مالی مسائل اے لیول کے طالبعلم کا مستقبل تاریک ہونے کا خدشہ
اسکول نے مشاہدکی اسکالرشپ ختم اور 3 لاکھ روپے جمع کرانے کی ہدایت دیدی، والد چھوٹی دکان چلا کر گزر بسر کرتے ہیں۔
کراچی میں ہونہار طالب علم کا مستقبل مالی مسائل کی وجہ سے تاریک ہو نے کا خدشہ ہے۔
کورنگی کی مضافاتی آبادی سے تعلق رکھنے والا مشاہد بچپن سے ہی ہونہار تھا اسی وجہ سے غربت کا شکار والدین نے پیٹ کاٹ کرمشاہد کو کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دلائی، او لیول میں داخل کرایا، مشاہد کی قابلیت کی وجہ سے اس کو اسکالر شپ دی گئی، یہ مشاہد کا آخری سال ہے لیکن تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے مشاہد کی اسکالر شپ ختم کردی،3 لا کھ روپے کی ادائیگی کی ہدایت جاری کردی۔
؎مشاہد اور ان کے والدین پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی جس پر اہل خانہ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوگئے ،اتنی بڑی رقم کے حصول کے لیے در درکی ٹھوکریں کھارہے ہیں لیکن اب تک مشاہدکی فیس کی ادائیگی کے لیے کچھ نہیں ہو سکا، مشاہد کلفٹن میں اولیول میں تعلیم حاصل کررہا
فیس کی مد میں 3 لاکھ روپے ادا کرنے کے وسائل نہیں، والدہ
کورنگی سے تعلق رکھنے والے اے لیول کے طالب علم مشاہد کی والدہ خالدہ ضیا نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہو ئے کہا کہ مشاہد کی تعلیم کیلیے میں نے بہت محنت کی لیکن اب آخری مرحلے میں تعلیمی ادارے کی جانب سے 3لاکھ رو پے فیس کے مطالبے نے ہمارے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔
انھوں نے کہا کہ میں نے پرائیویٹ نوکری کرکے اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں تھی لیکن مجھے بیماریوں نے گھیر لیا،میرا 35 فیصد دل کام کررہا ہے،سانس کی بیماری ہے،سب سے خطرناک صورتحال بتاتے ہوئے مشاہد کی والدہ آبدیدہ ہوگئی۔ روتے ہوئے کہا کہ میںکینسرکے مرض میں مبتلا ہوئی ہو میری کیمو ہورہی ہے میں چند قدم چل نہیں سکتی اتنی ساری بیماریوں سے لڑکر اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بناناچاہتی ہو لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منطور ہے، 3لا کھ رو پے کی ادائیگی تو ہم نہیں کرسکتے اگر پیسے نہیں ہوئے تو بچے کی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں اس میں اپنے بچے کو محفوظ رکھا ہے۔ صرف تعلیم کے علاوہ میرے بیٹے کا کوئی مشغلہ نہیں،میرا چھوٹا سا گھر ہے جس میں دو کمرے ہیں،مشاہد کے والد ایک دکان چلاتے ہیں جس سے بمشکل گزارہ ہو پاتا ہے کیونکہ پہلے میں بھی نوکری کرتی تھی لیکن مجھے اب بیماریوں نے جکڑلیا۔
کراچی یونی ورسٹی سے دو ماسٹر کرنے والی مشاہد کی والدہ خالدہ ضیا نے بتایا کہ انھوں نے پرائیویٹ نوکری کی کچھ جمع نہ کرپا ئی سب اپنے بچے پر لگا دیا لہذا اب میرے پاس کچھ نہیں ،میری بس ایک خواہش تھی کہ میں اپنے بچے کے ساتھ حج کی ادائیگی کرلوں لیکن اب میرے بیٹے کی تعلیم کیلیے مشکلات آ گئی۔ مالی مسائل نے ہمارے سارے ارمانوں کو چکنا چورکردیا۔
انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے کیونکہ امیروں کے بچوں سے ساتھ پڑھتا ہے لیکن اس میں کسی قسم کی کوئی احساس کمتری نہیں، یہ ایک ذہین بچہ ہے لیکن اب اس کی فیس کس طرح ادا ہوگی کس طرح یہ آ گے تعلیم حاصل کرسکے گا،یہ اوپروالے کوہی پتہ ہے ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ ہم تین لاکھ روپے ادا کر سکیں فیس ادا نہیں ہوئی تو بچے کی تعلیم ختم ہوجائے گی اور ہمارے ارمان ٹوٹ جائیں گے۔
کورنگی کی مضافاتی آبادی سے تعلق رکھنے والا مشاہد بچپن سے ہی ہونہار تھا اسی وجہ سے غربت کا شکار والدین نے پیٹ کاٹ کرمشاہد کو کیمبرج سسٹم کے تحت تعلیم دلائی، او لیول میں داخل کرایا، مشاہد کی قابلیت کی وجہ سے اس کو اسکالر شپ دی گئی، یہ مشاہد کا آخری سال ہے لیکن تعلیمی ادارے کی انتظامیہ نے مشاہد کی اسکالر شپ ختم کردی،3 لا کھ روپے کی ادائیگی کی ہدایت جاری کردی۔
؎مشاہد اور ان کے والدین پر یہ خبر قیامت بن کر ٹوٹی جس پر اہل خانہ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوگئے ،اتنی بڑی رقم کے حصول کے لیے در درکی ٹھوکریں کھارہے ہیں لیکن اب تک مشاہدکی فیس کی ادائیگی کے لیے کچھ نہیں ہو سکا، مشاہد کلفٹن میں اولیول میں تعلیم حاصل کررہا
فیس کی مد میں 3 لاکھ روپے ادا کرنے کے وسائل نہیں، والدہ
کورنگی سے تعلق رکھنے والے اے لیول کے طالب علم مشاہد کی والدہ خالدہ ضیا نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہو ئے کہا کہ مشاہد کی تعلیم کیلیے میں نے بہت محنت کی لیکن اب آخری مرحلے میں تعلیمی ادارے کی جانب سے 3لاکھ رو پے فیس کے مطالبے نے ہمارے سارے ارمانوں پر پانی پھیر دیا۔
انھوں نے کہا کہ میں نے پرائیویٹ نوکری کرکے اپنے بچے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کوشاں تھی لیکن مجھے بیماریوں نے گھیر لیا،میرا 35 فیصد دل کام کررہا ہے،سانس کی بیماری ہے،سب سے خطرناک صورتحال بتاتے ہوئے مشاہد کی والدہ آبدیدہ ہوگئی۔ روتے ہوئے کہا کہ میںکینسرکے مرض میں مبتلا ہوئی ہو میری کیمو ہورہی ہے میں چند قدم چل نہیں سکتی اتنی ساری بیماریوں سے لڑکر اپنے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص بناناچاہتی ہو لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منطور ہے، 3لا کھ رو پے کی ادائیگی تو ہم نہیں کرسکتے اگر پیسے نہیں ہوئے تو بچے کی تعلیم ادھوری چھوڑنا پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں اس میں اپنے بچے کو محفوظ رکھا ہے۔ صرف تعلیم کے علاوہ میرے بیٹے کا کوئی مشغلہ نہیں،میرا چھوٹا سا گھر ہے جس میں دو کمرے ہیں،مشاہد کے والد ایک دکان چلاتے ہیں جس سے بمشکل گزارہ ہو پاتا ہے کیونکہ پہلے میں بھی نوکری کرتی تھی لیکن مجھے اب بیماریوں نے جکڑلیا۔
کراچی یونی ورسٹی سے دو ماسٹر کرنے والی مشاہد کی والدہ خالدہ ضیا نے بتایا کہ انھوں نے پرائیویٹ نوکری کی کچھ جمع نہ کرپا ئی سب اپنے بچے پر لگا دیا لہذا اب میرے پاس کچھ نہیں ،میری بس ایک خواہش تھی کہ میں اپنے بچے کے ساتھ حج کی ادائیگی کرلوں لیکن اب میرے بیٹے کی تعلیم کیلیے مشکلات آ گئی۔ مالی مسائل نے ہمارے سارے ارمانوں کو چکنا چورکردیا۔
انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرلے کیونکہ امیروں کے بچوں سے ساتھ پڑھتا ہے لیکن اس میں کسی قسم کی کوئی احساس کمتری نہیں، یہ ایک ذہین بچہ ہے لیکن اب اس کی فیس کس طرح ادا ہوگی کس طرح یہ آ گے تعلیم حاصل کرسکے گا،یہ اوپروالے کوہی پتہ ہے ہمارے وسائل اتنے نہیں کہ ہم تین لاکھ روپے ادا کر سکیں فیس ادا نہیں ہوئی تو بچے کی تعلیم ختم ہوجائے گی اور ہمارے ارمان ٹوٹ جائیں گے۔