سندھ میں 5 ہزار اسکول بند ایک لاکھ طالبات پڑھائی سے محروم

صوبے بھر کے23ہزارسے زائداسکولوں میں بجلی نہیں،طلبا کی تعدادکم اور اساتذہ کی تعدادبڑھتی رہی

75فیصداسکول کھیل کے میدان، 98 فیصدلیباریٹری اور41 ہزاراسکول لائبریری سے محروم فوٹو: ایکسپریس

سندھ میں6 سال کے دوران ایک لاکھ سے زائد طالبات نے سرکاری اسکول چھوڑدیے، صوبے بھر میں23 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بجلی سے محروم ہیں،98 فیصد سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی عملی تربیت کے لیے لیباریٹری موجود نہیں، محکمہ تعلیم سندھ کی نااہلی کے باعث 6 سال کے دوران 5 ہزار سے زائد سرکاری اسکول بند ہوگئے،75فیصد سرکاری اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں،41ہزار اسکولوں میں لائبریری نہیں ہے۔

سندھ میں تعلیم کی تنزلی کی وجہ ناتجربہ کارافسران اور کھلی سیاسی مداخلت ہے، محکمہ تعلیم کا بیشترفنڈتنخواہوں پرخرچ ہونے لگا، سرکاری اسکولوں میں طلبہ وطالبات کی تعدادکم اوراساتذہ کی بڑھتی جارہی ہے، ہزاروں اساتذہ کو اب بھی مستقل ہونے کاانتظار ہے، محکمہ تعلیم میں اساتذہ کی تعداد15لاکھ سے تجاوزکرگئی اس بات کا انکشافات محکمہ تعلیم سندھ کے ذیلی ادارے ریفارم سپورٹ یونٹ اور سندھ ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی سالانہ اسکول شماری رپورٹ میں کیا گیا ہے۔

رپورٹ نے سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کے دعوؤں اور ایمرجنسی کی قلعی کھول دی ہے رپورٹ کے مطابق سندھ میں 2012 میں پرائمری ایلیمنٹری، سکینڈری اور ہائر سکینڈری اسکولوں کی کل تعداد47557 تھی جو اب کم ہوکر 42383 رہ گئی ہے محکمہ تعلیم کے مطابق تعداد میں کمی کی وجہ غیر فعال اسکولوں کو بند کرنا ہے واضح رہے کہ وزیراعلیٰ سندھ کی تعلیمی ایمرجنسی کے بعد 2000 ہزار سے زائد اسکولوں کو دوبارہ کھولا گیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی 6 سال میں 5 ہزار سے زائد اسکول تاحال بند پڑے ہیں سال 2012 میں طالبات کے اسکولوں کی تعداد 7 ہزار سے زائد تھی جو اب کم ہوکر 5 ہزار 385 رہ گئی ہے جبکہ اسکولوں میں طالبات کی تعداد 17لاکھ 58 ہزار تھی جو اب کم ہو کر 16 لاکھ 52 ہزار رہ گئی ہے


اسی طرح طلبہ کے اسکول 11 ہزار 732 سے کم ہو کر 6 ہزار رہ گئے ہیں جبکہ 2012 میں طلبہ کی تعداد24 لاکھ سے زائد تھی جو اب بڑھ کر 25 لاکھ 77 ہزار ہوگئی ہے مجموعی طورپر طلبہ کی تعداد 42 لاکھ سے بڑھ کر 42 لاکھ 29 ہزار ہو گئی ہے واضح رہے کہ سندھ کے تعلیمی بجٹ میں سالانہ اضافہ ہورہا ہے اوربجٹ کا زیادہ تر حصہ تنخواہوں کی مد میں خرچ کیا جارہا ہے گزشتہ 6 سال میں سرکاری اسکولوں میں طلبہ کی تعداد میں کمی آئی لیکن اساتذہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوا ہے جبکہ پہلے ہی سندھ میں اساتذہ کی بھرتیاں سوالیہ نشان بنی ہوئی ہیں اور این ٹی ایس پاس کرنے والے اساتذہ، پرائمری اساتذہ اور مختلف جامعات کے ذریعے بھرتی کیے گئے اساتذہ ابھی بھی اپنے مستقل ہونے کے نوٹیفکیشن کے انتظار میں ہیں 2012 میں اساتذہ کی تعداد 14لاکھ سے زائد تھی جو بڑھ کر15 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔

عالمی سطح پر تعلیم عام کرنے اور معیار تعلیم کو مزید بہتر کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہیں جبکہ صوبہ سندھ میں سال 2017 میں بھی ہزاروں اسکول ایسے ہیں جو بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں رپورٹ کے مطابق سندھ کے16 ہزار سے زائد اسکولوں کی چار دیواری ہی نہیں ہے 15 ہزار سے زائد اسکولوں میں بیت الخلا بھی موجود نہیں18ہزار سے زائد اسکولوں میں زیر تعلیم طلبہ صاف پینے کے پانی سے محروم ہیں جبکہ 23 ہزار سے زائد اسکول ایسے ہیں جہاں بجلی موجود نہیں ہے سندھ میں کل 42 ہزار 383 سرکاری اسکولوں میں سے 75 فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں کھیل کا میدان موجود نہیں ہے جبکہ 98 فیصد اسکول بائیولوجیکل لیباریٹری، کیمسٹری لیباریٹری، فزکس لیباٹری، ہوم اکنامکس لیباریٹری، کمپیوٹر لیباریٹری سے محروم ہیں سندھ بھرکے 41 ہزار سے زائد اسکولوں میں لائبریری کی سہولت موجود نہیں ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صرف 14 ہزار کے قریب اسکولوں کی عمارتیں کارآمد ہیں جبکہ 15 ہزار سے زائد اسکولوں کی عمارتوں کو مرمت کی ضرورت ہے ساڑھے 6 ہزار سے زائد اسکولوں کی عمارتوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے اور 5 ہزار کے قریب اسکول ایسے ہیں جن کی عمارت یا چھت موجود نہیں ہے واضح رہے کہ چند روز قبل تعلیم کے فروغ کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے الف اعلان کی رپورٹ پر محکمہ تعلیم کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی تھی اور اب محکمہ تعلیم سندھ کے اپنے ہی ادارے نے تعلیمی صورتحال اور تعلیمی ایمرجنسی کا پول کھول کر رکھ دیا ہے محکمہ تعلیم کے حکام نے الف اعلان کی رپورٹ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا جبکہ رپورٹ میں تعلیم نظام کی تنزلی کی وجہ محکمہ تعلیم میں غیر تجربہ کار افسران کی تعیناتی اور سیاسی مداخلت کو قرار دیا گیا ہے۔

طویل عرصے بعد جمال مصطفی سید اور عزیز عقیلی کو مختصر عرصے میں سیکریٹری اسکول ایجوکیشن تعینات کیا گیا جو کارکردگی نہ دکھاسکے جس کے بعد سیکریٹری بورڈ اینڈ یونیورسٹیز کے سیکریٹری اقبال درانی کو سیکریٹری اسکولز تعینات کردیا گیا جو کئی ماہ گزرنے کے باوجود تعلیم کی بہتری کے لیے اقدامات نہیں کرسکے ہیں۔
Load Next Story