ماسٹر چندر کو بھلا نہ پائے ہم
ماسٹر چندر نے اپنی زندگی موسیقی کے لیے وقف کردی تھی۔
پاکستان بننے سے پہلے بھی ہمارے پاس ایسی میٹھی اور سریلی آوازیں موجود تھیں جنھیں سن کر لوگ سحر زدہ ہوجاتے تھے اور ان کی آواز پر دولت، سونا لٹادیتے تھے۔ اس زمانے میں بڑے بڑے لائوڈ اسپیکر نہیں ہوتے تھے اور گانے والوں کی آواز اتنی بلند ہوتی تھی کہ رات کے وقت کئی میل تک پہنچتی تھی۔ ایسے گانے والوں میں ایک نام ماسٹر چندر کا بھی ہے جو کلام کو نہ صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لیے گاتے تھے بلکہ اسے عبادت سمجھتے تھے۔
چندر کو موسیقی سے لگائو بچپن ہی سے تھا اور ایک دن کوئی ان کے لیے بانسری اور مائوتھ آرگن لے آئے تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی، وہ اپنا فارغ وقت انھیں بجانے میں خرچ کرتے تھے۔ اسکول میں بھی ریسس کے دوران ان کے دوست گانے سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے، اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی گانے اور موسیقی کے بڑے شوقین تھے اور کبھی کبھار چھٹی کے وقت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سناتے تھے، جن سے چندر نے کچھ تربیت حاصل کی۔ چندر ان سے صوفیانہ کلام سیکھنے کی تربیت حاصل کرتے رہے۔
چندر کا شوق اس قدر بڑھ گیا کہ وہ موسیقی کی محفلیں اٹینڈ کرنے لگا اور گانے سنانے والوں سے رابطے بڑھاتے ہوئے ان سے کافی کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے لیے گانا گانے کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ موسیقی کے سازوں کے بارے میں جانکاری حاصل کریں اور انھیں خود بجاکر مہارت حاصل کریں۔ اس لیے انھوں نے طبلہ بجانا کاہسو سونارو سے سیکھنے کی تربیت حاصل کی، جب کہ صوفی کلام اور ڈانس کے بارے میں معلومات کاکا جیوت رام سے حاصل کرلی۔
1923 میں جب چندر کی عمر 14 سال تھی، وہ سکھر کے برابر شہر روہڑی گئے جہاں پر موسیقی کا ایک پروگرام منعقد ہورہا تھا، جہاں پر سندھ اور ہند کے مشہور گانے والے بھگت کنور رام بھی موجود تھے، وہاں پر چندر نے بھی پرفارم کیا اور داد حاصل کی۔ وہاں بھگت کنور رام کے پیروں کو چھوا اور ان سے دعا حاصل کی، جس پر بھگت نے چندر سے کہاکہ تجھ میں اچھے گانے والے بننے کی ساری خوبیاں موجود ہیں اور تم ایک دن موسیقی کی دنیا میں چمکتے ستارے کی طرح ابھر کر موسیقی میں نام کمائوگے۔
اب چندر میں ایک حوصلہ پیدا ہوا اور جہاں بھی کوئی موسیقی کی محفل ہوتی یہ وہاں جاکر اپنے فن کو پیش کرتے، جس میں ان کی محنت اور محبت شامل ہوتی تھی، جس کی وجہ سے ان کے چاہنے والوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ چندر نے اپنے فن میں مزید پختگی لانے کے لیے برصغیر کے بڑے سنگر اور موسیقار خان صاحب امیر علی کی شاگردی حاصل کی، جو روہڑی شہر میں رہتے تھے۔ اب انھیں روشن علی شاہ جہانیہ، ہادی بخش شاہ، دادن شاہ، نصیر فقیر جلالی جیسے صوفی قسم کے لوگوں کی صحبت ملی۔
اس کے علاوہ شاہ عبداللطیف بھٹائی، قلندر شہباز، ہالا شریف کے پیروں اور فقیروں سمیت سندھ کے کئی بزرگوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، جس سے چندر کے فن اور تربیت میں نکھار آیا۔ اس صحبت کی وجہ سے ان میں فقیری رنگ آگیا۔موسیقی سے محبت اور عشق کی وجہ سے انھیں اپنے رشتے داروں کی طرف سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں خاص طور پر ان کے انکل گھنشام داس جو ریونیو محکمے میں مختار کار تھے، جو چندر کو میراثی کہہ کر پکارتے تھے، لیکن ایک دن جب ان کے چچا نے ریاض کرتے ہوئے ان کی آواز سنی تو آواز کی مٹھاس نے انھیں چندر کا فین بنادیا۔
ایک دن جب ان کا امرتسر جانا ہوا تو وہ چندر کے لیے ایک نیا ہارمونیم خرید لائے اور اکثر چندر سے کلام سننے کی فرمائش کرتے رہتے تھے۔ ماسٹر چندر 18 دسمبر 1909 میں سندھ کے تاریخی شہر ٹھارو شاہ میں دام حویلی میں عاصم داس دام وانی کے گھر پیدا ہوئے تھے۔
چندرمل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے شہر سے ہی حاصل کی اور میٹرک کا امتحان بھی وہاں پر لوکل بورڈ ہائی اسکول سے پاس کیا۔ انھیں جب پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے انجینئرنگ سیکشن میں نوکری ملی تو وہ صبح اپنے دفتر میں کام کرتے تھے اور شام کو موسیقی کی ترقی کے لیے نئے سیکھنے والوں کو تربیت دیا کرتے، جس کے لیے انھوں نے سنگت وڈیالا تربیت مرکز قائم کیا تھا اور جب ان کا تبادلہ کراچی شہر میں ہوا تو یہ مرکز آرام باغ کے علاقے میں قائم کیا۔ مگر بعد میں 5 سال نوکری کرنے کے بعد انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔
چندر نے ابتدائی دنوں میں موسیقی کی شروعات ہندو مذہب کے موسیقی پروگراموں سے کی، وہ مندروں اور گردواروں میں جاکر بھجن گاتے تھے۔ انھوں نے موسیقی میں کافی نیا پن پیدا کیا۔ ان کی آواز میں اونچائی اور مٹھاس تھی، اس لیے کبھی بھی لائوڈ اسپیکر کی ضرورت نہیں پڑی۔ ان کی صاف آواز کئی میل دور رات کے سناٹے میں پہنچ جاتی تھی اور سننے والوں پر ایک سحر طاری ہوجاتا تھا۔ وہ گرامو فون کا دور تھا اور گرامو فون کمپنیاں اچھے گانے والوں کے گانوں کی ریکارڈنگ کرتے تھے۔ انھیں ایک گراموفون کے مالک سیٹھ رام چند نے متعارف کروایا تھا۔ اس کے علاوہ ریڈیو کی دنیا بھی بڑی مقبول تھی اور چندر دونوں ذرایع میں مقبول تھے۔
گراموفون کمپنی کے اتنے گانے چندر کے ریکارڈ ہوئے کہ کمپنی نے ان کو 10 تولہ سونے کا ایک میڈل بناکر تحفے کے طور پر دیا تھا۔ گانے کی ریکارڈنگ کے لیے بھی اچھا خاصا پیسہ دیا جاتا تھا۔ جب کہ ریکارڈنگ کمپنیوں اور نوابوں کی طرف سے انھیں بڑے بڑے سرٹیفکیٹ اور انعام ملتے تھے۔استاد بڑے غلام علی خان جو موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے ان کی طرف سے چندر کو سنگت اچاریہ، جو موسیقی کا بڑا ایوارڈ تھا، دیا گیا، جو ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔
جب 1965 میں ہندوستان اور پاکستان میں لڑائی ہوئی تو اس کے بعد ماسٹر چندر کے گانے ریڈیو پاکستان پر بجانا بند کردیے گئے مگر بعد میں Ban ہٹائی گئی اور اب ان کے گانے پاکستان میں ریڈیو، ٹی وی سے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے گانوں کی کئی آڈیو کیسٹیں بھی بنائی گئیں۔ انھوں نے تقریباً تیس ہزار گانے ریکارڈ کروائے ہیں، جس میں زیادہ تر ان کی بنائی ہوئی دھنیں ہیں۔
جب پاکستان بنا تو ماسٹر چندر ہندوستان چلے گئے، جہاں پر پہلے انھوں نے اجمیر شریف، پھر بمبئی اور بعد میں کلکتہ میں رہائش اختیار کی۔ سندھ سے چلے جانے کے بعد انھیں کہیں بھی سکون نہیں ملا اور وہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتے رہے اور پھر بمبئی آگئے۔ 1955 میں حکومت پاکستان کی دعوت پر وہ آئے اور سندھ میں تقریباً 6 ماہ تک مختلف شہروں کا دورہ کرتے رہے، جہاں پر لوگ ان کے لیے اپنی محبت نچھاور کرتے رہے۔
ہندوستان میں 1955 میں ایک سندھی فلم ''ابانا'' بنائی گئی تھی جس کے سارے گانوں کے دھنیں چندر نے بنائی تھیں۔ انھوں نے اس فلم میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ یہ فلم ہندو سندھیوں کی سندھ سے ہندوستان کی نقل مکانی پر بنائی تھی۔ چندر شاعر بھی تھے، انھوں نے کئی اشعار لکھے تھے جسے انھوں نے اپنی آواز میں گایا بھی ہے۔ ہندوستان کی ایک اور فلم'' سندھو کنارے'' میں بھی گانے گائے ہیں۔
ماسٹر چندر نے اپنی زندگی موسیقی کے لیے وقف کردی تھی اور اس کی خدمت کرتے کرتے 2 نومبر 1984 کو بمبئی میں اس دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ سندھ میں بھی ان کے چاہنے والے اب بھی لاکھوں ہیں، جو ان کے گائے ہوئے کلام یوٹیوب کے ذریعے سنتے رہتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی زندگی پر دو کتابیں لکھی گئی ہیں، جس میں ایک کتاب انڈین رائٹر ارجن بھمبھانی نے 1989 میں لکھ کر شایع کروائی اور دوسری کتاب پاکستان سے تعلق رکھنے والے غلام قادر سومرو نے 2007 میں شایع کروائی۔
چندر کو موسیقی سے لگائو بچپن ہی سے تھا اور ایک دن کوئی ان کے لیے بانسری اور مائوتھ آرگن لے آئے تو ان کی خوشی کی انتہا نہیں تھی، وہ اپنا فارغ وقت انھیں بجانے میں خرچ کرتے تھے۔ اسکول میں بھی ریسس کے دوران ان کے دوست گانے سنانے کی فرمائش کیا کرتے تھے، اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی گانے اور موسیقی کے بڑے شوقین تھے اور کبھی کبھار چھٹی کے وقت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا کلام سناتے تھے، جن سے چندر نے کچھ تربیت حاصل کی۔ چندر ان سے صوفیانہ کلام سیکھنے کی تربیت حاصل کرتے رہے۔
چندر کا شوق اس قدر بڑھ گیا کہ وہ موسیقی کی محفلیں اٹینڈ کرنے لگا اور گانے سنانے والوں سے رابطے بڑھاتے ہوئے ان سے کافی کچھ سیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے لیے گانا گانے کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ موسیقی کے سازوں کے بارے میں جانکاری حاصل کریں اور انھیں خود بجاکر مہارت حاصل کریں۔ اس لیے انھوں نے طبلہ بجانا کاہسو سونارو سے سیکھنے کی تربیت حاصل کی، جب کہ صوفی کلام اور ڈانس کے بارے میں معلومات کاکا جیوت رام سے حاصل کرلی۔
1923 میں جب چندر کی عمر 14 سال تھی، وہ سکھر کے برابر شہر روہڑی گئے جہاں پر موسیقی کا ایک پروگرام منعقد ہورہا تھا، جہاں پر سندھ اور ہند کے مشہور گانے والے بھگت کنور رام بھی موجود تھے، وہاں پر چندر نے بھی پرفارم کیا اور داد حاصل کی۔ وہاں بھگت کنور رام کے پیروں کو چھوا اور ان سے دعا حاصل کی، جس پر بھگت نے چندر سے کہاکہ تجھ میں اچھے گانے والے بننے کی ساری خوبیاں موجود ہیں اور تم ایک دن موسیقی کی دنیا میں چمکتے ستارے کی طرح ابھر کر موسیقی میں نام کمائوگے۔
اب چندر میں ایک حوصلہ پیدا ہوا اور جہاں بھی کوئی موسیقی کی محفل ہوتی یہ وہاں جاکر اپنے فن کو پیش کرتے، جس میں ان کی محنت اور محبت شامل ہوتی تھی، جس کی وجہ سے ان کے چاہنے والوں میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا۔ چندر نے اپنے فن میں مزید پختگی لانے کے لیے برصغیر کے بڑے سنگر اور موسیقار خان صاحب امیر علی کی شاگردی حاصل کی، جو روہڑی شہر میں رہتے تھے۔ اب انھیں روشن علی شاہ جہانیہ، ہادی بخش شاہ، دادن شاہ، نصیر فقیر جلالی جیسے صوفی قسم کے لوگوں کی صحبت ملی۔
اس کے علاوہ شاہ عبداللطیف بھٹائی، قلندر شہباز، ہالا شریف کے پیروں اور فقیروں سمیت سندھ کے کئی بزرگوں سے ملاقاتیں ہوتی رہیں، جس سے چندر کے فن اور تربیت میں نکھار آیا۔ اس صحبت کی وجہ سے ان میں فقیری رنگ آگیا۔موسیقی سے محبت اور عشق کی وجہ سے انھیں اپنے رشتے داروں کی طرف سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس میں خاص طور پر ان کے انکل گھنشام داس جو ریونیو محکمے میں مختار کار تھے، جو چندر کو میراثی کہہ کر پکارتے تھے، لیکن ایک دن جب ان کے چچا نے ریاض کرتے ہوئے ان کی آواز سنی تو آواز کی مٹھاس نے انھیں چندر کا فین بنادیا۔
ایک دن جب ان کا امرتسر جانا ہوا تو وہ چندر کے لیے ایک نیا ہارمونیم خرید لائے اور اکثر چندر سے کلام سننے کی فرمائش کرتے رہتے تھے۔ ماسٹر چندر 18 دسمبر 1909 میں سندھ کے تاریخی شہر ٹھارو شاہ میں دام حویلی میں عاصم داس دام وانی کے گھر پیدا ہوئے تھے۔
چندرمل اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ ابتدائی تعلیم اپنے شہر سے ہی حاصل کی اور میٹرک کا امتحان بھی وہاں پر لوکل بورڈ ہائی اسکول سے پاس کیا۔ انھیں جب پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کے انجینئرنگ سیکشن میں نوکری ملی تو وہ صبح اپنے دفتر میں کام کرتے تھے اور شام کو موسیقی کی ترقی کے لیے نئے سیکھنے والوں کو تربیت دیا کرتے، جس کے لیے انھوں نے سنگت وڈیالا تربیت مرکز قائم کیا تھا اور جب ان کا تبادلہ کراچی شہر میں ہوا تو یہ مرکز آرام باغ کے علاقے میں قائم کیا۔ مگر بعد میں 5 سال نوکری کرنے کے بعد انھوں نے استعفیٰ دے دیا۔
چندر نے ابتدائی دنوں میں موسیقی کی شروعات ہندو مذہب کے موسیقی پروگراموں سے کی، وہ مندروں اور گردواروں میں جاکر بھجن گاتے تھے۔ انھوں نے موسیقی میں کافی نیا پن پیدا کیا۔ ان کی آواز میں اونچائی اور مٹھاس تھی، اس لیے کبھی بھی لائوڈ اسپیکر کی ضرورت نہیں پڑی۔ ان کی صاف آواز کئی میل دور رات کے سناٹے میں پہنچ جاتی تھی اور سننے والوں پر ایک سحر طاری ہوجاتا تھا۔ وہ گرامو فون کا دور تھا اور گرامو فون کمپنیاں اچھے گانے والوں کے گانوں کی ریکارڈنگ کرتے تھے۔ انھیں ایک گراموفون کے مالک سیٹھ رام چند نے متعارف کروایا تھا۔ اس کے علاوہ ریڈیو کی دنیا بھی بڑی مقبول تھی اور چندر دونوں ذرایع میں مقبول تھے۔
گراموفون کمپنی کے اتنے گانے چندر کے ریکارڈ ہوئے کہ کمپنی نے ان کو 10 تولہ سونے کا ایک میڈل بناکر تحفے کے طور پر دیا تھا۔ گانے کی ریکارڈنگ کے لیے بھی اچھا خاصا پیسہ دیا جاتا تھا۔ جب کہ ریکارڈنگ کمپنیوں اور نوابوں کی طرف سے انھیں بڑے بڑے سرٹیفکیٹ اور انعام ملتے تھے۔استاد بڑے غلام علی خان جو موسیقی کی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے ان کی طرف سے چندر کو سنگت اچاریہ، جو موسیقی کا بڑا ایوارڈ تھا، دیا گیا، جو ان کے لیے ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔
جب 1965 میں ہندوستان اور پاکستان میں لڑائی ہوئی تو اس کے بعد ماسٹر چندر کے گانے ریڈیو پاکستان پر بجانا بند کردیے گئے مگر بعد میں Ban ہٹائی گئی اور اب ان کے گانے پاکستان میں ریڈیو، ٹی وی سے نشر ہوتے رہتے ہیں۔ ان کے گانوں کی کئی آڈیو کیسٹیں بھی بنائی گئیں۔ انھوں نے تقریباً تیس ہزار گانے ریکارڈ کروائے ہیں، جس میں زیادہ تر ان کی بنائی ہوئی دھنیں ہیں۔
جب پاکستان بنا تو ماسٹر چندر ہندوستان چلے گئے، جہاں پر پہلے انھوں نے اجمیر شریف، پھر بمبئی اور بعد میں کلکتہ میں رہائش اختیار کی۔ سندھ سے چلے جانے کے بعد انھیں کہیں بھی سکون نہیں ملا اور وہ ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل ہوتے رہے اور پھر بمبئی آگئے۔ 1955 میں حکومت پاکستان کی دعوت پر وہ آئے اور سندھ میں تقریباً 6 ماہ تک مختلف شہروں کا دورہ کرتے رہے، جہاں پر لوگ ان کے لیے اپنی محبت نچھاور کرتے رہے۔
ہندوستان میں 1955 میں ایک سندھی فلم ''ابانا'' بنائی گئی تھی جس کے سارے گانوں کے دھنیں چندر نے بنائی تھیں۔ انھوں نے اس فلم میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے۔ یہ فلم ہندو سندھیوں کی سندھ سے ہندوستان کی نقل مکانی پر بنائی تھی۔ چندر شاعر بھی تھے، انھوں نے کئی اشعار لکھے تھے جسے انھوں نے اپنی آواز میں گایا بھی ہے۔ ہندوستان کی ایک اور فلم'' سندھو کنارے'' میں بھی گانے گائے ہیں۔
ماسٹر چندر نے اپنی زندگی موسیقی کے لیے وقف کردی تھی اور اس کی خدمت کرتے کرتے 2 نومبر 1984 کو بمبئی میں اس دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ سندھ میں بھی ان کے چاہنے والے اب بھی لاکھوں ہیں، جو ان کے گائے ہوئے کلام یوٹیوب کے ذریعے سنتے رہتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی زندگی پر دو کتابیں لکھی گئی ہیں، جس میں ایک کتاب انڈین رائٹر ارجن بھمبھانی نے 1989 میں لکھ کر شایع کروائی اور دوسری کتاب پاکستان سے تعلق رکھنے والے غلام قادر سومرو نے 2007 میں شایع کروائی۔