جام صادق کی رودادِ جلاوطنی
قارئین اگر جام صادق کا یہ انٹرویو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو ان کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
جام صادق علی، جنرل ضیاء کی فوجی آمریت میں، ان کے اپنے بقول، سندھ کے مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل جہانزیب ارباب کی مدد سے بیرونِ ملک فرار ہوکر پہلے دبئی اور پھر لندن میں طویل جلاوطنی گزارنے کے بعد جب صدر غلام اسحٰق خان اور اسٹیبلشمنٹ کی زیر سرپرستی سندھ میں پیپلز پارٹی خصوصاً بھٹو خاندان کو ناکوں چنے چبوانے کا ٹاسک لے کر وطن لوٹے اور بطور نامزد وزیر اعلیٰ صوبے پر کسی نواب کی طرح راج کرنا شروع کیا تو ''ٹارزن کی واپسی'' کے مصداق کراچی آمد کے فوراً بعد، انھوں نے سندھ کے سابق سیکریٹری اطلاعات، علی احمد بروہی کے جاری کردہ پرچے ''لطیف ڈائجسٹ'' کو پہلا تفصیلی انٹرویو دیا۔
جو شایع ہوا تھا یا نہیں اس کا تو پتہ نہیں، البتہ میں نے اس کی کمپوز شدہ پروف کاپی دیکھی تھی جو کشیدہ تعلقات کے باوجود نوک پلک سنوارنے اور پڑھ کر اپنی رائے دینے کی فرمائش کے ساتھ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے بطور خاص مجھے بھجوائی گئی تھی۔
اس انٹرویو میں جام صادق نے اپنی جلاوطنی کے قصے مزے لے لے کر سنائے اور دیار غیر میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات تفصیل سے بیان کیے تھے۔ ان کی اس رودادِ جلاوطنی کے مندرجات آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہیں۔ ہفتہ 6 جنوری کو میرا کالم ''محسنِ پاکستان آغا حسن عابدی'' شایع ہوا تھا، قارئین اگر جام صادق کا یہ انٹرویو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو ان کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
جام صادق کے بقول جنرل جہانزیب ارباب نے انھیں اعتماد میں لے کر بتایا کہ جنرل ضیاء ان سے بھٹو کے خلاف اپنی مرضی کا کوئی بیان حاصل کرنا اور اس کی بنیاد پر بھٹو خاندان کو رسوا کرنا، اس کی خاندانی جائیداد اور زمینوں کو متنازع بنانا اور تقسیم کرواکے پھوٹ ڈلوانا چاہتے تھے۔ ان کے انکار کرنے پر دھمکی دی گئی کہ ان کا وہ حشر کیا جائے گا کہ وہ بھٹو کا حشر بھول جائیں گے۔
جام صادق نے جنرل کو دوستی کا واسطہ دیکر مدد چاہی اور کہا کہ آپ لوگ تو اس وقت تک ہیں جب تک مارشل لا نافذ ہے، ہم نے تو یہیں جینا اور مرنا ہے لہذا وہ بھٹو خاندان سے بلاوجہ دشمنی مول نہیں لینا چاہتے۔ اس پر ان کے اور جنرل ارباب کے مابین وہ ڈیل ہوئی جس کے تحت بیرون ملک فرار ہونے میں ان کی مدد کی گئی۔ جنرل جہانزیب ارباب نہ صرف انھیںاپنے ساتھ ایئرپورٹ لے کر گئے بلکہ جہاز میں سوار ہونے تک وہاں موجود رہے۔
جام صادق نے لین دین کی تفصیل تو نہیں بتائی البتہ یہ انکشاف ضرور کیا کہ جنرل ضیاء کو کسی طرح اس کا علم ہوگیا جس کے بعد جنرل ارباب کو ہٹا کر ان کی جگہ جنرل ایس ایم عباسی کو سندھ کا گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا۔ بیرون ملک انھوں نے پہلا پڑاؤ دبئی میں ڈالا جہاں کے حکمراں ایک تو بھٹو کے ذاتی دوست تھے دوسرے ان کے اپنے بھی کچھ با اثر شیوخ کے ساتھ گہرے مراسم تھے جن کی وجہ سے انھیںوہاں قیام کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، پاکستان سے ''سپلائی لائن'' بھی بحال تھی۔
جلد ہی جنرل عباسی کی زیر قیادت سندھ کی مارشل لا انتظامیہ نے وہ سپلائی لائن کاٹ دی اور شیوخ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جام صادق کو پاکستان کے حوالے کریں،انھوں نے یہ تو نہیں کیا البتہ بحفاظت لندن نکل جانے میں ان کی مدد کی اور یہ بقول خود ''اللہ کے آسرے'' لندن پہنچ گئے، جہاں انھی کی طرح بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ کھر پہلے سے موجود جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ وہ بھی جام صادق کی طرح رئیس آدمی تھے، پھر ان کی سپلائی لائن بھی بند نہیں تھی اس لیے کھلا کھاتے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔
جام صادق نے رابطہ کیا تو کھر صاحب نے ا نہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا، اپنے ساتھ رکھا اور خوب عیش کرایا۔کچھ عرصہ دونوں نے خوب مزے کیے لیکن ایک دن اچانک پتہ چلا کہ کھرکی سپلائی لائن بھی کاٹ دی گئی ہے اور وہ سڑک پر آگئے ہیں۔ انھوں نے جام کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور اپنا انتظام کرنے کے لیے کہا کیونکہ اب وہ خود دوسروں کے رحم وکرم پر تھے اور ان کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔
یہاں سے کہانی میں نیا موڑ آیا، کھر کے ہاں سے رخصت ہوکر جام صادق بلا ارادہ ناک کی سیدھ میں ایک طرف چل پڑے، کوئی گھنٹہ بھر پیدل چلنے کے بعد تھک کر چور ہوگئے، سڑک کے کنارے ایک پبلک پارک نظر آیا تو سوچا وہیں بیٹھ کر خود کشی کی منصوبہ بندی کریں گے سو آکر ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔
سامنے والی بینچ پر ایک معمر جوڑا بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا، بڑے صاحب اخبار بینی میں مصروف تھے جب کہ بڑی بی کسی بچے کا سوئٹر بن رہی تھیں۔ جام صادق نے بتایا کہ سخت بھوک لگی تھی اور جیب میں دھیلا نہیں تھا، پارک میں لوگوں خصوصاً بچوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر بھوک اور بھی چمک اٹھی، اب ان سے مزید رہا نہیں جا رہا تھا، جی چاہتا تھا کسی کے ہاتھ سے برگر جھپٹ کر کھالیں۔ انھوں نے دیکھا وہ معمر جوڑا اٹھ کر جانے لگا تو اخبار اور کاغذ کا ایک تھیلا وہیں بینچ پر چھوڑ دیا۔
جام صادق کے بقول وہ لپک کر پہنچے، تھیلا چیک کیا تو اس میں برگر کے بچے ہوئے دو ٹکڑے اور کچھ فرائز پڑے تھے جو انھوں نے جھٹ سے نکال کر کھا لیے، پیٹ میں کچھ گیا تو وہ ٹیک لگا گر بیٹھ گئے اور اخبار کی ورق گردانی کرنے لگے۔ اچانک ان کی نظر ایک تصویر پر پڑی جس نے ان کے دن بدل دیے اور لندن میں رہنا ان کے لیے آسان ہوگیا۔ وہ تصویرآغا حسن عابدی کی تھی جس میں وہ لندن ہی میں کسی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
جام صادق نے بتایا کہ وہ زندگی میں پہلے کبھی آغا صاحب سے نہیں ملے تھے، بس اتنا جانتے تھے کہ وہ بہت بڑے پاکستانی بینکار ہیں۔ وہ اخبار ہاتھ میں لیے پارک سے باہر آئے اور ایک قریبی بینک میں جا کر اس جگہ کا پتہ پوچھا جہاں آغا صاحب کو تصویر میں دکھایا گیا تھا۔ یوں پتہ حاصل کرکے وہ ان سے ملنے میں کامیاب ہوگئے۔
خلافِ توقع آغا صاحب نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی، نہایت تواضع سے پیش آئے اور یوں لگے ان کا حوصلہ بڑھانے اور تسلیاں دینے جیسے ان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوں۔ قصہ مختصر آغا صاحب کی دی ہوئی رقم سے انھوں نے لندن میں وہ گھر خریدا جو بعد میں غیر سرکاری سندھ ہاؤس کے نام سے مشہور ہوا اور آج تک وہاں ان کی طرح در در کی ٹھوکریں کھانے والے پاکستانیوں خصوصاً سندھیوں کی پناہ گاہ ہے۔ آغا صاحب کے مقرر کردہ ماہانہ وظیفے سے انھوں نے وہاں جلاوطنی کے باقی ایام اس ٹھاٹھ سے گزارے کہ کوڑوں کی سزا اور جیل کی صعوبتوں کے ڈر سے بھاگ کر وہاں پہنچے ہوئے کوئی درجن بھر دوسرے لوگ بھی ان کے خرچ پر پلتے تھے۔
جام صادق نے زندگی کے آخری حصے میں جو سیاسی کردار نبھایا وہ بلاشبہ انتہائی شرمناک اور قابل نفرت تھا لیکن ان کا یہ انٹرویو پڑھ کر لگا کہ خاندانی شرافت چھپائے نہیں چھپتی اور برا آدمی بھی کبھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر بیٹھتا ہے۔ جام صادق چاہتے تو آغا صاحب کے احسانات نہ مانتے، مگر انھوں نے نہ صرف کھلے دل سے ان کا اعتراف کیا بلکہ لوگوں کو اپنے محسن کی بڑائی کے اس پہلو سے بھی روشناس کرایا جس کا آج کے خود غرضانہ دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ ہی کے دنوں میں جب آغا صاحب بینک سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر کراچی پہنچے تو یہ ان سے ملنے گئے۔ وہ انھیںدیکھ کر بہت خوش ہوئے اور وطن واپسی و وزارت اعلیٰ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ اجازت چاہتے وقت جام صادق نے جب وہ رقم لوٹانا چاہی تو آغا صاحب گویا ہوئے ''میں نے یہ واپس لینے کے لیے نہیں دی تھی اس لیے اپنے پاس ہی رکھو اور اگر کبھی کسی کو اپنی طرح برے وقت کی جکڑ میں پاؤ تو اس کی مدد کردینا، میں سمجھوں گا مجھے رقم واپس مل گئی۔''
جو شایع ہوا تھا یا نہیں اس کا تو پتہ نہیں، البتہ میں نے اس کی کمپوز شدہ پروف کاپی دیکھی تھی جو کشیدہ تعلقات کے باوجود نوک پلک سنوارنے اور پڑھ کر اپنی رائے دینے کی فرمائش کے ساتھ ایک مشترکہ دوست کے ذریعے بطور خاص مجھے بھجوائی گئی تھی۔
اس انٹرویو میں جام صادق نے اپنی جلاوطنی کے قصے مزے لے لے کر سنائے اور دیار غیر میں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات تفصیل سے بیان کیے تھے۔ ان کی اس رودادِ جلاوطنی کے مندرجات آج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہیں۔ ہفتہ 6 جنوری کو میرا کالم ''محسنِ پاکستان آغا حسن عابدی'' شایع ہوا تھا، قارئین اگر جام صادق کا یہ انٹرویو اس کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو ان کا لطف دوبالا ہوجائے گا۔
جام صادق کے بقول جنرل جہانزیب ارباب نے انھیں اعتماد میں لے کر بتایا کہ جنرل ضیاء ان سے بھٹو کے خلاف اپنی مرضی کا کوئی بیان حاصل کرنا اور اس کی بنیاد پر بھٹو خاندان کو رسوا کرنا، اس کی خاندانی جائیداد اور زمینوں کو متنازع بنانا اور تقسیم کرواکے پھوٹ ڈلوانا چاہتے تھے۔ ان کے انکار کرنے پر دھمکی دی گئی کہ ان کا وہ حشر کیا جائے گا کہ وہ بھٹو کا حشر بھول جائیں گے۔
جام صادق نے جنرل کو دوستی کا واسطہ دیکر مدد چاہی اور کہا کہ آپ لوگ تو اس وقت تک ہیں جب تک مارشل لا نافذ ہے، ہم نے تو یہیں جینا اور مرنا ہے لہذا وہ بھٹو خاندان سے بلاوجہ دشمنی مول نہیں لینا چاہتے۔ اس پر ان کے اور جنرل ارباب کے مابین وہ ڈیل ہوئی جس کے تحت بیرون ملک فرار ہونے میں ان کی مدد کی گئی۔ جنرل جہانزیب ارباب نہ صرف انھیںاپنے ساتھ ایئرپورٹ لے کر گئے بلکہ جہاز میں سوار ہونے تک وہاں موجود رہے۔
جام صادق نے لین دین کی تفصیل تو نہیں بتائی البتہ یہ انکشاف ضرور کیا کہ جنرل ضیاء کو کسی طرح اس کا علم ہوگیا جس کے بعد جنرل ارباب کو ہٹا کر ان کی جگہ جنرل ایس ایم عباسی کو سندھ کا گورنر اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر لگایا گیا۔ بیرون ملک انھوں نے پہلا پڑاؤ دبئی میں ڈالا جہاں کے حکمراں ایک تو بھٹو کے ذاتی دوست تھے دوسرے ان کے اپنے بھی کچھ با اثر شیوخ کے ساتھ گہرے مراسم تھے جن کی وجہ سے انھیںوہاں قیام کرنے میں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا ، پاکستان سے ''سپلائی لائن'' بھی بحال تھی۔
جلد ہی جنرل عباسی کی زیر قیادت سندھ کی مارشل لا انتظامیہ نے وہ سپلائی لائن کاٹ دی اور شیوخ پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ وہ جام صادق کو پاکستان کے حوالے کریں،انھوں نے یہ تو نہیں کیا البتہ بحفاظت لندن نکل جانے میں ان کی مدد کی اور یہ بقول خود ''اللہ کے آسرے'' لندن پہنچ گئے، جہاں انھی کی طرح بھٹو کے ایک اور قریبی ساتھی غلام مصطفیٰ کھر پہلے سے موجود جلاوطنی کاٹ رہے تھے۔ وہ بھی جام صادق کی طرح رئیس آدمی تھے، پھر ان کی سپلائی لائن بھی بند نہیں تھی اس لیے کھلا کھاتے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے۔
جام صادق نے رابطہ کیا تو کھر صاحب نے ا نہیں کھلے دل سے خوش آمدید کہا، اپنے ساتھ رکھا اور خوب عیش کرایا۔کچھ عرصہ دونوں نے خوب مزے کیے لیکن ایک دن اچانک پتہ چلا کہ کھرکی سپلائی لائن بھی کاٹ دی گئی ہے اور وہ سڑک پر آگئے ہیں۔ انھوں نے جام کو ساری صورتحال سے آگاہ کیا اور اپنا انتظام کرنے کے لیے کہا کیونکہ اب وہ خود دوسروں کے رحم وکرم پر تھے اور ان کی مدد کرنے سے قاصر تھے۔
یہاں سے کہانی میں نیا موڑ آیا، کھر کے ہاں سے رخصت ہوکر جام صادق بلا ارادہ ناک کی سیدھ میں ایک طرف چل پڑے، کوئی گھنٹہ بھر پیدل چلنے کے بعد تھک کر چور ہوگئے، سڑک کے کنارے ایک پبلک پارک نظر آیا تو سوچا وہیں بیٹھ کر خود کشی کی منصوبہ بندی کریں گے سو آکر ایک بینچ پر بیٹھ گئے۔
سامنے والی بینچ پر ایک معمر جوڑا بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا، بڑے صاحب اخبار بینی میں مصروف تھے جب کہ بڑی بی کسی بچے کا سوئٹر بن رہی تھیں۔ جام صادق نے بتایا کہ سخت بھوک لگی تھی اور جیب میں دھیلا نہیں تھا، پارک میں لوگوں خصوصاً بچوں کو کھاتا پیتا دیکھ کر بھوک اور بھی چمک اٹھی، اب ان سے مزید رہا نہیں جا رہا تھا، جی چاہتا تھا کسی کے ہاتھ سے برگر جھپٹ کر کھالیں۔ انھوں نے دیکھا وہ معمر جوڑا اٹھ کر جانے لگا تو اخبار اور کاغذ کا ایک تھیلا وہیں بینچ پر چھوڑ دیا۔
جام صادق کے بقول وہ لپک کر پہنچے، تھیلا چیک کیا تو اس میں برگر کے بچے ہوئے دو ٹکڑے اور کچھ فرائز پڑے تھے جو انھوں نے جھٹ سے نکال کر کھا لیے، پیٹ میں کچھ گیا تو وہ ٹیک لگا گر بیٹھ گئے اور اخبار کی ورق گردانی کرنے لگے۔ اچانک ان کی نظر ایک تصویر پر پڑی جس نے ان کے دن بدل دیے اور لندن میں رہنا ان کے لیے آسان ہوگیا۔ وہ تصویرآغا حسن عابدی کی تھی جس میں وہ لندن ہی میں کسی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
جام صادق نے بتایا کہ وہ زندگی میں پہلے کبھی آغا صاحب سے نہیں ملے تھے، بس اتنا جانتے تھے کہ وہ بہت بڑے پاکستانی بینکار ہیں۔ وہ اخبار ہاتھ میں لیے پارک سے باہر آئے اور ایک قریبی بینک میں جا کر اس جگہ کا پتہ پوچھا جہاں آغا صاحب کو تصویر میں دکھایا گیا تھا۔ یوں پتہ حاصل کرکے وہ ان سے ملنے میں کامیاب ہوگئے۔
خلافِ توقع آغا صاحب نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی، نہایت تواضع سے پیش آئے اور یوں لگے ان کا حوصلہ بڑھانے اور تسلیاں دینے جیسے ان کے بارے میں سب کچھ جانتے ہوں۔ قصہ مختصر آغا صاحب کی دی ہوئی رقم سے انھوں نے لندن میں وہ گھر خریدا جو بعد میں غیر سرکاری سندھ ہاؤس کے نام سے مشہور ہوا اور آج تک وہاں ان کی طرح در در کی ٹھوکریں کھانے والے پاکستانیوں خصوصاً سندھیوں کی پناہ گاہ ہے۔ آغا صاحب کے مقرر کردہ ماہانہ وظیفے سے انھوں نے وہاں جلاوطنی کے باقی ایام اس ٹھاٹھ سے گزارے کہ کوڑوں کی سزا اور جیل کی صعوبتوں کے ڈر سے بھاگ کر وہاں پہنچے ہوئے کوئی درجن بھر دوسرے لوگ بھی ان کے خرچ پر پلتے تھے۔
جام صادق نے زندگی کے آخری حصے میں جو سیاسی کردار نبھایا وہ بلاشبہ انتہائی شرمناک اور قابل نفرت تھا لیکن ان کا یہ انٹرویو پڑھ کر لگا کہ خاندانی شرافت چھپائے نہیں چھپتی اور برا آدمی بھی کبھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کر بیٹھتا ہے۔ جام صادق چاہتے تو آغا صاحب کے احسانات نہ مانتے، مگر انھوں نے نہ صرف کھلے دل سے ان کا اعتراف کیا بلکہ لوگوں کو اپنے محسن کی بڑائی کے اس پہلو سے بھی روشناس کرایا جس کا آج کے خود غرضانہ دور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی وزارتِ اعلیٰ ہی کے دنوں میں جب آغا صاحب بینک سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد عارضہ قلب میں مبتلا ہوکر کراچی پہنچے تو یہ ان سے ملنے گئے۔ وہ انھیںدیکھ کر بہت خوش ہوئے اور وطن واپسی و وزارت اعلیٰ سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ اجازت چاہتے وقت جام صادق نے جب وہ رقم لوٹانا چاہی تو آغا صاحب گویا ہوئے ''میں نے یہ واپس لینے کے لیے نہیں دی تھی اس لیے اپنے پاس ہی رکھو اور اگر کبھی کسی کو اپنی طرح برے وقت کی جکڑ میں پاؤ تو اس کی مدد کردینا، میں سمجھوں گا مجھے رقم واپس مل گئی۔''