زینب بیٹی ہم سب تیرے مجرم ہیں
معصوم زینب کے قتل نے اِسے اقوامِ عالم کے سامنے مزید شرمندہ کر دیا ہے۔
آنکھیں اشکبار ہیں۔دل ہے کہ بھر بھر آتا ہے۔ سات سالہ معصوم زینب اغوا کر کے قتل کر دی گئی۔ درندے نے اُس کی حرمت بھی پامال کردی ۔قصور شہر کی اِس بچی کو آخر کس قصور کی سزا دی گئی ہے؟ وہ تو قرآن شریف کے آموختے کے لیے گھر سے نکلی تھی۔موت کا پروانہ دے کر مگر ابدی نیند سلا دی گئی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے بھی تصدیق کی ہے کہ قتل کرنے سے قبل اُس کی توہین کی گئی۔
چاہیے تو یہ تھا کہ محبتوں کا درس دینے والے بابا بُلھے شاہ علیہ رحمہ کا شہر سراپا امن ہوتا مگر یہ شہر تو بے اماں بن گیا ہے۔ موت اور درندگی جہاں معصوم بچوں کے تعاقب میں ہے۔زینب کے تازہ قتل پر جناب شاہد خاقان عباسی کے زیرِ نگیں اگر سارا پاکستان نہیں تو وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف کے زیر نگیں سارا پنجاب اِس خونی اور بہیمانہ سانحہ پر ماتم کناں ضرور ہے۔
مقتولہ زینب کے والدین بجا طور پر سوال کررہے ہیں کہ پاکستان کے اسلامی قلعے کے مکین انسانی شکل میں درندوں سے محفوظ کیوں نہیں ہیں؟ آوازیں اُٹھ رہی ہیں: ''کیا یہ توہین آمیز اور خونی واقعات اس لیے تو بار بار ظہور پذیر نہیں ہو رہے کہ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے حکمرانوں اور اُن کے خاندانوں کی حفاظت پر مامور ہیں؟''۔ معصوم زینب کی خون آلود لاش کی بھی یہی پکار ہے۔
قصور میں جس جگہ یہ سانحہ رُونما ہُوا ہے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اِسی علاقے میں اِسی شدت کے، دو کلومیٹر کے دائرے میں، ایک سال کے اندر12سانحات نے جنم لیا ہے۔ مقامی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمے داران کے کانوں پر کوئی جُوں تک رینگی ہے نہ قاتلوں اور عزت کے لٹیروں پر آہنی ہاتھ ڈالا گیا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ زینب پر خونی دست درازی کرنے والے کو شہ ملی۔
اہلِ قصور کا بجا طور پر یہ کہنا ہے کہ اگر اِس سے پہلے قصور ہی میں 50 بچوں کی بے حرمتی کرنے اور اُن کی شرمناک ویڈیو بنانے والے سارے بے حیا مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جاتیں اور پولیس نے اُن خبیثوں کا ٹیٹوا دبایا ہوتا تو زینب کا سانحہ بھی کبھی رونما نہ ہوتا۔ پولیس مگر حسبِ سابق اور عادت غفلت اور فرض ناشناسی کی گہری نیند سوئی رہی۔
اس لیے سوئی رہی کہ انھیں کسی کی پُرسش کا ڈر ہے نہ کسی تادیبی کارروائی کا خوف۔ شہباز شریف صاحب کا یہ دعویٰ ہے، اور یہ دعویٰ کسی حد تک درست بھی ہے، کہ مجرموں اور قانون شکنوں پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کے لیے پنجاب پولیس کو ہر قسم کی سہولیات سے لَیس کیا گیاہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ زینب اور دیگر معصوموں کے قاتل ہنوذ آزادی سے دندنا رہے ہیں۔ حیرت خیز بات یہ بھی ہے کہ زینب کے اغوا کی ایف آئی آر پانچ دن قبل کٹوائی گئی تھی مگر پانچ دن تک قصوری پولیس کے افسران اور اہلکاران بچی کو بازیاب نہ کروا سکے۔
حتیٰ کہ زینب کی دریدہ اوربریدہ لاش کچرے کے ایک ڈھیر سے مل گئی۔ عمرے پر گئے زینب کے والدین پر یہ خبر سُن کر کیا گزری ہوگی؟ کوئی اندازہ بھی کر سکتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔زینب کے اغوا اور پھر اُس معصوم کے بہیمانہ قتل کے بعد انھوں نے کیا عمرہ کیا ہوگا؟ زینب کے قتل پر مطلق انصاف کے طلبگار والدین تو ماتم کناں ہیں ہی، ہم سب بھی بے بسی میں سینہ کوبی کررہے ہیں۔ یہ صرف ایک بچی کا نہیں، ساری انسانیت کاقتل ہے۔ جس شہر اور ضلع میں زینب کا دلدوز قتل ہُوا ہے، وہ سارے کا سارا حکمران جماعت (مسلم لیگ نون) کے اختیار اور اقتدار میں ہے۔
یہاں کے دونوں ارکانِ قومی اسمبلی (ایم این اے رانا حیات اور ایم این اے شیخ وسیم)نون لیگی اور شریف برادران کے جان نثار ہیں۔ یہاں کے ارکان صوبائی اسمبلی(ایم پی اے نعیم صفدر اور ایم پی اے احمد سعید خان) بھی مسلم لیگ نون سے وابستہ ہیں۔ قصور میں ضلعی چیئرمین رانا سکندر حیات خان نہ صرف نون لیگی ہیں بلکہ موصوف مقامی ایم این اے کے صاحبزادے بھی ہیں۔ جس ضلع میں زینب کو بیدردی سے مار ڈالا گیا ہے، وہاں کے دونوں ڈپٹی ضلعی چیئرمین (اعجاز احمد خان اور سردار شعیب) بھی جناب نواز شریف اور جنا ب شہباز شریف کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ قصور کے یہ سب مقتدرین پنجاب اسمبلی کے سپیکر رانا محمد اقبال خان کے مقربین اور ہم برادری ہیں۔
اس قدر سیاسی اور اقتداری طاقت رکھنے والے افراد سے مقامی انتظامیہ کیسے عدم تعاون کی جرأت کر سکتی ہے؟ اِس کے باوجود زینب کے قاتل مل سکے ہیں نہ انھیں زینب کے اغوا کے فوری بعد گرفتار ہی کیا جا سکا۔ کیا یہ حکمران طبقے کی رعایا سے بے حسی کا ثبوت نہیں؟ قصور کے ممتاز سماجی رہنما چوہدری عرفان یوسف سدھو سچ کہتے ہیںکہ دوش آدمی دے تو پھر کس کو دے؟ کس کے سامنے گریہ کرے؟کس کے ہاتھ پر زینب کا لہو تلاش کیا جائے؟ستم یہ ہے کہ زینب کے قتل پر احتجاج کنندگان پر اندھا دھند گولی چلا کر دو بے گناہوں کی جان لے لی گئی ہے۔
اس کا حساب کس سے لیا جائے گا؟ مقامی پولیس افسر، ڈی پی اوذوالفقار احمد، کا یہ دعویٰ کہاں تک تسلیم کیے جانے کے قابل ہے کہ''احتجاجی ڈی سی صاحب کے دفتر پر حملہ کرنے کے درپے تھے۔''؟ پنجاب پولیس اور پنجاب کے وزیر قانون جو پہلے ہی ماڈل ٹاؤن قتل کے سانحہ پر حساس سوالات کی زَد میں ہیں، قصور میں دو افراد کے قتل پر کیا جواب دے سکیں گے؟
پنجاب پولیس نے احتیاط کا دامن تھاما ہے نہ ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ڈی سی آفس کا ''تاج محل'' بچانے کے لیے احتجاج کرنے والوں پر سیدھی گولیاں چلانے کی بظاہر کوئی تُک بھی نہیں بنتی تھی۔ قصور میں معصوم زینب اور دو بے گناہ احتجاجیوں کے قتل کی بازگشت اتنی شدت سے گونجی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ساتھ سپہ سالارِ پاکستان بھی فوری متوجہ ہُوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔ مجرموں کے سر مگر کب اچھالے جائیں گے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان جو پہلے ہی اپنوں اور پرائیوں کے کارن گمبھیر بحرانوں اور مسائل میں بُری طرح اُلجھا اور گِھرا ہُوا ہے، معصوم زینب کے قتل نے اِسے اقوامِ عالم کے سامنے مزید شرمندہ کر دیا ہے۔ ہم جو دوسروں پر اُنگلیاں اُٹھانے کے عادی ہیں، زینب کے قتل کے پس منظر میں ہم سب پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی گورننس پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔
زینب کا قتل 10جنوری 2018ء کو سامنے آیا اور اخبارات میں اِس کی رپورٹنگ 11 جنوری کو شایع ہُوئی ہے اور گیارہ جنوری ہی کو پاکستان کے حوالے سے عالمی اخبارات میں جو خبریں نشر اور شایع ہُوئی ہیں، سب ہمارے لیے ندامت کا باعث بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر: گیارہ جنوری کو یہ خبر شایع ہُوئی ہے کہ اسلام آباد میں بروئے کار ایک صحافی (طہٰ صدیقی) پر تشدد بھی کیا گیا اور اُسے دن دیہاڑے (اسلام آباد ایکسپریس وے پر) اغوا کرنے کی جسارت بھی کی گئی۔
یہ تو صحافی کی خوش بختی تھی کہ وہ ہوشیاری سے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بچ نکلا۔ اُسی روز دنیا بھر میں برطانوی نشریاتی ادارے کی تیار کردہ ''تحقیقی رپورٹ'' (The Dawn of British Jihad)کی گونج سنائی دیتی رہی۔ اس رپورٹ کا مرکزی ہدف پروفیسر حافظ سعید صاحب کو بنایا گیا ہے اوریہ الزام لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پروفیسرمذکور90ء کے عشرے میں برطانیہ کے دَورے میں برطانوی مسلمانوں کو ''غیر مسلموں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کی تبلیغ و ترغیب'' دیتے رہے ہیں۔
معلوم نہیں اس رپورٹ میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ مگرہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ ''درفنطنی'' ایسے نازک وقت میں چھوڑی گئی ہے جب پاکستان پہلے ہی امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی ایک شر انگیز ٹویٹ کی بنیاد پر شدید دباؤ اور الزامات کی زَد میں ہے۔ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے حوالے سے ان تینوں واقعات (زینب کا قتل، طہٰ صدیقی پر مبینہ تشدد اور حافظ سعید کے بارے برطانوی ادارے کی رپورٹ) کو خوب خوب اچھال کر اپنے خبثِ باطن کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے اپنے صفحہ اوّل پر یہ خبر بھی شایع کی ہے کہ مجروح و مضروب اسلام آبادی صحافی بھارتی نجی ٹی وی (WION)کا پاکستان میں بیورو چیف ہے۔ لاریب پاکستان کو بدنام کرنے والی غیر ملکی متنوع طاقتیں ہمہ وقت پاکستان کے تعاقب میں ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے تقاضے اپنی جگہ اہم اور ناگزیر ہیں مگر ہمیں اور ہمارے اداروں کو بھی ہر وقت احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ محبتوں کا درس دینے والے بابا بُلھے شاہ علیہ رحمہ کا شہر سراپا امن ہوتا مگر یہ شہر تو بے اماں بن گیا ہے۔ موت اور درندگی جہاں معصوم بچوں کے تعاقب میں ہے۔زینب کے تازہ قتل پر جناب شاہد خاقان عباسی کے زیرِ نگیں اگر سارا پاکستان نہیں تو وزیر اعلیٰ جناب شہباز شریف کے زیر نگیں سارا پنجاب اِس خونی اور بہیمانہ سانحہ پر ماتم کناں ضرور ہے۔
مقتولہ زینب کے والدین بجا طور پر سوال کررہے ہیں کہ پاکستان کے اسلامی قلعے کے مکین انسانی شکل میں درندوں سے محفوظ کیوں نہیں ہیں؟ آوازیں اُٹھ رہی ہیں: ''کیا یہ توہین آمیز اور خونی واقعات اس لیے تو بار بار ظہور پذیر نہیں ہو رہے کہ قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے حکمرانوں اور اُن کے خاندانوں کی حفاظت پر مامور ہیں؟''۔ معصوم زینب کی خون آلود لاش کی بھی یہی پکار ہے۔
قصور میں جس جگہ یہ سانحہ رُونما ہُوا ہے، مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اِسی علاقے میں اِسی شدت کے، دو کلومیٹر کے دائرے میں، ایک سال کے اندر12سانحات نے جنم لیا ہے۔ مقامی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذمے داران کے کانوں پر کوئی جُوں تک رینگی ہے نہ قاتلوں اور عزت کے لٹیروں پر آہنی ہاتھ ڈالا گیا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ زینب پر خونی دست درازی کرنے والے کو شہ ملی۔
اہلِ قصور کا بجا طور پر یہ کہنا ہے کہ اگر اِس سے پہلے قصور ہی میں 50 بچوں کی بے حرمتی کرنے اور اُن کی شرمناک ویڈیو بنانے والے سارے بے حیا مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جاتیں اور پولیس نے اُن خبیثوں کا ٹیٹوا دبایا ہوتا تو زینب کا سانحہ بھی کبھی رونما نہ ہوتا۔ پولیس مگر حسبِ سابق اور عادت غفلت اور فرض ناشناسی کی گہری نیند سوئی رہی۔
اس لیے سوئی رہی کہ انھیں کسی کی پُرسش کا ڈر ہے نہ کسی تادیبی کارروائی کا خوف۔ شہباز شریف صاحب کا یہ دعویٰ ہے، اور یہ دعویٰ کسی حد تک درست بھی ہے، کہ مجرموں اور قانون شکنوں پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کے لیے پنجاب پولیس کو ہر قسم کی سہولیات سے لَیس کیا گیاہے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ زینب اور دیگر معصوموں کے قاتل ہنوذ آزادی سے دندنا رہے ہیں۔ حیرت خیز بات یہ بھی ہے کہ زینب کے اغوا کی ایف آئی آر پانچ دن قبل کٹوائی گئی تھی مگر پانچ دن تک قصوری پولیس کے افسران اور اہلکاران بچی کو بازیاب نہ کروا سکے۔
حتیٰ کہ زینب کی دریدہ اوربریدہ لاش کچرے کے ایک ڈھیر سے مل گئی۔ عمرے پر گئے زینب کے والدین پر یہ خبر سُن کر کیا گزری ہوگی؟ کوئی اندازہ بھی کر سکتا ہے؟ نہیں، ہر گز نہیں۔زینب کے اغوا اور پھر اُس معصوم کے بہیمانہ قتل کے بعد انھوں نے کیا عمرہ کیا ہوگا؟ زینب کے قتل پر مطلق انصاف کے طلبگار والدین تو ماتم کناں ہیں ہی، ہم سب بھی بے بسی میں سینہ کوبی کررہے ہیں۔ یہ صرف ایک بچی کا نہیں، ساری انسانیت کاقتل ہے۔ جس شہر اور ضلع میں زینب کا دلدوز قتل ہُوا ہے، وہ سارے کا سارا حکمران جماعت (مسلم لیگ نون) کے اختیار اور اقتدار میں ہے۔
یہاں کے دونوں ارکانِ قومی اسمبلی (ایم این اے رانا حیات اور ایم این اے شیخ وسیم)نون لیگی اور شریف برادران کے جان نثار ہیں۔ یہاں کے ارکان صوبائی اسمبلی(ایم پی اے نعیم صفدر اور ایم پی اے احمد سعید خان) بھی مسلم لیگ نون سے وابستہ ہیں۔ قصور میں ضلعی چیئرمین رانا سکندر حیات خان نہ صرف نون لیگی ہیں بلکہ موصوف مقامی ایم این اے کے صاحبزادے بھی ہیں۔ جس ضلع میں زینب کو بیدردی سے مار ڈالا گیا ہے، وہاں کے دونوں ڈپٹی ضلعی چیئرمین (اعجاز احمد خان اور سردار شعیب) بھی جناب نواز شریف اور جنا ب شہباز شریف کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ قصور کے یہ سب مقتدرین پنجاب اسمبلی کے سپیکر رانا محمد اقبال خان کے مقربین اور ہم برادری ہیں۔
اس قدر سیاسی اور اقتداری طاقت رکھنے والے افراد سے مقامی انتظامیہ کیسے عدم تعاون کی جرأت کر سکتی ہے؟ اِس کے باوجود زینب کے قاتل مل سکے ہیں نہ انھیں زینب کے اغوا کے فوری بعد گرفتار ہی کیا جا سکا۔ کیا یہ حکمران طبقے کی رعایا سے بے حسی کا ثبوت نہیں؟ قصور کے ممتاز سماجی رہنما چوہدری عرفان یوسف سدھو سچ کہتے ہیںکہ دوش آدمی دے تو پھر کس کو دے؟ کس کے سامنے گریہ کرے؟کس کے ہاتھ پر زینب کا لہو تلاش کیا جائے؟ستم یہ ہے کہ زینب کے قتل پر احتجاج کنندگان پر اندھا دھند گولی چلا کر دو بے گناہوں کی جان لے لی گئی ہے۔
اس کا حساب کس سے لیا جائے گا؟ مقامی پولیس افسر، ڈی پی اوذوالفقار احمد، کا یہ دعویٰ کہاں تک تسلیم کیے جانے کے قابل ہے کہ''احتجاجی ڈی سی صاحب کے دفتر پر حملہ کرنے کے درپے تھے۔''؟ پنجاب پولیس اور پنجاب کے وزیر قانون جو پہلے ہی ماڈل ٹاؤن قتل کے سانحہ پر حساس سوالات کی زَد میں ہیں، قصور میں دو افراد کے قتل پر کیا جواب دے سکیں گے؟
پنجاب پولیس نے احتیاط کا دامن تھاما ہے نہ ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے۔ڈی سی آفس کا ''تاج محل'' بچانے کے لیے احتجاج کرنے والوں پر سیدھی گولیاں چلانے کی بظاہر کوئی تُک بھی نہیں بنتی تھی۔ قصور میں معصوم زینب اور دو بے گناہ احتجاجیوں کے قتل کی بازگشت اتنی شدت سے گونجی ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان کے ساتھ ساتھ سپہ سالارِ پاکستان بھی فوری متوجہ ہُوئے بغیر نہیں رہ سکے ہیں۔ مجرموں کے سر مگر کب اچھالے جائیں گے؟
اسلامی جمہوریہ پاکستان جو پہلے ہی اپنوں اور پرائیوں کے کارن گمبھیر بحرانوں اور مسائل میں بُری طرح اُلجھا اور گِھرا ہُوا ہے، معصوم زینب کے قتل نے اِسے اقوامِ عالم کے سامنے مزید شرمندہ کر دیا ہے۔ ہم جو دوسروں پر اُنگلیاں اُٹھانے کے عادی ہیں، زینب کے قتل کے پس منظر میں ہم سب پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کی گورننس پر سوالیہ نشان لگ رہے ہیں۔
زینب کا قتل 10جنوری 2018ء کو سامنے آیا اور اخبارات میں اِس کی رپورٹنگ 11 جنوری کو شایع ہُوئی ہے اور گیارہ جنوری ہی کو پاکستان کے حوالے سے عالمی اخبارات میں جو خبریں نشر اور شایع ہُوئی ہیں، سب ہمارے لیے ندامت کا باعث بن رہی ہیں۔ مثال کے طور پر: گیارہ جنوری کو یہ خبر شایع ہُوئی ہے کہ اسلام آباد میں بروئے کار ایک صحافی (طہٰ صدیقی) پر تشدد بھی کیا گیا اور اُسے دن دیہاڑے (اسلام آباد ایکسپریس وے پر) اغوا کرنے کی جسارت بھی کی گئی۔
یہ تو صحافی کی خوش بختی تھی کہ وہ ہوشیاری سے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر بچ نکلا۔ اُسی روز دنیا بھر میں برطانوی نشریاتی ادارے کی تیار کردہ ''تحقیقی رپورٹ'' (The Dawn of British Jihad)کی گونج سنائی دیتی رہی۔ اس رپورٹ کا مرکزی ہدف پروفیسر حافظ سعید صاحب کو بنایا گیا ہے اوریہ الزام لگانے کی کوشش کی گئی ہے کہ پروفیسرمذکور90ء کے عشرے میں برطانیہ کے دَورے میں برطانوی مسلمانوں کو ''غیر مسلموں کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونے کی تبلیغ و ترغیب'' دیتے رہے ہیں۔
معلوم نہیں اس رپورٹ میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ مگرہمارے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ یہ ''درفنطنی'' ایسے نازک وقت میں چھوڑی گئی ہے جب پاکستان پہلے ہی امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، کی ایک شر انگیز ٹویٹ کی بنیاد پر شدید دباؤ اور الزامات کی زَد میں ہے۔ بھارتی میڈیا نے پاکستان کے حوالے سے ان تینوں واقعات (زینب کا قتل، طہٰ صدیقی پر مبینہ تشدد اور حافظ سعید کے بارے برطانوی ادارے کی رپورٹ) کو خوب خوب اچھال کر اپنے خبثِ باطن کا اظہار کیا ہے۔
بھارتی اخبار ''انڈین ایکسپریس'' نے اپنے صفحہ اوّل پر یہ خبر بھی شایع کی ہے کہ مجروح و مضروب اسلام آبادی صحافی بھارتی نجی ٹی وی (WION)کا پاکستان میں بیورو چیف ہے۔ لاریب پاکستان کو بدنام کرنے والی غیر ملکی متنوع طاقتیں ہمہ وقت پاکستان کے تعاقب میں ہیں۔ پاکستان کی قومی سلامتی کے تقاضے اپنی جگہ اہم اور ناگزیر ہیں مگر ہمیں اور ہمارے اداروں کو بھی ہر وقت احتیاط کا دامن تھامے رکھنا چاہیے۔