وہ باتیں تری وہ فسانے ترے

کسی نے خبر پڑھی تو فون کرکے ایڈیٹر سے پوچھا کیا بیٹھی ہوئی اور لیٹی ہوئی کمیٹیاں بھی ہوتی ہیں۔

لگ بھگ 40 سال بعد فون پر ایک بہت ہی پیارے دوست اورساتھی کی آواز سن کر مجھے جو خوشگوار حیرت اور مسرت ہوئی، آپ اس کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔ وہ آواز منان میمن کی تھی جو 75' 1974 تک کراچی سے بھٹو کے جاری کردہ اخبار '' ہلال پاکستان'' میں میرے ساتھ کام کرتے تھے ۔

ہم دونوں نائٹ شفٹ میں نیوز ڈیسک پر بطور سب ایڈیٹر ٹیلی پرنٹرز پر موصول پونے والی نیوز ایجنسیوں کی خبریں ترجمہ کرنے پر مامور تھے ، ہمارے دوسرے ساتھیوں میں انور پیرزادہ، محمد خان سیال، اقبال دل اور اسلم آزاد شامل تھے جب کہ محمود یوسفانی شفٹ ہولڈ کرتے تھے ۔ سراج میمن ہمارے ایڈیٹر ہوا کرتے تھے جو میری معلومات کے مطابق رشتے میں منان کے کزن لگتے تھے لیکن اپنے بیوروکریٹک اسٹائل کی وجہ سے اس سے بھی اتنا ہی فاصلہ رکھتے تھے جتنا اپنے دوسرے ماتحتوں سے ان کا ہوتا تھا، بے تکلفی تو دور کی بات ہم نے کبھی انھیں ایک دوسرے سے ملتے یا بات چیت کرتے بھی نہیں دیکھا۔

ہم سب کی طرح منان بھی انھیں سائیں (جناب) کہہ کر مخاطب کیا کرتا۔ وہ چونکہ بھٹو کے بہت قریب اور ان کی پیپلز پارٹی سے کمیٹیڈ تھے اس لیے 1977 میں جب فوج نے جنرل ضیاء کی زیر قیادت بغاوت کرکے بھٹو حکومت کا تختہ الٹ دیا تو ان کے لیے کام جاری رکھنا مشکل ہوگیا اور وہ مستعفی ہوگئے۔

بعد میں منان میمن نے بھی اخبار سے علیحدگی اختیار کرلی کیونکہ انھیں اچھی سرکاری نوکری مل گئی تھی اور وہ سندھ ایرڈ زون ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سازدا) میں ڈائریکٹر لگ گئے تھے ، اگر میں غلطی نہیں کر رہا تو وہ چیف منسٹر ہاؤس میں پہلی بار بلا استحقاق محض پیر پگارا اور فوجی جنتا کی آشیرباد سے بیٹھ کر سندھ پر حکمرانی کرنے والے سید غوث علی شاہ کا دور تھا جس میں ہمارے یارکو تھر میں پوسٹنگ ملی تھی۔ اس کے بعد ہمارا باہم کوئی رابطہ نہ رہا، وہ سرکار اور ہم اخبار کی نوکری کرتے رہے ، وقت تیزی سے گذرتا رہا اور پلوں کے نیچے سے نہ جانے کتنا پانی بہہ گیا۔ ملنا تو دور کی بات کبھی فون پر بات کرنے کی نوبت بھی نہیں آئی۔

منان کے جانے کے بعد بھی ہم ڈیسک کے ساتھی انھیں نہیں بھولے اور کبھی ان کے حوالے سے کوئی بات نکلتی تو سب اپنی اپنی یادیں تازہ کرتے ۔ مثلاً سراج میمن کو ٹھیٹھ سندھی الفاظ استعمال کرنے کا کریز تھا، آج کل کی طرح اس وقت بھی دوسری زبانوں کے بہت سے الفاظ سندھی میں رائج تھے اور عام بول چال یا لکھنے پڑھنے میں استعمال ہوتے تھے لیکن وہ ان کے مروج اور مستعمل ہونے کی دلیل تسلیم کرنے اور یہ پریکٹس جاری رکھنے کی اجازت دینے کے لیے کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے تھے۔

سندھی زبان کے ماہر تو تھے ہی ( ان کی کتاب سندھی بولی شاید اب بھی سندھ یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے )، انھوں نے کئی ایسے نئے الفاظ متعارف کروائے جو ان کے بقول ٹھیٹھ سندھی الفاظ تھے لیکن بہت سے سندھی بھی ان کا مطلب نہیں جانتے تھے ۔ مثلاً خلا کی جگہ پولار اور ماحول کی جگہ وایو منڈل وغیرہ۔

میں نے ایک بار اچھے موڈ میں دیکھ کر عرض کیا کہ سائیں یہی حال رہا تو ہمارا اخبار پڑھنے کے لیے بھی لوگوں کو بھٹائی کے اشعار سمجھنے کی طرح ڈاکٹر گربخشانی کی شرح کا سہارا لینا پڑے گا، اس پر زیر لب مسکراتے ہوئے فرمایا لگتا ہے نوکری سے اکتا گئے ہو۔ وہ دوسری زبانوں کے ایسے الفاظ کو جو سندھی میں مستعمل تھے ، ابوالپھوڑاٹ الفاظ قرار دیتے اور انھیں دہرانے کی سخت مخالفت کرتے تھے ۔ کسی خبر میں ایسا کوئی لفظ دیکھتے تو پروف ریڈروں اور فورمین سے اصل کاپی منگوا کر معلوم کرتے کہ وہ کس نے ترجمہ کی ہے اور اسے اپنے کمرے میں بلواکر سخت سرزنش کرتے۔


وہ منان میمن کا دن تھا، اس نے قومی اسمبلی کی کارروائی کی خبر ترجمہ کرتے وقت اسٹینڈنگ کمیٹی کو قائمہ کمیٹی لکھا تھا، سراج صاحب نے دیکھا تو اخبار ہاتھ میں لیے اپنے کمرے سے نکل کر نیوز روم میں آئے اور ہم سب کو مخاطب کرکے پوچھا یہ قومی اسمبلی کی خبر کس نے ترجمہ کی تھی؟ منان نے اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے فوراً جواب دیا میں نے کی تھی۔ فرمایا یہ قائمہ کمیٹی کیا ہوتی ہے ؟

منان نے پہلے کی طرح کہا اسٹینڈنگ کمیٹی کوکہتے ہیں اور سب اخبار اس کا یہی ترجمہ کرتے ہیں۔ سب اخبارگئے بھاڑ میں، آیندہ یہ لفظ استعمال نہیں ہونا چاہیے ، یہ کہتے اور پیر پٹختے ہوئے وہ اخبار ڈیسک پر پھینک کر اپنے کمرے میں واپس چلے گئے ، بات آئی گئی ہو گئی۔اْس روز پھر قومی اسمبلی کی خبر ترجمہ کرنے کے لیے اتفاق سے منان میمن ہی کے حصے میں آئی، اسے گویا سراج صاحب سے حساب برابر کرنے کا موقعہ مل گیا سو اس نے اسٹینڈنگ کمیٹی کی جگہ لکھا بیٹھل کمیٹی (کھڑی ہوئی کمیٹی)۔

کسی نے خبر پڑھی تو فون کرکے ایڈیٹر سے پوچھا کیا بیٹھی ہوئی اور لیٹی ہوئی کمیٹیاں بھی ہوتی ہیں کہ آپ نے کھڑی ہوئی کمیٹی لکھا ہے ۔ اب تو سراج صاحب کی حالت ایسی ہوگئی جیسے کسی نے ان کے سر پر ہتھوڑا دے مارا ہو، نیوز روم میں آئے تو غصے سے کانپ رہے تھے ، یہ نہیں پوچھا کہ خبر کس نے ترجمہ کی تھی کیونکہ وہ کاپی منگواکر تصدیق کر چکے تھے کہ یہ کام منان کا ہے ۔ براہ راست اس سے مخاطب ہوکر بولے تم نے کام کرنا ہے کہ نہیں؟

اس نے کہا کرنا ہے تو بولے پھر اس مذاق کا کیا مطلب ہے ؟ یہ کھڑی ہوئی کمیٹی کونسی ہوتی ہے ؟ منان نے بڑے آرام سے جواب دیا یہ اسٹینڈنگ کمیٹی ہوتی ہے ، اس نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ لوہا گرم دیکھ کر بولا قائمہ کمیٹی آپ نہیں لکھنے دیتے کہ یہ آپ کے بقول ابوالپھوڑاٹ لفظ ہے ، اب اگر ٹھیٹھ سندھی لفظ بیٹھل کمیٹی پر بھی آپ کو اعتراض تو بتائیے اسٹینڈنگ کمیٹی کو کیا لکھا جائے ؟ سراج صاحب لاجواب ہوگئے اور کچھ بڑبڑاتے ہوئے واپس چلے گئے۔

میں نے انھیں کہتے ہوئے سنا کہ اس سے تو اسٹینڈنگ کمیٹی ہی لکھ دیتے تو اچھا تھا۔منان کے جانے کے بعد میرے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا۔ کورٹ نوٹس کا ترجمہ کرتے ہوئے مجھے منان والی بات یاد آئی اور میں سراج صاحب سے پوچھنے چلا گیا کہ طلاق کو سندھی میں کیا لکھیں گے ۔ مشہور شاعر شیخ ایاز ان کے پاس بیٹھے تھے جو ان دنوں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوا کرتے تھے۔

سوال سن کر پریشان ہوگئے ، سرکھجاتے ہوئے بولے اس کی جگہ چھوڑ کر تم باقی میٹر ترجمہ کرلو، میں ابھی بتاتا ہوں۔ میں جانتا تھا کہ اس لفظ کا سندھی میں جب کوئی متبادل ہے ہی نہیں تو وہ بتائیں گے کیا، لیکن پھر بھی لطف لینے کے لیے وقفے وقفے سے ان کے کمرے میں جاکر پوچھتا رہا کہ سائیں یاد آیا کہ نہیں؟ تنگ آکر بولے یار جو مرضی لکھ دو، مجھے پریشان مت کرو۔ شیخ صاحب کو 20 سال بعد بھی یہ بات یاد تھی، 1994 میں جب ہم دونوں برسات اخبار میں ساتھ کام کرتے تھے ، وہ اکثر مزاحاً کہتے ''ہاں تو طلاق کو سندھی میں کیا کہتے ہیں؟''

منان نے بتایا کہ ہمارے مشترکہ دوست اور عبرت اخبار کے کالم نگار میر اعظم تالپور نے انھیں میرا نمبر دیا تھا جو اکثر میرا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اس روز بھی ان کا جو کالم چھپا تھا اس میں انھوں نے میرا ذکر کیا تھا۔ منان کے بتانے پر میں نے نیٹ پر پڑھنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔ میں نے پوچھا آج کل کیا مصروفیات ہیں تو منان نے کہا سارا دن پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں سے لڑتے جھگڑتے گذرتا ہے ، 73 برس کا بوڑھا اور کر بھی کیا سکتا ہے۔

میں نے کہا 73 برس کا تو میں بھی ہوں پر ابھی بوڑھا نہیں ہوا۔ ہم نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی تاریخ پیدائش بھی بتائی، منان نے کہا وہ 21 جون 1944 کو پیدا ہوئے تھے ، بینظیر بھٹو شہید کی تاریخ پیدائش بھی 21 جون ہی تھی۔ میری تاریخ پیدائش 12 اپریل 1944 سن کر بولے انکل آپ مجھ سے بڑے ہیں۔ اللہ انھیں خوش رکھے ، ہم نے کسی دن پریس کلب میں ملنا طے کیا ہے ، ملیں گے تو پتہ چلے گا ان کے منہ میں دانت ہیں یا وہ بھی میری طرح پوپلے ہیں۔
Load Next Story