زبیدہ آپا

اس وقت وہ اس قدر کمزور نظر نہیں آتی تھیں جتنی اپنی وفات سے قبل نظر آتی تھیں

shehla_ajaz@yahoo.com

ٹی وی اسکرین پر نظر آنے والے بہت سے لوگ جب حقیقت کی دنیا میں آپ سے ملتے ہیں تو دل میں بہت سے خدشات ابھرتے ہیں، مغرور ہو،خود کو کچھ سمجھتا ہو، ویسا تو نہیں دکھائی دے رہا جیسا ٹی وی پر نظر آتا ہے ان میں سے کچھ خدشات درست بھی ہوتے ہیں۔

مثلا بہت سے اداکار ایسے ہیں جو اسکرین پر بڑے ہنس مکھ اور پرخلوص نظر آتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ایسے لوگوں سے مل کر کوفت ہوتی ہے یہ ایک عام سا رویہ ہے جو کسی بھی ناظر میں پیدا ہوسکتا ہے لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ویسے ہی پرخلوص، خوش اخلاق، سحر کن شخصیت کے مالک ہوتے ہیں جیسے وہ ٹی وی اسکرین پر نظر آتے ہیں اور جب وہ اپنے چاہنے والوں سے کسی پبلک پلیس پر ملتے ہیں تو ان کے پرستار ان کے اخلاق سے کچھ اور بھی گرویدہ ہوجاتے ہیں اور ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا ہے جب کوئی بھی شخص دل سے کسی کے اخلاق اور اچھے سلوک کے باعث اسے پسند کرتا ہے تو گویا وہ ایک ایسی جگہ اپنی رجسٹریشن کراتا رہتا ہے جس کی سمجھ ہم جیسے ناقص العقل لوگوں کو نہیں آتی لیکن اس کا رشتہ اس قدر اہم ہوتا ہے کہ اس کا عکس ہمیں اس ہستی کے چہرے پر نمایاں نظر آتا ہے۔

بات ہو رہی تھی ٹی وی پر نظر آنے والے ستاروں کی اور پہنچ گئی اخلاق تک لیکن یہ ایک بہت بڑا سچ ہے جسے عام طور پر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ہمارے درمیان بہت سے لوگ ٹی وی کی اسکرین پر تو نظر آتے ہیں لیکن ان کا عمل دخل ہماری زندگی پر بھی پڑتا ہے مثلاً ان کا فیشن، بول چال، ٹپس، کھانا پکانے کی تراکیب اور مختلف ٹوٹکے جو ہم عام طور پر اپنے گھروں میں بھی آزماتے رہتے ہیں، ایسی ہی ایک پیاری سی شخصیت زبیدہ طارق بھی تھیں جنھیں مرحومہ لکھتے کچھ عجیب سا لگ رہا ہے بہرحال وہ اب ہم میں نہیں رہیں خدا انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے( آمین۔)

زبیدہ آپا کو میں نے پہلی بار کراچی جم خانہ کے ایک مشاعرے میں دیکھا تھا اس وقت احمد فراز زندہ تھے اور مسکرا مسکرا کر اپنے پرستاروں دوست و احباب سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس بات کو کئی برس گزر چکے ہیں، زبیدہ آپا دبلی پتلی گہرے کتھئی رنگ کی بنارسی ساڑھی میں ملبوس اپنے مخصوص انداز سے بالوں کا جوڑا بنائے گلے میں مخصوص کالے موتیوں کی بنی حیدرآبادی زنجیر اور ہاتھوں میں نہایت نفیس میچنگ کی چوڑیاں پہنے ہنستی مسکراتی نظر آئیں۔

اس وقت وہ اس قدر کمزور نظر نہیں آتی تھیں جتنی اپنی وفات سے قبل نظر آتی تھیں، وہ بہت گوری چٹی نہایت خوبصورت خاتون تو نہ تھیں لیکن ان کی شخصیت کا سحر ایسا تھا جو انھیں دیکھنے کو مجبور کرتا تھا۔ اس پر ان کی خوبصورت شستہ اُردو اور بھی رنگ جماتی تھی۔ یہ ہمارے بزم طلبا کا دور تھا ساتھ ساتھ اخبار بھی چل رہا تھا ان کو مختلف خانوں میں فٹ کرنے کی کوشش کی پر ہمارے انٹرویو کرنے میں ان کی ہمہ گیر شخصیت کی گنجائش اس وقت پیدا ہی نہ ہوئی اور بس دل مسوس کر رہ گئے نہ سلام نہ دعا نہ ہی کوئی بات چیت بس دور سے ہی دیکھا۔

''ارے بھئی! تم کہاں ہو۔ میری پروڈیوسر بے چاری تم کو کئی بار فون کرچکی ہے اور تم ہو کہ اسے ٹہلا رہی ہو۔''

ہمارے پیارے اجنبی بھائی کا فون آیا تو ہم کچھ شرمندگی کے بخار میں مبتلا ہوگئے۔

''تو کیا وہ سچ مچ۔۔۔؟''

''ارے ہاں بھئی! وہ میری پروڈیوسر ہے، وہ دراصل خواتین کا ایک پروگرام ہے اس میں ہم چاہتے ہیں کہ تم بھی شرکت کرو، اس میں ہم ان خواتین کے انٹرویوز کرتے ہیں جو کسی فیلڈ سے منسلک ہوں اور اچھا کام کر رہی ہوں۔''


''بہت معذرت میں کچھ غلط سمجھی تھی، بہرحال آپ بتائیے کہ کب اور کہاں پہنچنا ہے؟'' انھوں نے وقت اور پتہ بتادیا اور ہم نے نوٹ کرلیا لیکن اتفاقاً پہنچنے میں کچھ تاخیر ہوگئی کیونکہ پتہ ہماری عقل سے کچھ مختلف تھا بہرحال پہنچ گئے تو پتہ چلا کہ پروگرام تو کب کا شروع ہو چکا ہے، خاصی شرمندگی ہوئی لیکن بہرحال اس وقت میں اشتہارات آن ایئر ہوئے ہمیں اسٹوڈیو بھیج دیا گیا تو دیکھا میزبان کے سامنے ایک نشست پر زبیدہ آپا اپنے مخصوص انداز میں براجمان ہیں ہمیں دیکھ کر وہ مسکرائیں۔

''بیٹے آپ کو آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی۔ بہرحال پروگرام تو وقت پر شروع ہونا تھا۔ خیر کوئی بات نہیں، آپ ابھی آرام سے بیٹھیے اپنے آپ کو ذرا ریلیکس کیجیے۔'' ان کو اپنے سامنے دیکھ کر پہلے کچھ ٹینشن سی سوار ہوئی لیکن ان کے چہرے پر پھیلے سکون کو دیکھ کر یہ بھی رفو ہوگیا اور ہم پرسکون ہوگئے۔''

''میرا خیال ہے بیٹا! کہ پہلے ہم ان سے ان کی ایکٹیویٹیز کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کیا کرتی ہیں اور پھر پروگرام میں ہم اسی حوالے سے ڈسکس کریں گے۔'' زبیدہ آپا نے میزبان (اس وقت ذہن سے نام محو ہوگیا) کو مخاطب کیا اور پھر ہم سے دریافت کرنے لگیں۔

ویسے تو ہماری سرگرمیاں کافی وسیع ہیں لیکن اس وقت اخبار کے حوالے سے انھیں زیادہ بہتر محسوس ہوا گو میزبان کچھ کنفیوژ تھیں کہ کس طرح سے بات کی جائے، لیکن زبیدہ آپا نے اس مسئلے کو حل کیا اور ہم اپنی فارم میں آگئے اس وقت ہماری ایک عجیب سی پوزیشن تھی کیونکہ ایک طویل عرصہ خود ہم نے لوگوں کے انٹرویوز کیے جو شوبز سے لے کر سیاسی شخصیات تک پھیلے ہوئے تھے لیکن دو ماہر شخصیات جب آپ سے سوال کرنے بیٹھیں تو اس وقت کچھ عجیب سی صورتحال محسوس ہوئی لیکن زبیدہ آپا نے بڑے دھیمے انداز میں دوستانہ رویے سے ایسا ماحول پیدا کیا کہ الفاظ خودبخود ادا ہونے لگے، انٹرویو کا وقت ختم ہوا تو زبیدہ آپا نے بڑی محبت سے کہا:

''بیٹا! میں فلاں فلاں چینل پر ایک پروگرام کرتی ہوں، شاید آپ نے دیکھا ہو۔'' غالباً یہ انھوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا اور میں شرمندہ ہوگئی۔

''ارے آپا! آپ کمال کرتی ہیں، آپ کو کون نہیں جانتا؟''

''بہت شکریہ بیٹا! آپ کے ساتھ انٹرویو میں بہت مزہ آیا، بڑا اچھا وقت گزرا، گو وقت ہمیں مختصر سا ہی ملا کہ آپ کو آنے میں کچھ دیر ہوگئی تھی بہرحال اچھا رہا۔''

''مجھے بہت خوشی ہوئی کہ آپ جیسی شخصیت نے میرا انٹرویو کیا۔'' میری خوش نصیبی ہے۔'' میرے پاس الفاظ کم تھے۔

''ارے نہیں بیٹا! یہ آپ کی سعادت مندی ہے۔ اگر آپ کو کبھی ملنا ہو تو آپ مجھ سے وہاں بھی مل سکتی ہیں۔'' وہ محبت سے کہہ رہی تھیں۔

یہ ملاقات ڈھائی دو برس پہلے کی تھی لیکن ان کے اعلیٰ اخلاق نے ہمیں ان کا گرویدہ کردیا تھا اور جب خبر ملی کہ ان کا انتقال ہوگیا تو بے اختیار زبان سے نکلا۔ بہت اچھی خاتون تھیں بہت اچھے اخلاق کی تھیں خدا انھیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے آمین۔ غالباً نہیں یقیناً وہ پاکستان کی پہلی خاتون تھیں جن کے ٹوٹکے لوگ حقیقت کے علاوہ مذاق میں بھی ڈسکس کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر جاکر دیکھیے زبیدہ آپا کے ٹوٹکوں کا ایک معیار ہے جو ہماری زبان اردو کی لغت میں بھی جگہ بنا چکا ہے۔ کیا ایسے سوشل ویلیو کے ٹوٹکے کہیں اور دستیاب ہیں؟
Load Next Story