کراچی میں فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کا معمہ حل 4 پولیس اہلکار گرفتار
مقتول انتظار کے لواحقین کی چیف جسٹس آف پاکستان سے انصاف کی اپیل، وزیر اعلیٰ سندھ نے واقعے کا نوٹس لے لیا
ڈیفنس کے علاقے میں پولیس اہلکاروں کی فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان جاں بحق ہوگیا جس کے والدین نے چیف جسٹس آف پاکستان سے انصاف کی اپیل کردی۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد کے پراسرار قتل کا معمہ حل ہوگیا ہے۔ ایس ایس پی جنوبی جاوید اکبر ریاض کا کہنا ہے کہ نوجوان کے قتل میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے ایس ایچ او سمیت 4 پولیس اہلکار ملوث ہیں جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ درخشاں پولیس کے مطابق مقتول کے لواحقین کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
مقتول انتظار کے لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پولیس سے کوئی امید نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان ہمیں انصاف دلائیں۔ والدہ نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ انصاف دو یا مجھے بھی مار دو، مجھ سے میرا اکلوتا بیٹا چھین لیا گیا۔ اس موقع پر وکیل نے کہا کہ گاڑی کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ قتل کے لئے فائرنگ کی گئی، واقعے کے 4 گھنٹے تک پولیس نے لواحقین سے رابطہ نہیں کیا، کیا ملک میں جنگل کا قانون چل رہا ہے۔
والد نے بتایا کہ انتظار کی عمر 19 سال تھی، وہ عصر کی نماز پڑھ کر گھر سے نکلا تھا اور کہا کہ دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے جارہا ہوں، انتظار کی کسی سے کوئی ذاتی رنجش نہیں تھی اور کوئی سیاسی تعلق بھی نہیں تھا۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ایک شہری کا بیٹا قتل ہوا ہے یہ دل دہلانے والی بات ہے، پولیس فوری کارروائی کرے مجھے انتظار کے قاتل چاہئیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: ڈیفنس میں کار پر فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت
اے سی ایل سی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کی ابتدائی تفتیش میں بتایا گیا ہے کہ انتظار کی گاڑی بی ایل ای 254 پر 3 گولیاں فائر کی گئیں جن میں سے پچھلی سیٹ کے دائیں شیشے پر لگنے والی گولی انتظار کو لگی جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔
قبل ازیں مقتول کے والد اشتیاق احمد نے کہا تھا کہ ان کا بیٹا ملائیشیا سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد گزشتہ سال 29 نومبر کو پاکستان آیا تھا اور چند روز قبل اس کا 2 بااثر شخصیات کے بیٹوں سے جھگڑا بھی ہوا تھا جنھوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ مقتول انتظار احمد کے گھر پہنچے جہاں انہوں نے لواحقین سے تعزیت کی اور انہیں یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جس طرح انتظار کے ورثاء کہیں گے اس طرح تحقیقات کرائیں گے، اگر وہ کہیں تو ہم جوڈیشل انکوائری کرانے کے لیے بھی تیار ہیں، میں قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاؤں گا، جو بھی ملوث ہوگا اسے نہیں چھوڑوں گا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق کراچی کے پوش علاقے ڈیفنس میں فائرنگ سے 19 سالہ نوجوان انتظار احمد کے پراسرار قتل کا معمہ حل ہوگیا ہے۔ ایس ایس پی جنوبی جاوید اکبر ریاض کا کہنا ہے کہ نوجوان کے قتل میں اینٹی کار لفٹنگ سیل کے ایس ایچ او سمیت 4 پولیس اہلکار ملوث ہیں جنہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ درخشاں پولیس کے مطابق مقتول کے لواحقین کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
مقتول انتظار کے لواحقین نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ انہیں پولیس سے کوئی امید نہیں، چیف جسٹس آف پاکستان ہمیں انصاف دلائیں۔ والدہ نے دہائی دیتے ہوئے کہا کہ انصاف دو یا مجھے بھی مار دو، مجھ سے میرا اکلوتا بیٹا چھین لیا گیا۔ اس موقع پر وکیل نے کہا کہ گاڑی کو روکنے کے لئے نہیں بلکہ قتل کے لئے فائرنگ کی گئی، واقعے کے 4 گھنٹے تک پولیس نے لواحقین سے رابطہ نہیں کیا، کیا ملک میں جنگل کا قانون چل رہا ہے۔
والد نے بتایا کہ انتظار کی عمر 19 سال تھی، وہ عصر کی نماز پڑھ کر گھر سے نکلا تھا اور کہا کہ دوستوں کے ساتھ کھانا کھانے جارہا ہوں، انتظار کی کسی سے کوئی ذاتی رنجش نہیں تھی اور کوئی سیاسی تعلق بھی نہیں تھا۔ وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ایک شہری کا بیٹا قتل ہوا ہے یہ دل دہلانے والی بات ہے، پولیس فوری کارروائی کرے مجھے انتظار کے قاتل چاہئیں۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: ڈیفنس میں کار پر فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت
اے سی ایل سی اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے نوجوان کی ہلاکت کی ابتدائی تفتیش میں بتایا گیا ہے کہ انتظار کی گاڑی بی ایل ای 254 پر 3 گولیاں فائر کی گئیں جن میں سے پچھلی سیٹ کے دائیں شیشے پر لگنے والی گولی انتظار کو لگی جس سے اس کی موت واقع ہوئی۔
قبل ازیں مقتول کے والد اشتیاق احمد نے کہا تھا کہ ان کا بیٹا ملائیشیا سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد گزشتہ سال 29 نومبر کو پاکستان آیا تھا اور چند روز قبل اس کا 2 بااثر شخصیات کے بیٹوں سے جھگڑا بھی ہوا تھا جنھوں نے سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دی تھیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ مقتول انتظار احمد کے گھر پہنچے جہاں انہوں نے لواحقین سے تعزیت کی اور انہیں یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ جس طرح انتظار کے ورثاء کہیں گے اس طرح تحقیقات کرائیں گے، اگر وہ کہیں تو ہم جوڈیشل انکوائری کرانے کے لیے بھی تیار ہیں، میں قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچاؤں گا، جو بھی ملوث ہوگا اسے نہیں چھوڑوں گا۔