معاشرے کو معذور افراد سے جوڑنا زندگی کا مقصد ہے
65ء کی جنگ کے بعد غیرملکی مصنوعات استعمال کرنا چھوڑ دیں، کتابوں کی اشاعت کا سہرا شوہر کے سر ہے، شاہدہ احمد
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں، ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
کتنا بلند آہنگ ہے یہ شعر۔ اچنبھے میں ڈال دینے والا یقین ہے ان مصرعوں میں۔ یقین، جس کی دھمک سے پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دے۔ پر کیا ارادوں کی شکست و ریخت کے اِس زمانے میں، اِس نوع کے طلسماتی یقین کا حصول ممکن ہے؟
شاید اِس سوال کا جواب نفی میں ہوتا، اگر ایک خوش گوار دوپہر شاہدہ احمد سے ملاقات کا موقع میسر نہ آتا۔ ایک مبہوت کر دینے والی ملاقات، جس نے زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کا نظریہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا کہ وھیل چیئر پر موجود اِس باہمت خاتون نے اپنے جذبے کی حیران کن طاقت، ارادوں کی پختگی و بلندی سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ شاہدہ صاحبہ زخموں کو ستارے بنانے کا کم یاب ہنر جانتی ہیں۔ ستارے، جو آج نشان سپاس کے مانند دمکتے ہیں۔ جس موذی مرض سے اِس سمے جُوجھ رہی ہیں، وہ Muscular Dystrophy کہلاتا ہے۔
لاعلاج تصور کی جانے والی اِس بیماری میں انسانی ''مسلز'' دھیرے دھیرے، کسی نامعلوم سبب، کم زور ہوتے جاتے ہیں۔ جس سمے اِس روگ میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا، وہ لندن میں ایک بھرپور زندگی گزار رہی تھیں۔ ادب تخلیق ہورہا تھا، بی بی سی سے وابستگی تھی، ادبی تنظیموں کے پلیٹ فورم سے مصروف تھیں کہ اچانک، مسرت کا ہر احساس، اپنی اساس کھو بیٹھا۔ ماضی کھوجتے ہوئے بتاتی ہیں، ''میں منٹو کا تحریر کردہ ایک ڈراما 'اِس منجدھار میں' کر رہی تھی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے کہا کہ اسٹیج پر میری Movement کردار کی عمر کی مناسبت سے ذرا سست ہے۔
اُس وقت تو میں نے صورت حال سنبھال لی، مگر بعد میں ڈاکٹرز کی تشخیص سے عقدہ کھلا کہ یہ ایک مرض ہے، جو دھیرے دھیرے میرے مسلز کم زور کر رہا ہے۔'' معالجین کا خیال تھا کہ مرطوب موسم اُن کے لیے سودمند ہے، سو 85ء میں کراچی چلی آئیں۔ افاقہ نہیں ہوا، تو واپس لوٹ گئیں، تاہم وہ عرصہ ضایع نہیں کیا۔ ''آدرش'' کے نام سے ایک منفرد ماہ نامہ شروع کیا، جو بہ قول اُن کے، اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا جریدہ تھا۔ لندن لوٹنے کے بعد بہ طور اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر، تین منفرد اسٹیج ڈرامے پیش کیے، جنھوں نے ہر خاص و عام سے داد بٹوری۔ ''دستک'' نامی ڈراما تو کئی معنوں میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔
2006 میں پاکستان آنے کے بعد ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ'' کے نام سے ایک فلاحی منصوبہ شروع کیا۔ اِس سفر میں اُنھیں اپنے شوہر، عزیز احمد کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ ہر محاذ پر وہ اُن کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ 76ء میں شاہدہ صاحبہ سے شادی کے وقت، موسیقی اور فوٹو گرافی سے گہرا شغف رکھنے والے عزیز احمد ٹریولنگ ایجینسی سے منسلک تھے۔ بعد میں بیگم کا ہاتھ بٹانے کے لیے ملازمت ترک کر دی، اپنے شوق، یعنی فوٹو گرافی کو پیشہ بنا لیا۔ بہ طور فری لانسر کام کرنے لگے، کئی بین الاقوامی اداروں کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس پورے عرصے میں شاہدہ صاحبہ کو اپنی بیٹی، مایا احمد راٹھور کا بھی بھرپور تعاون حاصل رہا۔
حالات زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ سیدہ شاہدہ سیف نے، جو شادی کے بعد شاہدہ احمد ہوگئیں، 1949 میں الہ آباد کے ایک پڑھے لکھے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سات بہنوں میں اُن کا نمبر چوتھا ہے۔ شعور کی دہلیز سیالکوٹ میں عبور کی۔ والد، سید سیف الدین سرول سرونٹ تھے۔ وہ انتہائی شفیق انسان تھے، بیٹیوں سے اُن کے دوستانہ روابط رہے۔ البتہ گھر میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے شاہدہ کی والدہ تھوڑی بہت سختی ضرور برتتی تھیں۔ شمار کم گو اور حساس بچوں میں ہوا کرتا تھا۔ کبھی گڈے گڑیا سے نہیں کھیلیں، بس کاغذ قلم سے دوستی رہی۔ کہانیاں پڑھنا اکلوتا مشغلہ تھا۔
تعلیم کو خاندان میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ دادا الہ آباد ہائی کورٹ میں جج رہے، نانا الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔ ''ہمارے ہاں خواتین کی تعلیم کا تصور بھی تھا۔ ابتدائی زمانے میں گھروں میں اِس کا انتظام کیا جاتا۔ میری بڑی آپا پہلی خاتون تھیں، جنھوں نے یونیورسٹی میں قدم رکھا۔'' خود اُنھوں نے جے اینڈ کے اکیڈمک اسکول، سیالکوٹ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ والد کا تبادلہ ہوا، تو خاندان لاہور آگیا، جہاں سمن زار اسکول، سمن آباد سے 65ء میں، آرٹس سے میٹرک کیا۔ پھر گلبرگ کالج، جو اب سمن آباد کالج کہلاتا ہے، کا حصہ بن گئیں۔ 72ء میں گریجویشن کیا۔
سماجی کاموں میں دل چسپی بچپن ہی سے ہے۔ پریشان حال افراد کے مسائل حل کر کے روحی خوشی ملتی۔ زمانۂ طالب علمی میں اس محاذ پر خاصی سرگرم رہیں۔ معروف سماجی کارکن، نزہت اکرام کے ساتھ جہیز کے خلاف مہم چلائی۔ سیاسی شعور والد سے وراثت میں ملا۔ لیاقت علی خان کی برسی والے روز گھر میں اداسی ڈیرے ڈال لیتی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی مہم بھی خوب یاد ہے کہ والد مادر ملت کے پُرزور حامی تھے۔ 65ء کی جنگ بھی ذہن میں محفوظ ہے، جس کے بعد، جذبۂ حب الوطنی کے تحت، غیرملکی مصنوعات استعمال کرنی چھوڑ دیں۔ سقوط ڈھاکا گہرا صدمہ ثابت ہوا، جس کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی کرب کے دریا میں اتر جاتی ہیں۔ اِسی سانحے پر ''تجدید'' نامی ایک منفرد افسانہ لکھا، جو پہلے مجموعے کا حصہ بنا۔
لکھاری کے لیے قاری ہونا شرط ہے، اور وہ اِس سے ماورا نہیں۔ مطالعاتی سفر کا آغاز بچوں کے رسائل سے ہوا۔ پھر سنجیدہ ادب کی جانب متوجہ ہوئیں۔ قرۃ العین حیدر کو خصوصی توجہ سے پڑھا۔ انتظار حسین، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی تخلیقات کا مطالعہ کیا۔ قلم اوائل عمری ہی میں تھام لیا۔ 65ء کی جنگ کے زمانے میں مختلف اخبارات و رسائل میں اُن کے مضامین شایع ہوئے۔ فکشن نگاری کا آغاز ناول کی صنف سے کیا۔ چار سو صفحات پر مشتمل اُس ناول کا نام ''مات'' تجویز کیا تھا، جسے پبلشر نے، تجارتی تقاضوں کے پیش نظر، ''سپنے تیری یادوں کے'' کر دیا۔ سماجی موضوعات کا احاطہ کرتے اس ناول کی اشاعت سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ یہ بہت مقبول ہوا۔ آنے والے برسوں میں ''ادبی دنیا'' میں باقاعدگی سے اُن کے افسانے چھپتے رہے، ''اردو ڈائجسٹ'' میں سماجی موضوعات پر لکھتی رہیں۔
شادی کے بعد لندن چلی گئیں، جہاں شروع شروع میں تنہائی کے احساس نے تھوڑا پریشان رکھا کہ بھرے پُرے گھر سے گئی تھیں، مگر جلد ہی خود کو نئے ماحول میں ڈھال لیا۔ ایک برس بعد بی بی سی، عالمی سروس کے پروڈیوسر، انور خالد مرحوم سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے شاہدہ صاحبہ کو آڈیشن دینے کی پیش کش کردی۔
اِس مقام پر پہنچ کر گفت گو کا رخ ماضی کی سمت مڑ گیا۔ بتانے لگیں، شادی سے لگ بھگ چھے ماہ قبل، ریڈیو پاکستان، حیدرآباد اسٹیشن پر اُنھوں نے اقبال جعفری کے پروگرام ''نوید صبح'' کے لیے آڈیشن دیا تھا۔ چنائو ہوگیا تھا کہ اچانک لاہور سے فون آ گیا کہ والدہ بہت علیل ہیں۔ ''میں سب چھوڑ چھاڑ کر لاہور پہنچ گئی۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں۔ بیماری کی خبر بس ایک بہانہ تھا، تاکہ میں ریڈیو سے وابستہ نہ ہو سکوں۔''
خیر، بی بی سی کے آڈیشن میں کام یابی کے بعد بہ طور فری لانسر براڈکاسٹر سفر کا آغاز کیا۔ ''سائنس کلب'' کی صداکاری کی۔ بچوں کے پروگرام ''شاہین کلب'' اور ''برگ گل'' میں اُن کی آواز سنائی دی۔ ''بک ریویو'' نامی پروگرام بھی کرتی رہیں۔ اسکرپٹ بھی لکھے۔ ادبی محاذ پر ''برگ گل'' کی بانی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے خاصی فعال رہیں۔ 80ء میں اُنھوں نے ''سمن زار'' نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی، جو آنے والے کئی برس لندن میں متحرک رہی۔ اِس پورے عرصے میں افسانہ نگاری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اِسی عرصے میں Muscular Dystrophy نامی مرض میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا۔ اگلے چند برس پاکستان میں گزرے۔ لندن لوٹنے کے بعد پھر بی بی سی سے منسلک ہوگئیں۔ 92ء تک اُس ادارے سے وابستہ رہیں۔ ''میں مستقل پروڈیوسر بھی بن سکتی تھی، مگر اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد میرے سامنے دو راستے تھے۔ ایک، یا تو میں اپنے کیریر میں زیادہ سے زیادہ کام یابیاں سمیٹوں، یا پھر اپنے گھر کی دیکھ ریکھ کروں۔ تو میں نے گھر کا انتخاب کیا، مگر کام چھوڑا نہیں۔'' گو مرض نے اُنھیں وھیل چیئر تک محدود کر دیا تھا، مگر مصائب اُن کے جذبے کو شکست نہیں دے سکے۔ جہاں تخلیق ادب کا سلسلہ جاری رہا، وہیں اسٹیج ڈرامے بھی پیش کیے۔
92ء میں پہلا مجموعہ ''بھنور میں چراغ'' شایع ہوا، جو 21 افسانوں پر مشتمل تھا۔ اُن کے فن سے متعلق کتاب میں گوپی چند نارنگ اور فرمان فتح پوری کے مضامین شامل تھے۔ 2000 میں دوسرا مجموعہ ''ہجرتوں کے بھنور'' شایع ہوا، جو 18 افسانوں پر مشتمل تھا۔ اپنے احساسات کچھ یوں بیان کرتی ہیں،''میں لکھ کر، دوستوں کو سُنا کر خوش ہوجاتی ہوں۔ چھپنے چھپانے کی کبھی کوئی خاص خواہش نہیں رہی۔ دراصل میری کتابوں کی اشاعت کا سہرا میرے شوہر کے سر ہے۔ اُن ہی کی تحریک پر کتابوں کی اشاعت عمل میں آئی۔''
بیٹی کی پیدایش زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ لندن ہی کے ماحول میں صاحب زادی پروان چڑھی، مگر شاہدہ احمد نے تربیت اِس ڈھب پر کی کہ وہ آج بھی اپنی زبان اور ثقافت سے پوری طرح جُڑی ہوئی ہے۔ اس تعلق سے بات کرتے ہوئے وہ نوجوانوں کو اپنی زبان کا احترام کرنے کی نصیحت کرتی ہیں کہ اُن کے نزدیک زبان فقط رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ پورا تمدن ہے۔
خصوصی افراد کے مسائل زیر بحث آئے، اور اِس ضمن میں مغرب کے تجربات پر بات ہوئی، تو کہنے لگیں،''وہاں خصوصی افراد کو یک ساں حقوق، یک ساں مواقع حاصل ہیں، اُنھیں عام شہری کے طور پر دیکھا، اور پرکھا جاتا ہے۔ قابل رحم یا بے چارہ تصور نہیں کیا جاتا، مگر ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ ہمارے معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں جو رویہ پایا جاتا ہے، اُس میں ہم دردی اور افسوس کا احساس غالب ہے۔'' اُن کے نزدیک خصوصی افراد کو ہم دردی کی نہیں، یک ساں حقوق کی ضرورت ہے۔ ''جب میں نے اِس میدان میں کام شروع کیا، تب یہ کہا جاتا تھا کہ' آدرش' معذور افراد کا منصوبہ ہے۔
مگر میں کہتی تھی، نہیں، یہ خصوصی افراد کو سماج سے جُوڑنے کا نہیں، بلکہ ملک کی 90 فی صد آبادی کو 10 فی صد معذور آبادی سے جُوڑنے کا منصوبہ ہے۔ معاشرے کو معذور افراد سے جوڑنا میرا مقصد ہے۔ اور دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔'' شکایت ہے کہ ہم ہر معاملے میں یورپ کی تقلید کرتے ہیں، مگر وہ رویے، جو ہمیں اپنانے چاہییں، اُن کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ ''برطانیہ میں آپ کو ایسی کوئی عمارت نہیں ملے گی، جہاں وھیل چیئر نہ جا سکتی ہو، مگر ہمارے ہاں تو اِس کا تصور ہی نہیں ہے۔''
مستقبل کے منصوبے زیر بحث آئے، تو بتانے لگیں کہ وہ ایک ڈاکومینٹری اور ایک آرٹ فلم بنانے کی آرزومند ہیںکہ آرٹ فلمیں شوق سے دیکھتی ہیں۔ حالیہ فلموں میں ''بلیک'' اور ''پیج تھری'' اچھی لگیں۔ وحیدہ رحمان کی صلاحیتوں کی معترف ہیں۔ موجودہ فن کاروں میں حنا دل پذیر کو سراہتی ہیں۔ ساڑھی کسی زمانے میں من پسندیدہ پہناوا تھا، مگر اب شلوار قمیص کو ترجیح دیتی ہیں۔ معتدل موسم میں خود کو آرام دہ پاتی ہیں۔ گائیکی میں عابدہ پروین اور بیگم اختر کی آواز اچھی لگی۔ شاعری میں فیض احمد فیض کی مداح ہیں۔ فکشن نگاروں میں قرۃ العین حیدر اور بانو قدسیہ کا نام لیتی ہیں۔ اردو ناولز میں ''آگ کا دریا''، ''اداس نسلیں'' ''صدیوں کی زنجیر'' اور ''چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو'' اچھے لگے۔ پائولو کوئلیو کا ناول ''الکیمسٹ'' بھی بہت پسند ہے۔
تھیٹر کہانی
اِس تحیرخیز کہانی کا آغاز اُس وقت ہوا، جب وہ، بہ ظاہر، وھیل چیئر تک محدود ہوچکی تھیں، مگرحقیقتاً اُن کا بلند حوصلہ کسی رکاوٹ کو خاطر میں لانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
95ء میں لندن کی ایک مقامی تنظیم ''گلوبل آرٹس'' نے اُن سے رابطہ کیا، جو خواہش مند تھی کہ وہ کشمیر کے بارے میں ایک اسٹیج پلے لکھیں۔ ابتداً وہ تذبذب کا شکار تھیں، مگر جب ارادہ کر لیا، تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ چھے ماہ تحقیق کی۔ لکھتے سمے سیاسی اور مذہبی پہلوئوں کے بجائے، انسانی و سماجی پہلو مدنظر رکھا۔
اسکرپٹ کی تیاری کے ساتھ ''صدائے کشمیر'' کی ہدایت کاری کی ذمے داری بھی اُن ہی کے کاندھوں پر تھی۔ لندن کے ہیکنی ایمپائر تھیٹر میں اِس کے کئی کام یاب شوز ہوئے۔ دو برس بعد ہندوستان پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقعے وہاں کی لوکل گورنمنٹ نے ایک ڈراما فیسٹول کا انعقاد کیا، جس کے لیے ''صدائے کشمیر'' کا کا انتخاب کیا گیا۔ اِس بار واٹرمینس تھیٹر میں سات شوز ہوئے۔
98ء میں اُنھوں نے ''دستک'' کے نام سے دو گھنٹے پر محیط ایک فکرانگیز اسٹیج ڈراما تحریر کیا، جس کا مقصد معذوری کے تعلق سے عوام میں شعور اجاگر کرنا تھا۔ پروڈکشن کی سطح پر یہ اُن کی ذاتی کاوش تھی، تمام انتظامات خود کیے ۔ اِس ڈرامے کو شان دار ردعمل ملا۔ حاضرین اور ناقدین، دونوں ہی نے اسے دل کھول کر سراہا۔ لندن سمیت برطانیہ کے کئی شہروں میں یہ ڈراما پیش کیا گیا۔
2002 میں اُنھوں نے اپوا، یو کے کے لیے ''فورس میرج'' اور ''ارینج میرج'' کے موضوع پر ایک خوب صورت ڈراما لکھا۔ ''آپ کی عدالت میں'' نامی اِس ڈرامے کے لیے، حسب روایت، خاصی تحقیق کی۔ ردعمل اِس بار بھی شان دار رہا۔ لندن کے کئی تھیٹرز میں اِسے پیش کیا گیا۔
ماہ نامہ ''آدرش'' اور ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ''
دو منفرد منصوبوں پر ایک نظر
ایک لاعلاج مرض کے ساتھ جب وہ 86ء میں پاکستان لوٹیں، تو آرام کرنے کے بجائے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک رسالہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔
ماہ نامہ ''آدرش'' چار برس تواتر سے چھپتا رہا۔ تین ہزار کی تعداد میں شایع ہونے والا یہ رسالہ پاکستان کے تمام سرکاری اور خصوصی افراد کے اداروں میں مفت تقسیم ہوا کرتا تھا۔ وہ اِس کی مدیر اعلیٰ اور پبلشر تھیں۔ چھوٹی بہن، شایستہ سیف مدیرہ تھیں۔ اِس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کی۔ پٹھے جواب دے رہے تھے، مگر مایوسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ لندن لوٹنے کے بعد بھی کچھ عرصے یہ پرچہ نکلتا رہا۔ جب تقسیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں حائل ہوئیں، تو اِس سودمند سلسلے کو ''آدرش سوسائٹی'' کی شکل دے دی۔ پاکستان کے ایک موقر روزنامے کے، لندن ایڈیشن میں ''جہانِ خاص'' نامی صفحے کی ذمے داری سنبھال لی۔ یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔
2006 میں پاکستان آنے کے بعد ایک اور غیرمنافع بخش، فلاحی منصوبے ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ'' کا آغاز کیا۔
براڈ کاسٹنگ کا وسیع تجربہ کام میں لاتے ہوئے ''سدابہار'' کے عنوان سے، پاک و ہند کے آٹھ شعرا کے منتخب کلام کو (شعرا کی اپنی آواز میں) پانچ سی ڈیز میں محفوظ کیا۔ 2009 میں ریلیز ہونے والے، آٹھ گھنٹوں پر محیط اِس پراجیکٹ کا اسکرپٹ اُنھوں نے ہی لکھا۔ تعارف پیش کرنے والی چار آوازوں میں اُن کی آواز بھی شامل تھی۔ اِسے، توقع کے عین مطابق، ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، خصوصاً ہندوستان میں اِس کی بہت پزیرائی ہوئی۔
اگلا منصوبہ بچوں کی کہانیوں پر مشتمل تھا۔ انگریزی کی دو مقبول کہانیوں کا ترجمہ کرکے اُنھیں ڈرامے کے طرز پر پیش کیا۔ نابینا اور معذور افراد کے اداروں کو یہ سی ڈی تحفتاً پیش کی گئی۔ تیسرے منصوبے میں زہرا نگاہ کے کلام کو ایک سی ڈی میں محفوظ کیا، جس کی ریکارڈنگ اُن ہی کے گھر ہوئی۔ اگلا منصوبہ افتخار عارف کے کلام پر مشتمل ہے۔ جلد ہی اِس کی ریلیز متوقع ہے۔
اُن کے مطابق ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ'' کُلی طور پر ایک فلاحی منصوبہ ہے، جس کے لیے کسی ادارے کی معاونت یا تعاون کی وہ خواہش مند نہیں۔ صاحبِ ذوق افراد یہ سی ڈیز خرید لیں، اُن کے لیے یہی کافی ہے۔
منزل کے لیے دو گام چلوں اور سامنے منزل آجائے
کتنا بلند آہنگ ہے یہ شعر۔ اچنبھے میں ڈال دینے والا یقین ہے ان مصرعوں میں۔ یقین، جس کی دھمک سے پہاڑ بھی اپنی جگہ چھوڑ دے۔ پر کیا ارادوں کی شکست و ریخت کے اِس زمانے میں، اِس نوع کے طلسماتی یقین کا حصول ممکن ہے؟
شاید اِس سوال کا جواب نفی میں ہوتا، اگر ایک خوش گوار دوپہر شاہدہ احمد سے ملاقات کا موقع میسر نہ آتا۔ ایک مبہوت کر دینے والی ملاقات، جس نے زندگی کو دیکھنے اور پرکھنے کا نظریہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیا کہ وھیل چیئر پر موجود اِس باہمت خاتون نے اپنے جذبے کی حیران کن طاقت، ارادوں کی پختگی و بلندی سے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ شاہدہ صاحبہ زخموں کو ستارے بنانے کا کم یاب ہنر جانتی ہیں۔ ستارے، جو آج نشان سپاس کے مانند دمکتے ہیں۔ جس موذی مرض سے اِس سمے جُوجھ رہی ہیں، وہ Muscular Dystrophy کہلاتا ہے۔
لاعلاج تصور کی جانے والی اِس بیماری میں انسانی ''مسلز'' دھیرے دھیرے، کسی نامعلوم سبب، کم زور ہوتے جاتے ہیں۔ جس سمے اِس روگ میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا، وہ لندن میں ایک بھرپور زندگی گزار رہی تھیں۔ ادب تخلیق ہورہا تھا، بی بی سی سے وابستگی تھی، ادبی تنظیموں کے پلیٹ فورم سے مصروف تھیں کہ اچانک، مسرت کا ہر احساس، اپنی اساس کھو بیٹھا۔ ماضی کھوجتے ہوئے بتاتی ہیں، ''میں منٹو کا تحریر کردہ ایک ڈراما 'اِس منجدھار میں' کر رہی تھی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے کہا کہ اسٹیج پر میری Movement کردار کی عمر کی مناسبت سے ذرا سست ہے۔
اُس وقت تو میں نے صورت حال سنبھال لی، مگر بعد میں ڈاکٹرز کی تشخیص سے عقدہ کھلا کہ یہ ایک مرض ہے، جو دھیرے دھیرے میرے مسلز کم زور کر رہا ہے۔'' معالجین کا خیال تھا کہ مرطوب موسم اُن کے لیے سودمند ہے، سو 85ء میں کراچی چلی آئیں۔ افاقہ نہیں ہوا، تو واپس لوٹ گئیں، تاہم وہ عرصہ ضایع نہیں کیا۔ ''آدرش'' کے نام سے ایک منفرد ماہ نامہ شروع کیا، جو بہ قول اُن کے، اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا جریدہ تھا۔ لندن لوٹنے کے بعد بہ طور اسکرپٹ رائٹر اور ڈائریکٹر، تین منفرد اسٹیج ڈرامے پیش کیے، جنھوں نے ہر خاص و عام سے داد بٹوری۔ ''دستک'' نامی ڈراما تو کئی معنوں میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔
2006 میں پاکستان آنے کے بعد ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ'' کے نام سے ایک فلاحی منصوبہ شروع کیا۔ اِس سفر میں اُنھیں اپنے شوہر، عزیز احمد کا بھرپور تعاون حاصل رہا۔ ہر محاذ پر وہ اُن کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ 76ء میں شاہدہ صاحبہ سے شادی کے وقت، موسیقی اور فوٹو گرافی سے گہرا شغف رکھنے والے عزیز احمد ٹریولنگ ایجینسی سے منسلک تھے۔ بعد میں بیگم کا ہاتھ بٹانے کے لیے ملازمت ترک کر دی، اپنے شوق، یعنی فوٹو گرافی کو پیشہ بنا لیا۔ بہ طور فری لانسر کام کرنے لگے، کئی بین الاقوامی اداروں کے لیے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اس پورے عرصے میں شاہدہ صاحبہ کو اپنی بیٹی، مایا احمد راٹھور کا بھی بھرپور تعاون حاصل رہا۔
حالات زیست کی تفصیلات کچھ یوں ہیں کہ سیدہ شاہدہ سیف نے، جو شادی کے بعد شاہدہ احمد ہوگئیں، 1949 میں الہ آباد کے ایک پڑھے لکھے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ سات بہنوں میں اُن کا نمبر چوتھا ہے۔ شعور کی دہلیز سیالکوٹ میں عبور کی۔ والد، سید سیف الدین سرول سرونٹ تھے۔ وہ انتہائی شفیق انسان تھے، بیٹیوں سے اُن کے دوستانہ روابط رہے۔ البتہ گھر میں نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے شاہدہ کی والدہ تھوڑی بہت سختی ضرور برتتی تھیں۔ شمار کم گو اور حساس بچوں میں ہوا کرتا تھا۔ کبھی گڈے گڑیا سے نہیں کھیلیں، بس کاغذ قلم سے دوستی رہی۔ کہانیاں پڑھنا اکلوتا مشغلہ تھا۔
تعلیم کو خاندان میں خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ دادا الہ آباد ہائی کورٹ میں جج رہے، نانا الہ آباد ہائی کورٹ میں پریکٹس کیا کرتے تھے۔ ''ہمارے ہاں خواتین کی تعلیم کا تصور بھی تھا۔ ابتدائی زمانے میں گھروں میں اِس کا انتظام کیا جاتا۔ میری بڑی آپا پہلی خاتون تھیں، جنھوں نے یونیورسٹی میں قدم رکھا۔'' خود اُنھوں نے جے اینڈ کے اکیڈمک اسکول، سیالکوٹ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ والد کا تبادلہ ہوا، تو خاندان لاہور آگیا، جہاں سمن زار اسکول، سمن آباد سے 65ء میں، آرٹس سے میٹرک کیا۔ پھر گلبرگ کالج، جو اب سمن آباد کالج کہلاتا ہے، کا حصہ بن گئیں۔ 72ء میں گریجویشن کیا۔
سماجی کاموں میں دل چسپی بچپن ہی سے ہے۔ پریشان حال افراد کے مسائل حل کر کے روحی خوشی ملتی۔ زمانۂ طالب علمی میں اس محاذ پر خاصی سرگرم رہیں۔ معروف سماجی کارکن، نزہت اکرام کے ساتھ جہیز کے خلاف مہم چلائی۔ سیاسی شعور والد سے وراثت میں ملا۔ لیاقت علی خان کی برسی والے روز گھر میں اداسی ڈیرے ڈال لیتی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی سیاسی مہم بھی خوب یاد ہے کہ والد مادر ملت کے پُرزور حامی تھے۔ 65ء کی جنگ بھی ذہن میں محفوظ ہے، جس کے بعد، جذبۂ حب الوطنی کے تحت، غیرملکی مصنوعات استعمال کرنی چھوڑ دیں۔ سقوط ڈھاکا گہرا صدمہ ثابت ہوا، جس کا ذکر کرتے ہوئے آج بھی کرب کے دریا میں اتر جاتی ہیں۔ اِسی سانحے پر ''تجدید'' نامی ایک منفرد افسانہ لکھا، جو پہلے مجموعے کا حصہ بنا۔
لکھاری کے لیے قاری ہونا شرط ہے، اور وہ اِس سے ماورا نہیں۔ مطالعاتی سفر کا آغاز بچوں کے رسائل سے ہوا۔ پھر سنجیدہ ادب کی جانب متوجہ ہوئیں۔ قرۃ العین حیدر کو خصوصی توجہ سے پڑھا۔ انتظار حسین، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی تخلیقات کا مطالعہ کیا۔ قلم اوائل عمری ہی میں تھام لیا۔ 65ء کی جنگ کے زمانے میں مختلف اخبارات و رسائل میں اُن کے مضامین شایع ہوئے۔ فکشن نگاری کا آغاز ناول کی صنف سے کیا۔ چار سو صفحات پر مشتمل اُس ناول کا نام ''مات'' تجویز کیا تھا، جسے پبلشر نے، تجارتی تقاضوں کے پیش نظر، ''سپنے تیری یادوں کے'' کر دیا۔ سماجی موضوعات کا احاطہ کرتے اس ناول کی اشاعت سے خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ یہ بہت مقبول ہوا۔ آنے والے برسوں میں ''ادبی دنیا'' میں باقاعدگی سے اُن کے افسانے چھپتے رہے، ''اردو ڈائجسٹ'' میں سماجی موضوعات پر لکھتی رہیں۔
شادی کے بعد لندن چلی گئیں، جہاں شروع شروع میں تنہائی کے احساس نے تھوڑا پریشان رکھا کہ بھرے پُرے گھر سے گئی تھیں، مگر جلد ہی خود کو نئے ماحول میں ڈھال لیا۔ ایک برس بعد بی بی سی، عالمی سروس کے پروڈیوسر، انور خالد مرحوم سے ملاقات ہوئی، جنھوں نے شاہدہ صاحبہ کو آڈیشن دینے کی پیش کش کردی۔
اِس مقام پر پہنچ کر گفت گو کا رخ ماضی کی سمت مڑ گیا۔ بتانے لگیں، شادی سے لگ بھگ چھے ماہ قبل، ریڈیو پاکستان، حیدرآباد اسٹیشن پر اُنھوں نے اقبال جعفری کے پروگرام ''نوید صبح'' کے لیے آڈیشن دیا تھا۔ چنائو ہوگیا تھا کہ اچانک لاہور سے فون آ گیا کہ والدہ بہت علیل ہیں۔ ''میں سب چھوڑ چھاڑ کر لاہور پہنچ گئی۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ وہ بالکل خیریت سے ہیں۔ بیماری کی خبر بس ایک بہانہ تھا، تاکہ میں ریڈیو سے وابستہ نہ ہو سکوں۔''
خیر، بی بی سی کے آڈیشن میں کام یابی کے بعد بہ طور فری لانسر براڈکاسٹر سفر کا آغاز کیا۔ ''سائنس کلب'' کی صداکاری کی۔ بچوں کے پروگرام ''شاہین کلب'' اور ''برگ گل'' میں اُن کی آواز سنائی دی۔ ''بک ریویو'' نامی پروگرام بھی کرتی رہیں۔ اسکرپٹ بھی لکھے۔ ادبی محاذ پر ''برگ گل'' کی بانی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے خاصی فعال رہیں۔ 80ء میں اُنھوں نے ''سمن زار'' نامی ایک تنظیم کی بنیاد رکھی، جو آنے والے کئی برس لندن میں متحرک رہی۔ اِس پورے عرصے میں افسانہ نگاری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
اِسی عرصے میں Muscular Dystrophy نامی مرض میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا۔ اگلے چند برس پاکستان میں گزرے۔ لندن لوٹنے کے بعد پھر بی بی سی سے منسلک ہوگئیں۔ 92ء تک اُس ادارے سے وابستہ رہیں۔ ''میں مستقل پروڈیوسر بھی بن سکتی تھی، مگر اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد میرے سامنے دو راستے تھے۔ ایک، یا تو میں اپنے کیریر میں زیادہ سے زیادہ کام یابیاں سمیٹوں، یا پھر اپنے گھر کی دیکھ ریکھ کروں۔ تو میں نے گھر کا انتخاب کیا، مگر کام چھوڑا نہیں۔'' گو مرض نے اُنھیں وھیل چیئر تک محدود کر دیا تھا، مگر مصائب اُن کے جذبے کو شکست نہیں دے سکے۔ جہاں تخلیق ادب کا سلسلہ جاری رہا، وہیں اسٹیج ڈرامے بھی پیش کیے۔
92ء میں پہلا مجموعہ ''بھنور میں چراغ'' شایع ہوا، جو 21 افسانوں پر مشتمل تھا۔ اُن کے فن سے متعلق کتاب میں گوپی چند نارنگ اور فرمان فتح پوری کے مضامین شامل تھے۔ 2000 میں دوسرا مجموعہ ''ہجرتوں کے بھنور'' شایع ہوا، جو 18 افسانوں پر مشتمل تھا۔ اپنے احساسات کچھ یوں بیان کرتی ہیں،''میں لکھ کر، دوستوں کو سُنا کر خوش ہوجاتی ہوں۔ چھپنے چھپانے کی کبھی کوئی خاص خواہش نہیں رہی۔ دراصل میری کتابوں کی اشاعت کا سہرا میرے شوہر کے سر ہے۔ اُن ہی کی تحریک پر کتابوں کی اشاعت عمل میں آئی۔''
بیٹی کی پیدایش زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ تھا۔ لندن ہی کے ماحول میں صاحب زادی پروان چڑھی، مگر شاہدہ احمد نے تربیت اِس ڈھب پر کی کہ وہ آج بھی اپنی زبان اور ثقافت سے پوری طرح جُڑی ہوئی ہے۔ اس تعلق سے بات کرتے ہوئے وہ نوجوانوں کو اپنی زبان کا احترام کرنے کی نصیحت کرتی ہیں کہ اُن کے نزدیک زبان فقط رابطے کا ذریعہ نہیں، بلکہ پورا تمدن ہے۔
خصوصی افراد کے مسائل زیر بحث آئے، اور اِس ضمن میں مغرب کے تجربات پر بات ہوئی، تو کہنے لگیں،''وہاں خصوصی افراد کو یک ساں حقوق، یک ساں مواقع حاصل ہیں، اُنھیں عام شہری کے طور پر دیکھا، اور پرکھا جاتا ہے۔ قابل رحم یا بے چارہ تصور نہیں کیا جاتا، مگر ہمارے ہاں صورت حال مختلف ہے۔ ہمارے معاشرے میں معذور افراد کے بارے میں جو رویہ پایا جاتا ہے، اُس میں ہم دردی اور افسوس کا احساس غالب ہے۔'' اُن کے نزدیک خصوصی افراد کو ہم دردی کی نہیں، یک ساں حقوق کی ضرورت ہے۔ ''جب میں نے اِس میدان میں کام شروع کیا، تب یہ کہا جاتا تھا کہ' آدرش' معذور افراد کا منصوبہ ہے۔
مگر میں کہتی تھی، نہیں، یہ خصوصی افراد کو سماج سے جُوڑنے کا نہیں، بلکہ ملک کی 90 فی صد آبادی کو 10 فی صد معذور آبادی سے جُوڑنے کا منصوبہ ہے۔ معاشرے کو معذور افراد سے جوڑنا میرا مقصد ہے۔ اور دونوں باتوں میں بڑا فرق ہے۔'' شکایت ہے کہ ہم ہر معاملے میں یورپ کی تقلید کرتے ہیں، مگر وہ رویے، جو ہمیں اپنانے چاہییں، اُن کی جانب توجہ نہیں دی جاتی۔ ''برطانیہ میں آپ کو ایسی کوئی عمارت نہیں ملے گی، جہاں وھیل چیئر نہ جا سکتی ہو، مگر ہمارے ہاں تو اِس کا تصور ہی نہیں ہے۔''
مستقبل کے منصوبے زیر بحث آئے، تو بتانے لگیں کہ وہ ایک ڈاکومینٹری اور ایک آرٹ فلم بنانے کی آرزومند ہیںکہ آرٹ فلمیں شوق سے دیکھتی ہیں۔ حالیہ فلموں میں ''بلیک'' اور ''پیج تھری'' اچھی لگیں۔ وحیدہ رحمان کی صلاحیتوں کی معترف ہیں۔ موجودہ فن کاروں میں حنا دل پذیر کو سراہتی ہیں۔ ساڑھی کسی زمانے میں من پسندیدہ پہناوا تھا، مگر اب شلوار قمیص کو ترجیح دیتی ہیں۔ معتدل موسم میں خود کو آرام دہ پاتی ہیں۔ گائیکی میں عابدہ پروین اور بیگم اختر کی آواز اچھی لگی۔ شاعری میں فیض احمد فیض کی مداح ہیں۔ فکشن نگاروں میں قرۃ العین حیدر اور بانو قدسیہ کا نام لیتی ہیں۔ اردو ناولز میں ''آگ کا دریا''، ''اداس نسلیں'' ''صدیوں کی زنجیر'' اور ''چہرہ بہ چہرہ رو بہ رو'' اچھے لگے۔ پائولو کوئلیو کا ناول ''الکیمسٹ'' بھی بہت پسند ہے۔
تھیٹر کہانی
اِس تحیرخیز کہانی کا آغاز اُس وقت ہوا، جب وہ، بہ ظاہر، وھیل چیئر تک محدود ہوچکی تھیں، مگرحقیقتاً اُن کا بلند حوصلہ کسی رکاوٹ کو خاطر میں لانے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔
95ء میں لندن کی ایک مقامی تنظیم ''گلوبل آرٹس'' نے اُن سے رابطہ کیا، جو خواہش مند تھی کہ وہ کشمیر کے بارے میں ایک اسٹیج پلے لکھیں۔ ابتداً وہ تذبذب کا شکار تھیں، مگر جب ارادہ کر لیا، تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ چھے ماہ تحقیق کی۔ لکھتے سمے سیاسی اور مذہبی پہلوئوں کے بجائے، انسانی و سماجی پہلو مدنظر رکھا۔
اسکرپٹ کی تیاری کے ساتھ ''صدائے کشمیر'' کی ہدایت کاری کی ذمے داری بھی اُن ہی کے کاندھوں پر تھی۔ لندن کے ہیکنی ایمپائر تھیٹر میں اِس کے کئی کام یاب شوز ہوئے۔ دو برس بعد ہندوستان پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقعے وہاں کی لوکل گورنمنٹ نے ایک ڈراما فیسٹول کا انعقاد کیا، جس کے لیے ''صدائے کشمیر'' کا کا انتخاب کیا گیا۔ اِس بار واٹرمینس تھیٹر میں سات شوز ہوئے۔
98ء میں اُنھوں نے ''دستک'' کے نام سے دو گھنٹے پر محیط ایک فکرانگیز اسٹیج ڈراما تحریر کیا، جس کا مقصد معذوری کے تعلق سے عوام میں شعور اجاگر کرنا تھا۔ پروڈکشن کی سطح پر یہ اُن کی ذاتی کاوش تھی، تمام انتظامات خود کیے ۔ اِس ڈرامے کو شان دار ردعمل ملا۔ حاضرین اور ناقدین، دونوں ہی نے اسے دل کھول کر سراہا۔ لندن سمیت برطانیہ کے کئی شہروں میں یہ ڈراما پیش کیا گیا۔
2002 میں اُنھوں نے اپوا، یو کے کے لیے ''فورس میرج'' اور ''ارینج میرج'' کے موضوع پر ایک خوب صورت ڈراما لکھا۔ ''آپ کی عدالت میں'' نامی اِس ڈرامے کے لیے، حسب روایت، خاصی تحقیق کی۔ ردعمل اِس بار بھی شان دار رہا۔ لندن کے کئی تھیٹرز میں اِسے پیش کیا گیا۔
ماہ نامہ ''آدرش'' اور ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ''
دو منفرد منصوبوں پر ایک نظر
ایک لاعلاج مرض کے ساتھ جب وہ 86ء میں پاکستان لوٹیں، تو آرام کرنے کے بجائے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ایک رسالہ نکالنے کا فیصلہ کیا۔
ماہ نامہ ''آدرش'' چار برس تواتر سے چھپتا رہا۔ تین ہزار کی تعداد میں شایع ہونے والا یہ رسالہ پاکستان کے تمام سرکاری اور خصوصی افراد کے اداروں میں مفت تقسیم ہوا کرتا تھا۔ وہ اِس کی مدیر اعلیٰ اور پبلشر تھیں۔ چھوٹی بہن، شایستہ سیف مدیرہ تھیں۔ اِس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے خاصی بھاگ دوڑ کی۔ پٹھے جواب دے رہے تھے، مگر مایوسی کو پاس نہیں پھٹکنے دیا۔ لندن لوٹنے کے بعد بھی کچھ عرصے یہ پرچہ نکلتا رہا۔ جب تقسیم کی راہ میں حائل رکاوٹیں حائل ہوئیں، تو اِس سودمند سلسلے کو ''آدرش سوسائٹی'' کی شکل دے دی۔ پاکستان کے ایک موقر روزنامے کے، لندن ایڈیشن میں ''جہانِ خاص'' نامی صفحے کی ذمے داری سنبھال لی۔ یہ سلسلہ کئی برس جاری رہا۔
2006 میں پاکستان آنے کے بعد ایک اور غیرمنافع بخش، فلاحی منصوبے ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ'' کا آغاز کیا۔
براڈ کاسٹنگ کا وسیع تجربہ کام میں لاتے ہوئے ''سدابہار'' کے عنوان سے، پاک و ہند کے آٹھ شعرا کے منتخب کلام کو (شعرا کی اپنی آواز میں) پانچ سی ڈیز میں محفوظ کیا۔ 2009 میں ریلیز ہونے والے، آٹھ گھنٹوں پر محیط اِس پراجیکٹ کا اسکرپٹ اُنھوں نے ہی لکھا۔ تعارف پیش کرنے والی چار آوازوں میں اُن کی آواز بھی شامل تھی۔ اِسے، توقع کے عین مطابق، ہاتھوں ہاتھ لیا گیا، خصوصاً ہندوستان میں اِس کی بہت پزیرائی ہوئی۔
اگلا منصوبہ بچوں کی کہانیوں پر مشتمل تھا۔ انگریزی کی دو مقبول کہانیوں کا ترجمہ کرکے اُنھیں ڈرامے کے طرز پر پیش کیا۔ نابینا اور معذور افراد کے اداروں کو یہ سی ڈی تحفتاً پیش کی گئی۔ تیسرے منصوبے میں زہرا نگاہ کے کلام کو ایک سی ڈی میں محفوظ کیا، جس کی ریکارڈنگ اُن ہی کے گھر ہوئی۔ اگلا منصوبہ افتخار عارف کے کلام پر مشتمل ہے۔ جلد ہی اِس کی ریلیز متوقع ہے۔
اُن کے مطابق ''آدرش آڈیو کتابی سلسلہ'' کُلی طور پر ایک فلاحی منصوبہ ہے، جس کے لیے کسی ادارے کی معاونت یا تعاون کی وہ خواہش مند نہیں۔ صاحبِ ذوق افراد یہ سی ڈیز خرید لیں، اُن کے لیے یہی کافی ہے۔