حالانکہ 1970ء میں یحییٰ خان کا مارشل لا تھا پھر بھی راقم نے جو اس وقت این ایس ایف کا جنرل سیکریٹری تھا ڈی جے سائنس کالج میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا اور جلوس نکالا مگر حکومت وقت نے میرے ساتھیوں میں مرحوم خالد شیخ اور جناب امیر حیدر کاظمی کو بھی اس جرم میں گرفتار کیا اور مجھے اضافی سزا سنائی گئی مگر اب ساتھی بکھر گئے اور اکثر گزر گئے حالانکہ تعلیم میں آج کرپشن عروج پر ہے مگر اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ صورتحال تو یہ ہے کہ خود کو جمہوریت کا چیمپئن کہنے والا بادشاہوں سے استقامت کی سوغات مانگ رہے ہیں۔
مجھ سے پہلے کی نسل زمیں دوز ہوچکی ہے ادیب رضوی جو 8 جنوری 1953ء کے بہادروں میں سے ایک ہیں اللہ ان کی حفاظت فرمائے۔ انھوں نے کم ازکم ایس آئی یو ٹی قائم کرکے نہ صرف لوگوں کو مفت علاج فراہم کیا اور تیمارداروں کو اعلیٰ ترین سہولتیں فراہم کیں بلکہ اپنے ملازمین کو بھی حد درجہ مراعات دیں۔
آج پھر وقت آواز دے رہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر جو جمہورکش اقدامات کیے جا رہے ہیں ان کو لگام دینے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ ایک سال سے پٹرول کی قیمتوں میں بلاجواز ایک دو یا چار روپے اضافہ کیا جا رہا ہے جس سے اقتصادی پلڑا مسلسل ارتعاش میں ہے۔ لہٰذا خاندانی جمہوریت کی بادشاہی کو ختم کرنا ہی ہوگاکیونکہ جمہوریت کی آڑ میں ملوکیت پاؤں پھیلا رہی ہے۔