اور…
آپ ذہن پر زور ڈالتے ہیں کہ کوئی بات رہ گئی ہو تو اسے آگاہ کریں۔
ہمارے ہاں علیک سلیک کے بھی بہت سے طریقے رائج ہیں ، معاف کیجیے گا یہ طریقے ہم نے خود رائج کیے ہیں۔ شام کوغروب آفتاب کے وقت آپ مارکیٹ میں جا رہے ہوتے ہیں، سبزی خرید چکے ہیں اورکچھ جلدی میں ہوتے ہیں کہ سودا سلف کا کام نمٹا دیں تو اپنے بیٹے کو ہوم ورک کرانے بیٹھیں ۔ہوم ورک میں اسے دل چسپی نہیں ہے۔وہ ''ہوم '' میں ہوتا ہے اور''ورک'' آپ کو خود ہی کرنا پڑتا ہے۔
اچانک سامنے سے آپ کے دوست '' ٹھرک خان ''کا چہرہ ایک ٹھیلے کے پیچھے سے نمودار ہوتا ہے۔ بور آئیٹم ہے،لہٰذا آپ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی نظروں سے بچیں، مگر اس کی تیز عقابی نظرو ں سے آپ بچ ہی نہیں پاتے ۔وہ ایک ٹھٹھا مار کر آپ کی طرف بڑھتا ہے اور آپ کا ہاتھ بے تکلفی سے تھام لیتا ہے۔جس میں بے پناہ گرم جوشی ہوتی ہے۔علیک سلیک کے بعد وہ کہتا ہے۔''اور۔۔۔؟''
آپ اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہیں۔''سب خیریت ہے۔میں ذرا جلدی۔۔۔''
''ہا ہا ہا۔'' اس کے فصیح و بلیغ قہقہے کے بعد اس کا ایک ہاتھ آپ کے شانے پر پڑتا ہے۔''اور۔۔۔؟''
''سب خیریت سے ہے۔میں سبزی لینے آیا تھا، گھر جاکر صاحبزادے کو ہوم ورک ...''
''پتا نہیں کیا بات ہے۔سب جلدی میں ہوتے ہیں۔مجھے یہ کرنا ہے، وہ کرنا ہے۔کچھ نہیں تو ڈاکٹر کے ہاں جانا ہے۔ٹائم لے رکھا ہے۔اور...؟''
پھر آپ تیسری بار اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہیں ۔ ذہن پر زور ڈالتے ہیں کہ کوئی بات رہ تو نہیں گئی، تاکہ اس کی تفصیل سے بھی آگاہ کر دیں۔اس اثنا میں وہ آپ کے ایک ہاتھ کو اپنے ہاتھ کے شکنجے میں دبا کر اسے بے دردی سے مروڑ دیتا ہے۔ ''ہا ہا ہا،اور...؟''
آپ ذہن پر زور ڈالتے ہیں کہ کوئی بات رہ گئی ہو تو اسے آگاہ کریں، لیکن تین بار اس کے استفساری ''اور''کے جواب میں کوئی بات باقی نہیں رہتی۔ اس کے استفسار کے جواب میں اپنی زندگی کے سارے کوائف اسے گوش گزارکرا دیتے ہیں۔وہ سوائے ''اور''کے کچھ نہیں کہتا ۔ اس کے ''اور''کا مفہوم بے حد وسیع و عریض ہوتا ہے۔
جس کے جواب میں آپ اپنی ساری کائنات لفظوں میںسمونے کی کوشش کر بیٹھتے ہیں۔حالانکہ کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔اس کے پاس وقت کی کمی نہیں ہے اور آپ کو اپنے صا حبزادے کو ہوم ورک کرانا ہے۔آپ کے ہاں وقت کی قلت ہے اور اس کے پاس فراغت۔وہ لفظوں کا کارخانہ کھولنے پر تلا ہوا ہے۔پھریہ سوچ کر کہ اس نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا ۔ وہ اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرکرکہتا ہے۔''بس کچھ نہیں۔میں ذرا طوطوں کا دانہ لینے آیا تھا ۔ تمہیں کچھ تجربہ ہے،اس کا؟''وہ کوشش کرتا ہے کہ آپ کو اپنے ساتھ ساتھ گھسیٹتا پھرے، ایک سے دو بھلے کے مصداق۔
کوشش کر کے پہلے آپ اپنا ہاتھ چھڑا لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جس کا کچومر نکل چکا ہوتا ہے ۔آپ بخوبی واقف ہیں کہ اب گھر جاکر ہاتھ کی زیتون کے تیل سے مالش اور سنکائی کرنا پڑے گی۔آپ معذرت کرتے ہیں کہ دانہ تو ایک طرف رہا ،آپ کو طوطوں کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔بلکہ وہ جن طوطوں کا نام لے رہا ہے۔انھیں آپ نے دیکھا ہی نہیں۔طوطا دیکھنے کا اتفاق تو آپ کو صرف تیسری کلاس میں اردو کی کتاب میں ہوا تھا ۔ہاتھ چھڑا نے کے بعد آپ اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور بگٹٹ اپنے گھر کی طرف بھاگتے ہیں۔جہاں بیٹا آپ کا قطعی انتظار نہیں کر رہا ہوتا اور بدستور کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہوتا ہے۔
اگلا دن اتوار کا ہوتا ہے۔راوی عیش و چین لکھتا ہے۔گھر میں سب پڑے سو رہے ہوتے ہیں۔محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر آپ اہلِ خانہ کے لیے حلوہ پوری لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ دکان پر پہنچتے ہیں تو آپ کوکچھ افراد اور کھڑے نظر آتے ہیں ۔آپ سب سے پیچھے ہوتے ہیں۔ افتاداں و خیزاں، اضطراب وہیجان کا لبادہ اوڑھے ہوئے۔ نصف گھنٹے کے بعدانڈیا پاکستان کا میچ شروع ہونے والا ہے، جسے آپ مع اشتہارات کے ابتدا سے انتہا تک دیکھنااور تالیاں بجانا چاہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس بار انڈیا کی خیر نہیں،کیوں کہ آپ کے پاس منجھے ہوئے بالر اور بیٹسمین ہیں،جو انڈیا کا باجا بجا کر رکھ دیں گے۔بس ذرا حلوہ پوری ...
اچانک آپ کو زاہد نظر آتا ہے، جو ایک ہاتھ میںحلوہ پوری کا تھیلا تھامے اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بقیہ رقم دابے لوگوں کے کاندھو ں سے کاندھے رگڑتا ہوا بھیڑ سے نکل رہا ہوتا ہے۔ زاہد حکومت کے ایک محکمے میں افسرہے اور اچھے عہدے پر فائز ہے۔اس کے چہرے پر لکھا ہے کہ وہ عدیم الفرصت ہے ، وہ چونکہ افسر ہے اور کسی مجبوری کے تحت حلوہ پوری لینے آگیا ہے، ورنہ لوگوں سے کم ہی بات کرتا ہے اور اسے اپنے رکھ رکھاؤکا خیال رہتا ہے۔اس کے سامنے لفظوں کا پٹارہ کھولنا آپ کی مجبوری ہے۔اس لیے کہ آپ کی میز کی دراز میں دو چار افراد کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں جوکہیں نہ کہیں ملازمت کے خواہاں ہیں ۔ زاہد کو دیکھ کر آپ کی شریانوں میں خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے۔گرمجوشی کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔
''ارے زاہد! تم ؟''آپ اپنا ہاتھ اس کی طرف گرمجوشی سے بڑھاتے ہیں کہ '' زور دار'' مصافحہ کریں گے۔''ہاہاہا،کیسے ہو؟'' مگر وہ گرمجوشی کا جواب قدرے سرد مہری سے دیتا ہے۔ کترا کر نکلنا چاہتا ہے جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔آپ کہتے ہیں ۔''پہچانا نہیں؟میں ہوں صدیقی۔''
چونکہ وہ دسویں میں آپ کا کلاس فیلو رہ چکا ہے، اس لیے شناسائی کی کچھ شکنیں اس کی پیشانی پر نمودار ہوتی اور تیزی سے معدوم ہوجاتی ہیں۔جیسے وہ آپ کو کوئی اہمیت نہ دینا چاہتا ہو، لیکن آپ ہیں کہ ''کمبل ''ہوئے جا رہے ہیں۔''صدیقی! ہوں۔''وہ اس طرح جواب دیتا ہے جیسے پچھلی صدی میں لوگ ایک دوسرے کونہایت مختصر لفظوں میں ''تار''دیا کرتے تھے۔پھر اپنا ہاتھ بڑھانے کے بجائے درمیانی تین انگلیاں آپ کی انگلیوں سے نہایت احتیاط سے چھو دیتا ہے۔
''کہاں ہو آج کل؟کیا کر رہے ہو؟''آپ جانتے ہیں،لیکن پوچھ لیتے ہیں ۔یہ تو ظاہر ہے کہ وہ آلو چھولے یا دھنیا کا تیل بیچنے سے رہا۔
''گورنمنٹ جاب ۔''وہ پھر تار کی زبان میں جواب آپ کی طرف اچھالتا ہے اور متوقع ہوتا ہے کہ آپ اس کی جان چھوڑ دیں گے۔مگرآپ ہیں کہ جمن ہوئے جا رہے ہیں۔حلوہ پوری اور کرکٹ میچ کو آپ مصلحتاً ایک طرف ڈال دیتے ہیں۔بلکہ فی الفور ان پر مٹی ڈال دیتے ہیں۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں'' کرکٹ'' کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں حلوہ پوری کے سوا
''تم نے تو بہت اچھی جگہ ہاتھ مارا ہے۔کس محکمے میں ہو؟''آپ کے لفظوں کی حرارت، گرمجوشی اوربڑی حد تک خوشامد ہے کہ کم ہی نہیں ہونے میں آرہی ہے بلکہ لمحہ بہ لمحہ اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔بس نہیں چل رہا ہے،ورنہ آپ اس کا منہ چومنے سے بھی د ریغ نہ کریں۔
''انفارمیشن۔''اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ کا پر تو جھلکتا ہے۔ جیسے وہ اس خزانے کو بھی کنجوسی سے خرچ کرنے کا عادی ہو۔بلکہ ضرورتاًبھی خرچ نہ کرتااور اسے محفوظ رکھنا چاہتا ہو تاکہ آڑے وقت میں اپنے باس پر اسے نچھاور کرسکے۔ گویا اس کی مسکراہٹ خوش دلی کا مظاہرہ نہیں کر رہی تھی،بلکہ اس میں ڈپلومیسی شامل تھی۔اس کے چہرے پر'' طلوع'' ہونے والی خفیف سی مسکراہٹ پر سنجیدگی کا دبیز غلاف چڑھ چکا تھا جیسے کچھ کہنے سننے کی گنجائش ختم ہوچکی ہو ،جیسے آپ کی باری آنے پر سنیما کا ٹکٹ اچانک ختم ہوجاتا ہے اور آپ کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔
''اور...؟''آپ کہتے ہیں۔
''اورکچھ نہیں''اس کا جواب ہوتا ہے، پھر وہ مڑتا ہے اور اپنی کار میں جاکر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ آپ پر کیا گزری۔
اچانک سامنے سے آپ کے دوست '' ٹھرک خان ''کا چہرہ ایک ٹھیلے کے پیچھے سے نمودار ہوتا ہے۔ بور آئیٹم ہے،لہٰذا آپ کوشش کرتے ہیں کہ اس کی نظروں سے بچیں، مگر اس کی تیز عقابی نظرو ں سے آپ بچ ہی نہیں پاتے ۔وہ ایک ٹھٹھا مار کر آپ کی طرف بڑھتا ہے اور آپ کا ہاتھ بے تکلفی سے تھام لیتا ہے۔جس میں بے پناہ گرم جوشی ہوتی ہے۔علیک سلیک کے بعد وہ کہتا ہے۔''اور۔۔۔؟''
آپ اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہیں۔''سب خیریت ہے۔میں ذرا جلدی۔۔۔''
''ہا ہا ہا۔'' اس کے فصیح و بلیغ قہقہے کے بعد اس کا ایک ہاتھ آپ کے شانے پر پڑتا ہے۔''اور۔۔۔؟''
''سب خیریت سے ہے۔میں سبزی لینے آیا تھا، گھر جاکر صاحبزادے کو ہوم ورک ...''
''پتا نہیں کیا بات ہے۔سب جلدی میں ہوتے ہیں۔مجھے یہ کرنا ہے، وہ کرنا ہے۔کچھ نہیں تو ڈاکٹر کے ہاں جانا ہے۔ٹائم لے رکھا ہے۔اور...؟''
پھر آپ تیسری بار اپنی خیریت سے آگاہ کرتے ہیں ۔ ذہن پر زور ڈالتے ہیں کہ کوئی بات رہ تو نہیں گئی، تاکہ اس کی تفصیل سے بھی آگاہ کر دیں۔اس اثنا میں وہ آپ کے ایک ہاتھ کو اپنے ہاتھ کے شکنجے میں دبا کر اسے بے دردی سے مروڑ دیتا ہے۔ ''ہا ہا ہا،اور...؟''
آپ ذہن پر زور ڈالتے ہیں کہ کوئی بات رہ گئی ہو تو اسے آگاہ کریں، لیکن تین بار اس کے استفساری ''اور''کے جواب میں کوئی بات باقی نہیں رہتی۔ اس کے استفسار کے جواب میں اپنی زندگی کے سارے کوائف اسے گوش گزارکرا دیتے ہیں۔وہ سوائے ''اور''کے کچھ نہیں کہتا ۔ اس کے ''اور''کا مفہوم بے حد وسیع و عریض ہوتا ہے۔
جس کے جواب میں آپ اپنی ساری کائنات لفظوں میںسمونے کی کوشش کر بیٹھتے ہیں۔حالانکہ کوئی خاص بات نہیں ہوتی۔اس کے پاس وقت کی کمی نہیں ہے اور آپ کو اپنے صا حبزادے کو ہوم ورک کرانا ہے۔آپ کے ہاں وقت کی قلت ہے اور اس کے پاس فراغت۔وہ لفظوں کا کارخانہ کھولنے پر تلا ہوا ہے۔پھریہ سوچ کر کہ اس نے اپنے بارے میں کچھ نہیں بتایا ۔ وہ اپنی مونچھوں پر ہاتھ پھیرکرکہتا ہے۔''بس کچھ نہیں۔میں ذرا طوطوں کا دانہ لینے آیا تھا ۔ تمہیں کچھ تجربہ ہے،اس کا؟''وہ کوشش کرتا ہے کہ آپ کو اپنے ساتھ ساتھ گھسیٹتا پھرے، ایک سے دو بھلے کے مصداق۔
کوشش کر کے پہلے آپ اپنا ہاتھ چھڑا لینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں جس کا کچومر نکل چکا ہوتا ہے ۔آپ بخوبی واقف ہیں کہ اب گھر جاکر ہاتھ کی زیتون کے تیل سے مالش اور سنکائی کرنا پڑے گی۔آپ معذرت کرتے ہیں کہ دانہ تو ایک طرف رہا ،آپ کو طوطوں کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔بلکہ وہ جن طوطوں کا نام لے رہا ہے۔انھیں آپ نے دیکھا ہی نہیں۔طوطا دیکھنے کا اتفاق تو آپ کو صرف تیسری کلاس میں اردو کی کتاب میں ہوا تھا ۔ہاتھ چھڑا نے کے بعد آپ اپنی جان چھڑا لیتے ہیں اور بگٹٹ اپنے گھر کی طرف بھاگتے ہیں۔جہاں بیٹا آپ کا قطعی انتظار نہیں کر رہا ہوتا اور بدستور کرکٹ کھیلنے میں مصروف ہوتا ہے۔
اگلا دن اتوار کا ہوتا ہے۔راوی عیش و چین لکھتا ہے۔گھر میں سب پڑے سو رہے ہوتے ہیں۔محبت کے ہاتھوں مجبور ہوکر آپ اہلِ خانہ کے لیے حلوہ پوری لینے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ دکان پر پہنچتے ہیں تو آپ کوکچھ افراد اور کھڑے نظر آتے ہیں ۔آپ سب سے پیچھے ہوتے ہیں۔ افتاداں و خیزاں، اضطراب وہیجان کا لبادہ اوڑھے ہوئے۔ نصف گھنٹے کے بعدانڈیا پاکستان کا میچ شروع ہونے والا ہے، جسے آپ مع اشتہارات کے ابتدا سے انتہا تک دیکھنااور تالیاں بجانا چاہتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ اس بار انڈیا کی خیر نہیں،کیوں کہ آپ کے پاس منجھے ہوئے بالر اور بیٹسمین ہیں،جو انڈیا کا باجا بجا کر رکھ دیں گے۔بس ذرا حلوہ پوری ...
اچانک آپ کو زاہد نظر آتا ہے، جو ایک ہاتھ میںحلوہ پوری کا تھیلا تھامے اور دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں بقیہ رقم دابے لوگوں کے کاندھو ں سے کاندھے رگڑتا ہوا بھیڑ سے نکل رہا ہوتا ہے۔ زاہد حکومت کے ایک محکمے میں افسرہے اور اچھے عہدے پر فائز ہے۔اس کے چہرے پر لکھا ہے کہ وہ عدیم الفرصت ہے ، وہ چونکہ افسر ہے اور کسی مجبوری کے تحت حلوہ پوری لینے آگیا ہے، ورنہ لوگوں سے کم ہی بات کرتا ہے اور اسے اپنے رکھ رکھاؤکا خیال رہتا ہے۔اس کے سامنے لفظوں کا پٹارہ کھولنا آپ کی مجبوری ہے۔اس لیے کہ آپ کی میز کی دراز میں دو چار افراد کی درخواستیں پڑی رہتی ہیں جوکہیں نہ کہیں ملازمت کے خواہاں ہیں ۔ زاہد کو دیکھ کر آپ کی شریانوں میں خون کی گردش تیز ہوجاتی ہے۔گرمجوشی کا دریا ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔
''ارے زاہد! تم ؟''آپ اپنا ہاتھ اس کی طرف گرمجوشی سے بڑھاتے ہیں کہ '' زور دار'' مصافحہ کریں گے۔''ہاہاہا،کیسے ہو؟'' مگر وہ گرمجوشی کا جواب قدرے سرد مہری سے دیتا ہے۔ کترا کر نکلنا چاہتا ہے جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہیں۔آپ کہتے ہیں ۔''پہچانا نہیں؟میں ہوں صدیقی۔''
چونکہ وہ دسویں میں آپ کا کلاس فیلو رہ چکا ہے، اس لیے شناسائی کی کچھ شکنیں اس کی پیشانی پر نمودار ہوتی اور تیزی سے معدوم ہوجاتی ہیں۔جیسے وہ آپ کو کوئی اہمیت نہ دینا چاہتا ہو، لیکن آپ ہیں کہ ''کمبل ''ہوئے جا رہے ہیں۔''صدیقی! ہوں۔''وہ اس طرح جواب دیتا ہے جیسے پچھلی صدی میں لوگ ایک دوسرے کونہایت مختصر لفظوں میں ''تار''دیا کرتے تھے۔پھر اپنا ہاتھ بڑھانے کے بجائے درمیانی تین انگلیاں آپ کی انگلیوں سے نہایت احتیاط سے چھو دیتا ہے۔
''کہاں ہو آج کل؟کیا کر رہے ہو؟''آپ جانتے ہیں،لیکن پوچھ لیتے ہیں ۔یہ تو ظاہر ہے کہ وہ آلو چھولے یا دھنیا کا تیل بیچنے سے رہا۔
''گورنمنٹ جاب ۔''وہ پھر تار کی زبان میں جواب آپ کی طرف اچھالتا ہے اور متوقع ہوتا ہے کہ آپ اس کی جان چھوڑ دیں گے۔مگرآپ ہیں کہ جمن ہوئے جا رہے ہیں۔حلوہ پوری اور کرکٹ میچ کو آپ مصلحتاً ایک طرف ڈال دیتے ہیں۔بلکہ فی الفور ان پر مٹی ڈال دیتے ہیں۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں'' کرکٹ'' کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں حلوہ پوری کے سوا
''تم نے تو بہت اچھی جگہ ہاتھ مارا ہے۔کس محکمے میں ہو؟''آپ کے لفظوں کی حرارت، گرمجوشی اوربڑی حد تک خوشامد ہے کہ کم ہی نہیں ہونے میں آرہی ہے بلکہ لمحہ بہ لمحہ اس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔بس نہیں چل رہا ہے،ورنہ آپ اس کا منہ چومنے سے بھی د ریغ نہ کریں۔
''انفارمیشن۔''اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ کا پر تو جھلکتا ہے۔ جیسے وہ اس خزانے کو بھی کنجوسی سے خرچ کرنے کا عادی ہو۔بلکہ ضرورتاًبھی خرچ نہ کرتااور اسے محفوظ رکھنا چاہتا ہو تاکہ آڑے وقت میں اپنے باس پر اسے نچھاور کرسکے۔ گویا اس کی مسکراہٹ خوش دلی کا مظاہرہ نہیں کر رہی تھی،بلکہ اس میں ڈپلومیسی شامل تھی۔اس کے چہرے پر'' طلوع'' ہونے والی خفیف سی مسکراہٹ پر سنجیدگی کا دبیز غلاف چڑھ چکا تھا جیسے کچھ کہنے سننے کی گنجائش ختم ہوچکی ہو ،جیسے آپ کی باری آنے پر سنیما کا ٹکٹ اچانک ختم ہوجاتا ہے اور آپ کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں۔
''اور...؟''آپ کہتے ہیں۔
''اورکچھ نہیں''اس کا جواب ہوتا ہے، پھر وہ مڑتا ہے اور اپنی کار میں جاکر بیٹھ جاتا ہے۔ یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ آپ پر کیا گزری۔