وہ صورت گر خوابوں کا
ڈاکٹر شیر شاہ نے اس صورتحال کو حالات اور تقدیر کا مذاق قرار دیا ہے۔
KARACHI:
جب ایک مارکسسٹ کچھ لکھتا ہے تو حالات و واقعات کو اس کے تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ بعض اوقات حالات کا ذکر کرتے ہوئے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں کہ اس مصنف یا کسی فرد کی تضحیک کا کوئی پہلو سامنے آتا ہے مگر مجموعی طور پر قاری کو اس موضوع کے بارے میں تمام معلومات کا ابلاغ ہو جاتا ہے اور یوں مصنف کی سچائی لفظوں کو اتنا پرکشش بنا دیتی ہیں کہ قاری کی مکمل تسلی ہو جاتی ہے، وہ مصنف کی عظمت کا قائل ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیر شاہ سید اور حمیر اشتیاق نے سید ابو ظفر آزاد اور ان کے خاندان کے بارے میں انگریزی میں کتاب تحریر کر کے اور پھر اردو میں اس کا ترجمہ کر کے تاریخ لکھنے کے معروضی اصولوں کی پاسداری کی ہے اور نئی نسل کو جدوجہد اور کامیابی کا ایک ایسا سبق دیا ہے کہ جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید نے سینئر صحافی حمیر اشتیاق کے ساتھ مل کر یہ کتاب انگریزی میں تحریر کی تھی جس کو بقول ان کے اردو میں ترجمہ کیا ہے مگر مجھے تو یہ اردو زبان کی ہی تخلیق محسوس ہوتی ہے۔ یہ کتاب 12 ابواب پر مشتمل ہے۔
مصنفین نے پہلے باب میں 1857ء کی جنگ آزادی کے اثرات سے 1947 تک کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات کے تناظر میں اپنے خاندان کے حالات بیان کیے۔ اس باب کے پہلے 26 صفحات میں جنگ آزادی کے ایک ہیرو میر بھوجا کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ساتھ ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور پھر برطانوی ہند حکومت کے قیام کے بعد برصغیر میں ہونے والی اقتصادی، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور عام آدمی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح اپنے دادا ابو طاہر اور اپنے والد کے سیاسی خیالات اور ان کے ٹکراؤ کو بیان کر کے 40ء کی دہائی میں مسلمانوں کی سوچ کو واضح کیا گیا ہے۔ ابو طاہر ہندوستان کے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی اس نسل سے متاثر تھے جس نے سرسید کی تحریک پر جدید تعلیم حاصل کی تھی۔
ان کے صاحبزادے ظفر آزاد گاندھی، نہرو اور ابوالکلام آزاد سے متاثر تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی قیادت میں مذہبی سیاست شروع کر دی تھی۔ ایک طرف ابو ظفر جیسے نوجوان تھے جو کانگریس کے سائے تلے ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے تھے تو دوسری طرف مسلم لیگی قیادت تھی جو مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کو ہمنوا بنا رہی تھی۔ ابو ظفر اپنے خاندان میں تنہائی کا شکار ہوئے، انھیں فساد سے متاثرہ مسلمان سمجھنے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے گئے۔ اگرچہ ابو ظفر کو کانگریس میں پذیرائی ملی، وہ پٹنہ میونسپلٹی کے نائب میئر منتخب ہوئے۔ ابو ظفر آزاد نے مسلمانوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی مگر ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارتی سماج میں پیدا ہونے والی منفی تبدیلیوں نے ابو ظفر کو اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ابو ظفر کے والد 1947ء میں پاکستان نہیں آئے۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے اس صورتحال کو حالات اور تقدیر کا مذاق قرار دیا ہے۔ ابو ظفرکانگریسی تھے، وہ ہندوستان چھوڑ آئے مگر دادا جو کٹر مسلم لیگی تھے وہ نہیں آئے، مگر یہ معاملہ محض تقدیر کا مذاق نہیں، اس کے سماجی اور سیاسی پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ابو ظفر آزاد کانگریس کو چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ انھوں نے پاکستان میں سیاست نہیں کی مگر پنڈت نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کا فلسفہ ان کی زندگی کے ساتھ رہا۔ انھوں نے اپنی شادی کی بنیاد سادگی کے فلسفے پر رکھی۔ پھر سائنسی طرز فکر کو اپناتے ہوئے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا اور تعلیم کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ اپنی اہلیہ کو بنیادی تعلیم اور پھر میڈیکل کی تعلیم کے لیے تیار کیا۔
ظفر صاحب کی یہ اپروچ سوشل آرڈر کے منافی تھی مگر وہ بنیادی طور پر سماج کے باغی تھے۔ اس لیے کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائے۔ اپنی اہلیہ کی تعلیم کے لیے انھوں نے جو مشکلات اٹھائیں، اپنے بچوں کو دربدر کیا میں نے ایسی مثال پہلے کہیں نہیں دیکھی۔ پھر جدید تعلیم کی تاریخ میں 1962ء میں وہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ ماں اور بیٹا ایک ہی میڈیکل کالج کے طالب علم بنے۔ ڈاکٹر شیر شاہ کی یہ بات درست ہے کہ میڈیکل، انجنیئرنگ اور فنی مضامین میں شاید یہ پہلا واقعہ تھا۔ ظفر آزاد کی کوششوں سے ان کے تمام لڑکے لڑکیاں ڈاکٹر بنے۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے اپنے مطالعے کی عادت کا ذکر کیا ہے۔ وہ ''ایک آنا لائبریری'' سے کتابیں کرایہ پر لے کر پڑھتے تھے۔ کراچی کی سماجی زندگی میں ان ایک آنے والی لائبریریوں کا ایک اہم کردار تھا۔ یہ لائبریریاں اب ناپید ہو چکی ہیں۔ مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو ان لائبریریوں کے ذریعے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا، اب ان لائبریریوں کی جگہ موبائل فون، فاسٹ فوڈ اور ڈبو ، گھٹکا، پان کی دکانوں نے لے لی ہے۔ نوجوان SMS پر رابطے اور برگر کھا کر اپنی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔ کتابیں نہ پڑھنے سے سماجی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں اپنے والد کے سخت فیصلوں کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ساتھ اپنے تمام بچوں کو بھی ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنے فیصلے میں جینڈر (صنف) کو مسئلہ نہیں بنایا۔ یوں خواتین کی برابری کے تصور کو عملی طور پر رائج کیا اور لڑکیوں کو مساوی مواقع دیے مگر ان کے بچوں کی شادی کرنے کے حق کے بارے میں فیصلے پر تنقید ہو سکتی ہے۔ اگرچہ انھوں نے اپنے طور پر اپنی اولاد کے مفاد میں فیصلے کیے مگر والدین کو اپنے بچوں کو ان کی شادی کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ کتاب کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شیر شاہ نے والد کے فیصلوں کا ذکر تنقیدی انداز میں کیا ہے مگر یہ تحریر کا کمال ہے کہ اس تنقید کو احترام کے جذبے میں سمو دیا۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے اپنی تعلیمی ناکامیوں اور کامیابیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے مگر مسلسل جدوجہد اور محنت کی بنا پر وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے۔ اس جدوجہد میں ان کے والد اور والدہ کا اہم کردار ہے۔ اگرچہ بچوں کی ناکامی پر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے تو پھر بچے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ شیر شاہ اپنی ناکامیوں کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر شیر شاہ بائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن تھے۔ ان کے دونوں بھائی بھی این ایس ایف کے فعال اراکین میں سے تھے۔ ان کی تحریر میں طلبا یونین کے انتخابات کا ذکر ہوا ہے۔ ایک زمانے میں طلبا یونین کے انتخابات صحت مندانہ سرگرمیوں میں شامل تھے۔
ڈاکٹر شیر شاہ این ایس ایف کا ترجمان رسالہ ڈاکٹر شایع کرتے تھے، بچپن میں مذہبی تعلیم حاصل کرلی، یوں ان کا جلد ہی ایکسپویژر ہو گیا، اس کا فائدہ انھیں زندگی بھر ہوا ہو گا جب شیر شاہ سیاست کرتے تھے۔ ہر طالب علم رہنما کو قانون کی پابندی کرنا تھی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب طالب علم رہنما کا شمار مراعات یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے خواہ وہ کبھی کلاس میں نہ گیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے میڈیکل کالجوں کے اساتذہ کے جھگڑوں اور میڈیکل کی تعلیم کے تضادات کو پیش کیا ہے جو قاری کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ شیر شاہ نے اپنے خاندان کے ملیر چھوڑنے کا واقعے کا ذکر کیا ہے۔ شیر شاہ کا خاندان اس علاقے میں سماجی کاموں کے لیے معروف تھا۔
اس کے تعلقات محض اردو بولنے والوں تک نہیں بلکہ قدیم گوٹھوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ لوگ ان کی خدمات کا ذکر اب بھی کرتے ہیں مگر کراچی میں لسانی کشیدگی اور سیاسی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے انھیں ڈیفنس ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ شیر شاہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر سراج کو ایک زخمی کے علاج کے لیے کلاشنکوف دکھا کر اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے میں ڈاکٹر سراج کی جان بچ گئی۔
اخبارات میں اس زخمی کی تصویر شایع ہوئی جو اسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ گیا مگر اس واقعے سے ڈاکٹر اور اسپتال کے تقدس کی پامالی کا پتہ چلا۔ یہ معاملہ اب عبادت گاہوں تک پہنچ گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب صرف ایک خاندان کی تاریخ نہیں بلکہ جرات، محنت اور سچائی کی ایسی سبق آموز داستان ہے جو نئی نسل کے لیے روشنی کے مینار کا کام دے گی۔ یوں یہ کتاب سماجی تاریخ کے موضوع پر اردو میں لکھی جانے والی کتابوں میں قابل قدر اضافہ ہے۔ (یہ مضمون کتاب ''وہ صورت گر خوابوں کا'' کی تقریب اجراء منعقدہ آرٹس کونسل میں پڑھا گیا۔)
جب ایک مارکسسٹ کچھ لکھتا ہے تو حالات و واقعات کو اس کے تاریخی پس منظر کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ بعض اوقات حالات کا ذکر کرتے ہوئے ایسے حقائق سامنے آتے ہیں کہ اس مصنف یا کسی فرد کی تضحیک کا کوئی پہلو سامنے آتا ہے مگر مجموعی طور پر قاری کو اس موضوع کے بارے میں تمام معلومات کا ابلاغ ہو جاتا ہے اور یوں مصنف کی سچائی لفظوں کو اتنا پرکشش بنا دیتی ہیں کہ قاری کی مکمل تسلی ہو جاتی ہے، وہ مصنف کی عظمت کا قائل ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیر شاہ سید اور حمیر اشتیاق نے سید ابو ظفر آزاد اور ان کے خاندان کے بارے میں انگریزی میں کتاب تحریر کر کے اور پھر اردو میں اس کا ترجمہ کر کے تاریخ لکھنے کے معروضی اصولوں کی پاسداری کی ہے اور نئی نسل کو جدوجہد اور کامیابی کا ایک ایسا سبق دیا ہے کہ جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ ڈاکٹر شیر شاہ سید نے سینئر صحافی حمیر اشتیاق کے ساتھ مل کر یہ کتاب انگریزی میں تحریر کی تھی جس کو بقول ان کے اردو میں ترجمہ کیا ہے مگر مجھے تو یہ اردو زبان کی ہی تخلیق محسوس ہوتی ہے۔ یہ کتاب 12 ابواب پر مشتمل ہے۔
مصنفین نے پہلے باب میں 1857ء کی جنگ آزادی کے اثرات سے 1947 تک کے سماجی، سیاسی اور اقتصادی حالات کے تناظر میں اپنے خاندان کے حالات بیان کیے۔ اس باب کے پہلے 26 صفحات میں جنگ آزادی کے ایک ہیرو میر بھوجا کے ساتھ ہونے والے سلوک کے ساتھ ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی کے اقتدار اور پھر برطانوی ہند حکومت کے قیام کے بعد برصغیر میں ہونے والی اقتصادی، سیاسی اور سماجی تبدیلیوں کا ذکر کیا گیا ہے اور عام آدمی کے حالات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح اپنے دادا ابو طاہر اور اپنے والد کے سیاسی خیالات اور ان کے ٹکراؤ کو بیان کر کے 40ء کی دہائی میں مسلمانوں کی سوچ کو واضح کیا گیا ہے۔ ابو طاہر ہندوستان کے نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی اس نسل سے متاثر تھے جس نے سرسید کی تحریک پر جدید تعلیم حاصل کی تھی۔
ان کے صاحبزادے ظفر آزاد گاندھی، نہرو اور ابوالکلام آزاد سے متاثر تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی قیادت میں مذہبی سیاست شروع کر دی تھی۔ ایک طرف ابو ظفر جیسے نوجوان تھے جو کانگریس کے سائے تلے ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے تھے تو دوسری طرف مسلم لیگی قیادت تھی جو مذہبی بنیاد پر مسلمانوں کو ہمنوا بنا رہی تھی۔ ابو ظفر اپنے خاندان میں تنہائی کا شکار ہوئے، انھیں فساد سے متاثرہ مسلمان سمجھنے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کیے گئے۔ اگرچہ ابو ظفر کو کانگریس میں پذیرائی ملی، وہ پٹنہ میونسپلٹی کے نائب میئر منتخب ہوئے۔ ابو ظفر آزاد نے مسلمانوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی مگر ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھارتی سماج میں پیدا ہونے والی منفی تبدیلیوں نے ابو ظفر کو اپنا آبائی وطن چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ابو ظفر کے والد 1947ء میں پاکستان نہیں آئے۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے اس صورتحال کو حالات اور تقدیر کا مذاق قرار دیا ہے۔ ابو ظفرکانگریسی تھے، وہ ہندوستان چھوڑ آئے مگر دادا جو کٹر مسلم لیگی تھے وہ نہیں آئے، مگر یہ معاملہ محض تقدیر کا مذاق نہیں، اس کے سماجی اور سیاسی پس منظر کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ابو ظفر آزاد کانگریس کو چھوڑ کر پاکستان آ گئے۔ انھوں نے پاکستان میں سیاست نہیں کی مگر پنڈت نہرو اور مولانا ابو الکلام آزاد کا فلسفہ ان کی زندگی کے ساتھ رہا۔ انھوں نے اپنی شادی کی بنیاد سادگی کے فلسفے پر رکھی۔ پھر سائنسی طرز فکر کو اپناتے ہوئے تعلیم کی اہمیت کو محسوس کیا اور تعلیم کے لیے اپنے بچوں کے ساتھ اپنی اہلیہ کو بنیادی تعلیم اور پھر میڈیکل کی تعلیم کے لیے تیار کیا۔
ظفر صاحب کی یہ اپروچ سوشل آرڈر کے منافی تھی مگر وہ بنیادی طور پر سماج کے باغی تھے۔ اس لیے کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لائے۔ اپنی اہلیہ کی تعلیم کے لیے انھوں نے جو مشکلات اٹھائیں، اپنے بچوں کو دربدر کیا میں نے ایسی مثال پہلے کہیں نہیں دیکھی۔ پھر جدید تعلیم کی تاریخ میں 1962ء میں وہ واقعہ ظہور پذیر ہوا۔ ماں اور بیٹا ایک ہی میڈیکل کالج کے طالب علم بنے۔ ڈاکٹر شیر شاہ کی یہ بات درست ہے کہ میڈیکل، انجنیئرنگ اور فنی مضامین میں شاید یہ پہلا واقعہ تھا۔ ظفر آزاد کی کوششوں سے ان کے تمام لڑکے لڑکیاں ڈاکٹر بنے۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے اپنے مطالعے کی عادت کا ذکر کیا ہے۔ وہ ''ایک آنا لائبریری'' سے کتابیں کرایہ پر لے کر پڑھتے تھے۔ کراچی کی سماجی زندگی میں ان ایک آنے والی لائبریریوں کا ایک اہم کردار تھا۔ یہ لائبریریاں اب ناپید ہو چکی ہیں۔ مجھ جیسے لاکھوں لوگوں کو ان لائبریریوں کے ذریعے پڑھنے کا شوق پیدا ہوا، اب ان لائبریریوں کی جگہ موبائل فون، فاسٹ فوڈ اور ڈبو ، گھٹکا، پان کی دکانوں نے لے لی ہے۔ نوجوان SMS پر رابطے اور برگر کھا کر اپنی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں۔ کتابیں نہ پڑھنے سے سماجی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب نے کتاب میں اپنے والد کے سخت فیصلوں کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ساتھ اپنے تمام بچوں کو بھی ڈاکٹر بنانے کا فیصلہ کیا اور اپنے فیصلے میں جینڈر (صنف) کو مسئلہ نہیں بنایا۔ یوں خواتین کی برابری کے تصور کو عملی طور پر رائج کیا اور لڑکیوں کو مساوی مواقع دیے مگر ان کے بچوں کی شادی کرنے کے حق کے بارے میں فیصلے پر تنقید ہو سکتی ہے۔ اگرچہ انھوں نے اپنے طور پر اپنی اولاد کے مفاد میں فیصلے کیے مگر والدین کو اپنے بچوں کو ان کی شادی کے حق کو تسلیم کرنا چاہیے۔ کتاب کے مطالعے سے محسوس ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شیر شاہ نے والد کے فیصلوں کا ذکر تنقیدی انداز میں کیا ہے مگر یہ تحریر کا کمال ہے کہ اس تنقید کو احترام کے جذبے میں سمو دیا۔
ڈاکٹر شیر شاہ نے اپنی تعلیمی ناکامیوں اور کامیابیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے مگر مسلسل جدوجہد اور محنت کی بنا پر وہ اپنے مقصد کو حاصل کر سکے۔ اس جدوجہد میں ان کے والد اور والدہ کا اہم کردار ہے۔ اگرچہ بچوں کی ناکامی پر ان کی حوصلہ شکنی کی جائے تو پھر بچے احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ شیر شاہ اپنی ناکامیوں کے دور کا ذکر کرتے ہوئے کبھی مایوسی کا شکار نہیں ہوئے۔ ڈاکٹر شیر شاہ بائیں بازو کی طلبا تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکن تھے۔ ان کے دونوں بھائی بھی این ایس ایف کے فعال اراکین میں سے تھے۔ ان کی تحریر میں طلبا یونین کے انتخابات کا ذکر ہوا ہے۔ ایک زمانے میں طلبا یونین کے انتخابات صحت مندانہ سرگرمیوں میں شامل تھے۔
ڈاکٹر شیر شاہ این ایس ایف کا ترجمان رسالہ ڈاکٹر شایع کرتے تھے، بچپن میں مذہبی تعلیم حاصل کرلی، یوں ان کا جلد ہی ایکسپویژر ہو گیا، اس کا فائدہ انھیں زندگی بھر ہوا ہو گا جب شیر شاہ سیاست کرتے تھے۔ ہر طالب علم رہنما کو قانون کی پابندی کرنا تھی اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اب طالب علم رہنما کا شمار مراعات یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے خواہ وہ کبھی کلاس میں نہ گیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے میڈیکل کالجوں کے اساتذہ کے جھگڑوں اور میڈیکل کی تعلیم کے تضادات کو پیش کیا ہے جو قاری کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ شیر شاہ نے اپنے خاندان کے ملیر چھوڑنے کا واقعے کا ذکر کیا ہے۔ شیر شاہ کا خاندان اس علاقے میں سماجی کاموں کے لیے معروف تھا۔
اس کے تعلقات محض اردو بولنے والوں تک نہیں بلکہ قدیم گوٹھوں تک پھیلے ہوئے تھے۔ لوگ ان کی خدمات کا ذکر اب بھی کرتے ہیں مگر کراچی میں لسانی کشیدگی اور سیاسی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات نے انھیں ڈیفنس ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا۔ شیر شاہ کے بڑے بھائی ڈاکٹر سراج کو ایک زخمی کے علاج کے لیے کلاشنکوف دکھا کر اغوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس واقعے میں ڈاکٹر سراج کی جان بچ گئی۔
اخبارات میں اس زخمی کی تصویر شایع ہوئی جو اسپتال پہنچنے سے پہلے دم توڑ گیا مگر اس واقعے سے ڈاکٹر اور اسپتال کے تقدس کی پامالی کا پتہ چلا۔ یہ معاملہ اب عبادت گاہوں تک پہنچ گیا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب صرف ایک خاندان کی تاریخ نہیں بلکہ جرات، محنت اور سچائی کی ایسی سبق آموز داستان ہے جو نئی نسل کے لیے روشنی کے مینار کا کام دے گی۔ یوں یہ کتاب سماجی تاریخ کے موضوع پر اردو میں لکھی جانے والی کتابوں میں قابل قدر اضافہ ہے۔ (یہ مضمون کتاب ''وہ صورت گر خوابوں کا'' کی تقریب اجراء منعقدہ آرٹس کونسل میں پڑھا گیا۔)