آنکھوں کی حفاظت کیجیے
احتیاط نگاہ کی کمزوری اور امراضِ چشم سے بچاتی ہے۔
KARACHI:
آنکھیں ہمارے جسم کا اہم ترین عضو ہیں۔ یہ آنکھیں ہی تو ہیں جو ہمیں دنیا جہان کی رنگینیوں سے روشناس کرواتی اور ہمیں زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے قابل بناتی ہیں۔
بینائی کے بغیر زندگی ادھوری رہتی ہے۔ تعجب ہے کہ پھر بھی بعض لوگ آنکھوں کی دیکھ بھال سے بے پروائی برتتے ہیں یا روزمرّہ کے امور میں مصروف رہتے ہوئے وہ آنکھوں کی صحت کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ماہرین صحت مشورہ دیتے ہیں کہ آنکھوں کو صحت مند رکھنے کے لیے انھیں صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے۔ کم از کم صبح اور رات سونے سے قبل آنکھوں کو اچھی طرح دھو لینا چاہیے، اس طرح یہ انفیکشن سے محفوظ رہتی ہیں اور ان کی تروتازگی بھی قائم رہتی ہے۔
غسل کرتے ہوئے دیگر اعضا کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے ارد گرد کی جلد کو بھی صابن اور صاف پانی سے اچھی طرح دھولیں۔ رات کو سونے سے قبل آنکھوں کو اچھی طرح دھونا ضروری ہے تاکہ دن بھر کی گرد و دھول صاف ہوجائے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ دن میں بھی کئی بار آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں۔ ایک بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ دھونے کے بعد آنکھوں کو قمیص کی آستین یا دامن وغیرہ سے خشک نہ کریں۔ کسی بھی میلے کپڑے سے آنکھیں نہ پونچھیے۔ روہے، آشوب چشم جیسی بیماریاں اکثر گندگی ہی سے پھیلتی ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ آنکھیں پونچھنے کے لیے ایک علیحدہ صاف تولیہ، رومال یا کپڑا رکھیں۔ کسی دوسرے کا کپڑا یا رومال استعمال کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر ایک آنکھ میں بھی انفیکشن ہوجائے تو دوسری آنکھ کے لیے الگ کپڑا استعمال کیا جائے۔ بیمار آنکھ کے رومال کو دوسری صحت مند آنکھ کی صفائی کے لیے استعمال کرنے سے وہ آنکھ بھی اس مرض میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ آنکھوں میں انگلی، گندا رومال، پین پینسل وغیرہ بھی نہ لگائیں۔
سستا کاجل عموماً لیڈ سلفائیڈ سے بنایا جاتا ہے۔ یہ آپ کی آنکھوں کو کجرارا تو بناسکتا ہے لیکن اس کا مستقل استعمال آنکھوں کے لیے سخت نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ماہرین امراض چشم کہتے ہیں کہ آنکھیں دھونے کے لیے گرم پانی کا استعمال مناسب نہیں ہے کہ اس سے پتلی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تیز دھوپ میں باہر نکلنے کے لیے دھوپ کے چشمے کا استعمال مناسب ہے۔ آنکھوں کو حتی الامکان تیز دھوپ، دھول اور دھویں سے بچانا چاہیے۔ اسی طرح ویلڈنگ کی چمک اور سورج کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہیں۔
دفتر ہو یا گھر پڑھتے لکھتے وقت روشنی مناسب ہونی چاہیے۔ آنکھوں اور کتابوں کے درمیان ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ بیٹھ کر مطالعہ کریں اور کتاب 45 سے 75 کے زاویے پر رہے۔ خیال رہے کہ روشنی پیچھے یا بائیں جانب سے آئے اورکتاب پر کوئی عکس بھی پڑے۔ پڑھنے یا کوئی اور کام کرنے کے دوران وقفے وقفے سے آنکھوں کو آرام دیتے رہیں۔ یعنی ایک آدھ منٹ کے لیے آنکھیں بند کرلیں یا انھیں خلاء میں گُم ہوجانے دیں۔
ماہرین چشم کی رائے میں یہ محض غلط فہمی ہے کہ زیادہ پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے، البتہ چلتی سواری میں پڑھنا ٹھیک نہیں۔ جو لوگ کمپیوٹر پر زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں، ان کی آنکھوں کے تھکن میں مبتلا ہوجانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اسکرین پر نظریں جمائے رہتے ہیں اور دیر تک بیٹھے رہنے سے کمر پر بھی زور پڑتا ہے جس کا اثر آنکھوں پر ہوتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ جس چیز کو آپ دیکھ رہے ہیں اس کی پوزیشن کا آپ کے جسم کی پوزیشن پر بھی اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے کمپیوٹر یا ٹی وی کی اسکرین بہت اونچائی پر یا بہت نیچی ہوگی یا ان کا زاویہ مناسب نہیں ہوگا تو اس سے آنکھوں میں بھی تھکن پیدا ہوگی اور آپ کمر کے درد میں بھی مبتلا ہوجائیں گے۔ اس بات کا یقین کرلیجیے کہ جو فاصلہ دوران مطالعہ کتاب اور آنکھوں کے درمیان ہوتا ہے، کمپیوٹر کی اسکرین اور آپ کی آنکھوں کے درمیان فاصلہ اس سے کچھ زیادہ ہو۔
جس وقت کمپیوٹر کی اسکرین دیکھ رہے ہوں توآنکھوں کو سب سے زیادہ آرام اس صورت میں ملے گا جب اسکرین تھوڑی سے پیچھے کی جانب جھکی ہوئی ہو۔ اگر آپ کے چشمے میں بہ یک وقت دور اور نزدیک دیکھنے والے عدسے لگے ہوئے ہیں تو اس صورت میں یہ جھکاؤ ذرا زیادہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ کمپیوٹر اتنا دور نہ ہو کہ اسے استعمال کرنے کے لیے آپ کو اپنے بازو ضرورت سے زیادہ پھیلانے پڑیں۔ اچھی نظر اور روشن آنکھوں کے لیے تازہ پھل اور سبزیوں کا استعمال مفید ہوتا ہے۔
آنکھیں ہمارے جسم کا اہم ترین عضو ہیں۔ یہ آنکھیں ہی تو ہیں جو ہمیں دنیا جہان کی رنگینیوں سے روشناس کرواتی اور ہمیں زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کے قابل بناتی ہیں۔
بینائی کے بغیر زندگی ادھوری رہتی ہے۔ تعجب ہے کہ پھر بھی بعض لوگ آنکھوں کی دیکھ بھال سے بے پروائی برتتے ہیں یا روزمرّہ کے امور میں مصروف رہتے ہوئے وہ آنکھوں کی صحت کی طرف سے غافل ہوجاتے ہیں۔ ماہرین صحت مشورہ دیتے ہیں کہ آنکھوں کو صحت مند رکھنے کے لیے انھیں صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے۔ کم از کم صبح اور رات سونے سے قبل آنکھوں کو اچھی طرح دھو لینا چاہیے، اس طرح یہ انفیکشن سے محفوظ رہتی ہیں اور ان کی تروتازگی بھی قائم رہتی ہے۔
غسل کرتے ہوئے دیگر اعضا کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے ارد گرد کی جلد کو بھی صابن اور صاف پانی سے اچھی طرح دھولیں۔ رات کو سونے سے قبل آنکھوں کو اچھی طرح دھونا ضروری ہے تاکہ دن بھر کی گرد و دھول صاف ہوجائے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ دن میں بھی کئی بار آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مارے جائیں۔ ایک بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ دھونے کے بعد آنکھوں کو قمیص کی آستین یا دامن وغیرہ سے خشک نہ کریں۔ کسی بھی میلے کپڑے سے آنکھیں نہ پونچھیے۔ روہے، آشوب چشم جیسی بیماریاں اکثر گندگی ہی سے پھیلتی ہیں۔
بہتر یہ ہے کہ آنکھیں پونچھنے کے لیے ایک علیحدہ صاف تولیہ، رومال یا کپڑا رکھیں۔ کسی دوسرے کا کپڑا یا رومال استعمال کرنا مناسب نہیں ہے، بلکہ احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ اگر ایک آنکھ میں بھی انفیکشن ہوجائے تو دوسری آنکھ کے لیے الگ کپڑا استعمال کیا جائے۔ بیمار آنکھ کے رومال کو دوسری صحت مند آنکھ کی صفائی کے لیے استعمال کرنے سے وہ آنکھ بھی اس مرض میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ آنکھوں میں انگلی، گندا رومال، پین پینسل وغیرہ بھی نہ لگائیں۔
سستا کاجل عموماً لیڈ سلفائیڈ سے بنایا جاتا ہے۔ یہ آپ کی آنکھوں کو کجرارا تو بناسکتا ہے لیکن اس کا مستقل استعمال آنکھوں کے لیے سخت نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے۔ ماہرین امراض چشم کہتے ہیں کہ آنکھیں دھونے کے لیے گرم پانی کا استعمال مناسب نہیں ہے کہ اس سے پتلی پر اثر پڑ سکتا ہے۔ تیز دھوپ میں باہر نکلنے کے لیے دھوپ کے چشمے کا استعمال مناسب ہے۔ آنکھوں کو حتی الامکان تیز دھوپ، دھول اور دھویں سے بچانا چاہیے۔ اسی طرح ویلڈنگ کی چمک اور سورج کی طرف دیکھنا بھی مناسب نہیں۔
دفتر ہو یا گھر پڑھتے لکھتے وقت روشنی مناسب ہونی چاہیے۔ آنکھوں اور کتابوں کے درمیان ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ ہونا چاہیے۔ بہتر یہ ہے کہ بیٹھ کر مطالعہ کریں اور کتاب 45 سے 75 کے زاویے پر رہے۔ خیال رہے کہ روشنی پیچھے یا بائیں جانب سے آئے اورکتاب پر کوئی عکس بھی پڑے۔ پڑھنے یا کوئی اور کام کرنے کے دوران وقفے وقفے سے آنکھوں کو آرام دیتے رہیں۔ یعنی ایک آدھ منٹ کے لیے آنکھیں بند کرلیں یا انھیں خلاء میں گُم ہوجانے دیں۔
ماہرین چشم کی رائے میں یہ محض غلط فہمی ہے کہ زیادہ پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے، البتہ چلتی سواری میں پڑھنا ٹھیک نہیں۔ جو لوگ کمپیوٹر پر زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں، ان کی آنکھوں کے تھکن میں مبتلا ہوجانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مسلسل اسکرین پر نظریں جمائے رہتے ہیں اور دیر تک بیٹھے رہنے سے کمر پر بھی زور پڑتا ہے جس کا اثر آنکھوں پر ہوتا ہے۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ جس چیز کو آپ دیکھ رہے ہیں اس کی پوزیشن کا آپ کے جسم کی پوزیشن پر بھی اثر پڑتا ہے۔ لہٰذا اگر آپ کے کمپیوٹر یا ٹی وی کی اسکرین بہت اونچائی پر یا بہت نیچی ہوگی یا ان کا زاویہ مناسب نہیں ہوگا تو اس سے آنکھوں میں بھی تھکن پیدا ہوگی اور آپ کمر کے درد میں بھی مبتلا ہوجائیں گے۔ اس بات کا یقین کرلیجیے کہ جو فاصلہ دوران مطالعہ کتاب اور آنکھوں کے درمیان ہوتا ہے، کمپیوٹر کی اسکرین اور آپ کی آنکھوں کے درمیان فاصلہ اس سے کچھ زیادہ ہو۔
جس وقت کمپیوٹر کی اسکرین دیکھ رہے ہوں توآنکھوں کو سب سے زیادہ آرام اس صورت میں ملے گا جب اسکرین تھوڑی سے پیچھے کی جانب جھکی ہوئی ہو۔ اگر آپ کے چشمے میں بہ یک وقت دور اور نزدیک دیکھنے والے عدسے لگے ہوئے ہیں تو اس صورت میں یہ جھکاؤ ذرا زیادہ ہونا چاہیے۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ کمپیوٹر اتنا دور نہ ہو کہ اسے استعمال کرنے کے لیے آپ کو اپنے بازو ضرورت سے زیادہ پھیلانے پڑیں۔ اچھی نظر اور روشن آنکھوں کے لیے تازہ پھل اور سبزیوں کا استعمال مفید ہوتا ہے۔