طوفان نے واشنگٹن کو بچا لیا
دنگ کر دینے والے حیرت انگیز اتفاقات کی داستان۔
تاریخ انسانی میں ایسے حیرت انگیز واقعات بھی ظہور پذیر ہو چکے جو عقل کو چکرا دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر فرانس کے مشہور جرنیل نپولین بوناپارٹ اور جرمن آمر' ایڈلف ہٹلر نے ا پنے اپنے ادوار میں بڑے طمطراق سے روس پر حملہ کیا۔ انہیں یقین تھا کہ روس پر قبضہ کرنا بس چند ہفتوں کی بات ہے۔ لیکن دونوںبار برفانی طوفان فاتحین کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔
دلچسپ بات یہ کہ نپولین اور ہٹلر' دونوں نے ایسے وقت روس پر حملہ کیا جب دور دور تک بر ف باری کا نام و نشان نہ تھا۔ مگر آخر کار ان کی افواج برفانی طوفانوں میں ایسی پھنسیں کہ تباہ و برباد ہو گئیں۔ روس میں شکست ہی نپولین اور ہٹلر ' اپنے وقت کے مشہور ترین لیڈروں کے زوال کاپیش خیمہ بھی ثابت ہوئی۔
دیگر مواقع پر بھی موسم اقوام عالم کی مدد کرتا رہا ہے۔یہ 24اگست 1814ء کی بات ہے، امریکا پر حملہ آور برطانوی افوج نے امریکی دارالحکومت' واشنگٹن پر قبضہ کر لیا۔ امریکی تاریخ میں پہلا اور فی الوقت آخری موقع تھا جب ریاست کا دارالحکومت غیر ملکی قوت کے قبضے میں چلا گیا۔
برطانوی فوج کی کمان میجر جنرل رابرٹ راس کر رہا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ وائٹ ہاوس سمیت تمام سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی جائے۔ حکم پر عمل ہوا اور انگریز فوجی امریکی دارالحکومت کی تمام بڑی عمارتوں میں آگ لگانے لگے۔ تب تک امریکی صدر' جیمز میڈیسن اپنے ساتھیوں سمیت بروک ویل نام ایک گاؤں میں پناہ لے چکے تھے۔ آج یہ گاؤں امریکی تاریخ میں''ایک دن کا دارالحکومت '' کہلاتا ہے۔
کرشمہ یہ ہواکہ جس رات عمارتوں کو آگ لگانے کا سلسلہ شروع ہوا،اگلے روز صبح ہی اچانک واشنگٹن میں طوفان برق وباراں نمودار ہو گیا۔ واشنگٹن کی پوری تاریخ میں اس شدت کا طوفان کبھی نہیں آیا تھا۔کچھ ہی دیر بعد تیز و پُر شور ہواؤں نے بگولے کی صورت اختیار کر لی۔
طوفانی بارش نے سب سے پہلے تو عمارتوں میں لگی آگ بجھا دی۔ یوں وائٹ ہاؤس سمیت سبھی عمارتیں مکمل تباہی سے بچ گئیں۔ پھر بگولے نے برطانوی فوج کے بحری جہازوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان کی توپیں بھی بگولے کی لپیٹ میں آ کر خراب ہو گئیں۔ بہت سے انگریز فوجی بھی زخمی ہوئے۔ ا س آفت ناگہانی سے برطانوی فوج اتنی سراسیمہ ہوئی کہ وہاں سے فرار ہو گئی۔ یوں طوفان برق باراں کی مہربانی سے صرف 26گھنٹے بعد امریکیوں کو اپنا دارالحکومت واپس مل گیا۔ یہ انوکھا موسمیاتی مظہر امریکی تاریخ میں ''طوفان جس نے واشنگٹن کو بچا لیا'' کہلاتا ہے۔
اس حیران کن واقعے سے کئی سو سال پہلے بھی موسم جاپان کو ایک حملہ آور قوت سے محفوظ بنا چکا تھا۔ یہ واقعہ جاپانی تاریخ میں ''کامی کازی'' (Kamikaze) کے نام سے مشہور ہے۔ہوا یہ کہ نومبر1274ء میں چین کے منگول بادشاہ' قبلائی خان کی طاقتور بحری فوج نے سمندر کے راستے جاپان پر حملہ کر دیا۔ یہ منگول فوج آٹھ سو بحری جہازوں پر مشتمل تھی جس پر تیتیس ہزار فوجی سوار تھے۔ یہ طاقتور بحری بیڑا دو ہفتوں میں جاپانی بندگارہ' ہاکاتابے پہنچ گیا۔
اس زمانے میں جاپان کمزور عسکری طاقت تھا۔ لہٰذا سبھی کو یقین تھاکہ عنقریب منگول جاپان پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن موسم ان کی فتح کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ ہوا یہ کہ نومبر کے آخری ہفتے ایک زبردست سمندری طوفان نے ہاکاتابے پر دھاوا بول دیا۔ وہ گویا پاتال سے نموار ہوا اورمنگولوں کے سیکڑوں بحری جنگی جہاز بہا لے گیا۔
جنگی جہازوں سے محروم ہو کر منگولوں کی طاقت گھٹ گئی ۔ اُدھر جاپانیوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔ جب منگول فوج میں لڑنے کا دم خم نہیں رہا' تو اس نے پسپائی اختیار کرلی ۔وہ بھیگی بلی بنے چین کی طرف روانہ ہو گئے۔ سمندری طوفان نے ان کا برا حال کر د یا تھا۔ انہیں دیکھ کر قطعاً یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ وہی منگول ہیں جنہوںنے چین سے لے کر مصر اور ہندوستان تک نامی گرامی سلطنتیں نیست و نابود کر دی تھیں۔
لیکن منگول بھی آسانی سے ہمت ہارنے والی قوم نے نہ تھی۔ سات سال بعد منگول بحری فوج نے دوبارہ جاپان پر ہلّہ بول دیا۔ اس بار منگول زیادہ طاقت و حشمت سے آئے۔ یہ منگول فوج چار ہزار چھوٹے بڑے بحری جنگی جہازوں پر مشتمل تھی۔ ان جہازوں پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی سوار تھے۔
اس وقت بھی قبلائی خان ہی چین کا بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن وسائل استعمال کیے۔ یہ حملہ دو اطراف ... چین اور کوریا سے کیا گیا تاکہ جاپان پر قبضہ یقینی بنایا جا سکے ۔ لیکن جاپانیوں کی عقل مندی اور موسم کی مہربانی کے باعث منگولوں کو اس بار بھی منہ کی کھانا پڑی۔
جاپانیوں نے منگولوں کی بحری فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر تمام اہم ساحلوں پر دیوار یں تعمیر کر دی تھیں۔ ان دیواروںکے باعث منگولوں کو اپنے بحری جہاز لنگر انداز کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ دو ماہ موزوں بندرگاہ تلاش کرتے گذر گئے۔ مسلسل بحری سفر نے منگول فوجیوں کو ا چھا خاصا تھکا دیا اور وہ بیزار بھی ہو گئے۔
جب ماہ نومبر شروع ہوا تو منگول کمانڈروں نے ہاکاتا بے پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔جب وہ حملہ کرنے کی خاطر پر تول رہے تھے' تو دفعتہً سمندر میں زبردست طوفا ن نمودار ہو گیا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے منگول بحری فوج کے کئی سو جہاز تباہ کر ڈالے اور اسے شدید نقصان پہنچایا۔اس سمندری طوفان نے منگولوں کو دوبارہ پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔دوسرے حملے میں ناکامی کے بعد منگولوں کو بھی جاپان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
ان دونوں حملوں کی عجیب بات یہ ہے کہ جاپان میں عموماً موسم گرما میں سمندری طوفان آتے ہیں۔ تین سو سال میں صرف ایک بار ایسا انوکھا واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے کہ نومبر دسمبر کی سردیوں میں کوئی طوفان آ جائے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ منگولوں نے دوبار حملہ کیا اور دونوں بار موسم سرما میں آنے والے سمندری طوفا ن نے انہیں تباہ و برباد کر د یا۔ ایسے اتفاق کہا جائے یا غیبی مدد؟
جاپانی عوام نے بہر حال یہی خیال کیا کہ دیوتاؤں نے ان کی مدد کے لیے یہ سمندری طوفان بھیج دئیے۔ اسی لیے ان طوفانوں کو ''کامی کازی'' کا نام دے دیا گیا۔ جاپانی زبان میں کامی کے معنی ہیں''دیوتا'' اور ''ہوا'' کو کازی کا جاتا ہے۔
یہ اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے دوران پوری دنیا میں مشہور ہو گئی۔ ہوا یہ کہ جاپانی حکومت نے اپنے عوام کا جوش و ولولہ بڑھانے کے لیے ان پائلٹوں کو کامی کازی کا خطاب دیا جو اپنے ہوائی جہاز دشمن کے بحری جہازوں اور زمینی مورچوں پر گرا دیتے تھے۔ گویا ا ب یہ خودکش حملہ آور جاپانی پائلٹ ایسی آسمانی ہوا بن گئے جو بحروبر پر چلتے ہوئے دشمنوں کا صفایا کر ڈالے گی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق جاپان کے 3862پائلٹ کامی کازی بن کر مقتول ہوئے۔ ان کے حملوں کی وجہ سے اتحادی خصوصاً امریکی افواج کے سات ہزار سے زائد فوجیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔
دلچسپ بات یہ کہ نپولین اور ہٹلر' دونوں نے ایسے وقت روس پر حملہ کیا جب دور دور تک بر ف باری کا نام و نشان نہ تھا۔ مگر آخر کار ان کی افواج برفانی طوفانوں میں ایسی پھنسیں کہ تباہ و برباد ہو گئیں۔ روس میں شکست ہی نپولین اور ہٹلر ' اپنے وقت کے مشہور ترین لیڈروں کے زوال کاپیش خیمہ بھی ثابت ہوئی۔
دیگر مواقع پر بھی موسم اقوام عالم کی مدد کرتا رہا ہے۔یہ 24اگست 1814ء کی بات ہے، امریکا پر حملہ آور برطانوی افوج نے امریکی دارالحکومت' واشنگٹن پر قبضہ کر لیا۔ امریکی تاریخ میں پہلا اور فی الوقت آخری موقع تھا جب ریاست کا دارالحکومت غیر ملکی قوت کے قبضے میں چلا گیا۔
برطانوی فوج کی کمان میجر جنرل رابرٹ راس کر رہا تھا۔ اس نے حکم دیا کہ وائٹ ہاوس سمیت تمام سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی جائے۔ حکم پر عمل ہوا اور انگریز فوجی امریکی دارالحکومت کی تمام بڑی عمارتوں میں آگ لگانے لگے۔ تب تک امریکی صدر' جیمز میڈیسن اپنے ساتھیوں سمیت بروک ویل نام ایک گاؤں میں پناہ لے چکے تھے۔ آج یہ گاؤں امریکی تاریخ میں''ایک دن کا دارالحکومت '' کہلاتا ہے۔
کرشمہ یہ ہواکہ جس رات عمارتوں کو آگ لگانے کا سلسلہ شروع ہوا،اگلے روز صبح ہی اچانک واشنگٹن میں طوفان برق وباراں نمودار ہو گیا۔ واشنگٹن کی پوری تاریخ میں اس شدت کا طوفان کبھی نہیں آیا تھا۔کچھ ہی دیر بعد تیز و پُر شور ہواؤں نے بگولے کی صورت اختیار کر لی۔
طوفانی بارش نے سب سے پہلے تو عمارتوں میں لگی آگ بجھا دی۔ یوں وائٹ ہاؤس سمیت سبھی عمارتیں مکمل تباہی سے بچ گئیں۔ پھر بگولے نے برطانوی فوج کے بحری جہازوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ ان کی توپیں بھی بگولے کی لپیٹ میں آ کر خراب ہو گئیں۔ بہت سے انگریز فوجی بھی زخمی ہوئے۔ ا س آفت ناگہانی سے برطانوی فوج اتنی سراسیمہ ہوئی کہ وہاں سے فرار ہو گئی۔ یوں طوفان برق باراں کی مہربانی سے صرف 26گھنٹے بعد امریکیوں کو اپنا دارالحکومت واپس مل گیا۔ یہ انوکھا موسمیاتی مظہر امریکی تاریخ میں ''طوفان جس نے واشنگٹن کو بچا لیا'' کہلاتا ہے۔
اس حیران کن واقعے سے کئی سو سال پہلے بھی موسم جاپان کو ایک حملہ آور قوت سے محفوظ بنا چکا تھا۔ یہ واقعہ جاپانی تاریخ میں ''کامی کازی'' (Kamikaze) کے نام سے مشہور ہے۔ہوا یہ کہ نومبر1274ء میں چین کے منگول بادشاہ' قبلائی خان کی طاقتور بحری فوج نے سمندر کے راستے جاپان پر حملہ کر دیا۔ یہ منگول فوج آٹھ سو بحری جہازوں پر مشتمل تھی جس پر تیتیس ہزار فوجی سوار تھے۔ یہ طاقتور بحری بیڑا دو ہفتوں میں جاپانی بندگارہ' ہاکاتابے پہنچ گیا۔
اس زمانے میں جاپان کمزور عسکری طاقت تھا۔ لہٰذا سبھی کو یقین تھاکہ عنقریب منگول جاپان پر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن موسم ان کی فتح کی راہ میں رکاوٹ بن گیا۔ ہوا یہ کہ نومبر کے آخری ہفتے ایک زبردست سمندری طوفان نے ہاکاتابے پر دھاوا بول دیا۔ وہ گویا پاتال سے نموار ہوا اورمنگولوں کے سیکڑوں بحری جنگی جہاز بہا لے گیا۔
جنگی جہازوں سے محروم ہو کر منگولوں کی طاقت گھٹ گئی ۔ اُدھر جاپانیوں کے حوصلے بلند ہو گئے۔ جب منگول فوج میں لڑنے کا دم خم نہیں رہا' تو اس نے پسپائی اختیار کرلی ۔وہ بھیگی بلی بنے چین کی طرف روانہ ہو گئے۔ سمندری طوفان نے ان کا برا حال کر د یا تھا۔ انہیں دیکھ کر قطعاً یہ نہیں لگتا تھا کہ یہ وہی منگول ہیں جنہوںنے چین سے لے کر مصر اور ہندوستان تک نامی گرامی سلطنتیں نیست و نابود کر دی تھیں۔
لیکن منگول بھی آسانی سے ہمت ہارنے والی قوم نے نہ تھی۔ سات سال بعد منگول بحری فوج نے دوبارہ جاپان پر ہلّہ بول دیا۔ اس بار منگول زیادہ طاقت و حشمت سے آئے۔ یہ منگول فوج چار ہزار چھوٹے بڑے بحری جنگی جہازوں پر مشتمل تھی۔ ان جہازوں پر تقریباً ڈیڑھ لاکھ فوجی سوار تھے۔
اس وقت بھی قبلائی خان ہی چین کا بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی فتح یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن وسائل استعمال کیے۔ یہ حملہ دو اطراف ... چین اور کوریا سے کیا گیا تاکہ جاپان پر قبضہ یقینی بنایا جا سکے ۔ لیکن جاپانیوں کی عقل مندی اور موسم کی مہربانی کے باعث منگولوں کو اس بار بھی منہ کی کھانا پڑی۔
جاپانیوں نے منگولوں کی بحری فوج کا مقابلہ کرنے کی خاطر تمام اہم ساحلوں پر دیوار یں تعمیر کر دی تھیں۔ ان دیواروںکے باعث منگولوں کو اپنے بحری جہاز لنگر انداز کرنے میں بڑی دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ دو ماہ موزوں بندرگاہ تلاش کرتے گذر گئے۔ مسلسل بحری سفر نے منگول فوجیوں کو ا چھا خاصا تھکا دیا اور وہ بیزار بھی ہو گئے۔
جب ماہ نومبر شروع ہوا تو منگول کمانڈروں نے ہاکاتا بے پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔جب وہ حملہ کرنے کی خاطر پر تول رہے تھے' تو دفعتہً سمندر میں زبردست طوفا ن نمودار ہو گیا۔ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے منگول بحری فوج کے کئی سو جہاز تباہ کر ڈالے اور اسے شدید نقصان پہنچایا۔اس سمندری طوفان نے منگولوں کو دوبارہ پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔دوسرے حملے میں ناکامی کے بعد منگولوں کو بھی جاپان پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
ان دونوں حملوں کی عجیب بات یہ ہے کہ جاپان میں عموماً موسم گرما میں سمندری طوفان آتے ہیں۔ تین سو سال میں صرف ایک بار ایسا انوکھا واقعہ ظہور پذیر ہوتا ہے کہ نومبر دسمبر کی سردیوں میں کوئی طوفان آ جائے۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ منگولوں نے دوبار حملہ کیا اور دونوں بار موسم سرما میں آنے والے سمندری طوفا ن نے انہیں تباہ و برباد کر د یا۔ ایسے اتفاق کہا جائے یا غیبی مدد؟
جاپانی عوام نے بہر حال یہی خیال کیا کہ دیوتاؤں نے ان کی مدد کے لیے یہ سمندری طوفان بھیج دئیے۔ اسی لیے ان طوفانوں کو ''کامی کازی'' کا نام دے دیا گیا۔ جاپانی زبان میں کامی کے معنی ہیں''دیوتا'' اور ''ہوا'' کو کازی کا جاتا ہے۔
یہ اصطلاح دوسری جنگ عظیم کے دوران پوری دنیا میں مشہور ہو گئی۔ ہوا یہ کہ جاپانی حکومت نے اپنے عوام کا جوش و ولولہ بڑھانے کے لیے ان پائلٹوں کو کامی کازی کا خطاب دیا جو اپنے ہوائی جہاز دشمن کے بحری جہازوں اور زمینی مورچوں پر گرا دیتے تھے۔ گویا ا ب یہ خودکش حملہ آور جاپانی پائلٹ ایسی آسمانی ہوا بن گئے جو بحروبر پر چلتے ہوئے دشمنوں کا صفایا کر ڈالے گی۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق جاپان کے 3862پائلٹ کامی کازی بن کر مقتول ہوئے۔ ان کے حملوں کی وجہ سے اتحادی خصوصاً امریکی افواج کے سات ہزار سے زائد فوجیوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے۔