دامن کو ذرا دیکھ
لیکن ذہین اور باوقار قومیں ایسے نازک مراحل اور نامساعد حالات میں دوراندیشی پر مبنی اقدامات کرتی ہیں
لاہور:
ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے DNA میں ہزاروں برس کی غلامی رچی بسی ہوئی ہے۔ ایسے معاشرے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بجائے ایک آقا کی غلامی سے نکل کر دوسرے آقا کی غلامی کی بیساکھیوں میں عافیت تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اس لیے ان کی اجتماعی نفسیات غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ یعنی جہاں جذباتی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں مٹی کے مادھو ثابت ہوتے ہیں۔
جہاں عقل ودانش اور فہم وفراست درکار ہوتی ہے، وہاں جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی بے ہنگم اور بے ربط چیخ و پکار کرتے ہیں کہ سننے والا ان کے دکھ درد کا احساس کرنے کے بجائے تمسخر اڑانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ابن صفی مرحوم اپنے ایک ناول میں لکھتے ہیں کہ ''دعوے ہمیشہ بزدل کرتے ہیں، عملی لوگ اپنی توجہ عمل پر مرکوز رکھتے ہیں''۔ ہم بھی عملاً کچھ کرنے کے بجائے صرف بلند بانگ دعوؤں کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔
اس تناظر میں پاک امریکا تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان تعلقات کی ابتدا قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوگئی تھی۔ مگر پاکستان امریکا کا حلیف 1950ء میں اس وقت بنا، جب ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 3 مئی 1950ء کو امریکا کا 23 روزہ دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انھوں نے اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین سے ملاقات کے علاوہ کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔
یوں پاکستان سرد جنگ میں امریکا کا عملاً حلیف بن گیا۔ اس نتیجے میں فوجی امداد اور افسران کی عسکری تربیت کا سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان مختلف نوعیت کے دفاعی معاہدوں میں جکڑتا چلا گیا۔ جن میں SEATO اور CENTO کے معاہدے اور پشاور کے نزدیک بڈبیر کے ہوائی اڈے کا امریکا کے حوالے کیا جانا شامل تھا۔ ان معاہدوں نے پاکستان کی عالمی حیثیت پر کیا اثرات مرتب کیے، یہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ امریکا اور پاکستان کی خواہشات اور Perceptions روز اول ہی سے مختلف اور متضاد تھیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد بانی پاکستان نے ملک کی معاشی و سماجی ترقی اور استحکام کے لیے امریکا سے امداد کی اپیل کی تھی۔ جس پر امریکا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ امریکی منصوبہ ساز دراصل سرد جنگ میں بھارت کو اپنا حلیف بنانے کے خواہشمند تھے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بھارت کا وسیع انفرااسٹرکچر اور بحرہند کے دہانے پر موجود ہونا، اس کی تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔
بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے عزائم کچھ اور تھے، اس لیے انھوں نے امریکا کا حلیف بننے کی پیش کش کو ٹھکرادیا۔ یوں امریکا پاکستان کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوا۔ لہٰذا شروع ہی سے اس کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان امریکا کے ساتھ کیے گئے دفاعی معاہدوں کو بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل میں بطور ہتھیار استعمال نہ کرے، بلکہ اپنی عسکری صلاحیت کو صرف کمیونزم کے پھیلاؤ اور سوویت یونین کا راستہ روکنے تک محدود رکھے۔
دوسری طرف پاکستان کو اپنے وجود، بقا اور سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق تھے۔ کشمیر کا الحاق تنازع کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔ مہاجرین کی آبادکاری بھی نزاعی شکل اختیار کرچکی تھی۔ اس لیے پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک کے لیے کسی طاقتور ملک کے مضبوط سہارے کی ضرورت لازمی امر تھی۔
لیکن ذہین اور باوقار قومیں ایسے نازک مراحل اور نامساعد حالات میں دوراندیشی پر مبنی ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہوجائیں اور قومی وقار بھی مجروح نہ ہونے پائے۔ مگر ہمارے یہاں عوام کی سوچ، رہنماؤں کے تصورات اور انگریز سے ورثے میں ملی بیوروکریسی کے عزائم ایک دوسرے سے متصادم تھے، جو آج تک ہیں، جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی وانتظامی سمت کا نہ پہلے تعین کیا جاسکا اور نہ اب ہورہا ہے۔
1980ء کے عشرے میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں، تو امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ روس افغانستان کے راستے بحیرہ عرب اور وہاں سے مشرق وسطیٰ تک پہنچنے کے عزائم رکھتا ہے۔ چنانچہ سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت کے انتہائی غیر مقبول فوجی آمر جنرل ضیا الحق کو اپنی حکومت کے تسلسل کے لیے جواز درکار تھا، یوں پاکستانی حکمرانوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں امریکی سردمہری کو نظرانداز کرتے ہوئے، محض اپنے مخصوص ادارہ جاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں دھکیل دیا۔
پاکستان جو قرارداد مقاصد کے نتیجے میں پہلے ہی مذہبی حساسیت کا شکار ہوچکا تھا، ایک مخصوص مسلک کے مدارس کو دینی تعلیم کے بجائے عسکری تربیت کے مراکز میں تبدیل کرکے ملک کو مذہبی آویزش کی بارود کے ڈھیر پر بٹھادیا گیا۔
اس تناظر میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم امریکی اقدامات پر تنقید کرنے کے بجائے اخلاقی جرأت کے ساتھ اپنے فیصلوں اور اقدامات کا ناقدانہ جائزہ لیں۔ ساتھ ہی یہ دیکھنے کی بھی کوشش کریں کہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں کیا نقائص اور کمزوریاں ہیں، جو عالمی سطح پر ہمیں مسائل کی دلدل میں پھنسانے کا باعث ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مذہبی شدت پسندی کے بارے میں صرف امریکا اور مغربی دنیا ہی میں تشویش نہیں پائی جاتی، بلکہ چین جیسا دوست ملک بھی مسلسل تحفظات کا اظہار کررہا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کے عوام کی ایک واضح اکثریت مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے سخت نالاں ہے۔ جن مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے بارے میں دنیا شکوک وشبہات کا اظہار کررہی ہے، عوام کی بڑی تعداد بھی ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی، مگر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا دنیا مسیحی بستیوں کے نذر آتش کیے جانے، ہندو لڑکیوں کو جبری مسلمان بنائے جانے، مختلف عقائد کے مسلمانوں کے درمیان متشدد آویزش اور مشال خان کے سفاکانہ قتل جیسے واقعات کو بھول چکی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہماری حکمران اشرافیہ نے اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے؟
کیا شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپالینے سے دنیا کا منہ بند کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے دینی مدارس کے نصاب کا جائزہ لینے اور ان کے مالیاتی امور کا آڈٹ کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا ان قوانین پر نظرثانی کی کوشش کی جو ملک کے جمہوری تشخص کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں؟ اگر یہ سب نہیں کیا تو پھر واویلا کس بات کا؟
دوسروں کے نکتہ نظر سے اختلاف اور ان پر تنقید بہت آسان ہوتی ہے، لیکن خود احتسابی اور اپنی سمت درست کرنے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک بغیر اپنے قومی مفادات کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرتا، کیونکہ سفارت کاری (Diplomacy) میں اخلاص نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس لیے امریکا ہو یا چین، ان پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسروں کے داغ دھبوں کو تکنے کے بجائے اپنے دامن کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اور ممالک ترقی کرتے اور عالمی سطح پر بلند مقام بناتے ہیں، جو خودانحصاری کو اپنا شعار بناتے ہیں۔
ہم اس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں جس کے DNA میں ہزاروں برس کی غلامی رچی بسی ہوئی ہے۔ ایسے معاشرے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے بجائے ایک آقا کی غلامی سے نکل کر دوسرے آقا کی غلامی کی بیساکھیوں میں عافیت تلاش کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ اس لیے ان کی اجتماعی نفسیات غیر متوازن ہوجاتی ہے۔ یعنی جہاں جذباتی فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں مٹی کے مادھو ثابت ہوتے ہیں۔
جہاں عقل ودانش اور فہم وفراست درکار ہوتی ہے، وہاں جذبات کی رو میں بہہ کر ایسی بے ہنگم اور بے ربط چیخ و پکار کرتے ہیں کہ سننے والا ان کے دکھ درد کا احساس کرنے کے بجائے تمسخر اڑانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ ابن صفی مرحوم اپنے ایک ناول میں لکھتے ہیں کہ ''دعوے ہمیشہ بزدل کرتے ہیں، عملی لوگ اپنی توجہ عمل پر مرکوز رکھتے ہیں''۔ ہم بھی عملاً کچھ کرنے کے بجائے صرف بلند بانگ دعوؤں کو اپنی منزل سمجھتے ہیں۔
اس تناظر میں پاک امریکا تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان تعلقات کی ابتدا قیام پاکستان کے فوراً بعد ہوگئی تھی۔ مگر پاکستان امریکا کا حلیف 1950ء میں اس وقت بنا، جب ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے 3 مئی 1950ء کو امریکا کا 23 روزہ دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انھوں نے اس وقت کے امریکی صدر ہیری ٹرومین سے ملاقات کے علاوہ کئی معاہدوں پر دستخط کیے۔
یوں پاکستان سرد جنگ میں امریکا کا عملاً حلیف بن گیا۔ اس نتیجے میں فوجی امداد اور افسران کی عسکری تربیت کا سلسلہ شروع ہوا اور پاکستان مختلف نوعیت کے دفاعی معاہدوں میں جکڑتا چلا گیا۔ جن میں SEATO اور CENTO کے معاہدے اور پشاور کے نزدیک بڈبیر کے ہوائی اڈے کا امریکا کے حوالے کیا جانا شامل تھا۔ ان معاہدوں نے پاکستان کی عالمی حیثیت پر کیا اثرات مرتب کیے، یہ بھی اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ امریکا اور پاکستان کی خواہشات اور Perceptions روز اول ہی سے مختلف اور متضاد تھیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ قیام پاکستان کے فوراً بعد بانی پاکستان نے ملک کی معاشی و سماجی ترقی اور استحکام کے لیے امریکا سے امداد کی اپیل کی تھی۔ جس پر امریکا نے کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ امریکی منصوبہ ساز دراصل سرد جنگ میں بھارت کو اپنا حلیف بنانے کے خواہشمند تھے۔ کیونکہ ان کے خیال میں بھارت کا وسیع انفرااسٹرکچر اور بحرہند کے دہانے پر موجود ہونا، اس کی تزویراتی اہمیت کا حامل ہے۔
بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے عزائم کچھ اور تھے، اس لیے انھوں نے امریکا کا حلیف بننے کی پیش کش کو ٹھکرادیا۔ یوں امریکا پاکستان کی طرف متوجہ ہونے پر مجبور ہوا۔ لہٰذا شروع ہی سے اس کی یہ خواہش تھی کہ پاکستان امریکا کے ساتھ کیے گئے دفاعی معاہدوں کو بھارت کے ساتھ تنازعات کے حل میں بطور ہتھیار استعمال نہ کرے، بلکہ اپنی عسکری صلاحیت کو صرف کمیونزم کے پھیلاؤ اور سوویت یونین کا راستہ روکنے تک محدود رکھے۔
دوسری طرف پاکستان کو اپنے وجود، بقا اور سلامتی کے حوالے سے شدید خدشات لاحق تھے۔ کشمیر کا الحاق تنازع کی شکل اختیار کرچکا تھا۔ معیشت زبوں حالی کا شکار تھی۔ مہاجرین کی آبادکاری بھی نزاعی شکل اختیار کرچکی تھی۔ اس لیے پاکستان جیسے نوزائیدہ ملک کے لیے کسی طاقتور ملک کے مضبوط سہارے کی ضرورت لازمی امر تھی۔
لیکن ذہین اور باوقار قومیں ایسے نازک مراحل اور نامساعد حالات میں دوراندیشی پر مبنی ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ ان کی ضروریات بھی پوری ہوجائیں اور قومی وقار بھی مجروح نہ ہونے پائے۔ مگر ہمارے یہاں عوام کی سوچ، رہنماؤں کے تصورات اور انگریز سے ورثے میں ملی بیوروکریسی کے عزائم ایک دوسرے سے متصادم تھے، جو آج تک ہیں، جس کی وجہ سے ملک کی سیاسی وانتظامی سمت کا نہ پہلے تعین کیا جاسکا اور نہ اب ہورہا ہے۔
1980ء کے عشرے میں جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں، تو امریکا کو یہ خدشہ لاحق ہوا کہ روس افغانستان کے راستے بحیرہ عرب اور وہاں سے مشرق وسطیٰ تک پہنچنے کے عزائم رکھتا ہے۔ چنانچہ سوویت یونین کا راستہ روکنے کے لیے پاکستان کو فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت کے انتہائی غیر مقبول فوجی آمر جنرل ضیا الحق کو اپنی حکومت کے تسلسل کے لیے جواز درکار تھا، یوں پاکستانی حکمرانوں نے 1965ء اور 1971ء کی جنگوں میں امریکی سردمہری کو نظرانداز کرتے ہوئے، محض اپنے مخصوص ادارہ جاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر پاکستان کو افغانستان کی جنگ میں دھکیل دیا۔
پاکستان جو قرارداد مقاصد کے نتیجے میں پہلے ہی مذہبی حساسیت کا شکار ہوچکا تھا، ایک مخصوص مسلک کے مدارس کو دینی تعلیم کے بجائے عسکری تربیت کے مراکز میں تبدیل کرکے ملک کو مذہبی آویزش کی بارود کے ڈھیر پر بٹھادیا گیا۔
اس تناظر میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم امریکی اقدامات پر تنقید کرنے کے بجائے اخلاقی جرأت کے ساتھ اپنے فیصلوں اور اقدامات کا ناقدانہ جائزہ لیں۔ ساتھ ہی یہ دیکھنے کی بھی کوشش کریں کہ ہماری خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں کیا نقائص اور کمزوریاں ہیں، جو عالمی سطح پر ہمیں مسائل کی دلدل میں پھنسانے کا باعث ہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ مذہبی شدت پسندی کے بارے میں صرف امریکا اور مغربی دنیا ہی میں تشویش نہیں پائی جاتی، بلکہ چین جیسا دوست ملک بھی مسلسل تحفظات کا اظہار کررہا ہے۔
اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ملک کے عوام کی ایک واضح اکثریت مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کے بڑھتے ہوئے رجحانات سے سخت نالاں ہے۔ جن مذہبی جماعتوں اور تنظیموں کے بارے میں دنیا شکوک وشبہات کا اظہار کررہی ہے، عوام کی بڑی تعداد بھی ان کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتی، مگر خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہے۔
یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیا دنیا مسیحی بستیوں کے نذر آتش کیے جانے، ہندو لڑکیوں کو جبری مسلمان بنائے جانے، مختلف عقائد کے مسلمانوں کے درمیان متشدد آویزش اور مشال خان کے سفاکانہ قتل جیسے واقعات کو بھول چکی ہے؟ اگر نہیں تو پھر ہماری حکمران اشرافیہ نے اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے؟
کیا شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپالینے سے دنیا کا منہ بند کیا جاسکتا ہے؟ کیا ہمارے حکمرانوں نے دینی مدارس کے نصاب کا جائزہ لینے اور ان کے مالیاتی امور کا آڈٹ کرنے کی کبھی کوئی سنجیدہ کوشش کی؟ کیا ان قوانین پر نظرثانی کی کوشش کی جو ملک کے جمہوری تشخص کے لیے ایک چیلنج بن چکے ہیں؟ اگر یہ سب نہیں کیا تو پھر واویلا کس بات کا؟
دوسروں کے نکتہ نظر سے اختلاف اور ان پر تنقید بہت آسان ہوتی ہے، لیکن خود احتسابی اور اپنی سمت درست کرنے کے لیے جرأت مندانہ اقدامات کرنا انتہائی مشکل کام ہوتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں کوئی بھی ملک بغیر اپنے قومی مفادات کسی دوسرے ملک کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کرتا، کیونکہ سفارت کاری (Diplomacy) میں اخلاص نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ اس لیے امریکا ہو یا چین، ان پر تکیہ کرنے کے بجائے اپنے معاملات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسروں کے داغ دھبوں کو تکنے کے بجائے اپنے دامن کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں وہی قومیں اور ممالک ترقی کرتے اور عالمی سطح پر بلند مقام بناتے ہیں، جو خودانحصاری کو اپنا شعار بناتے ہیں۔