قرآن و حدیث کی روشنی میں وقت کی قدر و اہمیت
وقت کی قدر جاننے کے لیے ہمیں کسی غیر کے دروازے پر دستک نہیں دینی پڑے گی۔
پروردگارِ عالم کی ذاتِ پاک کی عطا کردہ زندگی میں، ساعتیں، لمحے، گھڑیاں، دن، ماہ و سال اور صدیاں وقت کے تابع ہیں کہ جوں جوں وقت گزرتا ہے... تو گزرنے کے اِس عمل سے دن، ہفتے، ماہ و سال اور صدیاں جنم لیتی ہیں۔ ماہ و سال اور صدیاں تو ختم ہوجاتی ہیں، مگر وقت گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ کیوں کہ وقت کبھی ختم نہ ہونے والے ایسے سفر کا نام ہے کہ جس کی کوئی منزل نہیں۔
مگر ہاں! انسان اگر چاہے تو اپنے نیک مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرسکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان بے اختیار ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنے وقت کو اپنی مرضی سے مصرف میں نہ لاسکے۔ لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان وقت کی قدر و اہمیت سے شناسائی رکھتا ہو۔
الحمدﷲ! ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ رحمت سے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں شامل ہونے پر خوش قسمتی کے عظیم گولڈ میڈل سے نوازے جاچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوش قسمتی کا یہ عظیم گولڈ میڈل ہم سے اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کریں۔
وقت کی قدر جاننے کے لیے ہمیں کسی غیر کے دروازے پر دستک نہیں دینی پڑے گی۔ جھوٹے آقاؤں سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، نہ ہی اِس کے لیے ہیرے جواہرات اور مال و دولت کے انبار درکار ہیں۔ بس ذرا دل کے کسی ایک گوشے میں وقت کی قدر جاننے کے لیے تھوڑی سی تڑپ ہونی چاہیے۔
الحمدﷲ! ہمیں دنیا کی سب سے عظیم کتاب میں اللہ کے، اور کائنات کے سب سے عظیم راہ بر و راہ نما، ہادی عالم، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرامینِ مقدس کی روشنی میں وقت کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔ بات مزید آگے بڑھانے سے قبل یہ بات اور نقطہ پیش کرنا بھی ضروری ہے کہ جو جتنی بڑی ذات ہوگی، اُس کے اُتنے ہی بڑے اہم اور روشن اصول ہوں گے۔ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ خالقِ کائنات اللہ سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں اور لباسِ بشریت میں ملبوس ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کوئی راہ بر و راہ نما نہیں۔
اب بھلا ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کسی کم تر چیز کی قسم، بارہا کھائے۔ پروردگارِ عالم نے کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے۔
سورۃ الفجر میں، وقتِ فجر اور عشرہ ذوالحجہ کی قسم کھائی ہے، مفہوم: '' فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔''
پھر ایک مقام پر ربِ قدوس نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی، مفہوم: ''رات کی قسم جب وہ چھا جائے ( اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپالے ) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔''
اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں ربِ کائنات نے وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے ) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔''
پھر ایک جگہ خدائے واحد نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ اکثر ہمارے احباب نادانی اور کم علمی کی وجہ سے زمانے کو بُرا کہتے ہیں، تو یہ سخت گناہ ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ زمانہ میں خود ہوں۔ العصر میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: '' زمانے کی قسم، بے شک انسان خسارے میں ہے۔''
حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ''صحت اور فراغت اللہ کی طرف یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔''
ربِ غفور انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے، تو اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بِنا پر انسان اِدھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے۔ جس کا نہ کوئی دنیا میں فائدہ اور نہ آخرت کا سامان۔
حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ مقدس ہے، مفہوم: '' قیامت کے دن بندہ اُس وقت تک (بارگاہِ الہٰی میں) کھڑا رہے گا کہ جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے گا۔ زندگی کیسے گزاری۔ جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔''
اسی طرح کا ایک اور فرمانِ رسولؐ، جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: '' پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ بیماری سے پہلے صحت کو۔ محتاجی سے پہلے تونگری کو۔ مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ اور موت سے پہلے زندگی کو۔''
اگر ہم اپنی زندگی کے گزرنے والے شب و روز، درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمئن پائیں گے؟ یقینا نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور لمحات، کھانے پینے، گھومنے پھرنے، سیر و سیاحت کرنے، ہوٹلنگ کا مزہ چکھنے، فضول گپ شپ کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔
یوں گزرنے والے دن، رات اور ماہ و سال ماضی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسے کہ تلخ و شیریں یادوں سے بھرا 2017ء ماضی کا حصہ بن گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ گزرا وقت واپس نہیں آتا، مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح کو طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی امید کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے کہ جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ربِ قدوس کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ ہم وقت کی قدر کرتے ہوئے امیدوں کے اس شجر سے وابستہ رہ کر، نئی امنگوں اور جذبوں کے ستاروں کو اپنے آنگن میں اتارتے ہوئے، اسلام اور وطن عزیز پاکستان کے مکار دشمنوں کے ناپاک عزائم کو اتفاق و اتحاد، خلوص و پیار، ایثار و قربانی، ملی یک جہتی، جذبۂ حب الوطنی اور صبر و رضا کے انمول ہتھیاروں سے ناکام بنا سکتے ہیں۔
اللہ کریم ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے عمل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین
مگر ہاں! انسان اگر چاہے تو اپنے نیک مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اپنی منزل کا تعین کرسکتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ انسان بے اختیار ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ وہ اپنے وقت کو اپنی مرضی سے مصرف میں نہ لاسکے۔ لیکن یہ اُس وقت ممکن ہوتا ہے کہ جب انسان وقت کی قدر و اہمیت سے شناسائی رکھتا ہو۔
الحمدﷲ! ہم اللہ تبارک و تعالیٰ کے خاص فضل و کرم اور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ رحمت سے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں شامل ہونے پر خوش قسمتی کے عظیم گولڈ میڈل سے نوازے جاچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خوش قسمتی کا یہ عظیم گولڈ میڈل ہم سے اِس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم بہ حیثیت مسلمان باقی مذاہب کے ماننے والوں سے بڑھ کر وقت کی قدر کریں۔
وقت کی قدر جاننے کے لیے ہمیں کسی غیر کے دروازے پر دستک نہیں دینی پڑے گی۔ جھوٹے آقاؤں سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی، نہ ہی اِس کے لیے ہیرے جواہرات اور مال و دولت کے انبار درکار ہیں۔ بس ذرا دل کے کسی ایک گوشے میں وقت کی قدر جاننے کے لیے تھوڑی سی تڑپ ہونی چاہیے۔
الحمدﷲ! ہمیں دنیا کی سب سے عظیم کتاب میں اللہ کے، اور کائنات کے سب سے عظیم راہ بر و راہ نما، ہادی عالم، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے فرامینِ مقدس کی روشنی میں وقت کی قدر و اہمیت کا پتا اور اس کے گزارنے کے روشن اصول ملتے ہیں۔ بات مزید آگے بڑھانے سے قبل یہ بات اور نقطہ پیش کرنا بھی ضروری ہے کہ جو جتنی بڑی ذات ہوگی، اُس کے اُتنے ہی بڑے اہم اور روشن اصول ہوں گے۔ دنیا میں سب سے بڑی حقیقت اور سچائی یہی ہے کہ خالقِ کائنات اللہ سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں اور لباسِ بشریت میں ملبوس ہادی عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر کوئی راہ بر و راہ نما نہیں۔
اب بھلا ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کسی کم تر چیز کی قسم، بارہا کھائے۔ پروردگارِ عالم نے کئی مقامات پر مختلف اوقات کی قسم کھائی ہے۔
سورۃ الفجر میں، وقتِ فجر اور عشرہ ذوالحجہ کی قسم کھائی ہے، مفہوم: '' فجر کے وقت کی قسم (جس سے ظلمتِ شب چھٹ گئی) اور دس (مبارک) راتوں کی قسم۔''
پھر ایک مقام پر ربِ قدوس نے رات اور دن کی قسم بھی کھائی، مفہوم: ''رات کی قسم جب وہ چھا جائے ( اور ہر چیز کو اپنی تاریکی میں چھپالے ) اور دن کی قسم جب وہ چمک اُٹھے۔''
اسی طرح سورۃ الضحیٰ میں ربِ کائنات نے وقت چاشت کی قسم کھاتے ہوئے ارشاد فرمایا، مفہوم : '' قسم ہے وقتِ چاشت کی (جب آفتاب بلند ہوکر اپنا نور پھیلاتا ہے ) اور قسم ہے رات کے وقت کی جب وہ چھا جائے۔''
پھر ایک جگہ خدائے واحد نے سورۃ العصر میں زمانے کی قسم کھائی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کر دینا چاہتے ہیں کہ اکثر ہمارے احباب نادانی اور کم علمی کی وجہ سے زمانے کو بُرا کہتے ہیں، تو یہ سخت گناہ ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ زمانہ میں خود ہوں۔ العصر میں ارشاد ہوتا ہے، مفہوم: '' زمانے کی قسم، بے شک انسان خسارے میں ہے۔''
حضور ِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، مفہوم : ''صحت اور فراغت اللہ کی طرف یہ دو ایسی نعمتیں ہیں کہ جس کے بارے میں لوگ اکثر خسارے میں رہتے ہیں۔''
ربِ غفور انسان کو جسمانی صحت اور فراغتِ اوقات کی انمول نعمتوں سے نوازتا ہے، تو اکثر نادان انسان یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ نعمتیں ہمیشہ ساتھ رہیں گی اور انہیں کبھی زوال نہ ہوگا۔ حقیقت یہ ہے یہ صرف شیطانی چال اور وسوسہ ہوتا ہے، جس کی بِنا پر انسان اِدھر اُدھر کے فضول اور بے سود کاموں میں اپنے آپ کو مصروف کر بیٹھتا ہے۔ جس کا نہ کوئی دنیا میں فائدہ اور نہ آخرت کا سامان۔
حضور سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ مقدس ہے، مفہوم: '' قیامت کے دن بندہ اُس وقت تک (بارگاہِ الہٰی میں) کھڑا رہے گا کہ جب تک اس سے چار چیزوں کے متعلق پوچھ نہ لیا جائے گا۔ زندگی کیسے گزاری۔ جو علم حاصل کیا اس پر کتنا عمل کیا۔ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا۔ جسم کس کام میں کھپائے رکھا۔''
اسی طرح کا ایک اور فرمانِ رسولؐ، جس کے راوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: '' پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو، بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ بیماری سے پہلے صحت کو۔ محتاجی سے پہلے تونگری کو۔ مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ اور موت سے پہلے زندگی کو۔''
اگر ہم اپنی زندگی کے گزرنے والے شب و روز، درج بالا سطور کے تناظر میں دیکھیں تو کیا ہم خود کو مطمئن پائیں گے؟ یقینا نہیں! ہم تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اور لمحات، کھانے پینے، گھومنے پھرنے، سیر و سیاحت کرنے، ہوٹلنگ کا مزہ چکھنے، فضول گپ شپ کرنے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی اور اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے دل دکھانے میں صرف کر دیتے ہیں۔
یوں گزرنے والے دن، رات اور ماہ و سال ماضی کا ایک حصہ بن جاتے ہیں۔ جیسے کہ تلخ و شیریں یادوں سے بھرا 2017ء ماضی کا حصہ بن گیا۔
یہ حقیقت ہے کہ گزرا وقت واپس نہیں آتا، مگر آنے والا ہر لمحہ اور ہر صبح کو طلوع ہونے والے سورج کی کرنوں سے پھوٹنے والی روشنی امید کا پیغام ضرور دیتی ہے۔ یہی ایک امید ہی تو ہے کہ جس پر یہ دنیا قائم ہے۔ مایوسی کو گناہ قرار دیا گیا ہے۔ ربِ قدوس کے ہاں دیر ہے، اندھیر نہیں۔ ہم وقت کی قدر کرتے ہوئے امیدوں کے اس شجر سے وابستہ رہ کر، نئی امنگوں اور جذبوں کے ستاروں کو اپنے آنگن میں اتارتے ہوئے، اسلام اور وطن عزیز پاکستان کے مکار دشمنوں کے ناپاک عزائم کو اتفاق و اتحاد، خلوص و پیار، ایثار و قربانی، ملی یک جہتی، جذبۂ حب الوطنی اور صبر و رضا کے انمول ہتھیاروں سے ناکام بنا سکتے ہیں۔
اللہ کریم ہم سب کو اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے صدقے عمل کی توفیق و ہمت عطا فرمائے۔ آمین