جنرل باجوہ کے ڈاکٹرائن کا ایک سال
ایک سال سے چلنے والے اس آپریشن کا تجزیہ ضروری ہے۔
پاکستان میں امن و امان کا مسئلہ چیلنج بن چکا ہے۔ کسی بھی سول حکومت کے لیے فوج کی مدد کے بغیر ملک کے اندر امن و امان برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ اس صورتحال کی وجہ سے پاکستان کی فوج ایک طرف مشرق اور مغرب کی گرم سرحدوں پر دشمنوں سے نبرد آزما ہے۔ وہاں ملک کے اندر گلی کوچوں میں بھی امن دشمنوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔
ملک کے اندر کا دشمن بھی سرحد پر موجود دشمن کی طرح پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے۔ ایسے میں پاک فوج کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں۔ جو سیاستدان فوج کو بیرک میں بھیجنے کا سیاسی نعرہ لگاتے ہیں وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ملک کے اندر فوج کے بغیر امن و امان کیسے ممکن ہو گا۔ ملک کے اندر دہشتگردی کے ناسور سے نبٹنے کے لیے گزشتہ دہائی میں فوج نے متعدد آپریشن شروع کیے ہیں۔ لیکن فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نے اس ضمن میں ردالفساد کے نام سے آپریشن شروع کیا ہے۔
ایک سال سے چلنے والے اس آپریشن کا تجزیہ ضروری ہے۔ حال ہی میں بھارت کے آرمی چیف کی جانب سے دیا جانے والا بیان جس میں پاکستان پر نہ صرف حملہ کی بات کی گئی ہے بلکہ پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ بھارت کے عزائم کا واضع اعلان ہے۔
لیکن رد الفساد کا تجزیہ اور اس کی کامیابی کو جانچنے سے پہلے ہمیں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ڈاکٹرائن کو سمجھنا ہو گا۔ جب تک ہم اسے نہیں سمجھیں گے، ہم رد الفساد کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر درپیش چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کی حکمت عملی سمجھ آسکتی ہے۔ جنرل بوجوہ کی ڈاکٹرائن کے اہم نکات میں:
پر امن سرحدیں،اسلحہ سے پاک معاشرہ،تشدد سے پاک ملک،قانون کی حکمرانی۔
پر امن سرحدیں پاکستان کے اندر امن کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ایک طرف بھارت ہے جو جان بوجھ کر سرحد کو گرم رکھ رہا ہے تا کہ پاک فوج کو engageرکھ سکے اور پاکستان کے اندر بھی حالات خراب رکھ سکے۔ ادھر پاکستان میں دہشتگردی کے جن کو بے قابو کرنے کے لیے افغانستان کی سرحد کو بھی غیر ضروری طور پر نہ صرف گرم کیا جا رہا تھا بلکہ بھارت اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اس طرح جنرل باجوہ نے پاک فوج کی کمان سنبھالی تو انھیں دو طرف سے دشمن کا مقابلہ کرنے کا چیلنج ورثہ میں ملا۔ تاہم جس تیزی سے افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو شروع کیا گیا اور اب اس کو مکمل کیا جا رہا ہے وہ پر امن سرحدوں کے قیام کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ ایک آسان کام نہیں تھا۔ ایک تو ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ دوسرا پاکستان کے اندر بھی ایسی قوتیں تھیں جو اس باڑ لگانے کی مخالف ہیں۔بھارت جس کا ویسے تو پاک افغان سرحد سے کوئی خاص لینا دینا نہیں وہ بھی باڑ لگانے کے منصوبے کے خلاف ہے کیونکہ وہ افغانستان کو پاکستان کے اندر دہشتگردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اگر پاکستان یہ باڑ لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بھارت نے پاکستان کے اندر دہشتگردی کو فروغ دینے کے لیے افغانستان میں جس قدر بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہ ڈوب سکتی ہے۔ اس لیے بھارت اس باڑ کو روکنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ باڑ روزانہ ایک کلومیٹر سے زائد سرحد پر لگ رہی ہے۔ جس کی قیمت ہمارے نوجوان اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں۔ افغان سرحد پر ہونے والی شہادتیں اور بھارت کی سرحد پر غیر ضروری گرمی سب اسی باڑ کی وجہ سے ہے۔ تا ہم یہ باڑ پر امن پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ اور باجوہ ڈاکٹرائن کی بنیاد ہے۔
اسی طرح ایران کی سرحد پر کشیدگی کو بھی جنرل باجوہ نے باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت کم کیا ہے۔ وہ خود ایران گئے ہیں اور ایرانی حکومت کی غلط فہمیوں کو بھی دور کیا ہے۔ جنرل باجوہ کا دورۂ ایران پاک ایران تعلقات کو بہتر کرنے میں ایک بڑی پیشرفت تھی اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے سال میں اس حوالے سے مزید بہتری ہو گی۔ یوں پر امن سرحدوں کے ہدف کے حصول کے لیے دو سرحدوں کو پر امن کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر کام کیا گیا ہے۔ جب کہ بھارت کے گرم سرحد کا واحد حل بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہی رکھنا ہے۔ جو کیا جا رہا ہے۔
ملک کے اندر ردالفساد کو بھی بہت کامیابیاں ملی ہیں۔ وزیر ستان کو جس طرح کلیئر کروایا گیا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاک فوج نے امریکی سینیٹرز کے ایک اعلی سطح کے وفد کو بھی وزیر ستان کا دورہ کرایا ہے۔ جو وہاں کے امن کی ایک زندہ مثال تھی کہ اب غیر ملکی بھی وہاں جا سکتے ہیں۔ پھر فاٹا میں کرکٹ میچ کرائے گئے ہیں۔ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنا بھی باجوہ ڈاکٹرائن ہی ہے۔
اب پارلیمنٹ نے پاکستان کی عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا دیا ہے۔ اب فاٹا میں پاکستان کی عدالتیں کام کریں گی۔ وہاں پاکستان کا قانون نافذ ہو گا۔ فوج نے فاٹا میں بھرتیاں کھولی ہیں۔ وہاں آرمی پبلک اسکول قائم کیے ہیں۔ کرکٹ شروع کی گئی ہے۔ امن قائم کیا گیا ہے۔ یہ روڈ میپ آسان نہیں تھا۔ لیکن ایک سال میں اس روڈ میپ کے ایک بڑے حصہ پر عمل کیا گیا ہے۔
رد الفساد کے تحت پاکستان کو اسلحہ اور تشدد سے پاک ملک بنانا بھی شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب سے مشکل کام ہے۔ لوگ خود کو وی آئی پی بنانے کے لیے بھی اسلحہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک سوچ ہے۔ اسی طرح معاشرہ میں عدم برداشت کے کلچر کی بھی کمی نظر آرہی ہے۔ اس نکتہ پر بہت کم کام ہوا ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ ایک پر امن معاشرہ کے لیے ہمیں اپنے معاشرہ کو اسلحہ سے پاک کرنا ہو گا۔ معاشرہ میں برداشت کا کلچر پیدا کرنا ہو گا۔ لیکن کیا باقی سب کاموں کی طرح یہ کام بھی فوج ہی کو کرنا ہو گا۔ یہ کام پارلیمنٹ سے شروع کرنا ہو گا تب ہی ممکن ہو گا۔
ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی کے لیے جنرل باجوہ نے بہت کام کیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گزشتہ ایک سال میں جنرل باجوہ کو بہت مواقع ملے ہیں جب وہ ملک سے جمہوریت کا بستر گول کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ان گنت مواقع جانے دئے ہیں۔
اب بھی ہمارے سیاستدان ہر دن ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جو فوج کو اقتدار پر قبضہ کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن شائد باجوہ ڈاکٹرائن نے ہی ان کا راستہ روکا ہوا ہے۔ جب سینیٹ پر خطرات کے سائے منڈلائے وہ سینیٹ کو طاقت دینے سینیٹ چلے گئے۔ اب جب کہ پورے پاکستان کے دانشور کہہ رہے تھے بلوچستان اسمبلی گئی۔ فوج نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہونے دیں۔ لیکن سب قیاس آرائیاں غلط ثابت ہو گئی ہیں۔
ملک کے اندر کا دشمن بھی سرحد پر موجود دشمن کی طرح پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے۔ ایسے میں پاک فوج کی ذمے داریاں بڑھ گئی ہیں۔ جو سیاستدان فوج کو بیرک میں بھیجنے کا سیاسی نعرہ لگاتے ہیں وہ یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ ملک کے اندر فوج کے بغیر امن و امان کیسے ممکن ہو گا۔ ملک کے اندر دہشتگردی کے ناسور سے نبٹنے کے لیے گزشتہ دہائی میں فوج نے متعدد آپریشن شروع کیے ہیں۔ لیکن فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے نے اس ضمن میں ردالفساد کے نام سے آپریشن شروع کیا ہے۔
ایک سال سے چلنے والے اس آپریشن کا تجزیہ ضروری ہے۔ حال ہی میں بھارت کے آرمی چیف کی جانب سے دیا جانے والا بیان جس میں پاکستان پر نہ صرف حملہ کی بات کی گئی ہے بلکہ پاکستان کی نیوکلیئر صلاحیت کو بھی چیلنج کیا گیا ہے۔ بھارت کے عزائم کا واضع اعلان ہے۔
لیکن رد الفساد کا تجزیہ اور اس کی کامیابی کو جانچنے سے پہلے ہمیں جنرل قمر جاوید باجوہ کے ڈاکٹرائن کو سمجھنا ہو گا۔ جب تک ہم اسے نہیں سمجھیں گے، ہم رد الفساد کو سمجھ سکتے ہیں اور نہ ہی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر درپیش چیلنجز کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کی حکمت عملی سمجھ آسکتی ہے۔ جنرل بوجوہ کی ڈاکٹرائن کے اہم نکات میں:
پر امن سرحدیں،اسلحہ سے پاک معاشرہ،تشدد سے پاک ملک،قانون کی حکمرانی۔
پر امن سرحدیں پاکستان کے اندر امن کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ایک طرف بھارت ہے جو جان بوجھ کر سرحد کو گرم رکھ رہا ہے تا کہ پاک فوج کو engageرکھ سکے اور پاکستان کے اندر بھی حالات خراب رکھ سکے۔ ادھر پاکستان میں دہشتگردی کے جن کو بے قابو کرنے کے لیے افغانستان کی سرحد کو بھی غیر ضروری طور پر نہ صرف گرم کیا جا رہا تھا بلکہ بھارت اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اس طرح جنرل باجوہ نے پاک فوج کی کمان سنبھالی تو انھیں دو طرف سے دشمن کا مقابلہ کرنے کا چیلنج ورثہ میں ملا۔ تاہم جس تیزی سے افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے کے عمل کو شروع کیا گیا اور اب اس کو مکمل کیا جا رہا ہے وہ پر امن سرحدوں کے قیام کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ یہ ایک آسان کام نہیں تھا۔ ایک تو ڈیورنڈ لائن کو ایک مستقل سرحد تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ دوسرا پاکستان کے اندر بھی ایسی قوتیں تھیں جو اس باڑ لگانے کی مخالف ہیں۔بھارت جس کا ویسے تو پاک افغان سرحد سے کوئی خاص لینا دینا نہیں وہ بھی باڑ لگانے کے منصوبے کے خلاف ہے کیونکہ وہ افغانستان کو پاکستان کے اندر دہشتگردی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اگر پاکستان یہ باڑ لگانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو بھارت نے پاکستان کے اندر دہشتگردی کو فروغ دینے کے لیے افغانستان میں جس قدر بڑی سرمایہ کاری کر رکھی ہے، وہ ڈوب سکتی ہے۔ اس لیے بھارت اس باڑ کو روکنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ باڑ روزانہ ایک کلومیٹر سے زائد سرحد پر لگ رہی ہے۔ جس کی قیمت ہمارے نوجوان اپنے خون سے ادا کر رہے ہیں۔ افغان سرحد پر ہونے والی شہادتیں اور بھارت کی سرحد پر غیر ضروری گرمی سب اسی باڑ کی وجہ سے ہے۔ تا ہم یہ باڑ پر امن پاکستان کے لیے ناگزیر ہے۔ اور باجوہ ڈاکٹرائن کی بنیاد ہے۔
اسی طرح ایران کی سرحد پر کشیدگی کو بھی جنرل باجوہ نے باقاعدہ ایک حکمت عملی کے تحت کم کیا ہے۔ وہ خود ایران گئے ہیں اور ایرانی حکومت کی غلط فہمیوں کو بھی دور کیا ہے۔ جنرل باجوہ کا دورۂ ایران پاک ایران تعلقات کو بہتر کرنے میں ایک بڑی پیشرفت تھی اور یہ امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے سال میں اس حوالے سے مزید بہتری ہو گی۔ یوں پر امن سرحدوں کے ہدف کے حصول کے لیے دو سرحدوں کو پر امن کرنے کے لیے ایک مربوط حکمت عملی پر کام کیا گیا ہے۔ جب کہ بھارت کے گرم سرحد کا واحد حل بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہی رکھنا ہے۔ جو کیا جا رہا ہے۔
ملک کے اندر ردالفساد کو بھی بہت کامیابیاں ملی ہیں۔ وزیر ستان کو جس طرح کلیئر کروایا گیا ہے۔ اس کی مثال نہیں ملتی۔ پاک فوج نے امریکی سینیٹرز کے ایک اعلی سطح کے وفد کو بھی وزیر ستان کا دورہ کرایا ہے۔ جو وہاں کے امن کی ایک زندہ مثال تھی کہ اب غیر ملکی بھی وہاں جا سکتے ہیں۔ پھر فاٹا میں کرکٹ میچ کرائے گئے ہیں۔ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنا بھی باجوہ ڈاکٹرائن ہی ہے۔
اب پارلیمنٹ نے پاکستان کی عدالتوں کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھا دیا ہے۔ اب فاٹا میں پاکستان کی عدالتیں کام کریں گی۔ وہاں پاکستان کا قانون نافذ ہو گا۔ فوج نے فاٹا میں بھرتیاں کھولی ہیں۔ وہاں آرمی پبلک اسکول قائم کیے ہیں۔ کرکٹ شروع کی گئی ہے۔ امن قائم کیا گیا ہے۔ یہ روڈ میپ آسان نہیں تھا۔ لیکن ایک سال میں اس روڈ میپ کے ایک بڑے حصہ پر عمل کیا گیا ہے۔
رد الفساد کے تحت پاکستان کو اسلحہ اور تشدد سے پاک ملک بنانا بھی شامل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب سے مشکل کام ہے۔ لوگ خود کو وی آئی پی بنانے کے لیے بھی اسلحہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک سوچ ہے۔ اسی طرح معاشرہ میں عدم برداشت کے کلچر کی بھی کمی نظر آرہی ہے۔ اس نکتہ پر بہت کم کام ہوا ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ ایک پر امن معاشرہ کے لیے ہمیں اپنے معاشرہ کو اسلحہ سے پاک کرنا ہو گا۔ معاشرہ میں برداشت کا کلچر پیدا کرنا ہو گا۔ لیکن کیا باقی سب کاموں کی طرح یہ کام بھی فوج ہی کو کرنا ہو گا۔ یہ کام پارلیمنٹ سے شروع کرنا ہو گا تب ہی ممکن ہو گا۔
ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی کے لیے جنرل باجوہ نے بہت کام کیا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گزشتہ ایک سال میں جنرل باجوہ کو بہت مواقع ملے ہیں جب وہ ملک سے جمہوریت کا بستر گول کر سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ان گنت مواقع جانے دئے ہیں۔
اب بھی ہمارے سیاستدان ہر دن ایک ایسا ماحول بناتے ہیں جو فوج کو اقتدار پر قبضہ کی دعوت دیتا ہے۔ لیکن شائد باجوہ ڈاکٹرائن نے ہی ان کا راستہ روکا ہوا ہے۔ جب سینیٹ پر خطرات کے سائے منڈلائے وہ سینیٹ کو طاقت دینے سینیٹ چلے گئے۔ اب جب کہ پورے پاکستان کے دانشور کہہ رہے تھے بلوچستان اسمبلی گئی۔ فوج نے فیصلہ کر لیا ہے کہ سینیٹ کے انتخابات نہیں ہونے دیں۔ لیکن سب قیاس آرائیاں غلط ثابت ہو گئی ہیں۔