سب کچھ چھوڑیں صرف ’’تعلیمی انقلاب‘‘ لے آئیں

قومیں تعلیم سے ایک دوسرے کو شکست دے رہی ہیں، مہذب ملکوں کی سرحدیں ختم ہو رہی ہیں جب کہ پاکستانیوں کو ویزے نہیں ملتے۔

ali.dhillon@ymail.com

آج ملک جن حالات سے گزر رہا ہے، تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی، ہر طرف بے یقینی کا ماحول ہے، اخلاقیات،اقتصادیات،رواداری، معاشرتی اخلاقیات سمیت ہر چیزکا جنازہ نکل چکا ہے۔ جس معاشرہ میں اقتصادیات لوٹ مار کی لپیٹ میں آ جائے وہاں اخلاقیات کا تار تار ہو جانا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

یہی کچھ ہمارے ہاں ہوا ہے، جس کا نوے فیصد کریڈٹ اس ''کلچر'' کو جاتا ہے جو سیاست میں ''نووارد'' سیاستدانوں نے متعارف کرایا اور پھر وہ زہر کی طرح پورے معاشرے میں پھیلتا چلا گیا۔ کہیں ''مجھے کیوں نکالا'' کی صدائیں، کہیں اداروں کو گالیاں،کہیں اسلام کے نام پر ملک بند اور کہیں کرپشن کرکے بھی اکڑ میں رہنا کہ مجھ سے حساب کیوں مانگا جا رہا ہے۔ آج ہماری یہ حالت ہے کہ پوا قومی بدن ناسور میں تبدیل ہو چکا۔

ہر پاکستانی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتا نظر آتا ہے، لاہور میں کیمرے لگ گئے مگر اب بھی سگنل بریک کرنا ایک فیشن ہے۔ وہی پاکستانی جو دوسرے ممالک میں لائن میں کھڑا نظر آتا ہے،انتہائی تحمل، بردباری اور صبر کا مظاہرہ کر رہا ہوتا ہے وہ لاہور ائیر پورٹ پر اترتے ہی بدتمیزی کرنا شروع کردیتا ہے۔ وہی پاکستانی جو غیر ملکی ائیر لائن پر ڈسپلن کے ساتھ سفر کرتا ہے، وہ پی آئی اے میں بیٹھتے ہی تھوکنا شروع کردیتا ہے۔

وہی پاکستانی بیرون ملک وقت پر ڈیوٹی پر آتا، وقت پر اور ایمانداری سے کام کرتا اور وقت پر آرام کرتا ہے یہاں آتے ہیں ہڈ حرامی، کام چوری اور بے ایمانی اس کی نس نس میں رچ جاتی ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ کیا اس کی بڑی وجہ تعلیم کی کمی تو نہیں؟ کیا تعلیم کی کمی کا مسئلہ بھی آئی ایم ایف نے ڈالا ہے؟ کیا یہاں ڈونلڈ ٹرمپ، اوباما اور بش انتظامیہ تعلیم کا بیڑہ غرق کرکے چلی گئی ہیں؟

گزشتہ ہفتے جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان جنوبی ایشیا میں تعلیم پر سب سے کم سرمایہ خرچ کرنے والا ملک ہے۔پاکستان تعلیم پرجی ڈی پی کا 2.14 فیصد خرچ کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ مسئلہ صرف بجٹ کا ہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ جو پیسہ مختص کیا جاتا ہے، اس کا ایک بڑا حصہ تنخواہوں اور کرپشن میں چلا جاتا ہے۔


ملک بھر میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے قاصر ہیں۔ یہ پاکستان میں بچوں کی آبادی کا تقریباََ نصف حصہ ہے۔ باقی جو بچے اسکول جاتے بھی ہیں، اُن کو فراہم کی جانے والی تعلیم بھی کچھ زیادہ معیاری نہیں ہے۔ 48فیصد اسکولوں کی عمارتیں خطرناک اور خستہ حال ہیں، جن کو فرنیچر، ٹوائلٹس، چار دیواری، پینے کے صاف پانی اور بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ 18فیصد اساتذہ عموماََ اسکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔

جنوبی پنجاب میں تقریباََ چالیس سال کے اندر کوئی نئی یونیورسٹی نہیں بنی جب کہ زراعت سے مالا مال اس خطے میں کوئی زرعی یونیورسٹی بھی نہیں ہے ۔سندھ میں تعلیم کی شرح سب سے زیادہ ہے لیکن صورتِ حال بہت زیادہ تسلی بخش نہیں ہے۔ سندھ میں نو سے دس ہزار کے قریب گھوسٹ اسکول ہیں۔ حکومت نے چار ہزار سے زائد ایسے اسکولوں کی موجودگی کا خود اعتراف کیا ہے۔ مشرف کے دور میں ناظموں کے ہاتھ میں نوکر شاہی کے بھی اختیارات آ گئے تھے، جس سے وڈیرے مزید طاقتور ہوگئے اور انھوں نے تعلیم کا خوب بیڑہ غرق کیا۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے ایک بھی ایسی یونیورسٹی نہیں بنائی جہاں ان کے اپنے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ جو چند ایک یونیورسٹیاں بنا دی گئی ہیں وہ کمرشل یونیورسٹیاں ہیںجہاں غریب آدمی کا لائق بچہ بھی داخلہ لینے سے قاصر ہے۔ اس لیے مدرسوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جس سے فرقہ واریت کو فروغ مل رہا ہے۔ اگلے دس سالوں میں یہاں جو آگ لگنی ہے وہ قابو سے باہر ہوگی۔

دنیا کہاں پہنچ چکی ہے۔ مریخ پر جانے کی بکنگ کا آغاز ہو چکا ہے۔ قومیں تعلیم سے ایک دوسرے کو شکست دے رہی ہیں، مہذب ملکوں کی سرحدیں ختم ہو رہی ہیں ، جب کہ پاکستانیوں کو ویزے نہیں ملتے، ہمارے سینئر سٹیزن تک کو ویزے نہیں مل رہے، ہمیں سچ اور جھوٹ کا فرق بھی نہیں بتایا جاتا۔ اللہ کی قسم کھانا ہمارا قومی کلچر بن چکا ہے۔

نوجوان پولیس کے ہتھے چڑھ کر زندگیاں خراب کر رہے ہیں، معمولی کرائم میں ملوث نوجوانوں کو پکے چور اور ڈاکو بنا دیا گیا ہے۔ ایک واقعہ آپ سے شیئر کرنا چاہوں گا کہ گزشتہ دنوں نئے سال کے موقع پر ایک روڈ سے رات کے وقت گزرا تو وہاں پولیس نے چند نوجوانوں کو مرغا بنا یا ہوا، میں نے گاڑی روک کر اُن سے پوچھا کہ پاکستان کے ''مستقبل کے معماروں'' کا قصور کیا ہے؟ پولیس والے گویا ہوئے کہ یہ''منچلے'' ہیں،نیو ائیر نائٹ منانے نکلے ہیں۔

اب یہ بتایا جائے کہ اگر آپ نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی برداشت نہیں کریں گے تو کیا یہ نوجوان چوریاں، ڈکیتیاں اور قتل و غارت کر کے اپنے آپ کو اس معاشرے کا بدترین رکن نہیں بنالیں گے؟ کیا دنیا میں نوجوانوں سے خوشیاں چھین کر انھیں چور ڈاکو بنایا جا رہا ہے؟ لہٰذاان سازشوں سے بچنے کے لیے ہمیں سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں چوہدریوں، وڈیروں، لٹیروں، خانوں، اربابوں اور نوابوں کی غلط فکری سے چھٹکارہ پانے کے لیے کسی دوسرے انقلاب کی ضرورت نہیں بلکہ محض تعلیمی انقلاب لے آئیں، ملک کے 90فیصد مسائل خودبخود حل ہو جائیں گے۔
Load Next Story