روایتی ایندھن پر انحصار محدود کرنے کی خواہش
امریکی فوج کو متبادل ذرائع سے حاصل کردہ توانائی کی فراہمی۔
KARACHI:
پینٹاگون نے 2025ء تک اپنی افواج کی توانائی کی25 فی صد ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
امریکی ماہرین امید ظاہر کررہے ہیں کہ اس منصوبے سے معاشرے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ امریکی افواج کی توانائی کی ضروریات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر امریکی فوج کو ملک تصور کرلیا جائے تو یہ دنیا میں تیل کی 35 ویں سب سے بڑی صارف ہوگی۔ امریکی فوج کے لیے روزانہ 45 ملین لیٹر خام تیل درکار ہوتا ہے۔ یہ مقدار سویڈن میں تیل کی ایک دن کی کھپت سے بھی زیادہ ہے۔
عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کے لیے تیل اور دیگر سامان لے جانے والے ٹرکوں پر حملے پینٹاگون کے لیے دردسر بن گئے ہیں اور وہ مستقبل میں تیل پر انحصار میں کمی لانا چاہتا ہے، اسی لیے امریکی محکمۂ دفاع نے آئندہ بارہ برسوں میں بری فوج کی توانائی کی ایک چوتھائی ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا ہے، جب کہ 2020ء تک بحریہ کو 50 فی صد توانائی انھی ذرائع سے مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
روایتی تیل پر انحصار کم کرنے کی پینٹاگون کی خواہش کے پس پردہ اگرچہ ماحولیاتی تحفظ نہیں ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے سول سوسائٹی کو بھی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے، کیوں کہ انٹرنیٹ اور جی پی ایس سمیت بہت سی ایسی ایجادات ہیں جو پہلے امریکی افواج کے لیے کی گئی تھیں لیکن اب یہ عام ہوچکی ہیں اور ان سے پوری دنیا مستفید ہورہی ہے۔
امریکا میں قائم فوجی اڈوں پر توانائی کی ضروریات بہ تدریج سولر پینلز سے پوری کی جارہی ہیں۔ گذشتہ برس اکتوبر میں کیلی فورنیا میں قائم نیول بیس پر دو سولر پاور پلانٹس نصب کیے گئے تھے جب کہ رواں برس ایک میرین بیس پر سولر پاور پلانٹ نصب کیا جائے گا۔ افغانستان میں جنگ اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ اس تناظر میں توقع کی جارہی ہے کہ امریکا بحرالکاہل پر توجہ مرکوز کرے گا جہاں اس کے لیے ساحلی علاقوں اور جزائر میں قائم اڈوں کو توانائی مہیا کرنا اہم ہوگا۔
اس مقصد کے لیے سمندری لہروں سے توانائی کے حصول کے امکانات پر توجہ دینے کے علاوہ، پینٹاگون نے'' اوشین تھرمل انرجی کنورژن سسٹمز'' پر بھی تحقیق کا آغاز کروادیا ہے۔ اس سسٹم کے تحت سطح سمندر کے گرم پانی کو کم نقطۂ کھولاؤ والے مائعات جیسے امونیا کو بخارات میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بخارات ٹربائن کو گھماتے ہیں جس کے نتیجے میں بجلی پیدا ہوتی ہے۔ بعدازاں ان بخارات کو گہرے سمندر سے حاصل کردہ ٹھنڈے پانی کے ذریعے دوبارہ مائع میں تبدیل کردیا جاتا ہے، اور اس طرح یہ عمل جاری رہتا ہے۔
توانائی سے متعلق ایسی تجرباتی ٹیکنالوجی کے لیے مارکیٹ پیدا کرنے میں سرمایہ کاری بے حد اہم ثابت ہوسکتی ہے۔ پینٹاگون کا مالیاتی شعبہ پہلے ہی مائیکروگرڈ سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو بھاری سرمایہ فراہم کرچکا ہے۔ مائیکرو گرڈ بجلی کی پیداوار اور رسد کا خود انحصاری نظام ہوتا ہے جو آزادانہ طور پر کام کرسکتا ہے۔ گذشتہ برس ایک ریسرچ فرم کی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مائیکرو گرڈ انڈسٹری کا سالانہ حجم چار ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور اس انڈسٹری کو یہاں تک پہنچانے میں پینٹاگون کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری کا کردار کلیدی ہے۔پینٹاگون کی جانب سے بایوفیول انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول میں امریکی بحریہ، بری فوج اور فضائیہ سے آگے ہے۔ 2020ء تک بحریہ سالانہ 1.27 بلین لیٹر متبادل مائع ایندھن خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ضمن میں اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے بحریہ نے گذشتہ برس 7 ڈالر فی لیٹر کے حساب سے 1.7 ملین لیٹر بایو فیول خریدا۔ امریکی افواج کی تاریخ میں صرف ایک پروجیکٹ کے لیے پہلی بار اتنی بڑی خریداری کی گئی تھی۔ امریکی فضائیہ کے طیاروں میں بھی آزمائشی طور پر جینیاتی طریقے سے تیار کردہ خمیر سے بنایا گیا بایوفیول استعمال ہونے لگا ہے۔ اس ایندھن پر آنے والی لاگت 15 ڈالر فی لیٹر ہے جو کہ خاصی زیادہ ہے، تاہم اگر قیمت نیچے آجاتی ہے تو فضائیہ نے 1.5 بلین لیٹر بایوفیول خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے جو اس کے نصف طیاروں میں استعمال کیا جائے گا۔
پینٹاگون کے ان تمام منصوبوں پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا فصلوں سے تیارکردہ بایوفیول سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی آئے گی جو گلوبل وارمنگ کا بنیادی سبب ہیں، اور کیا ان فصلوں کی پیداوار کے لیے زمین دست یاب ہوسکے گی۔ ''سیفائر انرجی'' الجی سے بایوفیول تیار کررہی ہے جس کے لیے وسیع قطعۂ زمین درکار نہیں ہوتا۔ تاہم '' یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنسز'' کی ایک رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر الجی سے بایوفیول کا حصول، کم از کم موجودہ ٹیکنالوجیز کے ساتھ ممکن نہیں، کیوں کہ اس کے لیے پانی اور نائٹروجن کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں الجی کو کاربن ڈائی آکسائیڈ ( جو ان کی خوراک ہے ) کی فراہمی کے لیے بھی روایتی یعنی رکازی ایندھن جلانا پڑتا ہے۔
امریکی بحریہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے توانائی ٹام ہکس کہتے ہیں کہ امریکی افواج اس تنقید سے واقف ہیں اسی لیے بحریہ '' بایو ماس'' سمیت دیگر متبادل ذرائع سے بایوفیول کے حصول پر توجہ دے رہی ہے۔
پینٹاگون نے 2025ء تک اپنی افواج کی توانائی کی25 فی صد ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔
امریکی ماہرین امید ظاہر کررہے ہیں کہ اس منصوبے سے معاشرے کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ امریکی افواج کی توانائی کی ضروریات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر امریکی فوج کو ملک تصور کرلیا جائے تو یہ دنیا میں تیل کی 35 ویں سب سے بڑی صارف ہوگی۔ امریکی فوج کے لیے روزانہ 45 ملین لیٹر خام تیل درکار ہوتا ہے۔ یہ مقدار سویڈن میں تیل کی ایک دن کی کھپت سے بھی زیادہ ہے۔
عراق اور افغانستان میں امریکی افواج کے لیے تیل اور دیگر سامان لے جانے والے ٹرکوں پر حملے پینٹاگون کے لیے دردسر بن گئے ہیں اور وہ مستقبل میں تیل پر انحصار میں کمی لانا چاہتا ہے، اسی لیے امریکی محکمۂ دفاع نے آئندہ بارہ برسوں میں بری فوج کی توانائی کی ایک چوتھائی ضروریات قابل تجدید ذرائع سے پوری کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا ہے، جب کہ 2020ء تک بحریہ کو 50 فی صد توانائی انھی ذرائع سے مہیا کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
روایتی تیل پر انحصار کم کرنے کی پینٹاگون کی خواہش کے پس پردہ اگرچہ ماحولیاتی تحفظ نہیں ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے سول سوسائٹی کو بھی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے، کیوں کہ انٹرنیٹ اور جی پی ایس سمیت بہت سی ایسی ایجادات ہیں جو پہلے امریکی افواج کے لیے کی گئی تھیں لیکن اب یہ عام ہوچکی ہیں اور ان سے پوری دنیا مستفید ہورہی ہے۔
امریکا میں قائم فوجی اڈوں پر توانائی کی ضروریات بہ تدریج سولر پینلز سے پوری کی جارہی ہیں۔ گذشتہ برس اکتوبر میں کیلی فورنیا میں قائم نیول بیس پر دو سولر پاور پلانٹس نصب کیے گئے تھے جب کہ رواں برس ایک میرین بیس پر سولر پاور پلانٹ نصب کیا جائے گا۔ افغانستان میں جنگ اختتام کو پہنچ رہی ہے۔ اس تناظر میں توقع کی جارہی ہے کہ امریکا بحرالکاہل پر توجہ مرکوز کرے گا جہاں اس کے لیے ساحلی علاقوں اور جزائر میں قائم اڈوں کو توانائی مہیا کرنا اہم ہوگا۔
اس مقصد کے لیے سمندری لہروں سے توانائی کے حصول کے امکانات پر توجہ دینے کے علاوہ، پینٹاگون نے'' اوشین تھرمل انرجی کنورژن سسٹمز'' پر بھی تحقیق کا آغاز کروادیا ہے۔ اس سسٹم کے تحت سطح سمندر کے گرم پانی کو کم نقطۂ کھولاؤ والے مائعات جیسے امونیا کو بخارات میں تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہ بخارات ٹربائن کو گھماتے ہیں جس کے نتیجے میں بجلی پیدا ہوتی ہے۔ بعدازاں ان بخارات کو گہرے سمندر سے حاصل کردہ ٹھنڈے پانی کے ذریعے دوبارہ مائع میں تبدیل کردیا جاتا ہے، اور اس طرح یہ عمل جاری رہتا ہے۔
توانائی سے متعلق ایسی تجرباتی ٹیکنالوجی کے لیے مارکیٹ پیدا کرنے میں سرمایہ کاری بے حد اہم ثابت ہوسکتی ہے۔ پینٹاگون کا مالیاتی شعبہ پہلے ہی مائیکروگرڈ سپلائی کرنے والی کمپنیوں کو بھاری سرمایہ فراہم کرچکا ہے۔ مائیکرو گرڈ بجلی کی پیداوار اور رسد کا خود انحصاری نظام ہوتا ہے جو آزادانہ طور پر کام کرسکتا ہے۔ گذشتہ برس ایک ریسرچ فرم کی تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مائیکرو گرڈ انڈسٹری کا سالانہ حجم چار ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور اس انڈسٹری کو یہاں تک پہنچانے میں پینٹاگون کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری کا کردار کلیدی ہے۔پینٹاگون کی جانب سے بایوفیول انڈسٹری میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے۔
متبادل ذرائع سے توانائی کے حصول میں امریکی بحریہ، بری فوج اور فضائیہ سے آگے ہے۔ 2020ء تک بحریہ سالانہ 1.27 بلین لیٹر متبادل مائع ایندھن خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس ضمن میں اپنی سنجیدگی ثابت کرنے کے لیے بحریہ نے گذشتہ برس 7 ڈالر فی لیٹر کے حساب سے 1.7 ملین لیٹر بایو فیول خریدا۔ امریکی افواج کی تاریخ میں صرف ایک پروجیکٹ کے لیے پہلی بار اتنی بڑی خریداری کی گئی تھی۔ امریکی فضائیہ کے طیاروں میں بھی آزمائشی طور پر جینیاتی طریقے سے تیار کردہ خمیر سے بنایا گیا بایوفیول استعمال ہونے لگا ہے۔ اس ایندھن پر آنے والی لاگت 15 ڈالر فی لیٹر ہے جو کہ خاصی زیادہ ہے، تاہم اگر قیمت نیچے آجاتی ہے تو فضائیہ نے 1.5 بلین لیٹر بایوفیول خریدنے کا منصوبہ بنایا ہے جو اس کے نصف طیاروں میں استعمال کیا جائے گا۔
پینٹاگون کے ان تمام منصوبوں پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ کیا فصلوں سے تیارکردہ بایوفیول سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی آئے گی جو گلوبل وارمنگ کا بنیادی سبب ہیں، اور کیا ان فصلوں کی پیداوار کے لیے زمین دست یاب ہوسکے گی۔ ''سیفائر انرجی'' الجی سے بایوفیول تیار کررہی ہے جس کے لیے وسیع قطعۂ زمین درکار نہیں ہوتا۔ تاہم '' یو ایس نیشنل اکیڈمی آف سائنسز'' کی ایک رپورٹ کے مطابق بڑے پیمانے پر الجی سے بایوفیول کا حصول، کم از کم موجودہ ٹیکنالوجیز کے ساتھ ممکن نہیں، کیوں کہ اس کے لیے پانی اور نائٹروجن کی بڑی مقدار درکار ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں الجی کو کاربن ڈائی آکسائیڈ ( جو ان کی خوراک ہے ) کی فراہمی کے لیے بھی روایتی یعنی رکازی ایندھن جلانا پڑتا ہے۔
امریکی بحریہ کے ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے توانائی ٹام ہکس کہتے ہیں کہ امریکی افواج اس تنقید سے واقف ہیں اسی لیے بحریہ '' بایو ماس'' سمیت دیگر متبادل ذرائع سے بایوفیول کے حصول پر توجہ دے رہی ہے۔