مسلم لیگ ن اپنے کارڈ صحیح طریقے سے نہیں کھیل رہی
انتخابات میں واحد بڑی پارٹی کے طورپرفیورٹ ہونے کے باوجود سیاسی تنہائی کا سامنا ہے
اس کے باوجود کہ ن لیگ آئندہ انتخابات میں واحد بڑی پارٹی کے طور پرسامنے آنے کے لیے فیورٹ ہے،اس کے باوجود وہ سیاسی تنہائی کا سامنا ہے۔
اگرتحریک انصاف حیران کن نتائج کے ساتھ ابھرتی ہے اورملک میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو ن لیگ کے حکومت بنانے کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ نگران وزیراعظم کی نامزدگی کیلئے قائم اپوزیشن کی کمیٹی کی تشکیل بھی اپوزیشن کے بڑے دھڑے میں تقسیم کو ظاہرکرتی ہے۔ ن لیگ کے ایم کیوایم اور جے یوآئی(ف) کوکمیٹی میں نمائندگی نہ دینے کے سخت ردعمل سے قائد حزب اختلاف یا ن لیگ کی سخت گیر سیاست سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس حکومتی ٹیم میں اے این پی اور ق لیگ بھی شامل ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ چوہدری نثارکا ایم کیوایم کے بارے میں موقف درست ہو لیکن کمیٹی میں جے یوآئی اور فاٹا کا کوئی رکن کیوں شامل نہیں کیا گیا؟۔ جے یوآئی ،تحریک انصاف اورایم کیوایم نے بطور اپوزیشن ن لیگ کی تنہا پرواز پرسخت ردعمل ظاہرکیا ہے۔ یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ بالفرض چوہدری نثار خود کمیٹی میں شامل نہیں ہوتے تو بھی خواجہ آصف اوراسحاق ڈار کیوں بطور رکن شامل نہیں۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ن لیگ کے اندرسب کچھ ٹھیک نہیں۔ یہ بھی نظرآتا ہے کہ ن لیگ نے مستقبل میں ایم کیو ایم سے کسی ممکنہ اتحاد کے دروازے بند کردیے ہیں۔
چند برس پہلے مشرف دورمیں لندن میں کل جماعتی کانفرنس کے دوران تو ن لیگ نے ایم کیوایم کے ساتھ ہرقسم کے تعلقات منقطع کرنے کی قرارداد بھی پیش کردی تھی تاہم مرحومہ بینظیربھٹو نے اس کی مخالفت کی۔ اس سے پہلے ن لیگ محمود اچکزئی کی بطور نگراں وزیراعظم نامزدگی سے پیچھے ہٹ چکی ہے کیونکہ انھوں نے ایوان صدر میں ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ ن لیگ کے فیصلے کے بعد محمود اچکزئی کا اب نوازشریف سے کوئی رابطہ نہیں۔ ن لیگ کی1988سے پرانی اتحادی جماعت اسلامی نے بھی ن لیگ کے ساتھ باضابطہ اتحادکرنے کے بجائے ن لیگ یا تحریک انصاف سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ جماعت اسلامی کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ وہ دونوں مقبول پارٹیوں سے جتنا ممکن ہے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اورکسی ایک پارٹی کا مکمل ساتھ دینے کا مطلب دوسری جماعت سے ہاتھ دھونا ہے۔ یوں ایسی تمام بڑی جماعتیں جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہوگی کی10، 12سیٹیں یا تو پیپلزپارٹی کی حمایت کریں گی یا کم ازکم وہ ن لیگ کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ن لیگ ابھی تک سخت گیربلوچ اور سندھ قوم پرست جماعتوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ البتہ بلوچ جماعتیں اگرانتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہیں تو ن لیگ کیلیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
ن لیگ کا سندھ میں بڑا معرکہ مارنا مشکل ہوگا اسی طرح خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی ابھرتی طاقت کی موجودگی میں جے یو آئی کی ن لیگ سے علیٰحدگی بھی اسے خیبرپخونخوا میں اچھے نتائج نہیں دے گی۔ ایم کیوایم جس کے ساتھ ن لیگ نے1990، 1997میں مخلوط حکومت بنائی تھی کے خلاف غیرلچکدار موقف اپنانے سے بھی ن لیگ کے سندھ میں حکومت سازی کے امکانات تقریباً معدوم ہوجاتے ہیں۔ چاہے فنکشنل لیگ اور10سندھی قوم پرست جماعتوں کا اتحاد مل کر سندھ میں چند نشستیں کیوں نہ جیت لے۔ ن لیگ نے اپنا تمام وزن فنکشنل لیگ اور10سندھی قوم پرست جماعتوں کے اتحادکے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔
جو ایم کیوایم سے بات چیت کی سخت مخالف ہیں۔ سنیئر سندھی قوم پرست رسول بخش پلیجو کا نام نگران وزیراعظم کے لیے دے کر ن لیگ شاید اندرون سندھ میں اپنی جگہ بنالے لیکن صوبے کی شہری آبادی میں اسے کھونا پڑے گا۔ ن لیگ نے ایم کیوایم کو اپوزیشن پارٹی کے طور پر بھی قبول نہیں کیا۔ حتیٰ کے نگران سیٹ اپ پر اس کے ساتھ مشاورت تک گوارہ نہیں کی۔ سوال بالکل سادہ ہے۔ فی الوقت ن لیگ کے ساتھ پگارا لیگ، ہم خیال لیگ، سندھ کی قوم پرست جماعتیں، بلوچستان کی2 قوم پرست جماعتیں اور بعض چھوٹے گروپ اتحادی ہیں۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی، ق لیگ، تحریک انصاف،جے یو پی(ف)، ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں ہیں۔ اب اگر ن لیگ انتخابات میں کلین سویپ نہ سہی سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کرسکتی تو انتخابات کے بعد کی صورتحال بڑی دلچسپ ہوگی۔ تحریک انصاف جو اس وقت نہایت مقبول ہے اور پنجاب کی سیاست پر بھی نمایاں طور پر اثرانداز ہوگی۔ ان حالات میں کوئی ایسی جماعت جو درجن سے زائد نشستیں جیت لے گی وہ اہم حیثیت حاصل کرلے گی۔ اس تناظر میں ن لیگ اپنے کارڈ صحیح طرح نہیں کھیل رہی۔
بالخصوص اس لیے کہ تحریک انصاف اعلان کرچکی ہے کہ وہ اصولوں پرسمجھوتہ کرکے حکومت میں آنے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کرے گی۔ ن لیگ کے اند کئی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ چوہدری نثار کی سخت گیرسیاست نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایاہے، اسٹیبلشمنٹ میں یہ گہرا تاثر پیدا ہوا ہے کہ نوازشریف اینڈکمپنی کو سنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔ چوہدری نثار علی حقیقتاً ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں اور ان کے ناقدین انھیں معاملہ فہم سمجھتے ہیں لیکن ان کے شہبازشریف کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں،عام طور پر ن لیگ کی طرف سے یہ دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے معاملے کودیکھتے ہیں۔
جیسا کہ سابق ڈکٹیٹرجنرل مشرف نوازشریف کا نہیں بلکہ انہی کا انتخاب تھے۔ اسی طرح یہ دونوں حاضر سروس آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی مدت ملازمت میں توسیع پربھی خوش نہیں تھے جبکہ چوہدری نثار نے بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی حاضر سروس اور ریٹائرڈ ٹواسٹاراورتھری اسٹارجنرلوں کوآڑے ہاتھوں لیا،جس پرشہبازشریف کومعاملہ ٹھنڈاکرناپڑا۔ اس تمام تجزیے کا لب لباب یہ ہے کہ مختلف عوامل کے باوجود پیپلزپارٹی انتخابات میں مکمل طور پرباہر نہیں ہوئی۔
اگرتحریک انصاف حیران کن نتائج کے ساتھ ابھرتی ہے اورملک میں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آتی ہے تو ن لیگ کے حکومت بنانے کے امکانات متاثر ہوسکتے ہیں۔ نگران وزیراعظم کی نامزدگی کیلئے قائم اپوزیشن کی کمیٹی کی تشکیل بھی اپوزیشن کے بڑے دھڑے میں تقسیم کو ظاہرکرتی ہے۔ ن لیگ کے ایم کیوایم اور جے یوآئی(ف) کوکمیٹی میں نمائندگی نہ دینے کے سخت ردعمل سے قائد حزب اختلاف یا ن لیگ کی سخت گیر سیاست سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس حکومتی ٹیم میں اے این پی اور ق لیگ بھی شامل ہیں۔
ہوسکتا ہے کہ چوہدری نثارکا ایم کیوایم کے بارے میں موقف درست ہو لیکن کمیٹی میں جے یوآئی اور فاٹا کا کوئی رکن کیوں شامل نہیں کیا گیا؟۔ جے یوآئی ،تحریک انصاف اورایم کیوایم نے بطور اپوزیشن ن لیگ کی تنہا پرواز پرسخت ردعمل ظاہرکیا ہے۔ یہ دیکھ کر بھی حیرت ہوتی ہے کہ بالفرض چوہدری نثار خود کمیٹی میں شامل نہیں ہوتے تو بھی خواجہ آصف اوراسحاق ڈار کیوں بطور رکن شامل نہیں۔ اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ ن لیگ کے اندرسب کچھ ٹھیک نہیں۔ یہ بھی نظرآتا ہے کہ ن لیگ نے مستقبل میں ایم کیو ایم سے کسی ممکنہ اتحاد کے دروازے بند کردیے ہیں۔
چند برس پہلے مشرف دورمیں لندن میں کل جماعتی کانفرنس کے دوران تو ن لیگ نے ایم کیوایم کے ساتھ ہرقسم کے تعلقات منقطع کرنے کی قرارداد بھی پیش کردی تھی تاہم مرحومہ بینظیربھٹو نے اس کی مخالفت کی۔ اس سے پہلے ن لیگ محمود اچکزئی کی بطور نگراں وزیراعظم نامزدگی سے پیچھے ہٹ چکی ہے کیونکہ انھوں نے ایوان صدر میں ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ ن لیگ کے فیصلے کے بعد محمود اچکزئی کا اب نوازشریف سے کوئی رابطہ نہیں۔ ن لیگ کی1988سے پرانی اتحادی جماعت اسلامی نے بھی ن لیگ کے ساتھ باضابطہ اتحادکرنے کے بجائے ن لیگ یا تحریک انصاف سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ جماعت اسلامی کا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے کیونکہ وہ دونوں مقبول پارٹیوں سے جتنا ممکن ہے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اورکسی ایک پارٹی کا مکمل ساتھ دینے کا مطلب دوسری جماعت سے ہاتھ دھونا ہے۔ یوں ایسی تمام بڑی جماعتیں جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی ہوگی کی10، 12سیٹیں یا تو پیپلزپارٹی کی حمایت کریں گی یا کم ازکم وہ ن لیگ کے ساتھ نہیں ہوں گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ن لیگ ابھی تک سخت گیربلوچ اور سندھ قوم پرست جماعتوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ البتہ بلوچ جماعتیں اگرانتخابات کا بائیکاٹ کرتی ہیں تو ن لیگ کیلیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
ن لیگ کا سندھ میں بڑا معرکہ مارنا مشکل ہوگا اسی طرح خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی ابھرتی طاقت کی موجودگی میں جے یو آئی کی ن لیگ سے علیٰحدگی بھی اسے خیبرپخونخوا میں اچھے نتائج نہیں دے گی۔ ایم کیوایم جس کے ساتھ ن لیگ نے1990، 1997میں مخلوط حکومت بنائی تھی کے خلاف غیرلچکدار موقف اپنانے سے بھی ن لیگ کے سندھ میں حکومت سازی کے امکانات تقریباً معدوم ہوجاتے ہیں۔ چاہے فنکشنل لیگ اور10سندھی قوم پرست جماعتوں کا اتحاد مل کر سندھ میں چند نشستیں کیوں نہ جیت لے۔ ن لیگ نے اپنا تمام وزن فنکشنل لیگ اور10سندھی قوم پرست جماعتوں کے اتحادکے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔
جو ایم کیوایم سے بات چیت کی سخت مخالف ہیں۔ سنیئر سندھی قوم پرست رسول بخش پلیجو کا نام نگران وزیراعظم کے لیے دے کر ن لیگ شاید اندرون سندھ میں اپنی جگہ بنالے لیکن صوبے کی شہری آبادی میں اسے کھونا پڑے گا۔ ن لیگ نے ایم کیوایم کو اپوزیشن پارٹی کے طور پر بھی قبول نہیں کیا۔ حتیٰ کے نگران سیٹ اپ پر اس کے ساتھ مشاورت تک گوارہ نہیں کی۔ سوال بالکل سادہ ہے۔ فی الوقت ن لیگ کے ساتھ پگارا لیگ، ہم خیال لیگ، سندھ کی قوم پرست جماعتیں، بلوچستان کی2 قوم پرست جماعتیں اور بعض چھوٹے گروپ اتحادی ہیں۔
دوسری طرف پیپلزپارٹی، ق لیگ، تحریک انصاف،جے یو پی(ف)، ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں ہیں۔ اب اگر ن لیگ انتخابات میں کلین سویپ نہ سہی سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کرسکتی تو انتخابات کے بعد کی صورتحال بڑی دلچسپ ہوگی۔ تحریک انصاف جو اس وقت نہایت مقبول ہے اور پنجاب کی سیاست پر بھی نمایاں طور پر اثرانداز ہوگی۔ ان حالات میں کوئی ایسی جماعت جو درجن سے زائد نشستیں جیت لے گی وہ اہم حیثیت حاصل کرلے گی۔ اس تناظر میں ن لیگ اپنے کارڈ صحیح طرح نہیں کھیل رہی۔
بالخصوص اس لیے کہ تحریک انصاف اعلان کرچکی ہے کہ وہ اصولوں پرسمجھوتہ کرکے حکومت میں آنے کے بجائے اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کرے گی۔ ن لیگ کے اند کئی حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ چوہدری نثار کی سخت گیرسیاست نے پارٹی کو بہت نقصان پہنچایاہے، اسٹیبلشمنٹ میں یہ گہرا تاثر پیدا ہوا ہے کہ نوازشریف اینڈکمپنی کو سنبھالنا بہت مشکل ہوگا۔ چوہدری نثار علی حقیقتاً ٹھنڈے مزاج کے آدمی ہیں اور ان کے ناقدین انھیں معاملہ فہم سمجھتے ہیں لیکن ان کے شہبازشریف کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں،عام طور پر ن لیگ کی طرف سے یہ دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات کے معاملے کودیکھتے ہیں۔
جیسا کہ سابق ڈکٹیٹرجنرل مشرف نوازشریف کا نہیں بلکہ انہی کا انتخاب تھے۔ اسی طرح یہ دونوں حاضر سروس آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی کی مدت ملازمت میں توسیع پربھی خوش نہیں تھے جبکہ چوہدری نثار نے بطور چیئرمین پبلک اکائونٹس کمیٹی حاضر سروس اور ریٹائرڈ ٹواسٹاراورتھری اسٹارجنرلوں کوآڑے ہاتھوں لیا،جس پرشہبازشریف کومعاملہ ٹھنڈاکرناپڑا۔ اس تمام تجزیے کا لب لباب یہ ہے کہ مختلف عوامل کے باوجود پیپلزپارٹی انتخابات میں مکمل طور پرباہر نہیں ہوئی۔