کراچی فش ہاربر اتھارٹی میں کرپشن مالی و انتظامی بے ضابطگیاں بڑھ گئیں
بیشتر انتظامی معاملات تاحال صوبائی وزارت ماہی گیری کے بااثر افراد چلا رہے ہیں
فش ہاربر اتھارٹی میں کرپشن مالی و انتظامی بے ضابطگیاں بڑھ گئیں۔
حکومت سندھ نے سالانہ تقریباً 40 کروڑ ڈالرمالیت کی مچھلی برآمد کرنے والے ادارے کراچی فش ہاربر اتھارٹی میں کافی عرصے کے بعد منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری تو کردی لیکن بیشتر انتظامی معاملات تا حال صوبائی وزارت ماہی گیری کے بااثر افراد چلا رہے ہیں جبکہ ڈائریکٹر آپریشنز کی اسامی کو پھر بھی خالی رکھا گیا ہے اور ڈائریکٹر آپریشن کے اختیارات ڈائریکٹرایڈمن کو دیے گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق فش ہاربراتھارٹی میں نئی لانچوں کی رجسٹریشن، لائسنس اور کریو کارڈ جاری کرنے سمیت مختلف معاملات غیرمتعلقہ اور نان کوالیفائیڈ لوگ چلا رہے ہیں جس سے ادارے میں کرپشن اور مالی و انتظامی بے ضابطگیاں بڑھ گئی ہیں، ادارے میں منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری بڑے عرصے سے ایک مسئلہ رہی ہے، حکومت سندھ نے کراچی فش ہاربر اتھارٹی میں ایم ڈی کی خالی اسامی پر 20 اکتوبر 2016 کو گریڈ 20 کے افسر محمد رمضان اعوان کو تعینات کیا لیکن محض 5 روز کے بعد گریڈ 20 کے ایک اور افسر بقا اللہ انڑ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جبکہ بقا اللہ انڑ نے اپنے عہدے کا چارج ہی نہیں لیا، اس کے بعد ایم ڈی کے عہدے کا چارج بدستور سیکریٹری محکمہ ماہی گیری سندھ کے پاس رہا اوراکتوبر 2017 تک ایم ڈی کا عہدہ خالی رکھا گیا۔
فش ہاربر کی سی بی اے یونین اور میڈیا کے دباؤ پر نومبر 2017 میں گریڈ 20 کے ایک اور افسر ہارون احمد خان کو ایم ڈی کراچی فش ہاربر اتھارٹی تعینات کیا گیا لیکن ہاربر کے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کے باعث مذکورہ افسر نے بھی چارج لینے سے انکار کردیا، جس کے بعد حکومت سندھ نے 15 نومبر سیکریٹری محکمہ وومن ڈیولپمنٹ مدثر اقبال کو ایم ڈی فش ہاربر کے عہدے پر تعینات کیا، لیکن مذکورہ ایم ڈی کی تعیناتی کے باوجود فش ہاربر کے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت بدستور جاری ہے، اسی وجہ سے ادارے میں گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصے سے ڈائریکٹر آپریشن کے عہدے پر کسی کی تعیناتی نہیں کی جارہی اور اس عہدے کا چارج ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس ہے۔
فش ہاربر سی بی اے یونین کے رہنماء ابصارالحسن کے مطابق فش ہاربر میں ڈپٹی ڈائریکٹر موجود ہونے کے باوجود چارج ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس ہے، ذرائع کے مطابق ادارے میں نئی کشتیوں کی رجسٹریشن و لائسنس کا اجرا اور کریو کارڈ بنانے کا کام ہاربر ماسٹر کر رہا ہے اور اسے غیر قانونی طور اسسٹنٹ ڈائریکٹر رجسٹریشن کا چارج دیا گیا ہے جبکہ فش ہاربر کی آئس جیٹی کو غیرقانونی طور پر ڈیزل ٹینکرز کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کام کا ٹھیکہ غیر سرکاری طور فش ہاربر کے ایک ملازم کو دیا گیا ہے۔ دریں اثنا کراچی فش ہاربر اتھارٹی کے ترجمان صغیر احمد کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر آپریشنز کی اسامی تقریباً تین ماہ قبل ظہور احمد عباسی کے رٹائر ہونے کے باعث خالی ہوئی ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر کی ترقی ہونے کے بعد انھیں مذکورہ اسامی پر تعینات کردیا جائے گا، فی الحال اس عہدے کا چارج ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس ہے، انھوں نے بتایا کہ کشتیوں کی رجسٹریشن و لائسنس کا اجراء اور کریو کارڈ جاری کرنا ہاربر ماسٹر کی ہی ذمے داری ہوتی ہے، اگر کسی کو ہاربر ماسٹر کی کرپشن کے حوالے سے کوئی شکایت ہے تو اسے تحریری طور پر دیا جائے تاکہ اس پر کوئی کارروائی کی جاسکے، انہوں نے بتایا کہ فش ہاربر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر رجسٹریشن کی کوئی اسامی نہیں ہے۔
حکومت سندھ نے سالانہ تقریباً 40 کروڑ ڈالرمالیت کی مچھلی برآمد کرنے والے ادارے کراچی فش ہاربر اتھارٹی میں کافی عرصے کے بعد منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری تو کردی لیکن بیشتر انتظامی معاملات تا حال صوبائی وزارت ماہی گیری کے بااثر افراد چلا رہے ہیں جبکہ ڈائریکٹر آپریشنز کی اسامی کو پھر بھی خالی رکھا گیا ہے اور ڈائریکٹر آپریشن کے اختیارات ڈائریکٹرایڈمن کو دیے گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق فش ہاربراتھارٹی میں نئی لانچوں کی رجسٹریشن، لائسنس اور کریو کارڈ جاری کرنے سمیت مختلف معاملات غیرمتعلقہ اور نان کوالیفائیڈ لوگ چلا رہے ہیں جس سے ادارے میں کرپشن اور مالی و انتظامی بے ضابطگیاں بڑھ گئی ہیں، ادارے میں منیجنگ ڈائریکٹر کی تقرری بڑے عرصے سے ایک مسئلہ رہی ہے، حکومت سندھ نے کراچی فش ہاربر اتھارٹی میں ایم ڈی کی خالی اسامی پر 20 اکتوبر 2016 کو گریڈ 20 کے افسر محمد رمضان اعوان کو تعینات کیا لیکن محض 5 روز کے بعد گریڈ 20 کے ایک اور افسر بقا اللہ انڑ کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا جبکہ بقا اللہ انڑ نے اپنے عہدے کا چارج ہی نہیں لیا، اس کے بعد ایم ڈی کے عہدے کا چارج بدستور سیکریٹری محکمہ ماہی گیری سندھ کے پاس رہا اوراکتوبر 2017 تک ایم ڈی کا عہدہ خالی رکھا گیا۔
فش ہاربر کی سی بی اے یونین اور میڈیا کے دباؤ پر نومبر 2017 میں گریڈ 20 کے ایک اور افسر ہارون احمد خان کو ایم ڈی کراچی فش ہاربر اتھارٹی تعینات کیا گیا لیکن ہاربر کے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کے باعث مذکورہ افسر نے بھی چارج لینے سے انکار کردیا، جس کے بعد حکومت سندھ نے 15 نومبر سیکریٹری محکمہ وومن ڈیولپمنٹ مدثر اقبال کو ایم ڈی فش ہاربر کے عہدے پر تعینات کیا، لیکن مذکورہ ایم ڈی کی تعیناتی کے باوجود فش ہاربر کے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت بدستور جاری ہے، اسی وجہ سے ادارے میں گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصے سے ڈائریکٹر آپریشن کے عہدے پر کسی کی تعیناتی نہیں کی جارہی اور اس عہدے کا چارج ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس ہے۔
فش ہاربر سی بی اے یونین کے رہنماء ابصارالحسن کے مطابق فش ہاربر میں ڈپٹی ڈائریکٹر موجود ہونے کے باوجود چارج ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس ہے، ذرائع کے مطابق ادارے میں نئی کشتیوں کی رجسٹریشن و لائسنس کا اجرا اور کریو کارڈ بنانے کا کام ہاربر ماسٹر کر رہا ہے اور اسے غیر قانونی طور اسسٹنٹ ڈائریکٹر رجسٹریشن کا چارج دیا گیا ہے جبکہ فش ہاربر کی آئس جیٹی کو غیرقانونی طور پر ڈیزل ٹینکرز کے لیے استعمال کیا جارہا ہے اور اس کام کا ٹھیکہ غیر سرکاری طور فش ہاربر کے ایک ملازم کو دیا گیا ہے۔ دریں اثنا کراچی فش ہاربر اتھارٹی کے ترجمان صغیر احمد کا کہنا ہے کہ ڈائریکٹر آپریشنز کی اسامی تقریباً تین ماہ قبل ظہور احمد عباسی کے رٹائر ہونے کے باعث خالی ہوئی ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر کی ترقی ہونے کے بعد انھیں مذکورہ اسامی پر تعینات کردیا جائے گا، فی الحال اس عہدے کا چارج ڈائریکٹر ایڈمن کے پاس ہے، انھوں نے بتایا کہ کشتیوں کی رجسٹریشن و لائسنس کا اجراء اور کریو کارڈ جاری کرنا ہاربر ماسٹر کی ہی ذمے داری ہوتی ہے، اگر کسی کو ہاربر ماسٹر کی کرپشن کے حوالے سے کوئی شکایت ہے تو اسے تحریری طور پر دیا جائے تاکہ اس پر کوئی کارروائی کی جاسکے، انہوں نے بتایا کہ فش ہاربر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر رجسٹریشن کی کوئی اسامی نہیں ہے۔