جناب چیف جسٹس۔ اصل مسئلہ ڈاکٹرز مافیا ہے 

غرض کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کوئی بھی سرکاری اسپتال ان ینگ ڈاکٹرز کی مانے بغیر آگے نہیں چل سکتا

msuherwardy@gmail.com

کسی بھی مہذب معاشرے میں صحت اور تعلیم پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ جمہوریت کی پہچان بھی یہی ہے کہ اس میں عوام پہلی ترجیح ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان میںا ن دونوں شعبوں پر وہ توجہ نہیں دی جا سکی جس کی ضرورت تھی۔ جس کیوجہ سے نظام تعلیم اور نظام صحت دونوں ہی انحطاط کا شکار ہیں۔ اشرافیہ اپنے بچوں کو تعلیم اور علاج کے لیے بیرون ملک ہی بھیجتے ہیں۔ وہ جو ملک پر جان قربان کرنے کی قسم کھاتے ہیں اپنے طبی ٹیسٹ بھی باہر سے کرواتے ہیں۔

محترم جناب چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب میں صحت کی سہولیات کے حوالے سے ایکشن لیا ہے۔ تمام اسپتالوں میں موجود صحت کی سہولیات کے حوالے سے ایم ایس حضرات اور شعبہ صحت کے ذمے داران سے رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ انھوں نے پنجاب میں صحت کے شعبہ میں موجود سہولیات پر نہ صرف عدم اعتماد بلکہ ناراضی کابھی اظہار کیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ محترم چیف جسٹس کی توجہ سے پنجاب میں صحت کی سہولیات نہ صرف بہتر ہو جائیں گی بلکہ عام آدمی کو میسر بھی ہونگی۔

یہ ٹھیک ہے کہ سہولیات کی کمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے لیکن پھر بھی یہ سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ سرکاری اسپتالوں میںسب سے بڑا مسئلہ ڈاکٹر خود ہیں۔ ینگ ڈاکٹرز ایک مافیا بن چکے ہیں۔ بیچارہ ایم ایس اور شعبہ صحت کے ذمے داران تو ان سے عزت بچاتے پھرتے ہیں۔ ڈیوٹیاں ان کی مرضی سے لگتی ہیں۔ حتیٰ کہ اسپتالوں میں کینٹین اور دیگر مراعاتی ٹھیکے بھی ان کی مرضی سے دیے جاتے ہیں۔ اگر نہ دیے جائیں تو یہ ینگ ڈاکٹرز ہڑتال کروا دیتے ہیں، ایم ایس حضرات کو مارتے ہیں۔

غرض کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کوئی بھی سرکاری اسپتال ان ینگ ڈاکٹرز کی مانے بغیر آگے نہیں چل سکتا۔ اسپتال کی انتظامیہ کی کیا بات کریں ہمیں تو محکمہ صحت کے ذمے داران بھی ان کے سامنے سرنگوں ہی نظر آئے ہیں۔ جہاں اسپتال میں جونیئر ڈاکٹرز نے اسپتال کے نظام کو کافی حدتک مفلوج کر رکھا ہے۔ وہاں سنیئر ڈاکٹرز پیسے بنانے کے ایسے چکر میں لگے ہوئے ہیں اور انھیں اسپتال کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے۔

کیا ہی اچھا ہو کہ محترم چیف جسٹس صاحب سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والے سنیئر ڈاکٹرز کی پرائیویٹ پریکٹس کے حوالے سے بھی کوئی موثر حکم پاس کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا نہیں ہے کہ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی کمی ہے۔ کم از کم بڑے شہروں کے تمام بڑے اسپتالوں میں مناسب تعداد میں ڈاکٹر موجود ہیں لیکن مسئلہ تو یہ ہے کہ یہ ڈاکٹر کام نہیں کرتے۔ یہ سرکاری اسپتالوں میں غریب مریضوں کو مفت دیکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تین سے پانچ منٹ کے ڈھائی سے تین ہزار روپے فیس لینے والے یہ پروفیسر دس روپے کی پرچی پر مریض کیوں دیکھیں۔ انھوں نے تو اسپتالوں میں اپنے بورڈ صرف اپنی پریکٹس کو چار چاند لگانے کے لیے لگائے ہوئے ہیں۔ بیچارے مریض کو تو ان کے کمرے میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں۔ وہ تو ان کا بورڈ پڑھتا ہے اور پوچھتا ہے کہ بڑے ڈاکٹر صاحب شام کو کہاں بیٹھتے ہیں۔ تا کہ بھاری فیس دے کر چیک کروایا جا سکے۔


کہا جاتا ہے کہ یہ پروفیسر مافیا اتنا طاقتور ہے کہ ان سے کوئی نہیں ٹکرا سکتا۔ اگر چیف جسٹس صاحب سرکاری ملازم پروفیسر اور ایسو سی ایٹ پروفیسرز کی شام کی پریکٹس پر پابندی عائد کر سکیں توشائد یہ لوگ اسپتالوں میں مریض دیکھنے پر تیار ہو سکیں۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ان پروفیسر اور دیگر سنیئر ڈاکٹرز کو پرائیوٹ پریکٹس سے منع کر دیا گیا تو یہ پیسے کیسے کمائیں گے۔ میں اس کو ایسے نہیں سمجھتا بلکہ یہ بات ایسا کہنا زیادہ بہتر ہوے کہ اگر ان کو غریب کا خون چوسنے سے منع کر دیا جائے گا تو یہ مرجائیں گے۔ ورنہ سرکاری اسپتالوں سے ان کو اتنی تنخواہ تو مل رہی ہے جس سے یہ اچھی زندگی گزار سکیں۔ کیونکہ ڈاکٹرز کو سرکاری اسپتالوں سے وہی تنخواہیں مل رہی ہیں جواس گریڈ کے دیگر سرکاری افسروں کو مل رہی ہے۔

باقی سب کا تو گزارا ممکن ہے لیکن ڈاکٹروں کا نہیں۔ جب تک سرکاری اسپتالوں میں تعینات سنیئر ڈاکٹرز کی پرائیویٹ پریکٹس پر کوئی عملی رکاوٹ نہیں ہو گی تب تک سرکاری اسپتالوں میں غریب کو علاج نہیں مل سکتا۔ اس منطق کا بھی کوئی حل نکلنا ہو گا جس کے تحت یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ان کو پرائیویٹ پریکٹس سے روک دیا گیا تو یہ ملک سے بھاگ جائیں گے۔ پاکستان میں سینئر ڈاکٹرز کی کمی ہو جائے گی۔ مجھے تواس کا یہی مطلب سمجھ آتا ہے کہ اگر ان کو غریب مریضوں کا خون چوسنے سے منع کر دیا گیا تو یہ ملک چھوڑ جائیں گے۔

اب ان کو ملک میں رکھنا ہے یا نہیں۔ اور رکھنا ہے تو کس قیمت پر۔ سرکاری اسپتالوں میں وسائل کی کمی ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسپتالوں میں سب ٹھیک ہے۔ لیکن پھر بھی سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی کمی نہیں ہے بلکہ سب سے بڑا مسئلہ ڈاکٹروں کی دولت کی ہوس ہے۔ ستم ظریفی دیکھیں کہ متعدد ڈاکٹرز ہزاروں روپے فیس لیتے ہیں لیکن اس کی رسید نہیں دیتے۔ اس پر ٹیکس نہیںدیتے۔ اگر ان ڈاکٹرز کی پرائیویٹ پریکٹس پر پابندی لگ جائے اور ان کی آمدن پر ٹیکس لگ جائے تو تو یہ سب کلینک بند ہو جائیں۔ اور کافی حد تک خرابی دور ہو جائے۔ لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا۔

اسی طرح پرائیویٹ میڈیکل کالجز بھی کالج نہیں ڈیپارٹمنٹل اسٹور ہیں۔ جہاں پیسے کی بنیاد پر ڈگریاں بیچی جاتی ہیں۔ میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ لاڈلوں کو داخلے دیے جاتے ہیں۔ اور نالائق ڈاکٹر پیدا کیے جاتے ہیں۔ نہ یہ کسی میرٹ کو ماننے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی فیس کا کوئی نظام وضع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ کالج بھی پروفیسرز کے کلینکس کی طرح پیسے بنانے کی دکانیں ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ پاکستان کی خدمت نہیں بلکہ پاکستان پر ظلم کر رہے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں نہیں اربوں روپے منافع کما رہے ہیں۔ان کی نہ صرف فیس پر کنٹرول ہونا ضروری ہے بلکہ ان کے داخلوں پر بھی کنٹرول ہونا بھی ضروری ہے۔

جناب چیف جسٹس نے کہا ہے کہ اگر صحت کی سہولیات ٹھیک نہ کی گئیں تو وہ اورنج لائن بند کر دیں گے۔ ان کا غصہ بجا ہے لیکن اورنج لائن تو پھر غریب کا ہی منصوبہ ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ محترم چیف جسٹس حکم دیتے کہ جب تک ڈاکٹر سرکاری اسپتالوں میں ٹھیک کام نہیں کرتے ان کی پرائیویٹ پریکٹس بند کر دی جائے گی۔ جب تک سرکاری اسپتال میں غریب کا علاج ٹھیک نہیں ہو تا ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتالوں پر پابندی ہو گی۔ پرائیوٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر کو بھی جیل جانا ہو گا۔ اور ہڑتال کرنے والے ڈاکٹر کو بھی جیل جانا ہو گا۔ آپ یقین کیجیے آدھے مسائل حل ہو جائیں گے۔ اور باقی آدھے کے ٹھیک ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ اور حکومت بھی ٹھیک ہو جائے گی۔
Load Next Story