18ویں ترمیم پر عملدرآمد کا نظام

18ویں ترمیم نے 1973ء کے آئین میں تقریبا 36 فیصد ترامیم متعارف کروائیں۔

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کے سیاسی، سماجی اور انتظامی نظام میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی ہمیشہ سے ایک اہم مسئلہ رہا ہے ۔کیونکہ ہم سب اس نکتہ پر زور دیتے رہے ہیںاور دے رہے ہیں کہ مرکزیت پر مبنی نظام کی مدد سے ایک بہتر معاشرے کی تشکیل ممکن نہیں۔ نظام میںاہم لوگ ہوتے ہیں اور لوگوں میں بھی محروم اور کمزور طبقات کو زیادہ فوقیت دی جاتی ہے، لیکن ہمارے نظام میں فرد کو ایک کمزور حیثیت دی گئی ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہم اختیارات کو اپنی ذات یا کچھ مخصوص طبقات تک محدود کرکے محض اپنے مفادات کو تقویت دینا چاہتے ہیں۔

اس ملک میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2010ء میں ایک اہم کام 18ویں ترمیم کی منظوری دی گئی۔ اس ترمیم کے تحت وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں کو زیادہ خود مختار بنایا گیا۔یہ خود مختاری محض سیاسی نہیں تھی بلکہ اس میں انتظامی اورمالی خود محتاری بھی شامل تھی۔

ایک بحث یہ موجود تھی کہ وفاق تمام تر اختیارات کو اپنے پاس رکھ کر صوبائی خود مختاری کے خلاف کام کرتا ہے۔لیکن 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی خود مختاری کے اصول کو اپنایا گیا جو وفاق اور صوبوں کے درمیان بہتر تعلقات پیدا کرنے کا بھی سبب بنا۔بنیادی منطق یہ تھی کہ وفاق صوبوں کو اور صوبے ضلعی یا نچلی سطح پر سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات دے کر ایک مضبوط نظام کی تشکیل میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔لیکن 18ویں ترمیم کی منظوری کے سات برس گزرنے کے بعد بھی اس ترمیم پر حقیقی معنوں میں وہ عملدرآمد نہیں ہوسکا، جو ہماری قومی اور صوبائی ضرورت بنتا تھا۔

وجہ محض اس کے علاوہ کیا ہوسکتی تھی کہ ہماری سیاسی قیادت جس نے متفقہ طور پر 18ویں ترمیم کو منظور تو کرلیا لیکن اس کے عملدرآمد میں اپنی کمزور سیاسی کمٹمنٹ کے باعث اپنی کوتاہی اورنااہلی کا مظاہرہ کیا۔اس 18ویں ترمیم نے 1973ء کے آئین میں تقریبا 36 فیصد ترامیم متعارف کروائیں۔ آئین کے 280میں سے 102آرٹیکلز میں ترامیم کی گئیں، ان میں کچھ شامل کیا گیا، داخل کیا گیا،متبادل ڈالے گئے یا کچھ نکال دیا گیا۔اس عمل کی مدد سے مرکزیت پر مبنی وفاق عملی طورپر عدم مرکزیت پر مبنی وفاق میں تبدیل ہوگیا۔

وفاق اور صوبوں کے بندھن کو مستحکم کرنے کے لیے سخت ضرورت ہے کے 18ویں ترمیم کے پاس ہونے سے پیدا ہونیوالے امور سے نمٹنے پر ملک کے متعلقہ اعلی باختیار حکام توجہ دیں۔ بین الصوبائی ناہمواریوں، صوبوں اور وفاق کے درمیان تناو اور صوبہ کے عوام کو ان کے حقوق دینے جیسے امور کا انتظام کرکے پاکستان عملی طور پر ایک مضبوط پاکستان کی شکل میں آگے بڑھ سکتا ہے لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم عالمی دباو پر قانون سازی تو کرلیتے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد کے لیے تیار نہیں ہوتے بلکہ قانون سازی سے نظریں چرا کر وہی کچھ کرتے ہیں جو ہماری ماضی کی غلطیوں کا تسلسل ہوتا ہے۔

18ویں ترمیم پر موثر عملدرآمد کے لیے چیرمین سینیٹ رضا ربانی نے ایک سینیٹ کی کمیٹی سینیٹر میر کبیر احمد کی سربراہی میں تشکیل دی ہوئی ہے جس کا مقصد سینیٹ کے دیگر اراکین جن میں مختلف جماعتوں کے لوگ شامل ہیں اس ترمیم کے عملدرآمد کے نظام کو موثر اور شفاف بنانا ہے۔ پچھلے دنوں لاہور میں دیگر صوبوں کی طرح 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کے نظام کو جانچنے کے لیے ایک اہم مشاورت یا بات چیت فریڈرک ایبرٹ سٹفنگ (ایف ای ایس( جرمنی کے ادارے نے منعقد کی۔


اس اجلاس کی صدارت سینیٹ میں ڈیولیشن کمیٹی کے سربراہ سینیٹر میر کبیر احمد اور ان کے دیگر ممبران میں تاج حیدر، سینیٹر غوث بخش، مولانا عطاالرحمن، پروفیسر ساجد میر، کامل علی آغا سمیت ایف ای ایس کی جانب سے سدرہ سعید اور عبداللہ شامل تھے۔ایف ای ایس نے اٹھارویں ترمیم پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک رپورٹ بھی پیش کی جس میں بالخصوص چار اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ان میں سول سروس، تیل اور گیس کے وسائل، مشترکہ مفادات کونسل اور تعلیم و نصاب جیسے اہم معاملات شامل تھے۔

اس ایف ای ایس کی مشاورت کی خوبی یہ تھی کہ اس میں کمیٹی سے جڑے ہوئے تمام سینیٹرز موجود تھے اور انھوں نے خود زیادہ بات کرنے کے بجائے مشاورت کو بنیاد بنایا اور اٹھائے جانے والے سوالات کو سنا اور کافی حد تک ان کے جوابات بھی دیے۔ صوبائی سطح پر ہونے والے اجلاس کا مقصد صوبائی سطح پر 18ویں ترمیم کے تناظر میں صوبائی نکتہ کو سمجھنا تھا۔ اجلاس میں وفاقی، صوبائی حکومتوں کے کردار، عمل درآمد سے جڑے ہوئے اقدامات، مشکلات اور ناکامیوں پر بھی تفصیلی بات چیت ہوئی۔

چار حصوں پر مشتمل اس رپورٹ کے پہلے حصے میں اداروں کے ڈھانچہ اور وفاقی و صوبائی سول سروس میں موجود غیر مطابقت اور زیادہ سے زیادہ صوبائی خود مختاری، دوسے حصے میں اٹھاوریں ترمیم کے باعث قدرتی وسائل کی صوبوں اور وفاق میں مشترکہ اوربرابر تقسیم کے بارے میں ابہام اورالجھاو، تیسرے حصے میںمشترکہ مفادات کونسل جو کہ صوبوں اور وفاق کے درمیان اختیارو ذمے داریوں کے تعین میں تضادات کو نمٹانے کا مرکزی ادارہ ہے پر بحث شامل ہے، جب کہ چوتھے حصے میں تعلیمی شعبہ میں اس غیر واضح منظر نامہ پر تبادلہ خیال پیش کرتی ہے جو کہ تعلیم کے شعبے کو آئینی طور پر نہ کہ حقیقی طور ہر صوبوں کے حوالے منتقل کرنے سے پیدا ہوا۔

اصولی بات تو یہ ہے کہ اس سارے عملدرآمد کے نظام میں ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے کیونکہ اہم بات یہ ہے کہ وفاق اور صوبوں میں مختلف سیاسی جماعتوںکی حکو مت ہے اور ہر جماعت نے اس پر حقیقی معنوں میں کام کرنے کے بجائے مرکزیت پر مبنی اصولوں اور اختیارات کو اپنی ذات تک محدود رکھنے کے نظام کو ترجیح دی ہماری سیاسی جماعتوں میں خود مرکزیت پر مبنی نظام ہے اور ان کی موجودگی میں یہ توقع کرنا کہ وہ اختیارات کو تقسیم کرنے کے حق میں ہیں، مذاق لگتا ہے۔

چاروں صوبائی حکومتوں نے عوامی محاذ پر سب سے اہم ضرورت مقامی حکومتوں کے نظام کے ساتھ جو سلوک کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ ان جمہوری حکومتوں نے آئین کی شق140-Aکی مکمل نفی کی جو صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ سیاسی، انتظامی او رمالی اختیارات مقامی حکومتوں کو منتقل کرکے مقامی خود مختاری کوبھی یقینی بنائے۔ اسی طرح وفاق اور صوبائی حکومتوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ساتھ جو سلوک کیا وہ بھی قابل مذمت ہے۔

ایک طرف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ بہت سے امور جن میں تعلیم، صحت اور مقامی حکومتیں صوبائی سبجیکٹ ہیں۔ لیکن اگر صوبے اس میں کوتاہی اور نااہلی دکھاتے ہیں تو وفاق کا کیا کردار ہوگا، یہ ایک مکمل ابہام کی کیفیت کو پیدا کرتا ہے۔

خیال یہ تھا کہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد سب سے زیادہ فائدہ عام آدمی اور محروم طبقات سمیت محروم یا پس ماندہ علاقوں کو ہو گا۔لیکن جو سرکاری اعدادوشمار سماجی شعبے میں ان سات برسوں میں دیکھنے کو ملے اس میں بہتری کے بجائے ابتری کے مناظر بالادست ہیں۔عملی طور پر عام اور کمزور آدمی کا اس نظام میں سب سے زیادہ استحصال ہورہا ہے اور خاص طور پر وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم نے ایک صوبے سے دوسرے صوبے اور خود صوبوں میں ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں محرومی کی سیاست کو جنم دیا، جو خود انتہا پسندی پیدا کرنے کا سبب بن رہا ہے۔
Load Next Story