خواتین کے تحفظ کا شعور

خواتین کے خلاف امتیاز کی جڑیں سماجی، سیاسی، اقتصادی، قانونی اور معاشرے کے تمام شعبہ جات میں گہری ہیں۔

حسن اصغر نقوی

CHICAGO:
باوجود یہ کہ ملک کی تمام جمہوری قوتیں، پارلیمنٹ، حکومت اور ادارے خواتین کے احترام، ان کے حقوق کے تحفظ اور ان پر تشدد یا ہراساں کیے جانے کی روک تھام کے حوالے سے اپنی تمام تر مثبت مساعی کو پورے عزم سے جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن پھر بھی آئے دن اخبارات اور نیوز چینلز کے ذریعے خواتین پر تشدد کی اندوہناک خبریں منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔

ایسی خبریں ان تمام باشعور حلقوں جو کہ خواتین کے احترام اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں کو اپنی جدوجہد مزید موثر بنانے کے لیے اقدامات کرنے کا پیغام دیتی ہیں۔ موجودہ جمہوری حکومت نے خواتین کے حقوق کے تحفظ کے حوالے سے پارلیمنٹ میں موجود تمام جمہوری قوتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ گراں قدر قانون سازی کی ہے۔

جس سے خواتین کے احترام اور ان کے مقام کے حوالے سے موجودہ جمہوری حکومت کی سوچ نہایت مثبت طور سے واضح اور عیاں ہوتی ہے۔

ذرایع ابلاغ سے حاصل شدہ خبروں اور رپورٹوں کے مطابق اس ضمن میں 27 جولائی کو ایوانِ صدر اسلام آباد میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام اور ان کے حقوق کے تحفظ اور اس بارے میں شعور اجاگر کرنے کے لیے 10 لاکھ (ایک ملین) افراد کی دستخطی مہم کی اختتامی تقریب منعقد ہوئی۔ اس مہم کا اہتمام یو این ویمن پاکستان نے وزارت انسانی حقوق، پاکستان میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام کے اتحاد اور اقوام متحدہ پارٹنرز کے تعاون سے کیا تھا۔

اس مہم کا مقصد پاکستان سمیت دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تشدد کی روک تھام اور ان کے حقوق کے تحفظ کے بارے میں شعور اجاگر کرنا تھا۔ رپورٹس کے مطابق اس دستخطی مہم میں بااثر شخصیات، فیصلہ سازوں، سرکاری عہدے داروں، ارکانِ پارلیمان، صحافیوں، دانشوروں، ادیبوں، فنکاروں سمیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے دس لاکھ افراد نے اپنے دستخطوں کے ذریعے حصّہ لیا اور مہم کی اختتامی تقریب کے موقعے پر صدر پاکستان آصف علی زرداری نے دس لاکھویں شخصیت کے طور پر اپنے دستخط کرکے اس نہایت مثبت اور بامقصد مہم کی تکمیل میں اپنا قابلِ فخر کردار ادا کیا۔

رحمتوں اور برکتوں کے مہینے رمضان المبارک میں خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایوانِ صدر اسلام آباد میں منعقد کی گئی اس سادہ اور باوقار تقریب جس میں سفارت کاروں اور عمائدینِ حکومت کے ساتھ ساتھ معزز شخصیات موجود تھیں کا اہتمام کرکے بجاطور پر دنیا کو یہ پیغام دیا گیا کہ حکومتِ پاکستان خواتین اور تمام پسے ہوئے طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے نہایت پرعزم اور واضح موقف کی نہ صرف حامل بلکہ اس مقصد کے لیے سرگرم عمل بھی ہے اور یہی دراصل اسلام اور پیغمبرِ اسلام حضرت محمدؐ کی روشن تعلیمات اور ان کا درس بھی ہیں۔

تقریب سے یو این ویمن پاکستان کی کنٹری ڈائریکٹر ایلس شیکل فورڈ اور دیگر نے بھی خطاب کیا اور خواتین اور بچّوں کے حقوق کے تحفظ اور اس بارے میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت اور اس سلسلے میں اپنی کاوشوں اور حکومت کے تعاون اور اقدامات کے بارے میں آگاہ کیا۔


اس موقعے پر اپنے دستخطوں کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت نے خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کو ہر قسم کے استحصال اور تشدد سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے سماجی، اقتصادی، قانونی اور آئینی اقدامات کی اپنی کوششوں کو جاری رکھتے ہوئے عدلیہ میں خواتین ججوں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ خواتین کو مزید بااختیار بنایا جائے۔

صدر مملکت نے اپنے خطاب میں کہا کہ خواتین کے خلاف تشدد انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی ہے، یہ خواتین کے ساتھ بدترین امتیازی سلوک کی مانند اور ان کے وقار کو کم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ قومی زندگی کے تمام شعبہ جات میں بھرپور شرکت کے ان کے حق سے محرومی ہے۔

انھوں نے کہا کہ خواتین کے خلاف امتیاز کی جڑیں سماجی، سیاسی، اقتصادی، قانونی اور معاشرے کے تمام شعبہ جات میں گہری ہیں اور یہ صرف پاکستان نہیں بلکہ اس خطے کے ممالک کابھی مسئلہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ جمہوری حکومت خواتین کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے کے لیے پرعزم ہے اور اس ضمن میں ہم شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے وژن سے رہنمائی لے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ جمہوری دور حکومت میں پاکستان نے خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کے بارے میں معاہدے پر دستخط کیے۔

صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا کہ خواتین ارکان پارلیمان اور سول سوسائٹی تنظیموں کی فعال شرکت کے ساتھ خواتین کے خلاف ہر قسم کے ناروا سلوک کے خاتمے کے لیے مربوط اور موثر کوششیں جاری ہیں۔

انھوں نے کہا کہ انھیں یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ حکومت نے خواتین کے تحفظ کے لیے متعدد قانونی اقدامات کیے ہیں جن میں کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف تحفظ ایکٹ 2010 کی منظوری، فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 2010 کی منظوری، فوجداری قانون (دوسری ترمیم) ایکٹ 2011 کی منظوری جو تیزاب سے بچائو اور اس عمل کے جرم ہونے کا قانون بھی کہلاتا ہے۔

فوجداری قانون (تیسری ترمیم) 2011 کی منظوری جسے خواتین کے خلاف ناروا کارروائیوں سے تحفظ کا قانون بھی کہا جاتا ہے۔ مصیبت زدہ اور زیر حراست خواتین فنڈ ایکٹ 2011 کا نفاذ جیسے قانونی اقدامات شامل ہیں۔ انھوں نے کہا کہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ انھوں نے کہا کہ خواتین کو مزید بااختیار بنانے کے لیے کوششوں کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے خواتین کے مقام کو مضبوط اور مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مذکورہ تقریب میں صدر مملکت آصف علی زرداری کے خطاب سے خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ان پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے جمہوری حکومت کا وژن بہت واضح اور نمایاں ہے اور دراصل یہی جمہوریت کی سب سے اہم افادیت ہے کہ جمہوری نظام اور عمل معاشرے کے استحصال زدہ اور پسے ہوئے طبقات کو مستحکم کرنے اور بااختیار بنانے کا ایک میکانی نظام اور عمل ہے اور اسی نظام کے جاری رہنے میں ہی عوامی طبقات کی فلاح، بہبود، تعمیر، ترقی اور استحکام مضمر ہے۔
Load Next Story