بلوچستان کی سیاسی صورتحال
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں نے ثنااللہ زہری کے استعفے کو جمہوریت کی جیت قراردیا ہے۔
بلوچستان میں پیدا شدہ سیاسی بحران کا ڈراپ سین دو واقعات کے تناظر میں ہوا۔ ایک جانب وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے، جسے بحران ٹلنے سے تعبیر کیا گیا، ادھر کوئٹہ میں بلوچستان اسمبلی کے قریب زرغون روڈ پر خود کش دھماکے کے نتیجے میں4 پولیس اہلکاروں سمیت 6 افراد شہید جب کہ 8 اہلکاروں سمیت 26 افراد زخمی ہو گئے، دہشتگردی کی یہ واردات اپنی ٹائمنگ کے اعتبار سے ہولناک تھی۔
میڈیا کے مطابق منگل کو اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا اور کئی اراکین اسمبلی میں موجود تھے، اسمبلی سے صرف 300میٹر کے فاصلے پر زرغون روڈ پر خودکش حملہ آور نے پولیس کے ٹرک کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا، وہ 10 کلو سے زائد بارودی مواد اٹھائے پیدل چلا آیا ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے مطابق حملے میں پولیس کے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا ، قریب سے گزرنے والی مسافروں سے بھری ہوئی بس بھی شدید متاثر ہوئی، خود کش حملہ آور کی عمر پندرہ سے بیس سال کے درمیان تھی، سخت سیکیورٹی کے باعث اسے اسمبلی کے اندر جانے کا موقع نہیں ملا ورنہ ہولناک نقصان بھی ہوسکتا تھا ۔
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں نے ثنااللہ زہری کے استعفے کو جمہوریت کی جیت قراردیا ہے جب کہ سیاسی مبصرین کے نزدیک ثنااللہ زہری نے استعفیٰ دے کر اسمبلی تحلیل ہونے سے بچائی جو بحران میں شدت کا پیش خیمہ بن سکتی تھی، ذرایع کے مطابق ثنا زہری نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مشورہ سے اپنا استعفیٰ گورنر محمد خان اچکزئی کو پیش کیا جسے انھوں نے فی الفور قبول کر لیا۔
وزیراعلیٰ کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا جسکے بعد بلوچستان کابینہ تحلیل ہو گئی، اور کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد افواہوں اور قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا جو سسٹم کو لپیٹنے اور سینیٹ کے الیکشن کے التوا کے حوالہ سے ظاہر کی جارہی تھیں۔ ن لیگی قیادت اپنے باغی اراکین اسمبلی کے آیندہ کے فیصلہ کا بے چینی سے انتظار کررہی ہے جس کی روشنی میں وہ نئے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی یا پھر اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دے سکتی ہے تاہم بلوچستان کی حساس جیوپولیٹیکل صورتحال میں ''آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا'' جیسی ہولناکی کے امکانات وقتی طور پر دب گئے۔
سر دست سیاسی حلقوں میں صوبہ بلوچستان کے حوالہ سے ن لیگی انداز حکومت پر نکتہ چینی بھی ہوگی اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخابی جوڑ توڑ میں تیزی کا بھی امکان ہے، ادھر یہ بحث بھی چھڑ سکتی ہے کہ کیا وزیراعلیٰ کا مستعفی ہونا بلوچستان بحران کا حل ہے۔
اپنے استعفے میں ثناء زہری نے کہا کہ میں آئین کے آرٹیکل 130(8) کے تحت عہدے سے مستعفی ہورہا ہوں۔ بعد ازاں میڈیا کو جاری اپنے بیان میں ثناء اللہ زہری نے کہا گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ساتھی ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔ اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ثناء اللہ زہری کے استعفے کے بعد نئے وزیر اعلیٰ کے لیے مختلف نام زیر غور لائے جارہے ہیں۔
بلوچستان میں 65 نشستیں ہیں جب کہ وزیراعلیٰ کو 35 ووٹ درکار ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کو حاصل نشستوں کی ترتیب یہ ہے۔ مسلم لیگ ن 21 ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی14 ، نیشنل پارٹی11، جے یو آئی (ف)8 ،مسلم لیگ(ق)5 ، بلوچستان نیشنل پارٹی 2 ، جب کہ مجلس وحدت المسلمین ، بی این پی(عوامی) اور آزاد امیدوار کی ایک ایک نشست ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومتوں میں وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی نئی اور انوکھی بات نہیں، ڈاکٹر عبدالمالک، اسلم رئیسانی، اور سردار اختر مینگل وغیرہ بھی سبکدوش ہوئے۔
سابقہ حکومتوں میں میگا کرپشن کے سیکڑوں واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے ،کروڑوں کی نقد کرنسی تھیلوں ، الماریوں،اٹیچی کیسوں میں چھپائی گئی، کرپشن میں متعدد اعلیٰ افسران کے نام آئے ، ان کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت بھی ہورہی ہے لیکن صوبہ بلوچستان کا عام آدمی غربت کی چکی میں پس رہاہے، ملک کا سب سے بڑا رقبہ رکھنے والا صوبہ غربت کی دہکتی ہوئی تصویر ہے، ماہی گیروں کے مسائل ہیں، جب کہ پینے کے پانی کی ضرورت پورے صوبے میں شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے۔
تعلیمی شعبہ میں سیاسی و عسکری قیادت کے تعاون سے صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے مگر بلوچستان میں غربت ، پسماندگی اور صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے، کھیلوں کی سرپرستی کا رجحان کم ہے، گزشتہ دنوں ایوارڈ یافتہ باکسرمحمد وسیم نے شکایت کی کہ اسے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں، فٹ بال کی ٹیموں کے حوالہ سے بلوچستان قومی چیمپئن شپس میں نمایاں نظر آتا تھا، مگر کھیلوں کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی اور افسر شاہی کے تنگ نظرانہ رویوں کے باعث کرکٹ، باکسنگ، ہاکی، والی بال، ایتھلیٹکس اور انڈور کھیلوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں سمندری کھیلوں کے درجنوں مقابلے ہوتے ہیں جب کہ بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی کھیلوں کے حوالے سے ویران و لاوارث ہے، صوبائی حکومت کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔
بلوچستان میں 11 نشستوں کے حامل نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صالح بھوتانی اور جان محمد جمالی میں سے کسی کو وزیراعلی بنایا جا سکتا ہے، سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد نئے وزیراعلیٰ کا فیصلہ کرینگے۔
بلاشبہ بلوچستان کا پر تپش منظر نامہ بدستور سوالیہ نشان ہے، اس صوبہ کی حساسیت سے ملکی سلامتی کا شیرازہ پیوست ہے، دشمن اسے ہمہ وقت ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں، سی پیک سے خائف قوتیں موقع کی تاک میں ہیں، دہشتگردوں نے سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھایا ، اس بزدلانہ کارروائی سے ملکی سلامتی پر مامور حکام کو یہ انتباہ بھی دیا گیا کہ ملک دشمن قوتوں کی باقیات میں ابھی دم خم ہے اور وہ انسانی جانوں سے بہیمانہ کھیل کھیلنے سے باز نہیں آئیں گی۔
اس لیے عسکری قیادت اور سیاسی مین اسٹریم شراکت داروں کا فرض ہے کہ وہ بلوچستان کی سیاسی صورتحال کا کوئی جامع سیاسی حل تلاش کریں، جو نئی صوبائی حکومت بنے گی اسے بھی اگلے الیکشن کے دریا کا سامنا ہوگا، وقت کم رہ گیا ہے ، استعفے سے جاری کشمکش ختم نہیں ہوگی، نہ کوئی بریک تھرو ہوسکے گا جب تک سیاسی اسٹیک ہولڈرز مل کر داخلی اور خارجی چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کرلیتے۔
عدم اعتماد کی تحریک آئینی اور قانونی استحقاق سے مشروط تھی ، جب کہ ن لیگ کے باغی ارکان بھی صوبائی حکومت سے نالاں تھے، مگر شکر ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک مہم جوئی سے زیادہ جمہوری عمل کا حصہ نظر آئی ، یہ چیز اس حقیقت کا برملا اظہار ہے کہ ملک میں جمہوریت جڑ پکڑ رہی ہے، جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ساتھ خوش آیند بات یہ ہوگی کہ حکومت اور اپوزیشن رہنما جمہوریت سے کمٹمنٹ نبھائیں اور بلوچستان بحران کے اصل اسباب کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے سیاسی ڈائیلاگ شروع کریں۔
میڈیا کے مطابق منگل کو اسمبلی کا اجلاس ختم ہوا اور کئی اراکین اسمبلی میں موجود تھے، اسمبلی سے صرف 300میٹر کے فاصلے پر زرغون روڈ پر خودکش حملہ آور نے پولیس کے ٹرک کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا، وہ 10 کلو سے زائد بارودی مواد اٹھائے پیدل چلا آیا ، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے مطابق حملے میں پولیس کے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا ، قریب سے گزرنے والی مسافروں سے بھری ہوئی بس بھی شدید متاثر ہوئی، خود کش حملہ آور کی عمر پندرہ سے بیس سال کے درمیان تھی، سخت سیکیورٹی کے باعث اسے اسمبلی کے اندر جانے کا موقع نہیں ملا ورنہ ہولناک نقصان بھی ہوسکتا تھا ۔
عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والے اپوزیشن رہنماؤں نے ثنااللہ زہری کے استعفے کو جمہوریت کی جیت قراردیا ہے جب کہ سیاسی مبصرین کے نزدیک ثنااللہ زہری نے استعفیٰ دے کر اسمبلی تحلیل ہونے سے بچائی جو بحران میں شدت کا پیش خیمہ بن سکتی تھی، ذرایع کے مطابق ثنا زہری نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مشورہ سے اپنا استعفیٰ گورنر محمد خان اچکزئی کو پیش کیا جسے انھوں نے فی الفور قبول کر لیا۔
وزیراعلیٰ کی نشست خالی ہونے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا جسکے بعد بلوچستان کابینہ تحلیل ہو گئی، اور کہا جاسکتا ہے کہ اس کے بعد افواہوں اور قیاس آرائیوں نے دم توڑ دیا جو سسٹم کو لپیٹنے اور سینیٹ کے الیکشن کے التوا کے حوالہ سے ظاہر کی جارہی تھیں۔ ن لیگی قیادت اپنے باغی اراکین اسمبلی کے آیندہ کے فیصلہ کا بے چینی سے انتظار کررہی ہے جس کی روشنی میں وہ نئے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی یا پھر اپوزیشن میں بیٹھنے کا عندیہ دے سکتی ہے تاہم بلوچستان کی حساس جیوپولیٹیکل صورتحال میں ''آگ صحرا میں لگی اور دھواں گھر سے اٹھا'' جیسی ہولناکی کے امکانات وقتی طور پر دب گئے۔
سر دست سیاسی حلقوں میں صوبہ بلوچستان کے حوالہ سے ن لیگی انداز حکومت پر نکتہ چینی بھی ہوگی اور نئے وزیراعلیٰ کے انتخابی جوڑ توڑ میں تیزی کا بھی امکان ہے، ادھر یہ بحث بھی چھڑ سکتی ہے کہ کیا وزیراعلیٰ کا مستعفی ہونا بلوچستان بحران کا حل ہے۔
اپنے استعفے میں ثناء زہری نے کہا کہ میں آئین کے آرٹیکل 130(8) کے تحت عہدے سے مستعفی ہورہا ہوں۔ بعد ازاں میڈیا کو جاری اپنے بیان میں ثناء اللہ زہری نے کہا گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ساتھی ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔ اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی۔ ثناء اللہ زہری کے استعفے کے بعد نئے وزیر اعلیٰ کے لیے مختلف نام زیر غور لائے جارہے ہیں۔
بلوچستان میں 65 نشستیں ہیں جب کہ وزیراعلیٰ کو 35 ووٹ درکار ہیں۔ صوبائی اسمبلی میں سیاسی جماعتوں کو حاصل نشستوں کی ترتیب یہ ہے۔ مسلم لیگ ن 21 ،پختونخوا ملی عوامی پارٹی14 ، نیشنل پارٹی11، جے یو آئی (ف)8 ،مسلم لیگ(ق)5 ، بلوچستان نیشنل پارٹی 2 ، جب کہ مجلس وحدت المسلمین ، بی این پی(عوامی) اور آزاد امیدوار کی ایک ایک نشست ہے۔ بلوچستان کی صوبائی حکومتوں میں وزرائے اعلیٰ کی تبدیلی نئی اور انوکھی بات نہیں، ڈاکٹر عبدالمالک، اسلم رئیسانی، اور سردار اختر مینگل وغیرہ بھی سبکدوش ہوئے۔
سابقہ حکومتوں میں میگا کرپشن کے سیکڑوں واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے ،کروڑوں کی نقد کرنسی تھیلوں ، الماریوں،اٹیچی کیسوں میں چھپائی گئی، کرپشن میں متعدد اعلیٰ افسران کے نام آئے ، ان کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات کی سماعت بھی ہورہی ہے لیکن صوبہ بلوچستان کا عام آدمی غربت کی چکی میں پس رہاہے، ملک کا سب سے بڑا رقبہ رکھنے والا صوبہ غربت کی دہکتی ہوئی تصویر ہے، ماہی گیروں کے مسائل ہیں، جب کہ پینے کے پانی کی ضرورت پورے صوبے میں شدت کے ساتھ محسوس کی جاتی ہے۔
تعلیمی شعبہ میں سیاسی و عسکری قیادت کے تعاون سے صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے مگر بلوچستان میں غربت ، پسماندگی اور صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے، کھیلوں کی سرپرستی کا رجحان کم ہے، گزشتہ دنوں ایوارڈ یافتہ باکسرمحمد وسیم نے شکایت کی کہ اسے بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کے لیے بنیادی سہولتیں دستیاب نہیں، فٹ بال کی ٹیموں کے حوالہ سے بلوچستان قومی چیمپئن شپس میں نمایاں نظر آتا تھا، مگر کھیلوں کی غیر حقیقت پسندانہ پالیسی اور افسر شاہی کے تنگ نظرانہ رویوں کے باعث کرکٹ، باکسنگ، ہاکی، والی بال، ایتھلیٹکس اور انڈور کھیلوں کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں سمندری کھیلوں کے درجنوں مقابلے ہوتے ہیں جب کہ بلوچستان کی طویل ساحلی پٹی کھیلوں کے حوالے سے ویران و لاوارث ہے، صوبائی حکومت کو اس جانب توجہ دینا چاہیے۔
بلوچستان میں 11 نشستوں کے حامل نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو نے سابق صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے صالح بھوتانی اور جان محمد جمالی میں سے کسی کو وزیراعلی بنایا جا سکتا ہے، سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد نئے وزیراعلیٰ کا فیصلہ کرینگے۔
بلاشبہ بلوچستان کا پر تپش منظر نامہ بدستور سوالیہ نشان ہے، اس صوبہ کی حساسیت سے ملکی سلامتی کا شیرازہ پیوست ہے، دشمن اسے ہمہ وقت ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں، سی پیک سے خائف قوتیں موقع کی تاک میں ہیں، دہشتگردوں نے سیاسی صورتحال سے فائدہ اٹھایا ، اس بزدلانہ کارروائی سے ملکی سلامتی پر مامور حکام کو یہ انتباہ بھی دیا گیا کہ ملک دشمن قوتوں کی باقیات میں ابھی دم خم ہے اور وہ انسانی جانوں سے بہیمانہ کھیل کھیلنے سے باز نہیں آئیں گی۔
اس لیے عسکری قیادت اور سیاسی مین اسٹریم شراکت داروں کا فرض ہے کہ وہ بلوچستان کی سیاسی صورتحال کا کوئی جامع سیاسی حل تلاش کریں، جو نئی صوبائی حکومت بنے گی اسے بھی اگلے الیکشن کے دریا کا سامنا ہوگا، وقت کم رہ گیا ہے ، استعفے سے جاری کشمکش ختم نہیں ہوگی، نہ کوئی بریک تھرو ہوسکے گا جب تک سیاسی اسٹیک ہولڈرز مل کر داخلی اور خارجی چیلنجز سے نمٹنے کا کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہیں کرلیتے۔
عدم اعتماد کی تحریک آئینی اور قانونی استحقاق سے مشروط تھی ، جب کہ ن لیگ کے باغی ارکان بھی صوبائی حکومت سے نالاں تھے، مگر شکر ہے کہ عدم اعتماد کی تحریک مہم جوئی سے زیادہ جمہوری عمل کا حصہ نظر آئی ، یہ چیز اس حقیقت کا برملا اظہار ہے کہ ملک میں جمہوریت جڑ پکڑ رہی ہے، جمہوری اسپرٹ کے ساتھ ساتھ خوش آیند بات یہ ہوگی کہ حکومت اور اپوزیشن رہنما جمہوریت سے کمٹمنٹ نبھائیں اور بلوچستان بحران کے اصل اسباب کا مکمل خاتمہ کرنے کے لیے سیاسی ڈائیلاگ شروع کریں۔