امریکا اور ہمارے 4 آمر
ایک طرف مسٹر ٹرمپ پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر گرجتے برستے ہیں دوسری طرف وہ پاکستانی عوام سے ’گہری ہمدردی‘ کا اظہار کرتے ہیں.
پاکستان میں اس وقت امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے نائبین کے بیانات پر ہمارے لوگ آتش زیرپا ہیں۔ امریکی حکومت کے خلاف جلوس نکل رہے ہیں۔ شدید سردی میں ناکافی لباس پہنے ہوئے اور چہرے سے بدحال نظر آنے والے یہ نوجوان یا ادھیڑ عمر لوگ اس یقین کے ساتھ امریکا مخالف نعرے لگا رہے ہیں کہ ان کی عساکر اس سنگین بحران سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہیں جس میں اس وقت ہم گرفتار ہیں۔
ہمارے بیشتر سیاسی رہنما جو حزب اختلاف سے اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا بھی یہی رویہ ہے کہ وہ امریکا کے خلاف جی کھول کر دشنام طرازی کررہے ہیں۔ امریکا آج سے نہیں، انیسویں صدی کے آخر سے ایک فوجی طاقت ہے، بیسویں صدی میں اور بہ طور خاص دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ ایک عالمی طاقت بن کر سامنے آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین بھی ایک عالمی طاقت بن چکا تھا اور یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے حریف تھے۔ دونوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملکوں کو اپنے دائرہ اثر میں لینے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں بانی پاکستان امریکا سے بہترین تعلقات کے خواہشمند تھے، وہیں امریکا بھی ایک ایسے ملک کو اپنے سایہ عاطفت میں لینا چاہتا تھا جو برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے قیام کے صرف 2 مہینے اور 6 دن کے بعد امریکا نے اس نئے ملک سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ پاکستان جس مالی، معاشی اور سفارتی مسائل کا شکار تھا، ایسے میں دنیا کی ایک عظیم عالمی طاقت کی زیر سر پرستی آجانا اس کی فوجی اور سول نوکر شاہی کے لیے ایسا ہی تھا جیسے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔
پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد شروع ہوئی۔ سرد جنگ کا آغاز ہوچکا تھا، ہم نہ صرف اس جنگ میں امریکا کے شامل حال رہے بلکہ ہم نے سیٹو اور سینٹو کی رکنیت بھی اختیار کی۔ رہی سہی کسر اس طرح پوری ہوئی کہ 1958 میں ہمارے یہاں سے لولی لنگڑی جمہوریت کا بستر گول ہوا اور پاکستان کے پہلے مرد آہن جنرل ایوب اقتدار کا سرچشمہ ٹھہرے۔
آج ہم امریکا کو جس قدر برا بھلا کہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی فیاضی سے ہماری حکمران اشرافیہ نے کس قدر زیادہ فائدہ اٹھایا۔ امریکی گیہوں، مکھن، گھی اور خشک دودھ کے لاکھوں ڈبے کراچی کی بندرگاہ پر اترے اور ہماری لذتِ کام و دہن کا سبب بنے۔ عوام کو یہ کھلونے دے کر بہلایا گیا جب کہ امریکی فوجوں کو بڈبیر کا اڈا ملا جس سے وہ سوویت یونین کی جاسوسی کرتے رہے۔
سوویت یونین کے لیڈر نکیتا خروشیف نے جب پاکستان کے نقشے پر بڈبیر کو سرخ پنسل سے نشان زد کیا اور یہ کہا کہ اگر دوبارہ کوئی جاسوس طیارہ اس اڈے سے اڑا تو ہم اس پورے علاقے کو تہس نہس کردیں گے۔ تب پہلی مرتبہ ہمارے عام آدمی تک یہ خبر پہنچی کہ امریکیوں کو ہمارے یہاں خصوصی رعایت حاصل ہیں اور امداد کے پردے میں جاسوسی کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
جنرل ایوب نے ہمارے یہاں جمہوریت کی جڑ پر وار کیا۔ وہ تمام لوگ کچلے گئے جو آزادی تحریر و تقریر کی، جمہوریت اور عوامی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ درجنوں بنگالی پاکستانیوں سمیت، حسن ناصر شہید اسی دور استبداد کا شکار ہوئے۔ یہی زمانہ تھا جب ترقی پسند قوتیں کچلی گئیں اور امریکی اثر و نفوذ میں اضافہ ہوا۔
جنرل ایوب خان جاتے جاتے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کرگئے جنھوں نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو مشرقی پاکستان سے 'نجات' دلائی، کیونکہ اسٹبلشمنٹ یہ سمجھتی تھی کہ مشرقی پاکستانی جمہوری جدوجہد کو ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ اس مقصد کے لیے شیخ مجیب الرحمان اور ان کے ساتھیوں، ان کی عوامی لیگ کو غدار قرار دیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ یہ لوگ ہندوستان سے مل کر پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ یوں مشرقی پاکستان کی جمہوری جدوجہد کو یکسر دوسرا رخ دیا گیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1977 تک کا عرصہ عوام کے لیے سانس لینے اور بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے کا زمانہ تھا۔ لیکن یہ خواب ایک بار پھر سراب ثابت ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار پر قبضہ عوام کے لیے جس قدر جاں کاہ صدمہ تھا، اس سے کہیں بڑا ستم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر کیا گیا۔ امریکی سرپرستی میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ اوجڑی کیمپ کا اسلحہ خانہ جدید امریکی ہتھیاروں سے بھردیا گیا۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں کو جب یہ خبر ملی کہ اسٹنگر میزائل جو امریکا نے صرف پاکستان کو دیے تھے، وہ ایران عراق جنگ میں استعمال ہوئے ہیں تو ان کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ انھوں نے ان میزائلوں کا حساب کتاب لینے کے لیے ایک امریکی ٹیم کو روانہ کیا لیکن قبل اس کے کہ وہ ٹیم پاکستانی سرزمین پر قدم رکھتی، اوجڑی کیمپ کی آتش زدگی نے ہزاروں پاکستانیوں کے گھر اجاڑ دیے۔ ہر چیز جل گئی، اب حساب کس چیز کا لیا جاتا۔
امریکی سرپرستی میں جنرل ضیاء الحق نے افغانستان میں جہاد کے راستے اپنے اقتدار کی رسی دراز کی لیکن آخرکار وہ بھی اوجڑی کیمپ کی زد میں آنے والے بے گناہوں کی مانند پھلجڑی کی طرح جل گئے۔ اس تمام عرصے میں امریکیوں کی سرپرستی پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو حاصل رہی۔ فوجی اور مالی امداد آتی رہی جس سے ان لوگوں کے وارے نیارے ہوئے جن کے ہاتھوں سے یہ بھاری رقوم مختلف اداروں اور افراد میں تقسیم ہوتی تھیں۔
امریکیوں کو ہمارے یہاں جمہوری دروبست کبھی پسند نہیں رہا، اسی لیے وہ مالا جمہوری نظام کی جپتے رہے اور سرپرستی آمروں کی کرتے رہے۔ جنرل مشرف کے پردے میں جب چوتھی بار ایک فوجی نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بل کلنٹن یقیناً اس قبضے کے مخالف تھے لیکن ان کی اسٹبلشمنٹ کو افغان سرحد سے متصل ایک ایسے ملک کی اشد ضرورت تھی جو ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہے۔
جنرل مشرف امریکیوں کی توقع سے بڑھ کر 'فرماں بردار ' ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنے اقتدار کے استحکام اور اس کی طوالت کے لیے امریکیوں کو ہر سہولت فراہم کی۔ لوگوں کو پکڑ کر دہشت گرد قرار دے کر امریکا کو دیا اور اپنی فضائی تنصیبات امریکا کے حوالے کردیں۔ بلیک واٹر، ریمنڈ ڈیوس اور اسی طرح کے دوسرے ادارے اور افراد پاکستان کے طول و عرض میں دندناتے پھرے۔ عوام کو یہ تسلی دی گئی کہ اسلام کی سربلندی کے لیے وہ امریکی حکمرانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
ہزارہا جذباتی نوجوان جہاد کے نام پر دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیے گئے۔ ان کے رہنما قلعہ نما عمارتوں میں آرام کرتے رہے، ڈالروں کے انبار سمیٹتے رہے، جنرل مشرف اور ان کے قریبی ساتھی دہرا کھیل کھیلتے رہے۔ ایک طرف امریکی اسٹبلشمنٹ کو دھوکا دیا گیا، دوسری طرف پاکستانیوں کو اس طفل تسلی سے بہلایا گیا کہ سب کچھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہورہا ہے۔ یہ دہرا کھیل اس وقت کُھل گیا جب ایبٹ آباد کے قلعہ نما مکان سے اسامہ بن لادن کو امریکیوں نے خود برآمد کرلیا۔
اس کے بعد سے امریکا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور بداعتمادی بڑھتی چلی گئی۔ اب ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بدلحاظ اور بڑی سے بڑی بات بے دھڑک کہہ دینے والے امریکی صدر کا سامنا ہے جو ہمیں امریکی امداد کے طعنے دیتا ہے اور جس نے نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہی ہماری عسکری امداد بند کردینے کا اعلان کردیا ہے۔ ایک طرف مسٹر ٹرمپ پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر گرجتے برستے ہیں۔ دوسری طرف وہ پاکستانی عوام سے 'گہری ہمدردی' کا اظہار کرتے ہیں جسے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا۔
ان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ایچ آر میک ماسٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات، تضادات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ امریکی صدر اس لیے بہت مضطرب ہیں کہ ہم نے پاکستان کو بے اندازہ مالی اور عسکری امداد دی لیکن اس نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ وہ زبانی کلامی دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف بیانات دیتا ہے لیکن کالعدم تنظیموں کو وہ اپنی خارجہ پالیسی کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ہم خواہ امریکا سے جس قدر بھی ناراض ہوں لیکن ہمارے عام آدمی کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ گزشتہ برسوں میں اگر ملک میں جمہوری حکومتیں برسراقتدار رہتیں اور وہ ملکی ضرورتوں اور امریکی خواہشوں کے درمیان توازن قائم رکھتیں تو ہم اس عذاب میں نہ پھنستے جس نے آج ہمیں کسی بھیڑیے کی طرح اپنے دانتوں سے دبوچ رکھا ہے۔
ہم امریکا کو جتنا برا بھلا کہیں لیکن ہمیں اپنے چار آمروں سے ان کی ان پالیسیوں کا حساب ضرور لینا چاہیے جنھوں نے ملک اور آئین کو توڑا اور عوام کے نفع و نقصان کے بارے میں کچھ نہ سوچا، ان کی دولت و ثروت میں اضافہ ہوتا رہا، وہ اپنے ذرایع آمدن سے کہیں بڑھ چڑھ کر زندگی گزارتے رہے۔ان سے اس بارے میں سوال کرنے والا نہ کل کوئی تھا اور نہ آج ہے۔
ہمارے بیشتر سیاسی رہنما جو حزب اختلاف سے اور مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا بھی یہی رویہ ہے کہ وہ امریکا کے خلاف جی کھول کر دشنام طرازی کررہے ہیں۔ امریکا آج سے نہیں، انیسویں صدی کے آخر سے ایک فوجی طاقت ہے، بیسویں صدی میں اور بہ طور خاص دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ ایک عالمی طاقت بن کر سامنے آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سوویت یونین بھی ایک عالمی طاقت بن چکا تھا اور یہ دونوں ملک ایک دوسرے کے حریف تھے۔ دونوں کے درمیان زیادہ سے زیادہ ملکوں کو اپنے دائرہ اثر میں لینے کی دوڑ لگی ہوئی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ جہاں بانی پاکستان امریکا سے بہترین تعلقات کے خواہشمند تھے، وہیں امریکا بھی ایک ایسے ملک کو اپنے سایہ عاطفت میں لینا چاہتا تھا جو برطانوی تسلط سے آزاد ہوا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے قیام کے صرف 2 مہینے اور 6 دن کے بعد امریکا نے اس نئے ملک سے سفارتی تعلقات قائم کرلیے۔ پاکستان جس مالی، معاشی اور سفارتی مسائل کا شکار تھا، ایسے میں دنیا کی ایک عظیم عالمی طاقت کی زیر سر پرستی آجانا اس کی فوجی اور سول نوکر شاہی کے لیے ایسا ہی تھا جیسے بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا۔
پاکستان کی فوجی اور اقتصادی امداد شروع ہوئی۔ سرد جنگ کا آغاز ہوچکا تھا، ہم نہ صرف اس جنگ میں امریکا کے شامل حال رہے بلکہ ہم نے سیٹو اور سینٹو کی رکنیت بھی اختیار کی۔ رہی سہی کسر اس طرح پوری ہوئی کہ 1958 میں ہمارے یہاں سے لولی لنگڑی جمہوریت کا بستر گول ہوا اور پاکستان کے پہلے مرد آہن جنرل ایوب اقتدار کا سرچشمہ ٹھہرے۔
آج ہم امریکا کو جس قدر برا بھلا کہیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امریکی فیاضی سے ہماری حکمران اشرافیہ نے کس قدر زیادہ فائدہ اٹھایا۔ امریکی گیہوں، مکھن، گھی اور خشک دودھ کے لاکھوں ڈبے کراچی کی بندرگاہ پر اترے اور ہماری لذتِ کام و دہن کا سبب بنے۔ عوام کو یہ کھلونے دے کر بہلایا گیا جب کہ امریکی فوجوں کو بڈبیر کا اڈا ملا جس سے وہ سوویت یونین کی جاسوسی کرتے رہے۔
سوویت یونین کے لیڈر نکیتا خروشیف نے جب پاکستان کے نقشے پر بڈبیر کو سرخ پنسل سے نشان زد کیا اور یہ کہا کہ اگر دوبارہ کوئی جاسوس طیارہ اس اڈے سے اڑا تو ہم اس پورے علاقے کو تہس نہس کردیں گے۔ تب پہلی مرتبہ ہمارے عام آدمی تک یہ خبر پہنچی کہ امریکیوں کو ہمارے یہاں خصوصی رعایت حاصل ہیں اور امداد کے پردے میں جاسوسی کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔
جنرل ایوب نے ہمارے یہاں جمہوریت کی جڑ پر وار کیا۔ وہ تمام لوگ کچلے گئے جو آزادی تحریر و تقریر کی، جمہوریت اور عوامی بالادستی کی بات کرتے تھے۔ درجنوں بنگالی پاکستانیوں سمیت، حسن ناصر شہید اسی دور استبداد کا شکار ہوئے۔ یہی زمانہ تھا جب ترقی پسند قوتیں کچلی گئیں اور امریکی اثر و نفوذ میں اضافہ ہوا۔
جنرل ایوب خان جاتے جاتے اقتدار جنرل یحییٰ کے سپرد کرگئے جنھوں نے پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو مشرقی پاکستان سے 'نجات' دلائی، کیونکہ اسٹبلشمنٹ یہ سمجھتی تھی کہ مشرقی پاکستانی جمہوری جدوجہد کو ناکام نہیں ہونے دیں گے۔ اس مقصد کے لیے شیخ مجیب الرحمان اور ان کے ساتھیوں، ان کی عوامی لیگ کو غدار قرار دیا گیا۔ یہ کہا گیا کہ یہ لوگ ہندوستان سے مل کر پاکستان کو توڑنا چاہتے ہیں۔ یوں مشرقی پاکستان کی جمہوری جدوجہد کو یکسر دوسرا رخ دیا گیا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد 1977 تک کا عرصہ عوام کے لیے سانس لینے اور بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے کا زمانہ تھا۔ لیکن یہ خواب ایک بار پھر سراب ثابت ہوئے۔ جنرل ضیاء الحق کا اقتدار پر قبضہ عوام کے لیے جس قدر جاں کاہ صدمہ تھا، اس سے کہیں بڑا ستم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے کر کیا گیا۔ امریکی سرپرستی میں کیا کچھ نہیں ہوا۔ اوجڑی کیمپ کا اسلحہ خانہ جدید امریکی ہتھیاروں سے بھردیا گیا۔
امریکی خفیہ ایجنسیوں کو جب یہ خبر ملی کہ اسٹنگر میزائل جو امریکا نے صرف پاکستان کو دیے تھے، وہ ایران عراق جنگ میں استعمال ہوئے ہیں تو ان کے غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ انھوں نے ان میزائلوں کا حساب کتاب لینے کے لیے ایک امریکی ٹیم کو روانہ کیا لیکن قبل اس کے کہ وہ ٹیم پاکستانی سرزمین پر قدم رکھتی، اوجڑی کیمپ کی آتش زدگی نے ہزاروں پاکستانیوں کے گھر اجاڑ دیے۔ ہر چیز جل گئی، اب حساب کس چیز کا لیا جاتا۔
امریکی سرپرستی میں جنرل ضیاء الحق نے افغانستان میں جہاد کے راستے اپنے اقتدار کی رسی دراز کی لیکن آخرکار وہ بھی اوجڑی کیمپ کی زد میں آنے والے بے گناہوں کی مانند پھلجڑی کی طرح جل گئے۔ اس تمام عرصے میں امریکیوں کی سرپرستی پاکستانی اسٹبلشمنٹ کو حاصل رہی۔ فوجی اور مالی امداد آتی رہی جس سے ان لوگوں کے وارے نیارے ہوئے جن کے ہاتھوں سے یہ بھاری رقوم مختلف اداروں اور افراد میں تقسیم ہوتی تھیں۔
امریکیوں کو ہمارے یہاں جمہوری دروبست کبھی پسند نہیں رہا، اسی لیے وہ مالا جمہوری نظام کی جپتے رہے اور سرپرستی آمروں کی کرتے رہے۔ جنرل مشرف کے پردے میں جب چوتھی بار ایک فوجی نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بل کلنٹن یقیناً اس قبضے کے مخالف تھے لیکن ان کی اسٹبلشمنٹ کو افغان سرحد سے متصل ایک ایسے ملک کی اشد ضرورت تھی جو ان کی ہر بات پر آمنا و صدقنا کہے۔
جنرل مشرف امریکیوں کی توقع سے بڑھ کر 'فرماں بردار ' ثابت ہوئے۔ انھوں نے اپنے اقتدار کے استحکام اور اس کی طوالت کے لیے امریکیوں کو ہر سہولت فراہم کی۔ لوگوں کو پکڑ کر دہشت گرد قرار دے کر امریکا کو دیا اور اپنی فضائی تنصیبات امریکا کے حوالے کردیں۔ بلیک واٹر، ریمنڈ ڈیوس اور اسی طرح کے دوسرے ادارے اور افراد پاکستان کے طول و عرض میں دندناتے پھرے۔ عوام کو یہ تسلی دی گئی کہ اسلام کی سربلندی کے لیے وہ امریکی حکمرانوں کا ساتھ دے رہے ہیں۔
ہزارہا جذباتی نوجوان جہاد کے نام پر دہشت گردی کی جنگ میں جھونک دیے گئے۔ ان کے رہنما قلعہ نما عمارتوں میں آرام کرتے رہے، ڈالروں کے انبار سمیٹتے رہے، جنرل مشرف اور ان کے قریبی ساتھی دہرا کھیل کھیلتے رہے۔ ایک طرف امریکی اسٹبلشمنٹ کو دھوکا دیا گیا، دوسری طرف پاکستانیوں کو اس طفل تسلی سے بہلایا گیا کہ سب کچھ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہورہا ہے۔ یہ دہرا کھیل اس وقت کُھل گیا جب ایبٹ آباد کے قلعہ نما مکان سے اسامہ بن لادن کو امریکیوں نے خود برآمد کرلیا۔
اس کے بعد سے امریکا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی اور بداعتمادی بڑھتی چلی گئی۔ اب ہمیں ڈونلڈ ٹرمپ جیسے بدلحاظ اور بڑی سے بڑی بات بے دھڑک کہہ دینے والے امریکی صدر کا سامنا ہے جو ہمیں امریکی امداد کے طعنے دیتا ہے اور جس نے نئے سال کے پہلے ہفتے میں ہی ہماری عسکری امداد بند کردینے کا اعلان کردیا ہے۔ ایک طرف مسٹر ٹرمپ پاکستانی اسٹبلشمنٹ پر گرجتے برستے ہیں۔ دوسری طرف وہ پاکستانی عوام سے 'گہری ہمدردی' کا اظہار کرتے ہیں جسے دہشت گردوں کے ہاتھوں ہزاروں جانوں کا نقصان ہوا۔
ان کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ایچ آر میک ماسٹر کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات، تضادات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے۔ امریکی صدر اس لیے بہت مضطرب ہیں کہ ہم نے پاکستان کو بے اندازہ مالی اور عسکری امداد دی لیکن اس نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے وہ کچھ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔ وہ زبانی کلامی دہشت گردوں اور دہشت گردی کے خلاف بیانات دیتا ہے لیکن کالعدم تنظیموں کو وہ اپنی خارجہ پالیسی کو بڑھاوا دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
ہم خواہ امریکا سے جس قدر بھی ناراض ہوں لیکن ہمارے عام آدمی کو یہ ضرور جاننا چاہیے کہ گزشتہ برسوں میں اگر ملک میں جمہوری حکومتیں برسراقتدار رہتیں اور وہ ملکی ضرورتوں اور امریکی خواہشوں کے درمیان توازن قائم رکھتیں تو ہم اس عذاب میں نہ پھنستے جس نے آج ہمیں کسی بھیڑیے کی طرح اپنے دانتوں سے دبوچ رکھا ہے۔
ہم امریکا کو جتنا برا بھلا کہیں لیکن ہمیں اپنے چار آمروں سے ان کی ان پالیسیوں کا حساب ضرور لینا چاہیے جنھوں نے ملک اور آئین کو توڑا اور عوام کے نفع و نقصان کے بارے میں کچھ نہ سوچا، ان کی دولت و ثروت میں اضافہ ہوتا رہا، وہ اپنے ذرایع آمدن سے کہیں بڑھ چڑھ کر زندگی گزارتے رہے۔ان سے اس بارے میں سوال کرنے والا نہ کل کوئی تھا اور نہ آج ہے۔