اے این پی کی اے پی سی ناکامی سے دوچار
اے این پی کی اے پی سی ناکامی سے دوچار
لوڈ شیڈنگ کے خلاف بھرپور عوامی احتجاج اور اے این پی کے رہنمائوں کے بورڈز اکھاڑنے اور تصاویر جلائے جانے کے بعد اے این پی نے ہنگامی طور پر جو اے پی سی بلائی' اس کا ملک کی چھ بڑی اور اہم جماعتوں نے بائیکاٹ کر دیا۔
اے این پی کاخیال تھا کہ صوبہ کی روایات کا خیال رکھتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں ان کی اے پی سی میں ضرور شریک ہوں گی۔ بعض پارٹیوں کی صوبائی سطح کی پہلی اور بعض کی دوسرے درجے کی قیادت کی شرکت سے اے پی سی کامیاب ہوجائے گی اور اے این پی عوام کے سامنے سرخرو بھی ہوجائے گی۔
اس طرح وہ مرکز پر دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں بھی ہوگی تاہم اپوزیشن جماعتوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ حکومت میں بھی رہے اور حکومت پر تنقید بھی کرے ،یہ نہیں چلے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اے پی سی میں شریک تین پارٹیاں حکومتی ہیں جبکہ تین ایسی ہیںکہ جنہوں نے شاید ہی صوبہ سے کبھی کوئی نشست حاصل کی ہو ۔
عوامی نیشنل پارٹی ،اے پی سی کا بائیکاٹ کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک یہ رابطے ہوچکے ہوں گے۔ اے این پی کو احساس ہے کہ اگر ان کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (ف)،مسلم لیگ(ن)،پیپلز پارٹی شیر پائو ،تحریک انصاف اور جے یو آئی(س)جیسی جماعتیں نہیں آتیں تو اے پی سی کا وہ اثر نہیں ہوگا جس کی اے این پی متمنی ہے۔
کانفرنس میں شریک ہونے والی تین جماعتیں اے این پی ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق)کا تعلق حکومتی بنچوں سے ہے جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،تحریک اسلامی اور نیشنل پارٹی کا خیبرپختونخوا میں پارلیمانی کردار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بائیکاٹ کرنے والی پارٹیوں کے ساتھ دوبارہ رابطے کیے جارہے ہیں تاہم بادی النظر میں ان روابط سے اے این پی کے مقاصد پورے ہونامشکل نظرآرہے ہیں۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض صوبائی وزراء اور رہنمائوں نے اے این پی کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت نہ ملنے پرکچھ اس انداز میں تنقید کی ہے کہ یہی تاثر ملنے لگا کہ اے این پی اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دینا بھول گئی ہے۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اے این پی نے اے پی سی بلانے کا فیصلہ کرتے وقت پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور جنرل سیکرٹری دونوں کو اعتماد میں لیا تھا۔البتہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی پارلیمانی پارٹی اور صوبائی وزراء کو اعتماد میںنہ لے سکی۔ اسے پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات اور ممکنہ طور پر ہونے والی تبدیلی کا مظہرکہاجاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر جو اختلافات موجود ہیں ، وہ ناقابل تردید ہیں۔
پارٹی کے صوبائی صدر کی ایک مرتبہ پھر تبدیلی کے حوالے سے کوششیں بھی ایک حقیقت ہیں۔ اس لیے پارٹی کے موجودہ صوبائی صدر سنیٹر سردارعلی خان کی پارٹی معاملات میں وہ دلچسپی نہیں رہی جس کا کبھی وہ اظہار کیا کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی پارلیمانی پارٹی کو اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سی پر اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں کہاجاسکتا ہے کہ سنیٹر سردار علی خان جو 2008ء کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں پی پی پی کے تیسرے صدر تھے ۔ نے بھی رخت سفر باندھ لیا ہے ۔
جب 2008 ء میں عام انتخابات منعقد ہوئے، اس وقت پیپلز پارٹی کی صوبائی باگ ڈور رحیم داد خان کے ہاتھ میں تھی جو سینئر وزیر بھی بنے اور پارلیمانی لیڈر بھی۔ بعدازاں پارٹی کی مرکزی قیادت کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد وزیر صحت سید ظاہرعلی شاہ پی پی کے صوبائی صدر بنے گئے۔
انھوں نے پارلیمانی لیڈر کا عہدہ بھی رحیم داد خان سے لے کر عبدالاکبرخان کے حوالے کردیا تاہم سینئر وزیر کا عہدہ بوجوہ رحیم داد خان سے نہ لے سکے۔ ایک سال سے کچھ زائد عرصہ بعد انھیں رخصت کرتے ہوئے پارٹی کی کمان صدر آصف علی زرداری کے انتہائی بااعتماد ساتھی سردارعلی خان کے ہاتھ میں دیدی گئی۔
تاہم وہ بھی پارٹی کے اندرونی اختلافات ختم کرنے میںناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پارٹی کی صوبائی صدارت انور سیف اللہ کے حوالے کی جارہی ہے جنھیں بعض حلقے آفتاب شیر پائو ہی کی طرح پیپلز پارٹی کے اندر مضبوط سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں انور سیف اللہ ہی پارٹی کو سنبھال سکتے ہیں۔
لیکن پیپلز پارٹی کے بعض رہنما اور حلقے ان کے حوالے سے بھی معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انور سیف اللہ کو پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اتناوقت نہیں گزرا کہ پارٹی ان کے حوالے کردی جائے۔ ان کے دو بھائیوں کی دومختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کو دیکھتے ہوئے بھی یہ دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔
اے این پی کاخیال تھا کہ صوبہ کی روایات کا خیال رکھتے ہوئے اپوزیشن کی تمام جماعتیں ان کی اے پی سی میں ضرور شریک ہوں گی۔ بعض پارٹیوں کی صوبائی سطح کی پہلی اور بعض کی دوسرے درجے کی قیادت کی شرکت سے اے پی سی کامیاب ہوجائے گی اور اے این پی عوام کے سامنے سرخرو بھی ہوجائے گی۔
اس طرح وہ مرکز پر دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں بھی ہوگی تاہم اپوزیشن جماعتوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ وہ حکومت میں بھی رہے اور حکومت پر تنقید بھی کرے ،یہ نہیں چلے گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اے پی سی میں شریک تین پارٹیاں حکومتی ہیں جبکہ تین ایسی ہیںکہ جنہوں نے شاید ہی صوبہ سے کبھی کوئی نشست حاصل کی ہو ۔
عوامی نیشنل پارٹی ،اے پی سی کا بائیکاٹ کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ دوبارہ رابطہ کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک یہ رابطے ہوچکے ہوں گے۔ اے این پی کو احساس ہے کہ اگر ان کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں جماعت اسلامی، جمعیت علماء اسلام (ف)،مسلم لیگ(ن)،پیپلز پارٹی شیر پائو ،تحریک انصاف اور جے یو آئی(س)جیسی جماعتیں نہیں آتیں تو اے پی سی کا وہ اثر نہیں ہوگا جس کی اے این پی متمنی ہے۔
کانفرنس میں شریک ہونے والی تین جماعتیں اے این پی ،پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ق)کا تعلق حکومتی بنچوں سے ہے جبکہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی ،تحریک اسلامی اور نیشنل پارٹی کا خیبرپختونخوا میں پارلیمانی کردار نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ بائیکاٹ کرنے والی پارٹیوں کے ساتھ دوبارہ رابطے کیے جارہے ہیں تاہم بادی النظر میں ان روابط سے اے این پی کے مقاصد پورے ہونامشکل نظرآرہے ہیں۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض صوبائی وزراء اور رہنمائوں نے اے این پی کی اے پی سی میں شرکت کی دعوت نہ ملنے پرکچھ اس انداز میں تنقید کی ہے کہ یہی تاثر ملنے لگا کہ اے این پی اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دینا بھول گئی ہے۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ اے این پی نے اے پی سی بلانے کا فیصلہ کرتے وقت پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر اور جنرل سیکرٹری دونوں کو اعتماد میں لیا تھا۔البتہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی پارلیمانی پارٹی اور صوبائی وزراء کو اعتماد میںنہ لے سکی۔ اسے پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات اور ممکنہ طور پر ہونے والی تبدیلی کا مظہرکہاجاسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر جو اختلافات موجود ہیں ، وہ ناقابل تردید ہیں۔
پارٹی کے صوبائی صدر کی ایک مرتبہ پھر تبدیلی کے حوالے سے کوششیں بھی ایک حقیقت ہیں۔ اس لیے پارٹی کے موجودہ صوبائی صدر سنیٹر سردارعلی خان کی پارٹی معاملات میں وہ دلچسپی نہیں رہی جس کا کبھی وہ اظہار کیا کرتے تھے۔
انہوں نے اپنی پارلیمانی پارٹی کو اے این پی کی جانب سے بلائی جانے والی اے پی سی پر اعتماد میں لینا مناسب نہیں سمجھا۔ یوں کہاجاسکتا ہے کہ سنیٹر سردار علی خان جو 2008ء کے عام انتخابات کے بعد خیبرپختونخوا میں پی پی پی کے تیسرے صدر تھے ۔ نے بھی رخت سفر باندھ لیا ہے ۔
جب 2008 ء میں عام انتخابات منعقد ہوئے، اس وقت پیپلز پارٹی کی صوبائی باگ ڈور رحیم داد خان کے ہاتھ میں تھی جو سینئر وزیر بھی بنے اور پارلیمانی لیڈر بھی۔ بعدازاں پارٹی کی مرکزی قیادت کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد وزیر صحت سید ظاہرعلی شاہ پی پی کے صوبائی صدر بنے گئے۔
انھوں نے پارلیمانی لیڈر کا عہدہ بھی رحیم داد خان سے لے کر عبدالاکبرخان کے حوالے کردیا تاہم سینئر وزیر کا عہدہ بوجوہ رحیم داد خان سے نہ لے سکے۔ ایک سال سے کچھ زائد عرصہ بعد انھیں رخصت کرتے ہوئے پارٹی کی کمان صدر آصف علی زرداری کے انتہائی بااعتماد ساتھی سردارعلی خان کے ہاتھ میں دیدی گئی۔
تاہم وہ بھی پارٹی کے اندرونی اختلافات ختم کرنے میںناکام رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پارٹی کی صوبائی صدارت انور سیف اللہ کے حوالے کی جارہی ہے جنھیں بعض حلقے آفتاب شیر پائو ہی کی طرح پیپلز پارٹی کے اندر مضبوط سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں انور سیف اللہ ہی پارٹی کو سنبھال سکتے ہیں۔
لیکن پیپلز پارٹی کے بعض رہنما اور حلقے ان کے حوالے سے بھی معترض ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انور سیف اللہ کو پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اتناوقت نہیں گزرا کہ پارٹی ان کے حوالے کردی جائے۔ ان کے دو بھائیوں کی دومختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کو دیکھتے ہوئے بھی یہ دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہوگا۔