وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے خودکار ہتھیار حکومت کو بیچنے پر عمل ناممکن

31 جنوری کی ڈیڈلائن کے باوجودکوئی ہتھیارفروخت ہوا نہ مستری کی عدم دستیابی کے باعث نیم خودکار بن سکا

18ویں ترمیم میں اختیارات کی تقسیم اورآرم رولزمیں تبدیلی نہ ہونے پر لائسنس رکھنے والے حکم امتناع کے لیے کوشاں۔ فوٹو : فائل

18ویں ترمیم میں اختیارات کی تقسیم اورآرم رولزمیں تبدیلی نہ ہونے کی وجہ سے وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے خودکار ہتھیاروں کو نیم خودکار بنانے یا انھیں حکومت کو فروخت کرنے کے حکم پر عملدرآمد ممکن نہیں رہا۔

وفاقی کابینہ کے فیصلے کے بعد 22 دسمبر2018 کو وفاقی وزارت داخلہ نے ایک نوٹیفیکیشن جاری کرتے ہوئے ملک بھرمیں لائسنس یافتہ خودکار ہتھیار رکھنے والے افراد کو31 جنوری 2018 تک کی مہلت دی ہے کہ وہ اس مدت میں اپنے خودکار ہتھیاروں کو نیم خودکار بنوا لیں یا پھر اپنا خودکار ہتھیار حکومت کوجمع کرا کر مقررہ رقم وصول کرلیں۔

حکومت نے خودکار رائفل کے لیے 50 ہزار روپے جبکہ خودکار پستول کے لیے20 ہزار روپے قیمت مقرر کی ہے۔ اس حوالے سے حاصل معلومات کے مطابق ابھی تک ملک بھر میں کسی ایک بھی لائسنس ہولڈر نے اپنا خودکار ہتھیار نہ تو حکومت کو فروخت کیا ہے اور نہ ہی اسے نیم خودکار بنوایا ہے۔

وفاقی وزارت داخلہ نے عجلت میں تمام فیصلے کیے جس وجہ سے اس معاملے میں سنگین نوعیت کے قانونی اور تکنیکی سقم موجود ہیں جن کی وجہ سے آئندہ چند روز میں لائسنس ہولڈرز کی جانب سے یہ معاملہ عدالت عالیہ میں لے جانے اور حکم امتناع حاصل ہونے کا قوی امکان ہے۔


وفاقی وزارت داخلہ نے اپنے نوٹیفیکیشن میں خودکار ہتھیاروں کے جاری کردہ لائسنس کی تعداد90 ہزار بتائی ہے جبکہ یہ تعداد 3 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ 90 ہزار وہ لائسنس ہیں جو مینوئل بک سے کمپیوٹرائزڈ کارڈ میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن باقی کے2 لاکھ سے زائد خودکار ہتھیاروں کے لائسنس وہ ہیں جو ابھی کمپیوٹرائزڈ تو نہیں ہوئے لیکن حکومتی خزانے میں جمع کردہ تجدیدی فیس اور وفاقی حکومت کی جانب سے منسوخی کا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہ ہونے کی وجہ سے یہ لائسنس ابھی تک کارآمد ہیں۔

قانونی ماہرین کے مطابق90 ہزار لائسنس یافتہ خودکار ہتھیاروں میں سب سے زیادہ تعداد 7.62 بور (کلاشنکوف) کی ہے جو 23 ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ حکومت پاکستان کے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 7.62 بور ممنوع بور ہے لہذا اگراس ہتھیار کونیم خودکار بنا بھی دیا جائے تو اس کا بور بدستور یہی رہے گا جو کہ خودکار ہتھیار کے زمرے میں آتا ہے جبکہ 18 ویں ترمیم کے بعد اسلحے سے متعلقہ امور صوبائی حکومتوں کے سپرد ہو چکے ہیں اور اب وفاقی حکومت بور تبدیل نہیں کر سکتی۔

سب سے اہم معاملہ یہ ہے کہ ملک بھر میں ایک بھی ایسا لائسنس یافتہ اسلحہ مستری موجود نہیں ہے جس کے پاس کسی خودکار ہتھیار کی مرمت کا لائسنس موجود ہو۔1990 میں بھی وفاقی حکومت نے کلاشنکوف کے جاری کردہ لائسنس منسوخ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا جسے عدالتوں نے کالعدم قرار دے دیا تھا اور اس مرتبہ بھی بڑی تعداد میں با اثر لائسنس ہولڈر نامور وکلا کے ذریعے وفاقی حکومت کے اس حکم کے خلاف عدالتوں سے رجوع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

اسلحہ ماہرین کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں لائسنس ہولڈرز نے اپنے ممنوع بور کے لائسنس پر غیر ممنوع بور ہتھیار بھی رکھے ہوئے ہیں وفاقی وزارت کی جانب سے ان کی حیثیت کا تعین بھی نہیں کیا گیا ہے۔

 
Load Next Story