رخصتی کے وقت پیپلزپارٹی کو بلوچستان کی فکر لاحق ہوگئی

بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے حکومت نے6 نکاتی فارمولا سینٹ میں...

حکومت اور رحمان ملک دونوں بلوچ فوبیا کے مرض میں مبتلا ہیں. فوٹو اے ایف پی

بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے حکومت نے6 نکاتی فارمولا سینٹ میں پیش کیا ہے۔ ان نکات میں سیکورٹی اداروں کو پولیس کا اختیار دے کر نگرانی کرانا، لوگوں کو اُٹھانے سے متعلق ایجنسیوں کے اختیارات کو روکنا ، انسداد دہشت گردی ترمیمی قانون کی جلد منظوری، زبردستی غائب کئے جانے کے خلاف عالمی کنونشن پر دستخط کرنے،لاپتہ افراد سے متعلقہ پہلے کمیشن کی رپورٹ کو نہ صرف شائع کیا جانا بلکہ اس کی سفارشات پر عملدرآمد کرنا، اور سرداروں کے علاوہ بلوچ نوجوانوں سے بات کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

سینٹ میں یہ تجاویز حکومتی سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے پیش کیں۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ پیکیجز اورکمیٹیوں سے حل نہیں ہوا کیونکہ کچھ بین الاقوامی قوتیں بلوچستان میں غیر ضروری دلچسپی لے رہی ہیں۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ 18ماہ میں لاپتہ افراد کے634 نئے کیس سامنے آئے ہیں جن میں سے اکثر بلوچستان سے متعلق ہیں۔ اس معاملے کی سنگینی کا ادراک کرنا ہوگا۔

ہم مشرقی پاکستان کے الگ ہونے سے دو روز قبل تک بھی حقیقی صورتحال کا اعتراف نہیں کررہے تھے جس کی ہمیں بڑی قیمت چکانا پڑی۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف منظم غیر ملکی جارحیت ہورہی ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے بہت سے حقائق کو سرعام نہیں بتایا جاسکتا۔ اگر ایوان چاہے تو ان کیمرہ بریفنگ دی جاسکتی ہے۔

رحمان ملک کی سینٹ میں اس تقریر کو صوبے کی قوم پرست اور سیاسی جماعتوں نے ایک مرتبہ پھر زبردست تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور رحمان ملک دونوں بلوچ فوبیا کے مرض میں مبتلا ہیں جس سے نجات کیلئے اُنہوں نے بلوچ نسل کشی کا نسخہ دریافت کیا ہے اور بڑی تیزی سے اس پر عمل پیرا ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچ قوم اور پاکستان کے درمیان اقوام متحدہ ضامن بن جائے تو بات ہوسکتی ہے۔ ان جماعتوں کا یہ بھی موقف ہے کہ صوبے کے طول و عرض سے لاشیں مل رہی ہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔

وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی ہدایت پر بلوچستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے قائم کابینہ کی خصوصی کمیٹی وفاقی وزیر دفاع سید نوید قمر کی سربراہی میں بلوچستان کا دورہ کررہی ہے۔

کابینہ کی ذیلی کمیٹی اپنے دورے کے دوران گورنر نواب ذوالفقار مگسی ، وزیراعلیٰ نواب محمد اسلم رئیسانی، چیف سیکرٹری، آئی جی پولیس، آئی جی ایف سی سمیت مختلف حکام سے ملاقاتیں کریں گی جس کے بعد یہ کمیٹی اپنی رپورٹ کابینہ میں پیش کرے گی۔


سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے موجودہ حکومت کی جانب سے گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران مختلف بیانات آتے رہے ہیں، مختلف تجاویز دی جاتی رہی ہیں لیکن ان ساڑھے چار برسوںکے دوران حکومت نے ماسوائے بلوچستان پیکیج کے کوئی ایسااقدام نہیں کیا جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ موجودہ حکمران بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے سنجیدہ ہیں۔

بلوچستان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی باتیں بھی ہوئیں لیکن یہ باتیں ہی رہیں۔اب جب حکومت کے پاس چند ماہ باقی رہ گئے ہیں تو وہ ایک مرتبہ پھر متحرک نظر آرہی ہے۔

بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور گورنر بھی حکومت کی توجہ بلوچستان کے مسائل کے حل کی طرف مبذول کراتے رہے۔ یہاں تک بھی بات ہوئی کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے اگر انہیں مینڈیٹ دیا جائے تو وہ ماحول بناسکتے ہیں۔ جب ان کے پاس کوئی اختیار اور مینڈیٹ ہی نہیں ہوگا تو وہ آگے کیا کریں گے؟

تاہم وفاقی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔ اب نئے وزیراعظم نے آکر پھر کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی بنادی اور اسے کابینہ میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اسی طرح صدر مملکت آصف علی زرداری نے کچھ عرصہ قبل گورنر نواب ذوالفقار علی مگسی کو اس حوالے سے ٹاسک دیا۔

پی پی پی کے کرتا دھرتا خود کہتے ہیں کہ اب پیکیجز اور کمیٹیوں کی تشکیل سے حل نہیں ہوگا تو پھر حکومت اپنے ان چند ماہ کے دور اقتدار میں کیا کرنا چاہتی ہے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے مسئلے کے حل کیلئے سینٹ میں جو 6 نکاتی فارمولا دیا گیا ہے، اس سے بھی مسئلے کا حل نہیں نکل سکتا۔

ناراض لوگوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لانے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے حکمران طبقہ اپنی نیک نیتی سنجیدگی اور بااختیار ہونے کا ثبوت دے ، تب مذاکرات کیلئے ماحول بنے گا۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ کمیٹیوں کی رپورٹ اور پھر بے اختیار حکمرانوں کے رابطوں سے مسئلہ حل ہوگا تو یہ خام خیالی ہے۔

ساڑھے چار سال تک حکمران سوئے رہے اور اب جب انتخابات سرپر آگئے ہیںتو حکمرانوں کوبلوچستان کے مسئلے کی فکر لاحق ہوگئی۔ اگرکابینہ کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ جلدازجلد کابینہ میں پیش بھی کردی جائے توسوال یہ ہے کہ رپورٹ میں دی جانے والی تجاویز پر کب عملدرآمد ہوگا اور کون کرے گا؟
Load Next Story