سندھ کابینہ نے فراہمی و نکاسی آب کی 381 اسکیموں کی منظوری

سندھ کے عوام کو پینے کا صاف پانی اور محفوظ ماحول کی فراہمی کے حوالے سے مرتب رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی جائے گی۔

وفاقی حکومت سندھ میں مسائل پیدا کررہی ہے،وزیراطلاعات ناصرشاہ کی صحافیوں سے گفتگو۔ فوٹو: فائل

سندھ کابینہ نے عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر صوبے میں فراہمی ونکاسی آب کی 381 منصوبوں پرمشتمل گریٹر منصوبے کی منظوری دے دی.

سندھ کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں وزیراعلیٰ سندھ کی زیر صدارت ہوا ،اجلاس میں عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر سندھ میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور نکاسی آب ،صنعتی فضلے کے لیے ٹریٹمنٹ پلانٹ کوفعال کرنے سے متعلق حکومت سندھ کے مجوزہ منصوبوں پرغورکیا گیا۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے صوبائی کابینہ کو بتایا کہ مسلسل 6 اجلاسوں کے انعقاد، تمام متعلقہ محکموں کے ساتھ مشاورت اور تمام حقائق اور اعداد و شمار کا جائزہ لینے کے بعد سندھ کے لوگوں کو پینے کا صاف پانی اور محفوظ ماحول کی فراہمی کے حوالے سے رپورٹ مرتب کرلی گئی ہے جوکہ سپریم کورٹ میں سی پی نمبر 38 /2016 کے مقدمے میں پیش کی جائے گی۔

سید مراد علی شاہ نے موجودہ صاف پانی کی بہتری اور صفائی کے نظام کے حوالے سے تمام کابینہ کے اراکین کو اعتماد میں لیا، انھوں نے کابینہ کو بتایا کہ تیار کی گئی یہ رپورٹ 132 سے زائد صفحات پر مبنی ہے جوکہ 381 اسکیموں پر مشتمل ہے،پانی کی فراہمی اور سیوریج سسٹم کی اے ڈی پی اسکیموں کی اضلاع واررپورٹ ہے جس میںتمام پوائنٹ جہاں سے میونسپل،اسپتال اور صنعتی نکاسی آب چھوڑا جاتا ہے،تمام اضلاع میں صنعتی گندے پانی کی ٹریٹمنٹ کی سمری ،تمام اضلاع میں مناسب سیوریج کا نظام ٹریٹمنٹ پلانٹ کے ساتھ سندھ کے دیہی علاقوں کے لیے ضلع وار سیوریج کی اسکیموں کی فہرست بشمول اے ڈی پی گریٹر کراچی سیوریج پلان ایسIII کی مالی اور فزیکل پروگریس،پانج مشترکہ گندے پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹ کے منصوبے کی تفصیلات، گریٹر کراچی بلک واٹر سپلائی اسکیم کی تفصیلات، کے۔ فور فیز 1 کا 260 ایم جی ڈی اور ضلع کے حساب سے تفصیلات رپورٹ میں شامل ہیں ،مجوزہ منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے تقریباً 400 ارب روپے لاگت آئے گی۔

سندھ کابینہ نے مجوزہ منصوبوں پرمبنی رپورٹ منظورکرتے ہوئے اسے سپریم کورٹ میں جمع کرانے کی منظوری دی، وزیراعلیٰ سندھ نے کابینہ اجلاس کو صاف پانی کی فراہمی و نکاسی آب کے مقدمے میں چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو اپنی پیشی کے متعلق آگاہ کیا اور سندھ حکومت کی جانب سے اس مقصد کے لیے کی گئی کاوشوں کے متعلق بھی آگاہ کیا،انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں رپورٹ تیار کی گئی ہے جس میں پانی اور صفائی کے منصوبے پر عملدرآمد کا پلان ہے۔

کابینہ نے رپورٹ کی منظوری دی ہے اور حکومت کو مجاز کیا ہے کہ وہ اسے سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش کرے، ایک اضافی آئٹم آئی جی پولیس سندھ کی تعیناتی کا بھی اٹھایا گیا، کابینہ کو بتایا گیا کہ باقی حکومت نے ایک بار پھر گریڈ 22 کے تین افسران کا ایک پینل دوبارہ مانگا تھا جن کی رٹائرمنٹ میں دو سال سے زائد کا عرصہ ہو، کابینہ نے تین نام سردار عبدالمجید ، عارف نواز اور مہر خالد دادلاک کے نام نئے آئی جی پولیس کے لیے بھیجنے کی منظوری دی اور کابینہ کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے وفاقی حکومت کو آج خط لکھا جائے۔

اجلاس میں ایک اور آئٹم اٹھایاگیا کہ جوکہ انسداد دہشتگردی کی عدالتوں کی کلفٹن سے سینٹرل جیل کراچی منتقلی کا تھا، 33 اے ٹی سی کورٹ حکومت نے نوٹی فائی کیا ہے جن میں سے 27 عدالتیں کام کررہی ہیں اور 6 خالی ہیں، کابینہ کو بتایا گیا کہ کلفٹن میں باغ ابن قاسم کے نزدیک اے ٹیسز کام کررہے ہیں جنھیں سینٹرل جیل منتقل کرنے کی ضرورت ہے جہاں پر ایک خوبصورت اور نہایت ہی محفوظ عمارت 240 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی ہے۔


وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ یہ دہشتگردوں کو جیل سے ای ٹی سیز کورٹ کلفٹن میں سماعت کے لیے لایا جائے، یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے عدلیہ کی درخواست پر سینٹرل جیل میں اے ٹی سی کورٹ قائم کیے ہیں،وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ حکومت عمارت جہاں سے اے ٹی سیز کورٹ سینٹرل جیل منتقل کی جارہی ہیں وہاں پر ایک خوبصورت لائبریری قائم کرے گی،کابینہ نے سندھ انڈسٹریز رجسٹریشن ایکٹ 2017 کا ایک اور آئٹم بھی بطور اضافی ایجنڈے کا اٹھایا اس کے تحت صوبے میں صنعتوں کے اضافے اور انکی رجسٹریشن کی سہولت فراہم ہوگی۔

صوبائی وزیر صنعت نے وزیراعلیٰ سندھ کو سندھ سے متعلق بریفنگ دی،انھوں نے کہا کہ رجسٹریشن اور منصوبہ بندی کے تحت گروتھ سے محکمہ صنعت ضروری سہولیت کی فراہمی کے لیے ضروری پلاننگ کرنے کے قابل ہوجائے گا، ان سہولیات میں ٹریٹمنٹ پلان ، سڑکیں اور دیگر متعلقہ انفرااسٹرکچر شامل ہے، کابینہ نے صوبائی وزیر صنعت،صوبائی وزیر محنت،چیئرمین پی اینڈ ڈی محمد وسیم کے تحت ایک سب کمیٹی بھی تشکیل دی جوکہ بل کا دوبارہ جائزہ لے گی تاکہ اسے صنعت کاروں کے بہتر مفاد میں بنایا جاسکے۔

علاوہ ازیں سندھ کے وزیراطلاعات سیدناصرحسین شاہ نے کہاہے کہ کراچی میں فراہمی نکاسی آب کا مسئلہ نیا نہیں ہے جو آج مسیحا بنے ہوئے ہیں وہ ہی مسائل کے ذمے دار ہیں اوراب مگر مچھ کے آنسو بہارہے ہیں، مصطفی کمال نے ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اراضی پرقبضہ سے متعلق سپریم کورٹ میں غلط بیانی کی، سندھ کابینہ نے پینے کے صاف پانی کی فراہمی ونکاسی آب سے متعلق کئی منصوبے منظورکرلیے ہیں، انہوں نے کہا کہ مریم نواز اپنی ٹیم سندھ میں بھیجیں،ان کی ٹیم سکھر سے سروے شروع کرے ہر اسپتال کا دورہ کرے حقائق سامنے آجائیں گے،وفاقی حکومت سندھ میں مسائل پیدا کررہی ہے،ہم نے عدالتوں کے فیصلے پر عمل کرکے 22 گریڈ کے افسران کے نام وفاق کوارسال کیے،ان خیالات کا اظہارانھوں نے ہفتہ کو سندھ کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔

ناصرشاہ نے کہا کہ عدالت عظمی نے صاف پانی کی فراہمی سے متعلق رپورٹ چارہفتوں میں جمع کرانے کوکہا تھا جس پرسندھ کابینہ نے آج تفصیلی غورکیا ہے اور کئی منصوبے منظور کیے ہیں۔انہوں نے کہاکہ سندھ حکومت سپریم کورٹ میں تفصیلی جواب جمع کرائے گی۔

وزیراطلاعات نے کہاکہ پینے کے صاف پانی، سیوریج کی اسکیمز پورے سندھ کے لیے بنادی ہیں،ماضی میں کے فور اور ایس تھری منصوبوں کے تخمینے درست نہیں لگائے گئے کے فورمنصوبے کی لاگت 37 ارب روپے تک پہنچ گئی ہیجو آج مسیحا بنے ہوئے ہیںوہی مسائل کے ذمے دار ہیں ٹریٹمنٹ پلانٹ ٹو کی زمینوں پر قبضہ کرایا گیا، مگرسابق ناظم کراچی مصطفی کمال سپریم کورٹ میں جھوٹا بیان دیکر آئے، مریم نواز اپنی ٹیم سندھ میں بھیجیں،ان کی ٹیم سکھر سے سروے شروع کرے ہر اسپتال کا دورہ کرے حقائق سامنے آجائیں گے، انھوں نے مریم نوازکو مریم آپا قراردیتے ہوئے کہاکہ وہ جو مرضی چاہیں کہہ دیں۔ مریم آپا بتائیں اس دور حکومت میں پنجاب میں کتنے اسپتال بنائے گئے۔

ایک سوال کے جواب میں ناصر شاہ نے کہا کہ آئی جی سندھ کا معاملہ کافی عرصے سے چل رہاہے، سندھ حکومت نے نام بھیجے ہیں اب وفاق کو اس پر عمل کرنا چاہیے،وفاقی حکومت سندھ میں مسائل پیدا کررہی ہے، ہم نے عدالتوں کے فیصلے پر عمل کرکے 22 گریڈ کے افسران کے نام وفاق کوارسال کیے،آئی جی سندھ کے لیے ہمارے بھیجے گیے 3 نام درست تھے جب فیصلہ ہوا ہے کہ 22 گریڈ کے پولیس افسر کا تقرر کیا جائے تو سندھ حکومت کے بھجوائے گئے تین ناموں سے کسی گریڈ 22 کے کسی ایک پولیس افسر کو تعینات کرنے میں کیاقباحت ہے۔

 
Load Next Story