عوام کے حقوق کی بات کرنا ’’جرم‘‘کیوں
مسلم لیگ ن محض یہ بتا دے کہ انھیں پنجاب میں دس سال ہوگئے حکمرانی کرتے ہوئے
ایک مشہور کہاوت ہے کہ '' چت بھی میری اور پٹ بھی میری''۔آج ہمیں ہر طرف اس کہاوت کا عملی مظاہرہ دکھائی دے رہا ہے یعنی اقتدار بھی اپنے پاس اور احتجاج بھی خود ہی کر رہے ہیں۔ یہ سب اپنی رہی سہی عزت بچانے کی کوشش ہے۔ یہاں جماعت کی عزت بھی فرد واحد کی عزت سے بالواسطہ مشروط ہے، اگر جناب گئے تو پھر جماعت بھی گئی۔کسی نے ''عوام'' کی بات کی تو اُس کا وجود نہیں رہا۔ وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ''اصل'' وزیر اعظم نواز شریف ہی ہیں۔
نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ لوگو دیکھو! میرے خلاف فیصلہ آنے کے بعد حالات خراب ہو گئے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے،بے روزگاری بڑھ گئی ہے، دہشت گردی نے سر اُٹھایا ہے، کرائم میں بے تحاضافہ ہوا ہے۔ عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور ڈالر کی اُڑان بھی قابو میں نہیں رہی حالانکہ مرکز میں حکومت ن لیگ کی، تمام وزراء ان کے اپنے، پنجاب وبلوچستان میں حکومت ان کی اپنی، تمام بیوروکریسی ان کے ماتحت، دنیا بھر میں لگائے ہوئے سفارتکار ان کے اپنے تو میرے خیال میں یہ بات کہتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے کہ ان کی حکومت فلاپ صرف اُن کو نکالنے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔
جن باتوں کا اندیشہ تھا انھی کا جنم ہو رہا ہے، ہو بھی کیوں ناں، حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، ہر طرف ''تحریکوں'' کی آواز یں آرہی ہیں ۔کسی نے 17جنوری کی ڈیڈ لائن دے دی ہے تو کسی نے13جنوری کی اور کسی نے اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف ہی عدم اعتماد کی تحریکوں کا اعلان کر دیاہے۔میںنے کہا تھا کہ مارچ تک ڈالر 120روپے پر چلا جائے گاجب کہ جنوری ہی میں ڈالر 114روپے تک جا چکا ہے۔اور تو اور سپریم کورٹ نے بھی 7دن کی ڈیڈ لائن دے دی ہے ، عدالت عظمیٰ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر تعلیم و صحت کے حوالے سے پنجاب میں کام ہوتا نظر نہ آیا تو اورنج ٹرین کو بند کردیا جائے گا۔ ویسے بھی ان سیاستدانوں نے آج کل ایک نئی اصطلاح ایجاد کرلی ہے کہ جو عوام کے حقوق کی بات کرے، اُسے ''پارٹی''بنا دیاجاتا ہے۔ جو عوامی سہولتوںپر حکومتی عدم توجہ کی بات کرے اُسے رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مسلم لیگ ن محض یہ بتا دے کہ انھیں پنجاب میں دس سال ہوگئے حکمرانی کرتے ہوئے،کوئی ایک مثالی اسپتال قائم کیا ہو جس پر یہ فخر کر سکیں؟ آج بھی بارش آتی ہے تو لاہور کی سڑکیں جھیل کا منظر پیش کرتی ہیں، حکمرانوں نے ان'' جھیلوں '' پر سیاست کرنے کے لیے لانگ بوٹ تو بنوائے لیے ہیں مگر اس کا حل نہیں نکالا جا سکا ۔ملک بھر میں کرائم ریٹ اور بے روزگاری جس قدر بڑھ رہی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کالجوں کی حالت یہ ہے کہ ان سیاستدانوں کے اپنے بچے ان کالجز کے پاس سے بھی نہیں گزرتے۔بڑے بڑے دعوے کرنے والے حکمران عوام کا ''خط غربت'' اور ''خط تعلیم و صحت'' ٹھیک نہ کرسکے ۔ خواندگی کا تناسب آج بھی 40 فیصد سے کم ہے، خط غربت آج بھی 60فیصد سے زیادہ ہے اور صحت میں وطن عزیز کا ہر دوسرا شہری کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے۔
میرے خیال میں اگر سب کچھ مثالی ہے تو ان حکمرانوں سے بندہ پوچھے کہ یہ ہلکی سی پیٹ درد کی دوا لینے امریکا و لندن کیوں جاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں صحت و تعلیم اور ہر محکمے کا بیڑہ غرق کرنے والے مارشل لاؤںاور ڈکٹیٹروںکی پیداوار جمہوریت کے چمپیئن بنے ہوئے ہیں اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے قوم کوجمہوریت اور اخلاقیات کے لیکچر دے رہے ہیں۔یہ کبھی عوام کو تعلیم نہیں دیں گے کیوں کہ انھیں ڈر ہے کہ شعور آنے کے بعد کہیں عوام ان کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ میرے خیال میں یہ حکمران نہیں یہ تو سفاکوں کا جتھہ ہے، تاتاریوں سے زیادہ خونخوار اور بے رحم۔ کروڑوں پاکستانی خط غربت پر رینگ رہے ہیں، بیشمار خواتین زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں، اکثریت کو پینے کا صاف پانی نصیب نہیں۔ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم کم خوراکی کا شکار اور یہ چالیس چالیس کروڑ کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔یہ عوام کو غلام سمجھتے ہیں، یہ عوام کو استعمال کرتے ہیں حالانکہ عوام کو انھیں استعمال کر کے پھینک دینا چاہیے لیکن افسوس صد افسوس یہ تب تک نہ ہوگا جب تک عوام کو اچھے برے کی تمیز اور پہچان نہ ہوگی اور یہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔
لہٰذااگر چیف جسٹس عوام کی بہتری کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو انھیں کام کرنے دینا چاہیے، وہ اپنے اختیار میں رہ کر کام کرنے کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں، ہمیں مل جل کر اداروں کو ٹھیک کرنا ہے۔ یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ہر کام میں سیاست کا آغاز کر دیا جائے، ایسا کرنے سے ہر ادارے میں بیٹھے کرپٹ عناصر کو شہ ملتی ہے کہ وہ مزید غلط کام کرے ، ہم پاکستانی ہیں، ہمیں ہی پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے ، باہر سے کسی نے آکر ٹھیک نہیں کرنا ، اوراگرعوام کے حقوق کی بات کر''جرم''ہے تو ہمیں یہ جرم کرتے رہنا چاہیے!!!
نواز شریف کہہ رہے ہیں کہ لوگو دیکھو! میرے خلاف فیصلہ آنے کے بعد حالات خراب ہو گئے ہیں، مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے،بے روزگاری بڑھ گئی ہے، دہشت گردی نے سر اُٹھایا ہے، کرائم میں بے تحاضافہ ہوا ہے۔ عالمی دباؤ میں اضافہ ہوا ہے اور ڈالر کی اُڑان بھی قابو میں نہیں رہی حالانکہ مرکز میں حکومت ن لیگ کی، تمام وزراء ان کے اپنے، پنجاب وبلوچستان میں حکومت ان کی اپنی، تمام بیوروکریسی ان کے ماتحت، دنیا بھر میں لگائے ہوئے سفارتکار ان کے اپنے تو میرے خیال میں یہ بات کہتے ہوئے بھی شرم آنی چاہیے کہ ان کی حکومت فلاپ صرف اُن کو نکالنے کی وجہ سے ہو رہی ہے۔
جن باتوں کا اندیشہ تھا انھی کا جنم ہو رہا ہے، ہو بھی کیوں ناں، حکومت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے، ہر طرف ''تحریکوں'' کی آواز یں آرہی ہیں ۔کسی نے 17جنوری کی ڈیڈ لائن دے دی ہے تو کسی نے13جنوری کی اور کسی نے اپنی اپنی حکومتوں کے خلاف ہی عدم اعتماد کی تحریکوں کا اعلان کر دیاہے۔میںنے کہا تھا کہ مارچ تک ڈالر 120روپے پر چلا جائے گاجب کہ جنوری ہی میں ڈالر 114روپے تک جا چکا ہے۔اور تو اور سپریم کورٹ نے بھی 7دن کی ڈیڈ لائن دے دی ہے ، عدالت عظمیٰ نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگر تعلیم و صحت کے حوالے سے پنجاب میں کام ہوتا نظر نہ آیا تو اورنج ٹرین کو بند کردیا جائے گا۔ ویسے بھی ان سیاستدانوں نے آج کل ایک نئی اصطلاح ایجاد کرلی ہے کہ جو عوام کے حقوق کی بات کرے، اُسے ''پارٹی''بنا دیاجاتا ہے۔ جو عوامی سہولتوںپر حکومتی عدم توجہ کی بات کرے اُسے رسوا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مسلم لیگ ن محض یہ بتا دے کہ انھیں پنجاب میں دس سال ہوگئے حکمرانی کرتے ہوئے،کوئی ایک مثالی اسپتال قائم کیا ہو جس پر یہ فخر کر سکیں؟ آج بھی بارش آتی ہے تو لاہور کی سڑکیں جھیل کا منظر پیش کرتی ہیں، حکمرانوں نے ان'' جھیلوں '' پر سیاست کرنے کے لیے لانگ بوٹ تو بنوائے لیے ہیں مگر اس کا حل نہیں نکالا جا سکا ۔ملک بھر میں کرائم ریٹ اور بے روزگاری جس قدر بڑھ رہی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہو گیا ہے۔ سرکاری اسکولوں کالجوں کی حالت یہ ہے کہ ان سیاستدانوں کے اپنے بچے ان کالجز کے پاس سے بھی نہیں گزرتے۔بڑے بڑے دعوے کرنے والے حکمران عوام کا ''خط غربت'' اور ''خط تعلیم و صحت'' ٹھیک نہ کرسکے ۔ خواندگی کا تناسب آج بھی 40 فیصد سے کم ہے، خط غربت آج بھی 60فیصد سے زیادہ ہے اور صحت میں وطن عزیز کا ہر دوسرا شہری کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہے۔
میرے خیال میں اگر سب کچھ مثالی ہے تو ان حکمرانوں سے بندہ پوچھے کہ یہ ہلکی سی پیٹ درد کی دوا لینے امریکا و لندن کیوں جاتے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہاں صحت و تعلیم اور ہر محکمے کا بیڑہ غرق کرنے والے مارشل لاؤںاور ڈکٹیٹروںکی پیداوار جمہوریت کے چمپیئن بنے ہوئے ہیں اور وفاداریاں تبدیل کرنے والے قوم کوجمہوریت اور اخلاقیات کے لیکچر دے رہے ہیں۔یہ کبھی عوام کو تعلیم نہیں دیں گے کیوں کہ انھیں ڈر ہے کہ شعور آنے کے بعد کہیں عوام ان کے خلاف نہ اُٹھ کھڑے ہوں۔ میرے خیال میں یہ حکمران نہیں یہ تو سفاکوں کا جتھہ ہے، تاتاریوں سے زیادہ خونخوار اور بے رحم۔ کروڑوں پاکستانی خط غربت پر رینگ رہے ہیں، بیشمار خواتین زچگی کے دوران جان کی بازی ہار جاتی ہیں، اکثریت کو پینے کا صاف پانی نصیب نہیں۔ کروڑوں بچے تعلیم سے محروم کم خوراکی کا شکار اور یہ چالیس چالیس کروڑ کی گھڑیاں پہنتے ہیں۔یہ عوام کو غلام سمجھتے ہیں، یہ عوام کو استعمال کرتے ہیں حالانکہ عوام کو انھیں استعمال کر کے پھینک دینا چاہیے لیکن افسوس صد افسوس یہ تب تک نہ ہوگا جب تک عوام کو اچھے برے کی تمیز اور پہچان نہ ہوگی اور یہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں۔
لہٰذااگر چیف جسٹس عوام کی بہتری کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں تو انھیں کام کرنے دینا چاہیے، وہ اپنے اختیار میں رہ کر کام کرنے کو ہمیشہ ترجیح دیتے ہیں، ہمیں مل جل کر اداروں کو ٹھیک کرنا ہے۔ یہ ہر گز نہیں ہونا چاہیے کہ ہر کام میں سیاست کا آغاز کر دیا جائے، ایسا کرنے سے ہر ادارے میں بیٹھے کرپٹ عناصر کو شہ ملتی ہے کہ وہ مزید غلط کام کرے ، ہم پاکستانی ہیں، ہمیں ہی پاکستان کو ٹھیک کرنا ہے ، باہر سے کسی نے آکر ٹھیک نہیں کرنا ، اوراگرعوام کے حقوق کی بات کر''جرم''ہے تو ہمیں یہ جرم کرتے رہنا چاہیے!!!