نبیل گبول اور لیاری کی سیاست

نبیل گبول کے فیصلے کے مضمرات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لیاری کی سیاسی اور سماجی زندگی کو سمجھاجائے۔

muqtidakhan@hotmail.com

پیپلزپارٹی کے سابق رکن قومی اسمبلی اور لیاری کے اہم سیاسی خاندان کے چشم وچراغ نبیل گبول نے پیپلز پارٹی سے طویل ناتا توڑنے کے بعد اپنے ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔ان کے اس فیصلے سے سندھ بالخصوص کراچی اورلیاری کی سیاست میںہلچل پیدا ہوگئی ہے۔یہاں کئی سوالات پیداہوئے ہیں۔اول،نبیل گبول کے اس فیصلے سے ایم کیو ایم کو کیا فوائد حاصل ہوئے ہیں اور پیپلز پارٹی کو کیا نقصان پہنچاہے؟

دوئم،ان کے اس فیصلے سے سندھ میں جاری لسانی تفاوت میں کسی قسم کی کمی کی توقع کی جاسکتی ہے یا نہیں؟سوئم،نبیل گبول کی اپنی سیاسی حیثیت پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟یہ وہ سوالات ہیں جو ہرشہری کی زبان پر ہیں۔اس موضوع پر اظہار خیال کرنے سے قبل ہم نے لیاری سے تعلق رکھنے والی تین صاحب الرائے شخصیات کی رائے جاننا ضروری سمجھا۔ان میں سینئرصحافی نادرشاہ عادل، معروف ٹریڈیونین لیڈر عثمان بلوچ اورمعروف سیاسی رہنما یوسف مستی خان شامل ہیں۔

نبیل گبول کے فیصلے کے مضمرات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ لیاری کی سیاسی اور سماجی زندگی کو سمجھاجائے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میںموجود علاقوں میںتقسیم ہند سے قبل پختونخواہ اور سندھ میں سیاسی شعوردیگر علاقوں کے مقابلے میں زیادہ تھا۔جب کہ ساحلی شہر کراچی کے غریب محنت کشوںکی بستی لیاری میںسندھ کے دیگر شہروں کے مقابلے میں زیادہ سیاسی شعور پایاجاتا تھا۔یہ علاقہ اس زمانے میں کانگریس کا گڑھ کہلاتا تھا۔جہاں اس جماعت کے کئی بڑے جلسے ہوئے، جن میں کانگریس کی مرکزی قیادت نے شرکت کی۔قیام پاکستان کے بعد بھی یہ حلقہ سیاسی سرگرمیوں میں پیش پیش رہا۔

خاص طور پر بائیں بازو کی سیاست میںاس کا کلیدی کردار رہا۔ جمہوریت کی بحالی اور صوبائی خود مختاری کے لیے ہونے والی جدوجہد کا مرکز ہونے کے علاوہ ٹریڈیونین تحاریک کا مرکز بھی رہاہے۔خود میں نے اندرون سندھ سے کراچی آنے کے بعد لیاری کی جن شخصیات سے استفادہ کیا، ان میں لالہ لعل بخش رند مرحوم جیسی تہہ دار شخصیت کے علاوہ بابا رحیم بخش بلوچ اور عثمان بلوچ جیسے قدآورٹریڈیونین لیڈرشامل ہیں۔مجھے نادر شاہ عادل جیسے صحافیوں اور ن م دانش جیسے شاعروں کی صحبت میں بیٹھنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔

اب جہاں تک لیاری کی سماجی زندگی کاتعلق ہے،تو قیام پاکستان سے قبل اس علاقے میں بلوچ اور کچھی محنت کش آباد تھے۔کچھی لیاری کے جنوب مشرقی علاقے سے ہوتے ہوئے ویسٹ وہارف تک آباد تھے۔لیاری سے تعلق رکھنے والے کچھی اور بلوچ دونوں ہی کی اکثریت کا پیشہ ماہی گیری، بندرگاہ پر مزدوری اور بسوں اور ٹراموں میںڈرائیوری اور کنڈکٹری رہاہے۔لیکن اس سرزمین نے کئی نابغہ روزگارہستیاںبھی پیداکیں۔جن میں قلمکار،دانشور،صحافی،کھلاڑی اور فنکار شامل ہیں۔اردو اور بلوچی کے کئی نامی گرامی شعراء نے اس مٹی سے جنم لیا۔ بلوچی زبان کے صوفی شاعر سید ملنگ شاہ کی صاحبزادی محترمہ بانل دشتیاری بلوچی زبان کی بے مثل شاعرہ اور ادیبہ تھیں۔

اس کے علاوہ ن م دانش جیسا اردوکافقید المثال شاعر بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتاہے۔ پروفیسر علی محمد شاہین مرحوم جیسا مدبراوردانشور بھی اسی مٹی سے اٹھا تھا۔ فٹ بال اہل لیاری کا پسندیدہ کھیل رہاہے اوریہی وجہ ہے کہ اس علاقے نے فٹبال کے کئی عالمی شہرت یافتہ کھلاڑیوںکا جنم دیا۔ قیام پاکستان کے بعد پختون، پنجابی ، اردوگجراتی بولنے والے بھی اس علاقے میں آباد ہوئے۔اس طرح آج یہ بلوچ اکثریتی ہونے کے باوجود کثیراللسانی حلقہ ہے۔

جیسا کہ اوپر بیان کیاجاچکاہے کہ سیاسی شعور میںلیاری کااپنا منفرد مقام ہے۔اس علاقے نے ویسے تو کئی بلندقامت شخصیات کو جنم دیا،لیکن خان بہادراللہ بخش گبول مرحوم خاصی فعال اور متحرک شخصیت تھے۔انھوں نے برطانوی دور میں مسلم لیگی رہنما سرعبداللہ ہارون کو اس حلقے سے شکست دی تھی۔قیام پاکستان کے بعد وہ دو مرتبہ کراچی کے میئرمنتخب ہوئے۔ پہلادوراپریل 1951ء سے جنوری1953ء تک، جب کہ دوسرا دور مئی1961ء سے اکتوبر1962ء تک محیط رہا۔پیپلز پارٹی کے قیام کے ساتھ ہی یہ خاندان اس جماعت میںشامل ہو گیا تھا۔


ان کے بیٹے بیرسٹر عبدالستار گبول نے1970ء کے انتخابات میں لیاری کی نشست سے حصہ لیا اور سر عبداللہ ہارون کے فرزند سعید ہارون مرحوم کو شکست دے کر یہ نشست حاصل کی۔وہ دن ہے اور آج کا دن لیاری پیپلز پارٹی کی اور پیپلز پارٹی لیاری کی شناخت بن چکے ہیں۔عبدالستار گبول کے بھتیجے اور احمد گبول کے فرزند نبیل گبول نے بھی اپنے سیاسی سفر کا آغاز پیپلز پارٹی سے کیا۔وہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پرایک مرتبہ صوبائی اسمبلی اور دو مرتبہ قومی اسمبلی کے رکن رہے۔یوں نبیل گبول تین پشتوں سے سیاست سے وابستہ معتبرسیاسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔

نبیل گبول کے اپنے ساتھیوں سمیت متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت پر جب ہم نے سینئر صحافی نادر شاہ عادل سے سوال کیا،تو ان کاکہناتھا کہ حالات بتارہے ہیں کہ سیاسی حالات میںتمام نشیب وفراز اور ووٹوں کی تعداد میں کمی بیشی کے باوجود لیاری پیپلز پارٹی ہی کا گڑھ رہے گا۔ان کا کہناتھا کہ نبیل گبول کے جانے سے لیاری کی سیاست پرکوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔البتہ ان کا کہناتھا کہ اس علاقے کو سیاسی جماعتوں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر جس طرح گینگ وارکی آگ میں جھونکا ہے،اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔یوسف مستی خان کا کہناتھا کہ لیاری میں اس وقت گینگ وار کی مافیائوںکاراج ہے،اس لیے وہاں ماضی کی جمہوری سیاست کے تسلسل کاتصور ختم ہوگیاہے۔

ان کا کہناتھاکہ نبیل کوچونکہ پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ملنے کی امید نہیں تھی،اس لیے انھوں نے متحدہ کے ساتھ جاکر قومی اسمبلی کی نشست پکی کی ہے۔ان کا یہ بھی کہناتھا کہ شہر میں نفرتوں کی جو سیاست کی جارہی ہے،اس کو دیکھتے ہوئے نبیل کے ایم کیوایم میں جانے سے لسانی تفاوت میں کمی آنے کے امکانات بہت کم ہیں۔عثمان بلوچ کا کہناتھا کہ نبیل گبول کے متحدہ میں جانے سے لیاری میں ووٹ تقسیم ہوگا۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پیپلز پارٹی کے بعض وزراء کی پالیسیوں کی وجہ سے لیاری بدامنی کا گڑھ بن گیاہے۔اس کے علاوہ کچھیوں اور بلوچوں کے درمیان بھی فاصلے بڑھے ہیں،جس کا فائدہ ایم کیو ایم کو پہنچا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ پیپلزپارٹی لیاری کی نشست تو نکال لے گی،لیکن متحدہ کواس علاقے میں جگہ بنانے کا بہر حال موقع مل گیا ہے۔دوسرے کھارادر والی نشست جس پر ایم کیو ایم کو شدید مقابلے کا سامناکرنا پڑتا رہا ہے،اب اس کے لیے قدرے آسان ہوجائے گی۔ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہناتھا کہ نبیل گبول کے متحدہ میں جانے سے لیاری میںگینگ وار کے مختلف گروپوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور علاقے میں سیاسی فیصلہ سازی میں پیپلزامن کمیٹی کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔اس لیے پیپلز پارٹی اب امن کمیٹی کے ساتھ معاملات طے کرنے پر مجبورہوگئی ہے۔

دوسری طرف امن کمیٹی کے عذیربلوچ نے بھی پیپلز پارٹی سے مذاکرات کے لیے بزرگ کمیٹی تشکیل دی ہے،جو محترمہ فریال ٹالپر اور اویس ٹپی سے مذاکرات کر رہی ہے۔عثمان بلوچ کے مطابق لیاری کی مخدوش صورتحال کے سبب نظر اندازکیے جانے والے پیپلزپارٹی کے دیرینہ کارکن حکیم بلوچ کی اہمیت بھی بڑھ گئی ہے، جو کراچی کے اطراف میں موجود بلوچ اور سندھی بستیوں میںخاصے مقبول ہیں۔

گبول ایک بڑا بلوچ قبیلہ ہے، جو لیاری کے علاوہ کراچی کے اطراف میںموجودگوٹھوںمیںبڑی تعداد میں آباد ہے اور سیاست میں خاصا فعال ہے۔گڈاپ ٹائون سے تعلق رکھنے والے بعض گبول نوجوانوں سے جب اس حوالے سے گفتگو کی تو مختلف آراء سامنے آئیں۔کچھ نوجوانوں کا کہناہے کہ 2005ء سے2010ء کے دوران قائم ہونے والی مقامی حکومت میں ایم کیوایم نے کراچی کے دیہی علاقوںکی ترقی پر توجہ نہیں دی۔جس کی وجہ سے گزشتہ پانچ برسوںکے دوران لسانی نفرتوںمیں اضافہ ہواہے۔اس لیے نبیل گبول کے ایم کیو ایم میں جانے سے کراچی کے بلوچوںپرزیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

اس کے برعکس نوجوانوں کے ایک دوسرے گروپ کا کہناہے کہ ہمارا مستقبل کراچی سے وابستہ ہے اور ہمیں ان لوگوں کے ساتھ مل کر رہنا ہے، جو شہر کے مختلف حصوں میں اب ایک حقیقت ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے مسائل کواندرون سندھ سے آنے والے وزراء کے مقابلے میںایم کیو ایم زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔اس لیے ایم کیو ایم کے ساتھ ہمارا اتحاد فطری ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہناہے کہ رکن صوبائی اسمبلی رفیق انجینئر مرحوم بھی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں پیپلز پارٹی سے مایوس ہوگئے تھے، کیونکہ وہ بھی چند برسوں سے اپنے حلقے میں جانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔اب چونکہ ان کا انتقال ہوچکاہے،اس لیے ان کے رویوں میںکسی تبدیلی پرقیاس آرائیاں بیکار ہیں۔

نبیل گبول کے اپنے ساتھیوں سمیت ایم کیوایم میں جانے سے کراچی کے اس قدیمی حلقے کی سیاست میں تبدیلی کے آثار بہرحال پیداہوئے ہیں،جس کے دور رس نتائج برآمد ہونے کے امکانات کو بھی ردنہیں کیا جاسکتا۔یہ طے ہے کہ نبیل گبول عزیزآباد کے حلقے سے اگلی قومی اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی نئی پارٹی کو لیاری میں عوامی سطح تک مقبول بنانے میںکس حد تک کامیاب ہوں گے۔شاید اسی کردار کی بنیاد پر نئی جماعت میں ان کی پوزیشن کا تعین ہوسکے گا۔لیکن جہاں تک ایم کیو ایم کاتعلق ہے،تو یہ اس کے لیے یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ وہ کراچی کے ایک قدیمی سیاسی خاندان کے اہم فرد کو اپنی صفوں میں شامل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔
Load Next Story