سرفراز شاہ قتل کیس صدر نے رینجرز اہلکاروں کی سزائیں معاف کردیں

سرفراز شاہ کو رینجرز اہلکاروں نے کراچی کے شہید بینظیر بھٹو پارک میں 8 جنوری 2011 کو سرعام گولیاں مار کر قتل کیا تھا۔

ملزمان نے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی۔ فوٹو: فائل

سرفراز شاہ قتل کیس میں سزا یافتہ رینجرز اہلکاروں کی سزائیں صدر ممنون حسین نے معاف کردی ہیں۔

2011 میں نوجوان سرفراز شاہ کو سرعام گولیاں مار کر قتل کرنے کے مقدمے میں ایک رینجرز اہلکار کو پھانسی اور 5 کو عمر قید کی سزائیں سنائی گئی تھی تاہم صدر مملکت کی جانب سے معافی کی درخواست قبول کرنے کے بعد آئی جی جیل سندھ نے قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے صوبائی محکمہ داخلہ کو خط ارسال کر دیا ہے جب کہ قیدیوں کو کسی بھی وقت آزاد کر دیا جائے گا۔

''سندھ ایکسپریس'' کے پاس موجود سرکاری دستاویزات کے مطابق 8 جون 2011 کو کراچی میں قتل کیے گئے نوجوان سرفراز شاہ کی قتل کیس میں قید 5 رینجرز اہلکاروں کی عمر قید کی سزا صدر ممنون حسین نے معاف کر دی ہے، قیدیوں کی اہلخانہ کی جانب سے صدر پاکستان سے معافی کی درخواست کی گئی تھی جو آئین کے آرٹیکل 45 کیے تحت قبول کی گئی ہے۔

آئین کا مذکورہ آرٹیکل صدر کو کسی بھی قیدی کی سزا معاف کرنے کا اختیار دیتا ہے، سزا معاف ہونے کے بعد 21 دسمبر 2017 کو صوبائی محکمہ داخلہ نے معافی کی درخواست سینٹرل جیل کے سینئر سپرنٹنڈنٹ کو ارسال کی تھی جبکہ 4 جنوری 2018 کو ملزمان شاہد ظفر، محمد افضل خان، بہاء الرحمن، محمد طارق اور منٹھار علی کو رہا کرنے کے لیے انسپکٹر جنرل آف پرزنز سندھ نصرت مگھن نے صوبائی سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ کر معافی کے فیصلے پر عمل کرنے سے متعلق آگاہ کیا جس کے بعد پانچوں ملزمان کو کسی بھی وقت آزاد کیا جا سکتا ہے۔


واضح رہے کہ سرفراز شاہ کو رینجرز اہلکاروں نے کراچی کے شہید بینظیر بھٹو پارک میں 8 جنوری 2011 کو سرعام گولیاں مار کر قتل کیا تھا جس کی وڈیو ایک نجی ٹی وی چینل کے کیمرہ مین نے بنا لی تھی، 12 اگست 2011 کو انسداد دہشت گردی کی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے گولی چلانے والے مرکزی ملزم رینجرز کے سپاہی شاہد ظفر کو سزائے موت اور باقی اہلکاروں سب انسپکٹر بہا الرحمن، لانس نائیک لیاقت علی، سپاہی محمد طارق، منٹھار علی، افضل خان اور پارک کے چوکیدار افسر خان کو عمر قید کی سزائیں سنائی تھیں۔

ملزمان نے فیصلے کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں اپیل کی تھی لیکن سندھ ہائی کورٹ نے 21 جنوری 2014 کو ملزم کی اپیل مسترد کرتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا جبکہ سندھ ہائی کورٹ نے ایک ملزم لانس نائیک لیاقت علی کو بری کر دیا تھا۔

دوسری جانب ملزمان کی جانب سے مقتول سرفراز کے ورثا سے صلح کرنے کے بعد مقتول کے بھائی سالک شاہ نے سندھ ہائی کورٹ میں صلح نامہ جمع کراتے ہوئے ملزمان کی سزا ختم کرنے کی درخواست کی تھی، تاہم عدالت نے یہ درخواست بھی اگست 2014 میں مسترد کر دی تھی جس کے بعد ملزمان نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا جس پر عدالت عالیہ نے مرکزی ملزم شاہد ظفرکو دی گئی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل اور پارک کے چوکیدار افسر خان کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کردیا تھا، اس وقت ملزمان سینٹرل جیل کراچی میں سزا کاٹ رہے ہیں جن کو صدر مملکت کی جانب سے معافی دی جا چکی ہے۔

قیدیوں کی آزادی سے متعلق آئی جی جیل نصرت مگھن سے رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے اس سلسلے میں بات کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے سینٹرل پرزنزکراچی کے سینئرسپرنٹنڈنٹ سے رابطہ کیا جائے جبکہ سینئرسپرنٹنڈنٹ سے بارہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کا نمبرمسلسل بند ملتا رہا۔

 
Load Next Story