امت مسلمہ کی حالت زار اور ہمارا کردار
ہماری سماجی حالت یہ ہے کہ ہم کافروں جیسا بننا چاہتے ہیں
ISLAMABAD:
امت مسلمہ بلاشبہ اس وقت ہر لحاظ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ نظریاتی طور پر دیکھیے تو یہ اپنے نظریہ حیات سے وابستہ نہیں بلکہ افلاس کا شکار ہے، سیاسی لحاظ سے دیکھیے تو بظاہر آزادی حاصل کرلینے کے باوجود یہ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتی۔ معیشت کے لحاظ سے اکثر مسلمان ممالک بین الاقوامی یہودی اور مغربی معاشرتی اداروں اور حکومتوں کے مقروض ہیں اور اپنی معیشت کے بارے میں خود فیصلے نہیں کرسکتے جو مسلمان ممالک امیر ہیں ان کی اصل دولت مغربی بینکوں میں ہے اور مغربی ممالک کے کام آرہی ہے، جب کہ بہت سے غریب مسلم ممالک کے عوام نان جویں کو ترس رہے ہیں۔
خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کی تعداد 45 کروڑ سے بھی زیادہ، جو کل مسلم آبادی کی ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ دفاعی لحاظ سے دیکھیے تو اسلامی دنیا میں خودکفیل نہیں بلکہ مغرب کی محتاج ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان کوئی دفاعی معاہدہ نہیں اور طاقتور مغربی ممالک جب چاہتے ہیں مسلمان ممالک کو نرم چارے کی طرح کھا جاتے ہیں۔ صنعت و حرفت کا یہ حال ہے کہ کوئی مسلمان ملک بھاری مشینری یا الیکٹرانک مصنوعات نہیں بناسکتا یہ سب ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ سارے مسلم ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کے مجموعی قومی پیداوار کا محض چار فیصد ہے ۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں شرح تعلیم تیس چالیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ تربیت کا کہیں اہتمام ہی نہیں۔ اخلاقی ابتری کا یہ حال ہے کہ کرپٹ ترین ممالک میں ہمیشہ اسلامی ملکوں کا نام سرفہرست ہوتا ہے۔
ہماری سماجی حالت یہ ہے کہ ہم کافروں جیسا بننا چاہتے ہیں، تمدن و ثقافت میں غیروں اور دشمنوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ زراعت میں مسلم دنیا خودکفیل نہیں اور پیٹ بھرنے جیسے بنیادی ترین ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی ترقی یافتہ ممالک کی محتاج ہے۔ مسلمان ممالک کے نزدیک سائنس و ٹیکنالوجی کی یہ اہمیت ہے کہ یہ اپنی قومی مجموعی آمدنی کا صرف 0.5 فی صد سائنس و ٹیکنالوجی پر صرف کرتے ہیں، دنیا کے 75 فی صد لگ بھگ معدنی وسائل کی مالک اسلامی دنیا مفلوک الحالی کا شکار ہے۔ اس پر 700 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے ہیں۔
تمام مسلم ممالک کی مجموعی قومی پیداوار تقریباً 12 ہزار ارب ڈالر سالانہ ہے جب کہ فرانس کا جی ڈی پی اس سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہے۔ انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلے اسلامی ممالک کی آبادی دنیا بھر کی آبادی کا تقریباً چوتھا حصہ ہے۔ عالم اسلام لگ بھگ تین کروڑ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔ صرف پانچ اسلامی ممالک سعودی عرب، عراق، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران کے دریافت شدہ تیل کے ذخائر 658.3 بلین بیرل ہیں، لیکن دنیا کی برآمدات میں ہمارا حصہ صرف 7.5 فیصد ہے، عالمی معیشت میں ہمارا حصہ 5 فی صد سے بھی کم ہے، اتحاد یکجہتی کا یہ عالم ہے کہ مسلم ممالک کی باہمی تجارت ان کی مجموعی تجارت کا صرف 10 فی صد ہے، گویا 90 فیصد تجارت پر اغیار قابض ہیں۔
ماہر معاشیات محمود احمد مرزا مسلم دنیا کی پسماندگی کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''آج کل قوموں کی ترقی کا انحصار سائنس و ٹیکنالوجی پر ہے جب کہ کیفیت یہ ہے کہ مسلم ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور افراد کی تعداد مایوس کن ہے۔ مسلم ممالک میں اوسطاً دس لاکھ افراد میں سائنس و ٹیکنالوجی سے آگاہ افراد صرف 4200 ہیں۔ معاشی اعتبار سے تیزی سے ترقی کے لیے یہ شرح کم ازکم تین گنا زیادہ ہونی چاہیے۔ بعض صنعتی ممالک میں یہ شرح 15 گنا ہے۔ جیساکہ ہم آگاہ ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے ذریعے واقع ہوتی ہے۔
جہاں تک ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کا تعلق ہے اس شعبے میں مسلم ممالک کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور افراد میں سے صرف ایک اعشاریہ اٹھارہ فیصد افراد ریسرچ اور ڈویلپمنٹ میں مصروف ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بڑے رسالوں میں مسلم ممالک کے لکھنے والے ماہرین کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ دنیا میں ہر سال سائنس پر تقریباً ایک لاکھ کتب چھپتی ہیں، ان میں سے ایک بھی مسلم ممالک میں نہیں لکھی جاتی۔ پورے عالم اسلام میں یونیورسٹیوں سمیت اعلیٰ تعلیمی ادارے تقریباً ایک ہزار ہیں۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ سماجی تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی پڑھانے اور سکھانے کی سہولتیں ناقص ہیں۔
خیال رہے کہ صرف ایک ترقی یافتہ ملک جاپان میں ایک ہزار سے زیادہ اعلیٰ پائے کی یونیورسٹیاں ہیں۔ غرض یہ کہ جس پہلو سے دیکھیے مسلم امت زبوں حالی کا شکار ہے اور یہ وہ حقائق ہیں جو ہمارا منہ چڑاتے ہیں اور تلخ ہیں، لیکن ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا''۔مسلمانوں کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ یہ محض دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ سارے Indicators اسی کی طرف اشارے کر رہے ہیں کہ سحر طلوع ہونے کو ہے، رات کی تاریکی چھننے کو ہے اور یہ باطل کے اندھیروں کے مقدر میں ہے کہ وہ چھٹ کر رہیں۔
عصر حاضر میں امت مسلمہ جن بے شمار مسائل سے دوچار ہیں، ان میں سب سے اہم اور بنیادی نوعیت کا مسئلہ داخلی ہے، جو ہماری ذات اور دینی وملی تشخص سے وابستہ ہے، وہ ہے اپنے مرکز، اپنی اساس اور اپنی بنیاد دین سے دوری ، قرآن وسنت، اسلامی تعلیمات، اسلامی شعائر اور دینی اقدار سے دوری۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی بنیاد پر آج امت مسلمہ کم و بیش پوری دنیا میں بے شمار مسائل اور ان گنت چیلنجز سے دو چار ہے۔ اسے مرکز سے دوری اور دین فراموشی نے کہیں کا نہیں رکھا جب کہ حقیقت یہ ہے اس وقت دنیا میں ایک ارب 47 کروڑ، 62 لاکھ 33 ہزار سے زائد مسلمان ہیں۔ اس طرح الحمدﷲ دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔ دنیا میں ایک ہندو اور ایک بودھ کے مقابلے میں دو مسلمان اور ایک یہودی کے مقابلے میں 100 مسلمان ہیں، دنیا میں 161 اسلامی ممالک ہیں۔ ان میں سے 57 او آئی سی کے رکن ہیں۔
لیکن یہ دنیا میں تیسری بڑی قوت ہونے کے باوجود انتہائی کم زور، بے بس اور بے انتہا مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہیں۔ اس کا سبب صرف اور صرف ایک ہے، وہ یہ کہ وہ دینی فراموشی اور خودفراموشی کی راہ پر گامزن ہیں۔ انھوں نے اپنے بنیادی تشخص اور اپنی حیثیت کو فراموش کردیا ہے۔ جذبہ جہاد اور شوق شہادت ہمارے دین کا شعار اور مسلم امہ کا دینی و ملی ورثہ ہے۔
ہمارے اسلاف چونکہ دین سے وابستہ تھے، اسلامی اقتدار اور صفات عالیہ سے مزین تھے، اس لیے دنیا میں انھیں عزت و شوکت، اقتدار اور افتخار ملا، اب صورت حال یہ ہے کہ امت مسلمہ نے قرآن اور اس کی تعلیمات، نبی اکرم حضرت محمدؐ کے پیغام ، آپؐ کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات پر عمل کم کردیا ہے، اغیار کی تہذیب و ثقافت اور ان کی اقدار پر عمل پیرا ہیں۔ اس لیے یہ ان گنت مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہیں۔ چنانچہ امت مسلمہ اگر آج بھی دین سے وابستہ ہوجائے، قرآن سے اپنے تعلق کو جوڑلے، اپنے آباء کی ثقافت اور ورثے کو اپنالے، اسلامی اقدار سے وابستہ ہوجائے، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو مسائل اور چیلنجز کی اس آگ میں بھی گلستان کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔
امت مسلمہ بلاشبہ اس وقت ہر لحاظ سے زبوں حالی کا شکار ہے۔ نظریاتی طور پر دیکھیے تو یہ اپنے نظریہ حیات سے وابستہ نہیں بلکہ افلاس کا شکار ہے، سیاسی لحاظ سے دیکھیے تو بظاہر آزادی حاصل کرلینے کے باوجود یہ اپنے فیصلے خود نہیں کرسکتی۔ معیشت کے لحاظ سے اکثر مسلمان ممالک بین الاقوامی یہودی اور مغربی معاشرتی اداروں اور حکومتوں کے مقروض ہیں اور اپنی معیشت کے بارے میں خود فیصلے نہیں کرسکتے جو مسلمان ممالک امیر ہیں ان کی اصل دولت مغربی بینکوں میں ہے اور مغربی ممالک کے کام آرہی ہے، جب کہ بہت سے غریب مسلم ممالک کے عوام نان جویں کو ترس رہے ہیں۔
خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے مسلمانوں کی تعداد 45 کروڑ سے بھی زیادہ، جو کل مسلم آبادی کی ایک تہائی سے بھی زیادہ ہے۔ دفاعی لحاظ سے دیکھیے تو اسلامی دنیا میں خودکفیل نہیں بلکہ مغرب کی محتاج ہے۔ مسلم ممالک کے درمیان کوئی دفاعی معاہدہ نہیں اور طاقتور مغربی ممالک جب چاہتے ہیں مسلمان ممالک کو نرم چارے کی طرح کھا جاتے ہیں۔ صنعت و حرفت کا یہ حال ہے کہ کوئی مسلمان ملک بھاری مشینری یا الیکٹرانک مصنوعات نہیں بناسکتا یہ سب ترقی یافتہ ممالک سے درآمد کرنی پڑتی ہیں۔ سارے مسلم ممالک کی مجموعی قومی پیداوار دنیا کے مجموعی قومی پیداوار کا محض چار فیصد ہے ۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں شرح تعلیم تیس چالیس فیصد سے زیادہ نہیں۔ تربیت کا کہیں اہتمام ہی نہیں۔ اخلاقی ابتری کا یہ حال ہے کہ کرپٹ ترین ممالک میں ہمیشہ اسلامی ملکوں کا نام سرفہرست ہوتا ہے۔
ہماری سماجی حالت یہ ہے کہ ہم کافروں جیسا بننا چاہتے ہیں، تمدن و ثقافت میں غیروں اور دشمنوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں۔ زراعت میں مسلم دنیا خودکفیل نہیں اور پیٹ بھرنے جیسے بنیادی ترین ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بھی ترقی یافتہ ممالک کی محتاج ہے۔ مسلمان ممالک کے نزدیک سائنس و ٹیکنالوجی کی یہ اہمیت ہے کہ یہ اپنی قومی مجموعی آمدنی کا صرف 0.5 فی صد سائنس و ٹیکنالوجی پر صرف کرتے ہیں، دنیا کے 75 فی صد لگ بھگ معدنی وسائل کی مالک اسلامی دنیا مفلوک الحالی کا شکار ہے۔ اس پر 700 ارب ڈالر سے زیادہ کے قرضے ہیں۔
تمام مسلم ممالک کی مجموعی قومی پیداوار تقریباً 12 ہزار ارب ڈالر سالانہ ہے جب کہ فرانس کا جی ڈی پی اس سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہے۔ انڈونیشیا سے مراکش تک پھیلے اسلامی ممالک کی آبادی دنیا بھر کی آبادی کا تقریباً چوتھا حصہ ہے۔ عالم اسلام لگ بھگ تین کروڑ مربع کلومیٹر رقبے پر محیط ہے۔ صرف پانچ اسلامی ممالک سعودی عرب، عراق، متحدہ عرب امارات، کویت اور ایران کے دریافت شدہ تیل کے ذخائر 658.3 بلین بیرل ہیں، لیکن دنیا کی برآمدات میں ہمارا حصہ صرف 7.5 فیصد ہے، عالمی معیشت میں ہمارا حصہ 5 فی صد سے بھی کم ہے، اتحاد یکجہتی کا یہ عالم ہے کہ مسلم ممالک کی باہمی تجارت ان کی مجموعی تجارت کا صرف 10 فی صد ہے، گویا 90 فیصد تجارت پر اغیار قابض ہیں۔
ماہر معاشیات محمود احمد مرزا مسلم دنیا کی پسماندگی کے اسباب پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ''آج کل قوموں کی ترقی کا انحصار سائنس و ٹیکنالوجی پر ہے جب کہ کیفیت یہ ہے کہ مسلم ممالک میں سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور افراد کی تعداد مایوس کن ہے۔ مسلم ممالک میں اوسطاً دس لاکھ افراد میں سائنس و ٹیکنالوجی سے آگاہ افراد صرف 4200 ہیں۔ معاشی اعتبار سے تیزی سے ترقی کے لیے یہ شرح کم ازکم تین گنا زیادہ ہونی چاہیے۔ بعض صنعتی ممالک میں یہ شرح 15 گنا ہے۔ جیساکہ ہم آگاہ ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی، ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کے ذریعے واقع ہوتی ہے۔
جہاں تک ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کا تعلق ہے اس شعبے میں مسلم ممالک کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی سے بہرہ ور افراد میں سے صرف ایک اعشاریہ اٹھارہ فیصد افراد ریسرچ اور ڈویلپمنٹ میں مصروف ہیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بڑے رسالوں میں مسلم ممالک کے لکھنے والے ماہرین کا حصہ صرف ایک فیصد ہے۔ دنیا میں ہر سال سائنس پر تقریباً ایک لاکھ کتب چھپتی ہیں، ان میں سے ایک بھی مسلم ممالک میں نہیں لکھی جاتی۔ پورے عالم اسلام میں یونیورسٹیوں سمیت اعلیٰ تعلیمی ادارے تقریباً ایک ہزار ہیں۔ بیشتر یونیورسٹیوں میں اعلیٰ سماجی تعلیم اور سائنس و ٹیکنالوجی پڑھانے اور سکھانے کی سہولتیں ناقص ہیں۔
خیال رہے کہ صرف ایک ترقی یافتہ ملک جاپان میں ایک ہزار سے زیادہ اعلیٰ پائے کی یونیورسٹیاں ہیں۔ غرض یہ کہ جس پہلو سے دیکھیے مسلم امت زبوں حالی کا شکار ہے اور یہ وہ حقائق ہیں جو ہمارا منہ چڑاتے ہیں اور تلخ ہیں، لیکن ان کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا''۔مسلمانوں کا مستقبل روشن اور تابناک ہے۔ یہ محض دیوانے کی بڑ نہیں بلکہ سارے Indicators اسی کی طرف اشارے کر رہے ہیں کہ سحر طلوع ہونے کو ہے، رات کی تاریکی چھننے کو ہے اور یہ باطل کے اندھیروں کے مقدر میں ہے کہ وہ چھٹ کر رہیں۔
عصر حاضر میں امت مسلمہ جن بے شمار مسائل سے دوچار ہیں، ان میں سب سے اہم اور بنیادی نوعیت کا مسئلہ داخلی ہے، جو ہماری ذات اور دینی وملی تشخص سے وابستہ ہے، وہ ہے اپنے مرکز، اپنی اساس اور اپنی بنیاد دین سے دوری ، قرآن وسنت، اسلامی تعلیمات، اسلامی شعائر اور دینی اقدار سے دوری۔ یہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی بنیاد پر آج امت مسلمہ کم و بیش پوری دنیا میں بے شمار مسائل اور ان گنت چیلنجز سے دو چار ہے۔ اسے مرکز سے دوری اور دین فراموشی نے کہیں کا نہیں رکھا جب کہ حقیقت یہ ہے اس وقت دنیا میں ایک ارب 47 کروڑ، 62 لاکھ 33 ہزار سے زائد مسلمان ہیں۔ اس طرح الحمدﷲ دنیا کا ہر پانچواں شخص مسلمان ہے۔ دنیا میں ایک ہندو اور ایک بودھ کے مقابلے میں دو مسلمان اور ایک یہودی کے مقابلے میں 100 مسلمان ہیں، دنیا میں 161 اسلامی ممالک ہیں۔ ان میں سے 57 او آئی سی کے رکن ہیں۔
لیکن یہ دنیا میں تیسری بڑی قوت ہونے کے باوجود انتہائی کم زور، بے بس اور بے انتہا مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہیں۔ اس کا سبب صرف اور صرف ایک ہے، وہ یہ کہ وہ دینی فراموشی اور خودفراموشی کی راہ پر گامزن ہیں۔ انھوں نے اپنے بنیادی تشخص اور اپنی حیثیت کو فراموش کردیا ہے۔ جذبہ جہاد اور شوق شہادت ہمارے دین کا شعار اور مسلم امہ کا دینی و ملی ورثہ ہے۔
ہمارے اسلاف چونکہ دین سے وابستہ تھے، اسلامی اقتدار اور صفات عالیہ سے مزین تھے، اس لیے دنیا میں انھیں عزت و شوکت، اقتدار اور افتخار ملا، اب صورت حال یہ ہے کہ امت مسلمہ نے قرآن اور اس کی تعلیمات، نبی اکرم حضرت محمدؐ کے پیغام ، آپؐ کے اسوہ حسنہ اور تعلیمات پر عمل کم کردیا ہے، اغیار کی تہذیب و ثقافت اور ان کی اقدار پر عمل پیرا ہیں۔ اس لیے یہ ان گنت مسائل اور چیلنجز سے دوچار ہیں۔ چنانچہ امت مسلمہ اگر آج بھی دین سے وابستہ ہوجائے، قرآن سے اپنے تعلق کو جوڑلے، اپنے آباء کی ثقافت اور ورثے کو اپنالے، اسلامی اقدار سے وابستہ ہوجائے، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوجائے تو مسائل اور چیلنجز کی اس آگ میں بھی گلستان کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے۔