اسمبلیوں کی ضرورت کیا ہے

جس قومی اسمبلی کو ملک کا وزیراعظم، وزرا اور ارکان اسمبلی تک اہمیت نہ دیں اور انھیں ایوان صرف مطلب پر یاد آئے۔

پانچ ماہ کی بقایا مدت کی حامل قومی اسمبلی کا شاید پہلی بار یہ حال نظر آیا کہ مسلسل تین روز تک قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس ملتوی ہوتا رہا اور چوتھے روز بمشکل کورم پورا ہوا۔ اس موقعے پر کسی رکن نے کورم کی نشاندہی کرائی اور گنتی پوری تھی اور اجلاس معمولی معاملات نمٹاکر ملتوی کردیاگیا ۔ شاید اجلاس دن پورے کرنے کے لیے بلائے جاتے ہیں تاکہ دنوں کی تعداد پوری ہوجائے۔

اجلاسوں میں ہمیشہ ہوتا یہی رہا ہے کہ ارکان کورم پورا کریں نہ کریں یا حاضری لگاکر باہر سے ہی لوٹ جائیں یا قومی اسمبلی کے مقدس کہلانے والے ہال میں دیدار کرنے تھوڑی دیر کے لیے آجائیں اور اپنا الاؤنس کھرا کریں۔ قوم پر اخراجات کا بوجھ بڑھائیں اور اسلام آباد کے سرکاری دفاتر میں اپنے کاموں کے لیے نکل جائیں یا وزیروں کے پاس بیٹھ کرگپ شپ کریں اپنے کام کریں اور منتخب ہونے کا حق ادا کردیں۔

چوتھے روز کورم پورا ہونے پر قومی اسمبلی میں اہم کام یہ ہوا کہ عمران خان کی چھٹی کی مزید درخواست منظور ہوگئی جو اکثر نواز شریف کی طرح قومی اسمبلی سے غیر حاضر رہتے ہیں اور قومی ایوان میں صرف مطلب کے لیے اہمیت دیتے ہیں۔

29 کروڑ روپے سے زاید رقم میں پڑیں گے اور اتنی مہنگی منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کے ارکان کا بھی یہی حال ہوگا جو موجودہ ارکان کا ہے کیونکہ نئی قومی اسمبلی میں بھی اکثر یہی لوگ منتخب ہوں گے اور ان کے چہرے بدلیں نہ بدلیں مگر ان کی سیاسی پارٹیاں ضرور بدل جائیں گی یا باپ کی جگہ بیٹا یا بھائی کی جگہ دوسرا بھائی منتخب ہوجائے گا مگر سیاسی خاندان وہی رہیں گے جو آج بھی ہیں اور ماضی میں بھی قومی اسمبلی کی زینت بنتے رہے ہیں اور بنتے رہیں گے اور نئے لوگ تو ہوں گے مگر پارٹیاں اور سیاسی خاندان پرانے ہی ہوں گے کیونکہ منتخب ہونا ان کا آبائی حق اور حلقہ ان کا آبائی حلقہ ہی ہوگا۔

جس قومی اسمبلی کو ملک کا وزیراعظم، وزرا اور ارکان اسمبلی تک اہمیت نہ دیں اور انھیں ایوان صرف مطلب پر یاد آئے اس کے انتخاب پر تقریباً ساڑھے اکیس ارب روپے خرچ ہوجائیں اور بعد میں ایوان اکثر خالی نظر آئیں۔ ارکان کے انتظار میں گھنٹیاں بجتی رہیں، حکومت اور ارکان کانوں میں انگلیاں ٹھونسے رکھیں اور اجلاس مسلسل کورم ٹوٹ جانے کی وجہ سے ملتوی ہوتے رہیں یا کم کورم کے باعث شروع ہی نہ ہوسکیں تو ایسی قومی اسمبلی کو قوم پر بوجھ نہ سمجھا جائے تو کیا سمجھا جائے۔


اس اہم مسئلے پر قوم تو سوچنے کا اختیار ہی نہیں رکھتی ان پر تو جمہوریت اور ووٹ کے نام پر ایم این اے کی پلیٹ اپنی گاڑیوں پر لگانے والوں اور وی وی آئی پی بننے والوں نے مسلط ہونا ہے اور حسب معمول حلف اٹھانے کے بعد غیر حاضر رہنا ہی ہے تو پھر قوم کو ان کی ضرورت کیا ہے۔ ہر ماہ ارکان پارلیمنٹ کو الاؤنس کی مد میں کروڑوں روپے اور سرکاری مراعات اور سہولیات فراہم ہوں اور وہ ایوان میں آنا گوارا نہ کریں تو عوام کو ایسی اسمبلی سے کیا فائدہ، سرکاری افسران تک قومی اسمبلی کو اہمیت نہ دیں توکیا اسمبلی کا کام وزیراعظم منتخب کرنا ہی رہ گیا ہے۔

وزیراعظم بن کر قومی اسمبلی کو بھول جانا، ایوان سے مہینوں اور سینیٹ سے ایک سال غیر حاضر رہنے والوں کو قومی اسمبلی پوچھ نہیں سکتی کہ آپ قومی اسمبلی سے منتخب ہی کیوں ہوئے تھے۔ اسپیکر وزیروں اور ارکان پر غیر حاضری پر برہم تو ہوسکتے ہیں مگر وزیراعظم پر تو وہ برہم بھی نہیں ہوسکتے۔

ملک میں 1973 میں متفقہ آئین منظور ہوا تھا جس میں دوبارہ پارلیمانی نظام نافذ ہوا تھا جب کہ قیام پاکستان کے بعد 1958 تک ملک میں پارلیمانی نظام ہی تھا بعد میں ایوب خان نے ملک میں 1969 تک صدارتی نظام قائم رکھا جو جنرل یحییٰ کے مارشل لا میں جاری رہا جس میں بھٹو صاحب بھی صدر رہے۔ 1973 کے پارلیمانی نظام کو 45 سال ہورہے ہیں جس کے دوران چھ بار قومی اسمبلی سویلین اور غیر سویلین صدور نے توڑیں اور دو مارشل لا لگے۔

سول حکومتوں کے 5 وزرائے اعظم پر کرپشن، من مانیوں اور اقربا پروری کے الزامات لگے اور وہ برطرف ہوئے، جنرل پرویز دور میں تین وزیراعظم 5 سالہ مدت پوری کرنے میں کامیاب رہے۔ 2008 میں صدر زرداری کے دو وزیراعظم بھی مدت پوری کرنے میں کامیاب اس وجہ سے رہے کہ صدر زرداری سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر اور سیاسی مفاد پرست تھے سیاسی اصول ان کے تھے نہیں بلکہ وہ مدت پوری کرنا چاہتے تھے مگر ملک کا جو حشر ہوا وہ قوم کو یاد ہے۔

نواز شریف نے اپنی تیسری حکومت بھی بادشاہوں کی طرح چلائی اور پارلیمانی نظام کو مطلوبہ اہمیت نہیں دی اور عدالت کے ذریعے نا اہل ہوئے اور موجودہ حکومت کے مستقبل اور قومی اسمبلی کا کچھ پتا نہیں کہ رہے نہ رہے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے درست کہا ہے کہ 70 سال میں ہم فیصلہ نہیں کرپائے کہ کون سا نظام ملک کے لیے بہتر ہے۔

قومی اسمبلی کی طرح حکومت کے ہاتھوں سینیٹ بھی غیر اہم رہی ہے جس کے وقار کی یہ حالت ہے کہ وزیراعظم وزرا اور افسران تک انھیں اہمیت نہیں دیتے اور ان کے اراکین اکثر غیر حاضر رہنا معمول بناچکے ہیں اور انھیں صرف منتخب ہونے سے دلچسپی ہے تو ان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے سخت قوانین کیوں نہیں بنائے جاتے تاکہ ان کی حاضری بڑھے وگرنہ ایسی اسمبلیوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔
Load Next Story