امریکا پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے
پاکستان نے ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دیا ہے اور اس کے مثبت کردار کی دنیا معترف ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے اور اپنا بے حساب مالی و جانی نقصان کرانے کے باوجود پاکستان کو امریکا کی جانب سے الزام تراشیوں کا سامنا افسوسناک ہے، خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال اور امریکا کا بھارت کی طرف جھکاؤ کے بعد ناروا طرز عمل اس بات کا متقاضی ہے کہ پاکستان اپنی اہمیت اجاگر کرے۔
اسلام آباد میں ادارہ اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں سیمینار سے خطاب میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے صائب باتوں کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس اور فوجی تعاون معطل کردیا ہے، امریکا کو تاحال فضائی اور زمینی راہداری سہولتیں فراہم کررہے ہیں اور ان کی بندش کا آپشن موزوں وقت پر استعمال کریں گے، امریکا کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور اپنے سیکڑوں فوجی مروانے کے بعد بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکا اور اب پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان اپنے تعاون کی قیمت نہیں بلکہ قربانیوں کا اعتراف چاہتا ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں کوئی اور ملک اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کئی ممالک پاکستان کی قربانیوں کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن امریکا کا رویہ اور احسان فراموشی قابل افسوس ہے۔
شاید امریکا سمجھتا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرکے مجبور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہورہے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان اسلحے کی خرید و فروخت اور فوجی مشقیں ہوئی ہیں، آرمی چیف کے دورہ ایران کے بعد صورتحال انتہائی سازگار ہوئی ہے، حال ہی میں پاک ایران دو طرفہ قومی سلامتی مشیران کی ملاقات بھی ہوئی، جب کہ سعودی عرب، ترکی اور چین کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مثالی ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دیا ہے اور اس کے مثبت کردار کی دنیا معترف ہے، صائب ہوگا کہ امریکا بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔ لیکن بھارت سے تعلقات بڑھانے کے چکر میں امریکی حکام عاقبت نااندیشانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وزیر دفاع کا یہ کہنا صائب ہے کہ بھارت کا کردار منفی اور پاکستان کے خلاف ہے، امریکا افغانستان میں ہار رہا ہے، افغان جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنے نہیں دیں گے۔
علاوہ ازیں امریکا کی پاکستان مخالف سخت پالیسی کی وجہ سے پاکستان نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی توسیع کے حوالے سے سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان افغان مہاجرین کی وجہ سے گنجلک مسائل کا شکار ہے جس میں اندرون ملک دہشت گردی اور بدامنی کے واقعات بھی شامل ہیں، افغان مہاجرین کے قیام کی مدت گزشتہ برس اکتیس دسمبر کو مکمل ہوگئی تھی، لیکن موسم سرما اور برفباری کے باعث مہاجرین کی منتقلی کا عمل رکا ہوا ہے۔
صائب ہوگا کہ پاکستان افغان مہاجرین کو جلد از جلد واپس روانہ کرے۔ موجودہ حالات میں 'سب سے پہلے پاکستان' کی سوچ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملکی سالمیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔
اسلام آباد میں ادارہ اسٹرٹیجک اسٹڈیز میں سیمینار سے خطاب میں وزیر دفاع خرم دستگیر نے صائب باتوں کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ پاکستان نے امریکا کے ساتھ انٹیلی جنس اور فوجی تعاون معطل کردیا ہے، امریکا کو تاحال فضائی اور زمینی راہداری سہولتیں فراہم کررہے ہیں اور ان کی بندش کا آپشن موزوں وقت پر استعمال کریں گے، امریکا کھربوں ڈالر خرچ کرنے اور اپنے سیکڑوں فوجی مروانے کے بعد بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیت سکا اور اب پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے، پاکستان اپنے تعاون کی قیمت نہیں بلکہ قربانیوں کا اعتراف چاہتا ہے۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جتنی قربانیاں پاکستان نے دی ہیں کوئی اور ملک اس کا عشر عشیر بھی نہیں کرسکا ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر کئی ممالک پاکستان کی قربانیوں کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن امریکا کا رویہ اور احسان فراموشی قابل افسوس ہے۔
شاید امریکا سمجھتا ہے کہ عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرکے مجبور کرنے میں کامیاب ہوجائے گا لیکن یہ اس کی خام خیالی ہے۔ پاکستان کے روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہورہے ہیں، دونوں ملکوں کے درمیان اسلحے کی خرید و فروخت اور فوجی مشقیں ہوئی ہیں، آرمی چیف کے دورہ ایران کے بعد صورتحال انتہائی سازگار ہوئی ہے، حال ہی میں پاک ایران دو طرفہ قومی سلامتی مشیران کی ملاقات بھی ہوئی، جب کہ سعودی عرب، ترکی اور چین کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات مثالی ہیں۔
پاکستان نے ہمیشہ حق و سچ کا ساتھ دیا ہے اور اس کے مثبت کردار کی دنیا معترف ہے، صائب ہوگا کہ امریکا بھی پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔ لیکن بھارت سے تعلقات بڑھانے کے چکر میں امریکی حکام عاقبت نااندیشانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ وزیر دفاع کا یہ کہنا صائب ہے کہ بھارت کا کردار منفی اور پاکستان کے خلاف ہے، امریکا افغانستان میں ہار رہا ہے، افغان جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنے نہیں دیں گے۔
علاوہ ازیں امریکا کی پاکستان مخالف سخت پالیسی کی وجہ سے پاکستان نے افغان مہاجرین کی وطن واپسی کی توسیع کے حوالے سے سخت موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان افغان مہاجرین کی وجہ سے گنجلک مسائل کا شکار ہے جس میں اندرون ملک دہشت گردی اور بدامنی کے واقعات بھی شامل ہیں، افغان مہاجرین کے قیام کی مدت گزشتہ برس اکتیس دسمبر کو مکمل ہوگئی تھی، لیکن موسم سرما اور برفباری کے باعث مہاجرین کی منتقلی کا عمل رکا ہوا ہے۔
صائب ہوگا کہ پاکستان افغان مہاجرین کو جلد از جلد واپس روانہ کرے۔ موجودہ حالات میں 'سب سے پہلے پاکستان' کی سوچ پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ ملکی سالمیت سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں۔