مٹھاس کے سودے میں کڑواہٹ کیوں

غریب کاشتکار پورے سال کی محنت و مشقت کے بعد جسم کی طاقت بیچنے کے لیے دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں

PARIS:
شاعر نے کسانوں کی فاقہ کشی سے سلگ کر کہا ہوگا کہ 'جس کھیت سے دہقان کو میسر نہ ہو روزی، اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو'۔ آج حالات اس قدر خراب صورتحال اختیار کرچکے ہیں کہ قصور کے ایک کاشتکار جعفر نے خود اپنی پانچ ایکڑ پر کھڑی فصل کو مناسب قیمت نہ ملنے پر آگ لگادی۔ اپنی سال بھر کی محنت کو اس طرح تباہ کرتے وہ کس کرب سے گزرا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں۔

یہ پانچ ایکڑ فصل اس کی کل کائنات تھی، جس کے گرد اس کے سارے خاندان کی حیات گھومتی تھی۔ ملز مالکان کے رویے سے تنگ آکر وہ اس انتہائی اقدام پر مجبور ہوا ہوگا۔ جعفر جیسے ہزاروں کسان خاندان پورے سال کے معاشی مستقبل پر فکرمند ہیں، کئی ایک نے دل برداشتہ ہوکر خود سوزی کی کوشش بھی کی ہے۔ سندھ کے کسان سراپا احتجاج ہیں کہ مل مالکان انھیں صحیح قیمت نہیں دے رہے۔

حکومت وقت اور مل مالکان گٹھ جوڑ سے اب تک کروڑوں کا نقصان ہوچکا ہے، اس وقت پورے سندھ میں 32 میں سے صرف 7 شوگر ملیں کھلی ہیں، عدالتی احکام کی پروا نہ کرتے ہوئے 25 شوگر ملیں اب تک بند پڑی ہیں، چھوٹے کاشتکاروں کے گھر فاقوں کی نوبت ہے، مگر شوگر مافیا نے اس کاروبار کو بھی معاشی منڈی میں ایک سوالیہ نشان بنادیا ہے۔

غریب کاشتکار پورے سال کی محنت و مشقت کے بعد جسم کی طاقت بیچنے کے لیے دربدر بھٹکتے پھر رہے ہیں۔ میرے دیس کی مٹی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی، لیکن، اس زر و جواہر کے خریدار تو اسے مٹی کے بھاؤ خریدنا چاہتے ہیں۔ سیاسی و سماجی ٹھیکے داروں نے اپنے لالچ کے لیے کسانوں کے خون پسینے کو بے توقیر کردیا ہے، خواہ اس کے بدلے کسان غربت، بیماری اور بھوک سے مرتے ہیں تو مرجائیں، ان بے حسوں کو کسانوں کی بنیادی ضرورتیں نظر نہیں آتیں۔

آخر ان غریبوں کو بھی اپنے گھر کے لیے راشن اور بچوں کے لیے دودھ خریدنا ہے۔ اس فرسودہ نظام کو بدلنے کے لیے کون قانون سازی کرے گا اور سب سے بڑھ کر ان پر عمل درآمد کون کروائے گا۔ کیونکہ قانون سازی سے لے کر عملی جامہ پہنانے تک ہر جگہ شوگر مالکان براجمان ہیں۔

پرانی زرعی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں، 1950 ایکٹ کے تحت اگر کسی شوگر مل پر قانونی کارروائی ہو بھی جائے تو محض ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوگا، جب کہ اب یہ کہانی اربوں کے منافعے تک جا پہنچی ہے۔ دوسری جانب کسانوں کے احتجاج کے جواب میں مل مالکان بھی ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں۔ بقول غالب؎

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے، ہم اپنی وضع کیوں بدلیں


یہ ایک بنیادی رویہ ہے، جس میں بے حسی و خودغرضی شامل ہے۔ محض اپنے انفرادی مفاد کی خاطر کاشتکاروں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے، جن کے شب و روز ویسے ہی بڑے زمینداروں کی خوشنودی کی دین ہوتے ہیں۔ کاشتکاروں کو خوشامد و تعلقات ہی کی بدولت فصل کے لیے پانی ملتا ہے۔ خوش قسمتی سے اگر فصل اچھی ہوگئی اور اس سے بھی زیادہ مقدر ساتھ دے تو قیمت بروقت مل جائے تو ٹھیک، ورنہ بات قرضے پر آجاتی ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ گنے کی فصل کی رقم مل مالکان فوراً ادا کردیں، مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا، لیکن اس بار تو حالات کچھ زیادہ ہی خراب نظر آتے ہیں۔ کوئی شوگر مل کسانوں سے گنا خریدنے کے لیے تیار ہی نہیں، شاید ایسا لکھنا چاہیے کہ لالچ اور حرص کا پیمانہ بہت بڑھ گیا ہے۔ یہ بھی المیہ ہے کہ تمام بڑی جماعتوںکے کرتا دھرتا شوگر ملز مالکان ہیں، وہ بھلا اپنے لیے گھاٹے کا سودا کیسے کرسکتے ہیں، باہمی مفاد کے لیے یہ سب متحد ہونے میں دیر نہیں کرتے۔

پاکستان گنے کی پیداوار کے حوالے سے دنیا کا پانچواں ملک ہے، ہر سال کی طرح کرشنگ سیزن شروع ہونے کے بعد گنے کی قیمت کو لے کر تنازعہ شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے نوٹیفکیشن کے باوجود اب تک معاملات درست نہیں ہوسکے۔

اس بار سارا فساد کسانوں سے گنے کی خریداری میں قیمت کو لے کر تکرارکی جارہی ہے، خریدنے والا چاہتا ہے کہ کم سے کم قیمت پر فصل حاصل کرلی جائے، جب کہ کاشتکار کی مرضی ہے کہ اسے اپنی محنت کا معقول معاوضہ ملے۔ کسانوں کا استحصال کوئی نئی بات نہیں، صنعتکار تو زرعی زمینوں پر بھی اپنی نظریں مرکوز رکھتے ہیں، ہوسکتا ہے اگلی بار کاشتکار بدظن ہوکر گنے کی کاشت کے بجائے کسی اور فصل کی جانب متوجہ ہوجائیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود آج تک زرعی شعبے میں کوئی خاطر خواہ ترقی نہیں کرسکا۔ کس وقت اور کتنی پیداواری صلاحیت کے ساتھ نئی فصل لگائی جائے، اس قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس کا نظام رائج نہیں۔ نئی کاشت سے قبل کسانوں کو اس قسم کے مشورے دینے کی ذمے داری زرعی محکموں پر عائد ہونی چاہیے تاکہ طلب و رسد کا پیمانہ برابر رہے۔

کسانوں کے مفادات پر بل و قانون تو بہت پاس کیے جاتے ہیں، لیکن ان میں اب تک کتنے قابل عمل ہوئے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ کچھ دن قبل کراچی کی سڑکوں پر بھی ان کسانوں نے احتجاج کیا تھا، جس کی پاداش میں ان پر لاٹھی چارج، واٹرکینن اور آنسو گیس کے شیل استعمال کیے گئے۔ یہ احتجاج ریڈ زون کی جانب جانا چاہتا تھا تاکہ اپنے لیڈر تک اپنی شکایت پہنچائی جاسکے، لیکن انھیں روک دیا گیا۔ کئی مہینے سے قائم اس بحران سے کسان سخت پریشان ہیں۔

اہل اقتدار و اختیار کی نااہلی و خودغرضی مشکلات کو بڑھا رہی ہے، لیکن اب استحصالی نظام کو بدلنا ہوگا۔ معاشرے کے کمزور طبقے کا حق غصب کرنے والوں کو کوئی تو سزا ہونی چاہیے۔ مٹھاس سب کو پسند ہے خواہ باتوں میں ہو یا چائے کی پیالی میں، مگر جب شیرینی میں سرمایہ دار طبقہ زہر شامل کردے تو یہ کڑاوہٹ ناقابل معافی سزا بن جاتی ہے۔
Load Next Story