رابطے کا مرکز کھو رہے ہیں
آج کی جدید دنیا میں رابطے کا مرکز کھوچکا ہے۔
سماجی زندگی کے طورطریقے اور عادات بدلتی جا رہی ہیں۔ یہ زندگی دن بہ دن مشینی اور احساس سے عاری ہوتی جا رہی ہے ۔ اشیا کے ساتھ جذبوں کی خرید وفروخت کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔
زندگی وحشتوں کا جنگل بن چکی ہے۔
روح کا گلاب مرجھا جائے تو جسم بھی بیمار پڑجاتا ہے ۔ احساس کے آنسوؤں سے اس گلاب کو ترکرنا ہوتا ہے۔ احساس، جو بے حسی کی دھول میں اوجھل ہوچکا ہے، کہیں بھی چلے جائیں۔ کسی بھی محفل میں جا بیٹھیں آپ کو منفی سوچ اور رویوں کا ذکر ملے گا۔ غیبت، دل آزاری و غلط فہمی کے ان تذکروں کے درمیان زندگی کی تازگی اور جینے کی امنگ معدوم ہو جاتی ہے۔
جسم کا روح سے دور کا بھی رابطہ نہیں ہے۔ جسم، ذہن و روح کے رابطے غیر فعال ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی ذات سے واسطہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔ انسان نے ذہن کو الجھا کے رکھ دیا ہے۔ یہ بہت زیادہ تھک چکا ہے۔ جسم آرام کرکے دوبارہ فعال ہوجاتا ہے مگر ذہن کی تھکن آرام کرنے سے نہیں جاتی۔
تھکے ہوئے ذہن کو باہم سکون پہنچانا مشکل ترین کام ہے۔ خواہشوں کے ہجوم میں ذہن گھبرا جاتا ہے۔ یہ طلب کے شور میں پرسکون نہیں ہو سکتا۔ اسے خاموش کرانے کے لیے خواہشوں کے شور کو تھپک کے سلانا پڑے گا۔
جدید دنیا کے تمام تر کاروبار خواہشوں کی ترغیب دینے پر قائم ہیں۔
جس طرح پانی کے دائرے بنتے چلے جاتے ہیں، اسی طرح خواہشیں ہیں۔ لہر در لہر چلی آتی ہیں۔ یہ کبھی تھکتی نہیں۔ یہ بے چین رکھتی ہیں۔ آپ ذات کے سکون سے محروم ہوجاتے ہیں۔
جدید دنیا کا المیہ بے سکونی ہے۔ یہ ایک گہرا خلا پیدا کردیتی ہے ذات کے اندر۔
یہ سیاسی انتشار کا نتیجہ ہو یا معاشی مسائل سے پھوٹ پڑی ہو۔ جھوٹ، بے ایمانی یا دھوکے سے جڑی ہو۔ اخلاقی قدروں کی پامالی کا ردعمل ہو۔ اپنی گہرائی میں یہ بے اطمینانی، سکھ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ آخر انسان اندر کے سکون کو کیسے پاسکتا ہے کہ اس کے ذہن کا شور تھم جائے۔
ذہن کا شور زندگی کی کسی چیز سے محظوظ ہونے نہیں دیتا۔ اس اس سکھ اور شانتی کا بنیادی ذریعہ پرکھنے والی نظر میں پوشیدہ ہے۔ وہ طاقتور حس، جو سلیقہ عطا کرتی ہے کہ انسان اپنے اندر کے انتشار سے کیسے نبرد آزما ہو۔
ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے لمحہ موجود میں واپس لوٹ کے آنا پڑتا ہے۔ لمحہ موجود میں غصے، ندامت یا انتقام کی آگ سرد پڑ جاتی ہے۔ ہر منفی رویے کا محور ماضی ہوتا ہے۔ ماضی میں رہنے والی قومیں ہر وقت آگ بگولا رہتی ہیں اور ذہن کے ایندھن میں جل کر فنا ہوجاتی ہیں۔
سکون عفو و درگزر میں ملتا ہے۔
آپ نے معاف کردیا لہٰذا ذہن و روح شفایابی کی طرف بڑھنے لگیں گے۔ نفرت کا طوفان تھم جائے گا۔
سکون کے لمحوں میں ہم موجود نہیں ہوتے۔ انسان کو اپنے ہونے کا احساس ماضی اور مستقبل کے ذہنی و جسمانی دباؤ کے درمیان محسوس ہوتا ہے۔
اپنے جسم کو بھول کر دماغ میں زندہ رہنے کی کوشش بے سکونی پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے تو ہم لڑتے جھگڑتے اور نفرتیں کرتے ہیں تاکہ زندگی کو محسوس کرسکیں۔
انتشار کو وجود کی گواہی سمجھتے ہیں اور سکون کو ذات کی نفی۔
پرسکون رہنے کے لیے جسم میں اپنی موجودگی کو محسوس کرنا پڑتا ہے۔ خود کو قبول کرنا پڑتا ہے وجود کی سچائی سمیت۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم جہاں موجود ہیں۔ جن حالات میں سانس لے رہے ہیں۔ انھیں مسترد کردیتے ہیں۔
ہمارا المیہ مسترد کرنے میں پوشیدہ ہے۔ سمجھے بغیر سننا ہماری عادت بن چکی ہے۔
جو سنائی دے رہا ہے اسے پہلے سمجھ تو لیں۔ سمجھ کے اس موڑ سے آگے ذہن کی منفی رکاوٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔
آج کی جدید دنیا میں رابطے کا مرکز کھوچکا ہے۔
معلومات کا جال بچھا ہے ہر طرف۔ ضرورت سے زیادہ کی معلومات بھی بے چینی میں مبتلا کردیتی ہے۔
ہم اپنا علاج خود کرسکتے ہیں بغیرکسی طبیب اور روحانی ماہر کے۔ مگر اس وقت جب اپنے اندر کی طاقت کو محسوس نہ کرنے لگیں۔ اس کے لیے اضافی معلومات سے رابطہ منقطع کرنا پڑتا ہے۔
معلومات اتنی حد تک ہو کہ جو زندگی دے سکے۔ جو ذات تک محدود ہو۔ ذات کی بہتری کے لیے ہو۔ جو وجود کی آگہی کا محرک بنے، مگر ہم فقط دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ دوسروں کو زیادہ سوچتے ہیں اور ذات سے تعلق کھو دیتے ہیں۔ اپنے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں۔ اندر کے سکون کے لیے اپنی ذات سے ہر وقت مثبت رابطہ درکار ہوتا ہے۔
ذات کی قبولیت سے ذہن کا مکالمہ بھی ہمارے حق میں ہوجاتا ہے۔
اندر کا مکالمہ فعال ہوجاتا ہے جب انسان کا تصور، اس کی سوچ اور عمل واضح ہوں تو۔
سکون، خوشی یا اطمینان دوسروں سے تعلق کی روشنی قائم کرنے سے نصیب ہوتے ہیں گھر۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے رابطے بار بار منقطع ہوجاتے ہیں۔ اور درمیان میں غلط فہمیاں اور افواہیں آجاتی ہیں۔
ہم بار بار اپنے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں۔
فقط محبت ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا۔ مگر محبت بھی کاروباری زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔ محبت کے لیے نقاب پہننا ضروری ہوجاتا ہے۔
دنیاداری نبھانے کی خاطر۔ جہاں خامیاں مسترد کردی جاتی ہیں وہاں طرح طرح کے ماسک ایجاد ہوجاتے ہیں۔ فقط خوبیوں کو سراہنے والے معاشرے اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ یا پھر فقط خامیوں کو اچھالنے والا سماج بھی ذہنی طور پر بیمار ہوتا ہے۔ انسان کی خوبیوں یا خامیوں کو حقیقت پسندی کا توازن چاہیے۔ یہ توازن ہمارے ہاں بگڑا ہوا ہے۔ یا تو لوگ بہت اچھے ہیں کہ ان کی اچھائی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا یا پھر بہت ہی برے۔ بقول شیکسپیئر کے اچھائی یا برائی ہماری سوچ کے انداز میں پائی جاتی ہے۔ برائی کو پیسہ چھپا لیتا ہے۔ جب کہ اچھائی کی قدر نہیں ہوتی اگر آپ کے پاس کوئی عہدہ یا اختیار نہ ہو۔
چیزیں مدار سے ہٹ کر ہیں۔ آنکھ اپنے مطلب کا منظر دیکھنا چاہتی ہے اور کان اپنے مفاد کی بات سننے کے منتظر رہتے ہیں۔ اور زبان بھی مصلحت کی بولی بولتی ہے۔ لہٰذا ذہن منتشر رہتے ہیں۔ خالص سوچ اور رویے انسان کو ذات کی اصلیت سے ہٹنے نہیں دیتے۔
زندگی وحشتوں کا جنگل بن چکی ہے۔
روح کا گلاب مرجھا جائے تو جسم بھی بیمار پڑجاتا ہے ۔ احساس کے آنسوؤں سے اس گلاب کو ترکرنا ہوتا ہے۔ احساس، جو بے حسی کی دھول میں اوجھل ہوچکا ہے، کہیں بھی چلے جائیں۔ کسی بھی محفل میں جا بیٹھیں آپ کو منفی سوچ اور رویوں کا ذکر ملے گا۔ غیبت، دل آزاری و غلط فہمی کے ان تذکروں کے درمیان زندگی کی تازگی اور جینے کی امنگ معدوم ہو جاتی ہے۔
جسم کا روح سے دور کا بھی رابطہ نہیں ہے۔ جسم، ذہن و روح کے رابطے غیر فعال ہیں۔ حتیٰ کہ اپنی ذات سے واسطہ بھی منقطع ہوچکا ہے۔ انسان نے ذہن کو الجھا کے رکھ دیا ہے۔ یہ بہت زیادہ تھک چکا ہے۔ جسم آرام کرکے دوبارہ فعال ہوجاتا ہے مگر ذہن کی تھکن آرام کرنے سے نہیں جاتی۔
تھکے ہوئے ذہن کو باہم سکون پہنچانا مشکل ترین کام ہے۔ خواہشوں کے ہجوم میں ذہن گھبرا جاتا ہے۔ یہ طلب کے شور میں پرسکون نہیں ہو سکتا۔ اسے خاموش کرانے کے لیے خواہشوں کے شور کو تھپک کے سلانا پڑے گا۔
جدید دنیا کے تمام تر کاروبار خواہشوں کی ترغیب دینے پر قائم ہیں۔
جس طرح پانی کے دائرے بنتے چلے جاتے ہیں، اسی طرح خواہشیں ہیں۔ لہر در لہر چلی آتی ہیں۔ یہ کبھی تھکتی نہیں۔ یہ بے چین رکھتی ہیں۔ آپ ذات کے سکون سے محروم ہوجاتے ہیں۔
جدید دنیا کا المیہ بے سکونی ہے۔ یہ ایک گہرا خلا پیدا کردیتی ہے ذات کے اندر۔
یہ سیاسی انتشار کا نتیجہ ہو یا معاشی مسائل سے پھوٹ پڑی ہو۔ جھوٹ، بے ایمانی یا دھوکے سے جڑی ہو۔ اخلاقی قدروں کی پامالی کا ردعمل ہو۔ اپنی گہرائی میں یہ بے اطمینانی، سکھ کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ آخر انسان اندر کے سکون کو کیسے پاسکتا ہے کہ اس کے ذہن کا شور تھم جائے۔
ذہن کا شور زندگی کی کسی چیز سے محظوظ ہونے نہیں دیتا۔ اس اس سکھ اور شانتی کا بنیادی ذریعہ پرکھنے والی نظر میں پوشیدہ ہے۔ وہ طاقتور حس، جو سلیقہ عطا کرتی ہے کہ انسان اپنے اندر کے انتشار سے کیسے نبرد آزما ہو۔
ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے لمحہ موجود میں واپس لوٹ کے آنا پڑتا ہے۔ لمحہ موجود میں غصے، ندامت یا انتقام کی آگ سرد پڑ جاتی ہے۔ ہر منفی رویے کا محور ماضی ہوتا ہے۔ ماضی میں رہنے والی قومیں ہر وقت آگ بگولا رہتی ہیں اور ذہن کے ایندھن میں جل کر فنا ہوجاتی ہیں۔
سکون عفو و درگزر میں ملتا ہے۔
آپ نے معاف کردیا لہٰذا ذہن و روح شفایابی کی طرف بڑھنے لگیں گے۔ نفرت کا طوفان تھم جائے گا۔
سکون کے لمحوں میں ہم موجود نہیں ہوتے۔ انسان کو اپنے ہونے کا احساس ماضی اور مستقبل کے ذہنی و جسمانی دباؤ کے درمیان محسوس ہوتا ہے۔
اپنے جسم کو بھول کر دماغ میں زندہ رہنے کی کوشش بے سکونی پیدا کرتی ہے۔ اسی لیے تو ہم لڑتے جھگڑتے اور نفرتیں کرتے ہیں تاکہ زندگی کو محسوس کرسکیں۔
انتشار کو وجود کی گواہی سمجھتے ہیں اور سکون کو ذات کی نفی۔
پرسکون رہنے کے لیے جسم میں اپنی موجودگی کو محسوس کرنا پڑتا ہے۔ خود کو قبول کرنا پڑتا ہے وجود کی سچائی سمیت۔ ہمارا مسئلہ یہی ہے کہ ہم جہاں موجود ہیں۔ جن حالات میں سانس لے رہے ہیں۔ انھیں مسترد کردیتے ہیں۔
ہمارا المیہ مسترد کرنے میں پوشیدہ ہے۔ سمجھے بغیر سننا ہماری عادت بن چکی ہے۔
جو سنائی دے رہا ہے اسے پہلے سمجھ تو لیں۔ سمجھ کے اس موڑ سے آگے ذہن کی منفی رکاوٹیں ختم ہوجاتی ہیں۔
آج کی جدید دنیا میں رابطے کا مرکز کھوچکا ہے۔
معلومات کا جال بچھا ہے ہر طرف۔ ضرورت سے زیادہ کی معلومات بھی بے چینی میں مبتلا کردیتی ہے۔
ہم اپنا علاج خود کرسکتے ہیں بغیرکسی طبیب اور روحانی ماہر کے۔ مگر اس وقت جب اپنے اندر کی طاقت کو محسوس نہ کرنے لگیں۔ اس کے لیے اضافی معلومات سے رابطہ منقطع کرنا پڑتا ہے۔
معلومات اتنی حد تک ہو کہ جو زندگی دے سکے۔ جو ذات تک محدود ہو۔ ذات کی بہتری کے لیے ہو۔ جو وجود کی آگہی کا محرک بنے، مگر ہم فقط دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں۔ دوسروں کو زیادہ سوچتے ہیں اور ذات سے تعلق کھو دیتے ہیں۔ اپنے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں۔ اندر کے سکون کے لیے اپنی ذات سے ہر وقت مثبت رابطہ درکار ہوتا ہے۔
ذات کی قبولیت سے ذہن کا مکالمہ بھی ہمارے حق میں ہوجاتا ہے۔
اندر کا مکالمہ فعال ہوجاتا ہے جب انسان کا تصور، اس کی سوچ اور عمل واضح ہوں تو۔
سکون، خوشی یا اطمینان دوسروں سے تعلق کی روشنی قائم کرنے سے نصیب ہوتے ہیں گھر۔ معلوم نہیں کیوں ہمارے رابطے بار بار منقطع ہوجاتے ہیں۔ اور درمیان میں غلط فہمیاں اور افواہیں آجاتی ہیں۔
ہم بار بار اپنے مرکز سے ہٹ جاتے ہیں۔
فقط محبت ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کو مرکز سے ہٹنے نہیں دیتا۔ مگر محبت بھی کاروباری زندگی کا حصہ بن گئی ہے۔ محبت کے لیے نقاب پہننا ضروری ہوجاتا ہے۔
دنیاداری نبھانے کی خاطر۔ جہاں خامیاں مسترد کردی جاتی ہیں وہاں طرح طرح کے ماسک ایجاد ہوجاتے ہیں۔ فقط خوبیوں کو سراہنے والے معاشرے اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔ یا پھر فقط خامیوں کو اچھالنے والا سماج بھی ذہنی طور پر بیمار ہوتا ہے۔ انسان کی خوبیوں یا خامیوں کو حقیقت پسندی کا توازن چاہیے۔ یہ توازن ہمارے ہاں بگڑا ہوا ہے۔ یا تو لوگ بہت اچھے ہیں کہ ان کی اچھائی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا یا پھر بہت ہی برے۔ بقول شیکسپیئر کے اچھائی یا برائی ہماری سوچ کے انداز میں پائی جاتی ہے۔ برائی کو پیسہ چھپا لیتا ہے۔ جب کہ اچھائی کی قدر نہیں ہوتی اگر آپ کے پاس کوئی عہدہ یا اختیار نہ ہو۔
چیزیں مدار سے ہٹ کر ہیں۔ آنکھ اپنے مطلب کا منظر دیکھنا چاہتی ہے اور کان اپنے مفاد کی بات سننے کے منتظر رہتے ہیں۔ اور زبان بھی مصلحت کی بولی بولتی ہے۔ لہٰذا ذہن منتشر رہتے ہیں۔ خالص سوچ اور رویے انسان کو ذات کی اصلیت سے ہٹنے نہیں دیتے۔