سندھ ہائیکورٹ نے 5 سال میں جاری تعلیمی فنڈز کا ریکارڈ طلب کرلیا

حکومت بتائے فنڈز کس مد میں استعمال ہوئے، کتنے اسکول بند اور کتنے کھلے ہوئے ہیں، جامع رپورٹ جمع کرانے کا حکم

تعلیمی ایمرجنسی کے باوجود اسکولوں میں پینے کا پانی تک میسر نہیں، 6000 سے زائد اسکول بند ہیں، درخواست گزار۔ فوٹو: فائل

سندھ ہائی کورٹ نے تعلیمی نظام کی تباہ حالی سے متعلق درخواست پر 5 سال کے دوران جاری تعلیمی فنڈز کا ریکارڈ طلب کر لیا جب کہ 31 جنوری تک جامع رپورٹ جمع کرانے کاحکم بھی دیا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ کے روبرو فکس اٹ کے عالمگیر خان، اتم پرکاش، ندیم شیخ کی درخواست کی سماعت ہوئی، عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ سندھ حکومت بتائے گزشتہ 5 سال میں کتنے فنڈز جاری اور کس مد میں استعمال کیے گئے، بتایاجائے کتنے اسکولز بند اور کتنے کھلے ہوئے ہیں، 31جنوری تک جامع رپورٹ عدالت میں جمع نہیں کرائی گئی تو سیکریٹری تعلیم کو طلب کر لیں گے۔


سماجی رہنماکی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا تھا کہ سندھ رائٹس آف چلڈرن ایجوکیشن ایکٹ 2013 کے تحت اربوں روپے جاری ہوئے تاہم اب تک ایکٹ پر عمل درآمد نہیں کرایا جاسکا، سندھ کا تعلیمی نظام تباہ ہو گیا ہے، ایمرجنسی کے نفاذکے با وجود سرکاری اسکولز میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں، واش روم ودیگر سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں جبکہ سندھ اسمبلی سے بل پاس ہونے کے باوجود بچوں کو مفت تعلیم نہیں دی جارہی اور اب بھی 6000 سے زائد سرکاری اسکولزبند پڑے ہیں جس کے باعث بچے تعلیم سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

درخواست میں مزیدکہاگیا ہے کہ تعلیمی اداروں کی کئی عمارتیں خستہ حال ہیں جن کے گرنے کا بھی خدشہ ہے، 40 ہزار گوسٹ اساتذہ بھرتی کیے گئے جوہزاروں روپے تنخواہ وصول کر رہے ہیں، ملک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی نظام کا بہتر ہونا ضروری ہے۔
Load Next Story