حضور اکرمؐ کا اسوۂ حسنہ

آپؐ کی ذات بابرکات ایک مجسم قرآن ہے اور آپؐ کا اسوہ حسنہ رہتی دنیا تک عالم انسانیت کے لیے عالمگیر پیغام ہے۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

WELLINGTON:
سرورکائنات فخر دو جہاں، رحمۃ اللعالمین، خاتم النبیین، احمد مجتبیٰ محمد مصطفی ﷺ کی حیات پاک دین اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ تھی۔ آپؐ نے قرآن کی شکل میں جو آئین دنیا کے سامنے پیش کیا، اسے عملی نمونوں کے قابل بنا دیا۔

قرآن کریم اور سیرت نبویؐ دراصل ایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں قرآن کلام الٰہی ہے اور سیرت اس کا عملی نمونہ ۔ قرآن علم ہے اور سیرت عمل۔ آپؐ کی ذات بابرکات ایک مجسم قرآن ہے اور آپؐ کا اسوہ حسنہ رہتی دنیا تک عالم انسانیت کے لیے عالمگیر پیغام ہے۔

آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفیؐ نے سن 10 ہجری میں آخری حج کے موقعے پر مکہ معظمہ کے نزدیک جبل رحمت پر میدان عرفات کی آغوش میں موجود ایک لاکھ سے زیادہ نفوس انسانی کے اجتماع سے خطاب فرمایا۔ رسول اکرمؐ کے ان فرمودات اور ارشادات مبارکہ کو خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

خطبہ حجۃالوداع بنی آدم کے لیے ایک بے مثل منشور اور بے نظیر دستور العمل ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ عظیم خطبہ اصول اخلاقیات، معاشرت، سیاست کا ایک مکمل ضابطہ حیات اور ایک فکر انگیز دستاویز ہے۔

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں ہے۔ وہ یکتا ہے کوئی اس کا ساجھی نہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اس نے اپنے بندے (رسولؐ) کی مدد فرمائی اور تنہا اسی کی ذات نے باطل کی ساری مجتمع قوتوں کو زیر کیا۔ لوگو! میری بات سنو میں نہیں سمجھتا کہ آیندہ کبھی ہم اس طرح کسی مجلس میں یکجا ہوسکیں گے (اور غالباً اس سال کے بعد میں حج نہ کرسکوں گا)

لوگو! اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ''انسانو! ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتوں اور قبیلوں میں بانٹ دیا ہے کہ تم الگ الگ پہچانے جاسکو۔ تم میں زیادہ عزت و کرامت والا وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔''

چنانچہ اس آیت کی روشنی میں نہ کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل ہے نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر۔ نہ کالا گورے سے افضل ہے نہ گورا کالے سے، ہاں بزرگی اور فضیلت کا کوئی معیار ہے تو وہ تقویٰ ہے، انسان سارے ہی آدمؑ کی اولاد ہیں اور آدمؑ کی حقیقت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ مٹی کے بنائے گئے۔ اب فضیلت و برتری کے سارے دعوے خون و مال کے سارے مطالبے اور سارے انتقام میرے پاؤں تلے روندے جا چکے ہیں۔ بس بیت اللہ کی تولیت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمات علیٰ حالہٖ باقی رہیں گی۔

پھر آپؐ نے ارشاد فرمایا:

''قریش کے لوگو! ایسا نہ ہو کہ اللہ کے حضور تم اس طرح آؤکہ تمہاری گردنوں پر تو دنیا کا بوجھ ہو اور دوسرے لوگ سامان آخرت لے کر پہنچیں اور اگر ایسا ہوا تو میں اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آسکوں گا۔


قریش کے لوگو! اللہ نے تمہاری جھوٹی نخوت کو ختم کر ڈالا اور باپ دادا کے کارناموں پر تمہارے فخر و مباہات کی کوئی گنجائش نہیں۔ لوگو! تمہارے جان و مال اور عزتیں ایک دوسرے پر قطعاً حرام کردی گئیں۔ ہمیشہ کے لیے۔ ان چیزوں کی اہمیت ایسی ہی ہے جیسے تمہارے اس دن کی اور اس ماہ مبارک (ذی الحجہ) کی۔ خاص کر اس شہر میں ہے۔ تم سب اللہ کے آگے جاؤگے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت باز پرس فرمائے گا۔ دیکھو کہیں میرے بعد گمراہ نہ ہو جانا کہ آپس ہی میں کشت و خون کرنے لگو۔

اگر کسی کے پاس امانت رکھوائی جائے تو وہ اس بات کا پابند ہے کہ امانت رکھوانے والے کو امانت پہنچا دے، لوگو! ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے اور سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اپنے غلاموں کا خیال رکھو، ہاں غلاموں کا خیال رکھو۔ انھیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ ایسا ہی پہناؤ جیسا تم پہنتے ہو۔ دور جاہلیت کا سب کچھ میں نے اپنے پیروں سے روند دیا۔

زمانہ جاہلیت کے خون کے سارے انتقام اب کالعدم ہیں۔ پہلا انتقام جسے میں کالعدم قرار دیتا ہوں۔ میرے اپنے خاندان کا ہے۔ ربیعہ بن الحارث کے دودھ پیتے بیٹے کا خون جسے بنوہذیل نے مار ڈالا تھا، اب میں معاف کرتا ہوں، دور جاہلیت کا سود اب کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پہلا سود جسے میں چھوڑتا ہوں۔ عباس ابن عبدالمطلب کے خاندان کا سود ہے۔ اب ختم ہوگیا۔

لوگو! اللہ نے ہر حقدار کو اس کا حق خود دے دیا۔ اب کوئی کسی وارث کے لیے وصیت نہ کرے۔ بچہ اسی کی طرف منسوب کیا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا جس پر حرام کاری ثابت ہو اس کی سزا پتھر ہے حساب و کتاب اللہ کے ہاں ہوگا جو کوئی اپنا نسب بدلے گا یا کوئی غلام اپنے آقا کے مقابلے میں کسی اور کو اپنا آقا ظاہر کرے گا اس پر اللہ کی لعنت، قرض قابل ادائی ہے۔ عاریتاً لی ہوئی چیز واپس کرنی چاہیے۔ تحفے کا بدلہ دینا چاہیے اور جو کوئی کسی کا ضامن ہے وہ تاوان ادا کرے۔ کسی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے کچھ لے۔ سوائے اس کے جس پر اس کا بھائی راضی ہو اور خوشی خوشی دے۔ خود پر اور ایک دوسرے پر زیادتی نہ کرو۔

عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کا مال اس کی بغیر اجازت کسی کو دے۔ دیکھو تمہارے اوپر تمہاری عورتوں کے کچھ حقوق ہیں اسی طرح ان پر تمہارے حقوق واجب ہیں ۔ عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ اپنے پاس کسی ایسے شخص کو نہ بلائیں جسے تم پسند نہیں کرتے اور وہ کوئی خیانت نہ کریں اور کوئی کام کھلی بے حیائی کا نہ کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو اللہ کی جانب سے اس کی اجازت ہے کہ تم انھیں معمولی جسمانی سزا دو اور وہ باز آجائیں تو انھیں اچھی طرح کھلاؤ پہناؤ۔ عورتوں سے بہتر سلوک کرو کیونکہ وہ تمہاری پابند ہیں اور خود اپنے لیے وہ کچھ نہیں کرسکتیں۔

چنانچہ ان کے بارے میں اللہ کا لحاظ رکھو کہ تم نے انھیں اللہ کے نام پر حاصل کیا اور اسی کے نام پر وہ تمہارے لیے حلال ہوئیں۔ لوگو! میری بات سمجھ لو میں نے حق تبلیغ ادا کردیا۔ میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ تم کبھی گمراہ نہ ہوگے اگر اس پر قائم رہے اور وہ اللہ کی کتاب ہے اور ہاں دیکھو دینی معاملات میں غلو سے بچنا کہ تم سے پہلے کے لوگ انھی باتوں کے سبب ہلاک کردیے گئے۔

شیطان کے لیے اب اس بات کی کوئی توقع نہیں رہ گئی ہے کہ اب اس کی اس شہر میں عبادت کی جائے گی لیکن اس کا امکان ہے کہ ایسے معاملات میں جنھیں تم کم اہمیت دیتے ہو اس کی بات مان لی جائے اور وہ اسی پر راضی ہے۔ اس لیے تم اس سے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کرنا۔ لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو پانچ وقت کی نماز ادا کرو، مہینے بھر کے روزے رکھو، اپنے مالوں کی زکوٰۃ خوش دلی کے ساتھ دیتے رہو اپنے اللہ کے گھر کا حج کرو اور اپنے اہل امر کی اطاعت کرو تو اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجائے گا۔

اب مجرم خود ہی اپنے جرم کا ذمے دار ہوگا اور اب نہ باپ کے بدلے بیٹا پکڑا جائے گا نہ بیٹے کا بدلہ باپ سے لیا جائے گا۔

سنو! جو لوگ یہاں موجود ہیں انھیں چاہیے کہ یہ احکام اور یہ باتیں ان لوگوں کو بتا دیں جو یہاں نہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ کوئی غیر موجود تم سے زیادہ سمجھنے اور محفوظ رکھنے والا ہو اور لوگو! تم سے میرے بارے میں (اللہ کے ہاں) سوال کیا جائے گا بتاؤ تم کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ ہم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپؐ نے امانت (دین) پہنچادی اور آپؐ نے حق رسالت ادا فرمایا اور ہماری خیر خواہی فرمائی۔''

یہ سن کر حضور اکرمؐ نے اپنی انگشت شہادت آسمان کی جانب اٹھائی اور لوگوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا ''اللہ گواہ رہنا، اللہ گواہ رہنا، اللہ گواہ رہنا۔''
Load Next Story