بندر بانٹ
یوں وہ سارے بندر بستی والوں کے پاس واپس آگئے مگر اس طرح کہ ہر ایک کے قبضے میں کچھ بندر تھے
آپ نے یہ مثل سنی ہوگی کہ بندر بانٹ ہورہی ہے، یعنی کچھ لوگ آپس میں مال کو اس طرح تقسیم کرتے ہیں کہ وہ گھوم پھر کر ان ہی کے پاس آجاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے اس واقعے کو غور سے پڑھیں۔
ایک بستی میں بندروں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوگیا تھا کہ لوگوں کی زندگی اجیرن تھی۔ اس بستی میں ایک چالاک آدمی آیا، اس کے پاس تھوڑا سا مال تھا، اس نے اپنے مال میں اضافے کی ایک اسکیم تیار کی اور اس بستی میں اعلان کروا دیا کہ جو بھی ایک بندر پکڑ کر میرے پاس لائے گا، میں اسے 100 روپے دوں گا۔ بستی والوں نے خوشی خوشی اس سودے کو مان لیا اور روزانہ سیکڑوں بندر پکڑ کر لانے لگے۔
یہ چالاک شخص انھیں سو روپے کے حساب سے خرید لیتا اور ایک بڑے سے پنجرے میں قید کردیتا۔ کچھ دن کے بعد وہاں بندروں کی تعداد کم ہوگئی تو بندر پکڑ کر لانے والے بھی کم ہوگئے۔ چالاک تاجر نے اس بار اعلان کیا کہ اب جو بندر لائے گا اسے میں دو سو روپے دوں گا۔ بستی کے لوگ کھوج لگا کر بندروں کو تلاش کرنے لگے، چونکہ بندروں کی بڑی تعداد کو پہلے ہی پکڑ چکے تھے اس لیے اب کچھ ہی بندر ہاتھ لگتے۔ چالاک تاجر نے وہ بندر بھی دو سو روپے فی کس کے حساب سے خرید لیے۔ جب بندر نایاب ہوگئے تو تاجر نے اعلان کیا، اب جو بندر لائے گا اسے تین سو روپے ادا کروں گا۔ کچھ لوگ قسمت کے دھنی تھے، وہ بچے بندر پکڑ کر لے آئے۔ انھیں تین سو کے حساب سے رقم مل گئی۔
بستی کے غریب لوگ اس تاجر سے بہت خوش تھے، ایک طرف بندروں کی شرارت سے محفوظ ہوگئے اور بستی والوں کو رقم بھی مل گئی۔ اب حال یہ تھا کہ بستی میں بندر تھے ہی نہیں اس لیے لاتے کہاں سے۔ اس صورتحال میں چالاک تاجر نے ایک اور اعلان کردیا کہ اب جو بھی بندر لے کر ائے گا ہم ایک ہزار میں خریدیں گے۔ بستی کے لوگ بندر ڈھونڈتے رہے لیکن بندر ہوتے تو ملتے۔
تاجر نے ایک چوکیدار بھی ساتھ رکھا ہوا تھا جو ان بندروں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرتا تھا۔ تاجر نے ایک دن بستی کے لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ اب جو بھی بندر لائے گا میں اس سے ایک ہزار میں خریدوں گا، میں چند روز کے لیے دوسرے شہر جارہا ہوں، تب تک آپ لوگ بندر تلاش کرلیں۔ یہ اعلان کرکے وہ جمع شدہ بندروں کو محافظ کی نگرانی میں سپرد کرکے رخصت ہوگیا۔
بستی کے لوگوں کو بندر بیچنے اور اس سے ملنے والی رقم کا چسکا لگ چکا تھا، وہ ہر طرف بندر تلاش کرتے پھرے مگر کوئی بندر ہاتھ نہ آیا۔ بندروں کے محافظ نے بستی والوں کو ایک مشورہ دیا کہ اگر تم لوگ چاہو تو مجھ سے یہ بندر چھ سو روپے میں خرید لو، جب میرا مالک آئے گا تو اسے ایک ہزار میں بیچ دینا، تمہیں چار سو روپے کا فائدہ ہوجائے گا۔ یہ بات سن کر بستی کے بھولے بھالے لوگوں کے منہ میں پانی آگیا اور انھوں نے اس سے فی بندر چھ سو روپے میں خرید لیے۔ اس طرح اس کے 80 فیصد بندر فروخت ہوگئے۔ اس محافظ نے اعلان کیا کہ اب میں مزید بندر فروخت نہیں کرسکتا۔ مگر لوگ مزید فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اس لیے وہ محافظ کی خوشامد کرنے لگے، اور کہنے لگے اگر چھ سو میں نہیں تو آٹھ سو میں دے دو، اس طرح ہمیں چار سو کے بجائے دو سو کا منافع ہوگا، ہمارے لیے وہ بھی قبول ہے۔ اس محافظ نے بقیہ بندر بھی آٹھ سو کے حساب سے فروخت کردیے۔
یوں وہ سارے بندر بستی والوں کے پاس واپس آگئے مگر اس طرح کہ ہر ایک کے قبضے میں کچھ بندر تھے۔ بستی والے سہانے سپنے سجائے تاجر کا انتظار کرتے رہے تاکہ اسے بندر بیچ کر منافع کما سکیں۔ جب کچھ وقت گزرا تو لوگ اس بندر کے محافظ کے اڈے پر آئے تو دیکھا وہاں نہ محافظ ہے نہ ہی تاجر۔ بستی کے بھولے بھالے لوگ اس تلاش میں لگ گئے کہ ان کا بندر کوئی اسی قیمت پر خرید لے جتنے میں انھوں نے حاصل کیا تھا، مگر کوئی خریدار نہ ملا۔ یہاں تک یہ نوبت آئی کہ بستی والوں نے سب بندروں کو آزاد کردیا کیونکہ ان کی غذا کا بوجھ بھی اٹھانا مشکل تھا۔
یہی حال آج کل ہمارے ملک کی ٹاؤن اسکیموں کا ہے۔ جب پلاٹ بیچتے ہیں تو قیمت مناسب رکھتے ہیں، بلکہ عام قیمت سے کم۔ اس طرح لوگ اس پلاٹ کے حصول میں اس پلاٹ کا فارم جو کہ دس روپے کا ہوتا ہے، سو روپے سے پانچ سو روپے تک خریدتے ہیں۔ جب فارم کی دستیابی ختم ہوجاتی ہے تو ٹوکن منی پر سودے بازی ہوتی ہے۔ اگر ٹوکن منی دس ہزار ہے تو اس کو لوگوں نے ایک لاکھ میں خریدا۔ اس طرح جوں جوں اس پلاٹ کی قسطیں بڑھتی گئیں تو اس کی فائل لاکھ سے 3 لاکھ کے اون پر فروخت ہوئی۔
پھر ایک وقت آیا اس پلاٹ کی ڈیمانڈ کم ہونے لگی اور اس طرح پہلے اون کم ہوا، پھر نوبت یہاں تک آئی کہ اس کی اصل قیمت سے بھی کم فروخت ہونے لگا۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا جو ادارہ اس ٹاؤن کے نام پر پلاٹ بیچتا تھا اس نے اس کی پلاٹ شماری یعنی اس پلاٹ کی لوکیشن کا نمبر دینے کا کام روک دیا اور جب پلاٹ کے مالکان کو یہ احساس ہوا کہ ہمارا پلاٹ اسی قیمت کا ہے۔
جس قیمت کا تین سال پہلے خریدا تھا تو وہ مایوس ہو کر کم قیمت پر فروخت کرنے لگے اور اس سے سب سے بڑا فائدہ اس ٹاؤن کی انتظامیہ نے اٹھایا، جو ٹاؤن کے نام پر شہرت پاچکی تھی اور اس انتظامیہ میں کچھ براہ راست، کچھ بالواسطہ ایجنٹس کے ذریعے وہی پلاٹ اپنی اصل قیمت پر خرید لیے ۔اور اب وہ انھی خریدے ہوئے پلاٹوں میں 20 فیصد پلاٹ کی الاٹمنٹ کرنا شروع کردیں گے اور اس الاٹمنٹ کے بعد پھر بقایا غیر الاٹمنٹ والے پلاٹس کی قیمت میں اضافہ ہوگا، ان کا اون بہت ہائی ہوجائے گا۔ اس لالچ میں اب الاٹمنٹ شروع ہوجائے گی، لیکن بھولے بھالے خریدار اس چالاکی کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ وہ پھر چالاک تاجر کے چکر میں آکر اپنی جمع پونچی بلاک کروا دیں گے۔
اس نظام خرید و فروخت کو آپ چاہے سٹہ کہہ لیں یا نوسر بازی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے حکومتی ادارے اس بندر بانٹ میں برابر کے شریک ہیں، ورنہ یہ کس قانون، کس انصاف کے تحت جائز ہے کہ جن لوگوں نے 36 یا 40 ماہ کی رقم جو 16 قسطوں میں ادا کرنی تھی، وہ 14 قسطیں حتیٰ کہ پندرہ قسطیں ادا کرنے کے باوجود ابھی تک الاٹمنٹ اور پلاٹ نمبر سے محروم ہیں۔ یہ حال ہماری اس حکومت کا ہے جو جمہوریت کی آڑ میں قائم ہے۔ یہ ایسی جمہوری حکومت ہے جس میں ایک کونسلر سے لے کر سینیٹر تک اور سینیٹر سے لے کر ممبر پارلیمنٹ، صوبائی و قومی تک خوب مال وزر سے لیس ہورہا ہے۔
ان کا، ان کے اہل خانہ کا معیار زندگی بلند ہوتا جارہا ہے، بینک بیلنس، زمین و مکان، غیر ملکی پاسپورٹ یا اقامے، بیرون ملک اکاؤنٹ جو ڈالروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جمہوریت میں عوام کی حکمرانی کا مقصد ان کی بنیادی ضروریات کو ہر حال میں پورا کرنا ہے۔ کیا انھوں نے پینے کے پانی، بجلی و گیس، تعلیم اور صحت اور سستے حصول انصاف کے تقاضے پورے کیے؟ اس جمہوریت سے لاکھ درجہ بہتر وہ حکمرانی ہے جو ملوکیت کہلاتی ہے، مگر عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم نہیں رہتے۔ ہمارے سیاستدان بھی کسی نوسر باز سے کم نہیں۔
ایک بستی میں بندروں کی تعداد میں اتنا اضافہ ہوگیا تھا کہ لوگوں کی زندگی اجیرن تھی۔ اس بستی میں ایک چالاک آدمی آیا، اس کے پاس تھوڑا سا مال تھا، اس نے اپنے مال میں اضافے کی ایک اسکیم تیار کی اور اس بستی میں اعلان کروا دیا کہ جو بھی ایک بندر پکڑ کر میرے پاس لائے گا، میں اسے 100 روپے دوں گا۔ بستی والوں نے خوشی خوشی اس سودے کو مان لیا اور روزانہ سیکڑوں بندر پکڑ کر لانے لگے۔
یہ چالاک شخص انھیں سو روپے کے حساب سے خرید لیتا اور ایک بڑے سے پنجرے میں قید کردیتا۔ کچھ دن کے بعد وہاں بندروں کی تعداد کم ہوگئی تو بندر پکڑ کر لانے والے بھی کم ہوگئے۔ چالاک تاجر نے اس بار اعلان کیا کہ اب جو بندر لائے گا اسے میں دو سو روپے دوں گا۔ بستی کے لوگ کھوج لگا کر بندروں کو تلاش کرنے لگے، چونکہ بندروں کی بڑی تعداد کو پہلے ہی پکڑ چکے تھے اس لیے اب کچھ ہی بندر ہاتھ لگتے۔ چالاک تاجر نے وہ بندر بھی دو سو روپے فی کس کے حساب سے خرید لیے۔ جب بندر نایاب ہوگئے تو تاجر نے اعلان کیا، اب جو بندر لائے گا اسے تین سو روپے ادا کروں گا۔ کچھ لوگ قسمت کے دھنی تھے، وہ بچے بندر پکڑ کر لے آئے۔ انھیں تین سو کے حساب سے رقم مل گئی۔
بستی کے غریب لوگ اس تاجر سے بہت خوش تھے، ایک طرف بندروں کی شرارت سے محفوظ ہوگئے اور بستی والوں کو رقم بھی مل گئی۔ اب حال یہ تھا کہ بستی میں بندر تھے ہی نہیں اس لیے لاتے کہاں سے۔ اس صورتحال میں چالاک تاجر نے ایک اور اعلان کردیا کہ اب جو بھی بندر لے کر ائے گا ہم ایک ہزار میں خریدیں گے۔ بستی کے لوگ بندر ڈھونڈتے رہے لیکن بندر ہوتے تو ملتے۔
تاجر نے ایک چوکیدار بھی ساتھ رکھا ہوا تھا جو ان بندروں کی دیکھ بھال اور حفاظت کرتا تھا۔ تاجر نے ایک دن بستی کے لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ اب جو بھی بندر لائے گا میں اس سے ایک ہزار میں خریدوں گا، میں چند روز کے لیے دوسرے شہر جارہا ہوں، تب تک آپ لوگ بندر تلاش کرلیں۔ یہ اعلان کرکے وہ جمع شدہ بندروں کو محافظ کی نگرانی میں سپرد کرکے رخصت ہوگیا۔
بستی کے لوگوں کو بندر بیچنے اور اس سے ملنے والی رقم کا چسکا لگ چکا تھا، وہ ہر طرف بندر تلاش کرتے پھرے مگر کوئی بندر ہاتھ نہ آیا۔ بندروں کے محافظ نے بستی والوں کو ایک مشورہ دیا کہ اگر تم لوگ چاہو تو مجھ سے یہ بندر چھ سو روپے میں خرید لو، جب میرا مالک آئے گا تو اسے ایک ہزار میں بیچ دینا، تمہیں چار سو روپے کا فائدہ ہوجائے گا۔ یہ بات سن کر بستی کے بھولے بھالے لوگوں کے منہ میں پانی آگیا اور انھوں نے اس سے فی بندر چھ سو روپے میں خرید لیے۔ اس طرح اس کے 80 فیصد بندر فروخت ہوگئے۔ اس محافظ نے اعلان کیا کہ اب میں مزید بندر فروخت نہیں کرسکتا۔ مگر لوگ مزید فائدہ اٹھانا چاہتے تھے اس لیے وہ محافظ کی خوشامد کرنے لگے، اور کہنے لگے اگر چھ سو میں نہیں تو آٹھ سو میں دے دو، اس طرح ہمیں چار سو کے بجائے دو سو کا منافع ہوگا، ہمارے لیے وہ بھی قبول ہے۔ اس محافظ نے بقیہ بندر بھی آٹھ سو کے حساب سے فروخت کردیے۔
یوں وہ سارے بندر بستی والوں کے پاس واپس آگئے مگر اس طرح کہ ہر ایک کے قبضے میں کچھ بندر تھے۔ بستی والے سہانے سپنے سجائے تاجر کا انتظار کرتے رہے تاکہ اسے بندر بیچ کر منافع کما سکیں۔ جب کچھ وقت گزرا تو لوگ اس بندر کے محافظ کے اڈے پر آئے تو دیکھا وہاں نہ محافظ ہے نہ ہی تاجر۔ بستی کے بھولے بھالے لوگ اس تلاش میں لگ گئے کہ ان کا بندر کوئی اسی قیمت پر خرید لے جتنے میں انھوں نے حاصل کیا تھا، مگر کوئی خریدار نہ ملا۔ یہاں تک یہ نوبت آئی کہ بستی والوں نے سب بندروں کو آزاد کردیا کیونکہ ان کی غذا کا بوجھ بھی اٹھانا مشکل تھا۔
یہی حال آج کل ہمارے ملک کی ٹاؤن اسکیموں کا ہے۔ جب پلاٹ بیچتے ہیں تو قیمت مناسب رکھتے ہیں، بلکہ عام قیمت سے کم۔ اس طرح لوگ اس پلاٹ کے حصول میں اس پلاٹ کا فارم جو کہ دس روپے کا ہوتا ہے، سو روپے سے پانچ سو روپے تک خریدتے ہیں۔ جب فارم کی دستیابی ختم ہوجاتی ہے تو ٹوکن منی پر سودے بازی ہوتی ہے۔ اگر ٹوکن منی دس ہزار ہے تو اس کو لوگوں نے ایک لاکھ میں خریدا۔ اس طرح جوں جوں اس پلاٹ کی قسطیں بڑھتی گئیں تو اس کی فائل لاکھ سے 3 لاکھ کے اون پر فروخت ہوئی۔
پھر ایک وقت آیا اس پلاٹ کی ڈیمانڈ کم ہونے لگی اور اس طرح پہلے اون کم ہوا، پھر نوبت یہاں تک آئی کہ اس کی اصل قیمت سے بھی کم فروخت ہونے لگا۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ تھا جو ادارہ اس ٹاؤن کے نام پر پلاٹ بیچتا تھا اس نے اس کی پلاٹ شماری یعنی اس پلاٹ کی لوکیشن کا نمبر دینے کا کام روک دیا اور جب پلاٹ کے مالکان کو یہ احساس ہوا کہ ہمارا پلاٹ اسی قیمت کا ہے۔
جس قیمت کا تین سال پہلے خریدا تھا تو وہ مایوس ہو کر کم قیمت پر فروخت کرنے لگے اور اس سے سب سے بڑا فائدہ اس ٹاؤن کی انتظامیہ نے اٹھایا، جو ٹاؤن کے نام پر شہرت پاچکی تھی اور اس انتظامیہ میں کچھ براہ راست، کچھ بالواسطہ ایجنٹس کے ذریعے وہی پلاٹ اپنی اصل قیمت پر خرید لیے ۔اور اب وہ انھی خریدے ہوئے پلاٹوں میں 20 فیصد پلاٹ کی الاٹمنٹ کرنا شروع کردیں گے اور اس الاٹمنٹ کے بعد پھر بقایا غیر الاٹمنٹ والے پلاٹس کی قیمت میں اضافہ ہوگا، ان کا اون بہت ہائی ہوجائے گا۔ اس لالچ میں اب الاٹمنٹ شروع ہوجائے گی، لیکن بھولے بھالے خریدار اس چالاکی کو نہیں سمجھ پارہے ہیں۔ وہ پھر چالاک تاجر کے چکر میں آکر اپنی جمع پونچی بلاک کروا دیں گے۔
اس نظام خرید و فروخت کو آپ چاہے سٹہ کہہ لیں یا نوسر بازی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہمارے حکومتی ادارے اس بندر بانٹ میں برابر کے شریک ہیں، ورنہ یہ کس قانون، کس انصاف کے تحت جائز ہے کہ جن لوگوں نے 36 یا 40 ماہ کی رقم جو 16 قسطوں میں ادا کرنی تھی، وہ 14 قسطیں حتیٰ کہ پندرہ قسطیں ادا کرنے کے باوجود ابھی تک الاٹمنٹ اور پلاٹ نمبر سے محروم ہیں۔ یہ حال ہماری اس حکومت کا ہے جو جمہوریت کی آڑ میں قائم ہے۔ یہ ایسی جمہوری حکومت ہے جس میں ایک کونسلر سے لے کر سینیٹر تک اور سینیٹر سے لے کر ممبر پارلیمنٹ، صوبائی و قومی تک خوب مال وزر سے لیس ہورہا ہے۔
ان کا، ان کے اہل خانہ کا معیار زندگی بلند ہوتا جارہا ہے، بینک بیلنس، زمین و مکان، غیر ملکی پاسپورٹ یا اقامے، بیرون ملک اکاؤنٹ جو ڈالروں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ان کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جمہوریت میں عوام کی حکمرانی کا مقصد ان کی بنیادی ضروریات کو ہر حال میں پورا کرنا ہے۔ کیا انھوں نے پینے کے پانی، بجلی و گیس، تعلیم اور صحت اور سستے حصول انصاف کے تقاضے پورے کیے؟ اس جمہوریت سے لاکھ درجہ بہتر وہ حکمرانی ہے جو ملوکیت کہلاتی ہے، مگر عوام بنیادی ضرورتوں سے محروم نہیں رہتے۔ ہمارے سیاستدان بھی کسی نوسر باز سے کم نہیں۔