عہد تجدید کا دن…
جنگ عظیم دوم کی مصروفیات اور دیگر سیاسی سرگرمیوں کے باوجود کہاں اور کس مقام پر کیا جائے؟
پاکستان کسی حصول حاجلہ اور کسی ہنگامی حاصل ہونے والی نعمت کا نام نہیں ہے بلکہ پاکستان پوری ایک باضابطہ تاریخ ہے، اس تاریخ کی ایک ایک کڑی مربوط اور ایک دوسرے میں پیوست ہے، تاریخ کی انھی کڑیوں میں سے ایک کڑی 23 مارچ 1940 کا نہایت اہم دن ہے۔ یہ دن اسلامیان عالم کی تاریخ میں بہت اہمیت رکھتاہے، اس دن برصغیر کے مسلمانوں نے جو فیصلہ کیا اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پاکستان عالم وجود میں آیا بلکہ قیام پاکستان کے بعد مسلمان ممالک کی آزادی اور محکوم مجبور اقوام عالم کی ہر طرح سے مدد کی۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس فی الحقیقت مسلمانان ہند کی ملی زندگی میں ایک تاریخی اجلاس تھا، آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 2 جولائی 1939 کو اپنے ممبئی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ مسلم لیگ کا آیندہ اجلاس 28، 29، 30 دسمبر 1939 کو لاہور میں منعقد ہوگا، اس وقت پنجاب میں باضابطہ طورپر پرونشیل لیگ قائم نہیں تھی صرف چند افراد پر مشتمل ایک آرگنائزنگ کمیٹی تھی۔ 11 اگست 1939 کو ایک جلسہ منعقد کرکے مسلم لیگ کے لاہور کے اجلاس کے لیے ایک مجلس استقبالیہ کے قیام کا اعلان کیاگیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور اجلاس کے انعقاد کے لیے یہی طے ہوا تھا کہ یہ دسمبر 1939 کی آخری تاریخوں میں منعقد کیا جائے گا لیکن چند وجوہات کی بنا پر یہ اجلاس مارچ کے آخری ہفتے میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس کی تاریخوں کا فیصلہ تو ہوگیا، برصغیر کی سیاسی صورتحال، جنگ عظیم دوم کی مصروفیات اور دیگر سیاسی سرگرمیوں کے باوجود کہاں اور کس مقام پر کیا جائے؟ اس بات کا تعین کرنا ابھی باقی تھا، اس سے پہلے برصغیر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی بھی اجلاس ہوتا تو چار دیواری یا کسی محفوظ مقام پر کیا جاتا، لاہور اجلاس کے لیے طے پایا کہ یہ اجلاس بادشاہی مسجد کے پہلو میں موجود منٹوپارک موجودہ اقبال پارک کے وسیع وعریض میدان میں منعقد کیا جائے گا۔ چاردیواری کے بجائے قناتیں لگاکر اس جلسے کو محفوظ بنایاجائے گا، لیکن مخالفین ہر طرح سے اس جلسے کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔
انھوں نے قناتوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا اور پنڈال بھی غیر محفوظ ہوگیا، کہا جاتا ہے کہ پنڈال کو محفوظ کرنے اور قناتوں کے پاس حفاظتی دستے متعین کرنے کے لیے صوبہ سرحد موجودہ (خیبر پختونخوا) سے کچھ سول مجاہدین کو بلانا پڑا، دوسری جنگ عظیم کی مصروفیات کے باعث حکومت نے پابندی لگا رکھی تھی کہ پنجاب میں کوئی فوجی جماعت اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گی اور اس پابندی کا اثر براہ راست پنجاب کی تنظیم ''خاکسار'' پر پڑنا تھا، لیکن اس تنظیم نے پروا کیے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور کئی اشتعال انگیز مضامین چھاپے۔
ادھر مسلمانوں کا جوش وجذبہ عروج پر تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری جانب مخالفین اس اجلاس کو ناکام بنانے کی ہر طرح کی کوشش کررہے تھے، خاص طورپر کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریسی نمایندوں کی مذموم سرگرمیاں بھی جاری تھیں، یوں تو حکومت پنجاب نے خاکسار تنظیم پر وسط مارچ 1940 میں پابندی لگا کر ان کی سرگرمیاں روکنے کا حکم جاری کردیا تھا لیکن اس کے باوجود خاکسار ان پابندیوں کو بالکل تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، پھر 19 مارچ 1940 کا وہ سیاہ ترین دن بھی آیا جب صبح کو یکایک خاکساروںنے پولیس اور افسروں پر حملہ کیا۔ اس حملے کے جواب میں پولیس نے گولی چلادی اور کئی خاکسار گولیوں کا نشانہ بن گئے، بپھرے ہوئے خاکساروں نے پولیس سپرنٹنڈنٹ کا سر قلم کردیا، تھوڑی دیر کے بعد مسلح پولیس پہنچ گئی اور خاکساروں کا بڑی بے دردی سے قتل عام شروع کردیا، لاہور میں غم کے بادل چھاگئے اور ساتھ ہی دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔
مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے عین دو روز قبل لاہور کی فضا تشویشناک ہوگئی، تمام شہر جس میں چند گھنٹے پہلے خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، بعد میں ماتم کدہ بن گیا، کچھ لوگوں نے اجلاس ملتوی کرنے کو کہا لیکن لاہور سٹی مسلم لیگ کے صدر جسٹس نذیر احمد اور میاں فیروز الدین نے زور دیا کہ اجلاس ہر حال میں انھی تاریخوں پر ہوگا۔ پھر وہ دن بھی آیا جس دن کا سب کو انتظار تھا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس 22 مارچ 1940 کو منٹو پارک میں جوش وجذبے سے منعقد ہوا، پنڈال کو خوبصورت رنگین جھنڈیوں اور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے اشعار سے سجایا گیا تھا، نواب شاہ نواز ممدوٹ نے اس اجلاس میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور خطبہ استقبالیہ دیا۔
23 مارچ 1940 کو کھلے اجلاس میں پیش کی جانے والی قرارداد کا مسودہ 22 مارچ 1940 کی رات کو ہی تیار کیا گیا، قرارداد کا مسودہ بنیادی طور پر انگریزی زبان میں تیار کیا گیا، اس کی تیاری میں سر سکندر حیات خان، ملک برکت علی، نواب زادہ لیاقت علی خان، چوہدری خلیق الزمان اور مولانا ظفر علی خان نے بھرپور حصہ لیا۔ 23 مارچ کا اجلاس قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، اس اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرارداد پیش کی جو ''قرارداد لاہور'' اور بعد میں ''قرارداد پاکستان'' کے نام سے مشہور ہوئی۔
1۔ مسلم لیگ کا یہ اجلاس پر زور الفاظ میں واضح کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کہ جس کے تحت فیڈریشن کی اسکیم پیش کی گئی ہے وہ موجودہ صورتحال میں ناقابل عمل ہونے کے باعث مسلمانان ہند کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔2۔ اس اجلاس میں مزید یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ اعلان جو 18 اکتوبر 1939 کو ملکہ معظم کی حکومت کی جانب سے وائسرائے ہند نے کیا تھا وہ تسلی بخش اور معقول ہے، جیسا کہ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ پالیسی اور پلان کہ جس پر گورنمنٹ آف انڈیا 1939 مدارکرتی ہے، اس کا از سر نو ہندوستان کی جماعتوں سے مشورے کے بعد جائزہ لیا جائے، مسلم ہندوستان اس وقت تک مطمئن نہیں ہوگا جب تک پورے آئینی منصوبے پر از سر نو غور نہ کیا جائے اور کوئی نیا منصوبہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا جب تک مسلمانوں کی رضامندی نہ لی جائے۔
3۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی رائے ہے کہ ہندوستان کے مسلمان صرف دستوری ڈھانچے کو ملک میں قابل عمل سمجھیں گے، جس کو مرتب کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھاجائے۔ جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں کی حد بندی ایسے خطوں میں کی جائے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان کی تشکیل ایسی آزادانہ ریاستوں کی صورت میں کی جائے کہ یہ خود مختار اور مقتدر ہوں، نیز ان وحدتوں اور خطوں میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق ومفادات کا تحفظ آئین کے ساتھ کیا جائے۔
اس اجلاس میں مزید ورکنگ کمیٹی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ ان بنیادی حقوق کی اساس پر ایک دستور کی اسکیم تیار کی جائے جس کی رو سے یہ خطے ان تمام اختیارات مثلاً دفاع، خارجہ، مواصلات، کسٹمز، اس طرح کے دوسرے امور جو ضروری ہیں خود مختار اور قابض ہوجائیں۔ سب سے پہلے اس قرارداد کی تائید و حمایت چوہدری خلیق الزمان نے کی، اس کے بعد دوسرے رہنما جس میں مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خاں، قاضی محمد عیسیٰ، آئی آئی چندریگر، نواب اسماعیل خان وغیرہ نے بھی حمایت کا اعلان کیا۔
پاکستان تو ہم نے حاصل کرلیا، 23 مارچ کا دن بھی ہم بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں لیکن جو اتحاد اس وقت کے مسلمانوں میں تھا کیا وہ اتحاد آج پاکستانی قوم میں ہے؟ آج ہم تفرقے بازی میں بٹے ہوئے ہیں اور ہمارے دشمن ہمیں مختلف طریقوں سے نقصان پہنچارہے ہیں، جو خواب ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح نے پوری کی، دشمن آج اس کو ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہیں۔ آئیے آج کے دن ہم یہ عہد کریں کہ جس طرح 23 مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمانوں میں اتحاد تھا اسی طرح آج ہم مل کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالیں اور اس ملک کو دنیا کا عظیم اور طاقتور ملک بنائیں۔
آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس فی الحقیقت مسلمانان ہند کی ملی زندگی میں ایک تاریخی اجلاس تھا، آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی نے 2 جولائی 1939 کو اپنے ممبئی اجلاس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ مسلم لیگ کا آیندہ اجلاس 28، 29، 30 دسمبر 1939 کو لاہور میں منعقد ہوگا، اس وقت پنجاب میں باضابطہ طورپر پرونشیل لیگ قائم نہیں تھی صرف چند افراد پر مشتمل ایک آرگنائزنگ کمیٹی تھی۔ 11 اگست 1939 کو ایک جلسہ منعقد کرکے مسلم لیگ کے لاہور کے اجلاس کے لیے ایک مجلس استقبالیہ کے قیام کا اعلان کیاگیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور اجلاس کے انعقاد کے لیے یہی طے ہوا تھا کہ یہ دسمبر 1939 کی آخری تاریخوں میں منعقد کیا جائے گا لیکن چند وجوہات کی بنا پر یہ اجلاس مارچ کے آخری ہفتے میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اجلاس کی تاریخوں کا فیصلہ تو ہوگیا، برصغیر کی سیاسی صورتحال، جنگ عظیم دوم کی مصروفیات اور دیگر سیاسی سرگرمیوں کے باوجود کہاں اور کس مقام پر کیا جائے؟ اس بات کا تعین کرنا ابھی باقی تھا، اس سے پہلے برصغیر کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر کوئی بھی اجلاس ہوتا تو چار دیواری یا کسی محفوظ مقام پر کیا جاتا، لاہور اجلاس کے لیے طے پایا کہ یہ اجلاس بادشاہی مسجد کے پہلو میں موجود منٹوپارک موجودہ اقبال پارک کے وسیع وعریض میدان میں منعقد کیا جائے گا۔ چاردیواری کے بجائے قناتیں لگاکر اس جلسے کو محفوظ بنایاجائے گا، لیکن مخالفین ہر طرح سے اس جلسے کو ناکام بنانا چاہتے تھے۔
انھوں نے قناتوں کو نقصان پہنچانا شروع کردیا اور پنڈال بھی غیر محفوظ ہوگیا، کہا جاتا ہے کہ پنڈال کو محفوظ کرنے اور قناتوں کے پاس حفاظتی دستے متعین کرنے کے لیے صوبہ سرحد موجودہ (خیبر پختونخوا) سے کچھ سول مجاہدین کو بلانا پڑا، دوسری جنگ عظیم کی مصروفیات کے باعث حکومت نے پابندی لگا رکھی تھی کہ پنجاب میں کوئی فوجی جماعت اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ سکے گی اور اس پابندی کا اثر براہ راست پنجاب کی تنظیم ''خاکسار'' پر پڑنا تھا، لیکن اس تنظیم نے پروا کیے بغیر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں اور کئی اشتعال انگیز مضامین چھاپے۔
ادھر مسلمانوں کا جوش وجذبہ عروج پر تھا اور اس کے ساتھ ہی دوسری جانب مخالفین اس اجلاس کو ناکام بنانے کی ہر طرح کی کوشش کررہے تھے، خاص طورپر کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریسی نمایندوں کی مذموم سرگرمیاں بھی جاری تھیں، یوں تو حکومت پنجاب نے خاکسار تنظیم پر وسط مارچ 1940 میں پابندی لگا کر ان کی سرگرمیاں روکنے کا حکم جاری کردیا تھا لیکن اس کے باوجود خاکسار ان پابندیوں کو بالکل تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، پھر 19 مارچ 1940 کا وہ سیاہ ترین دن بھی آیا جب صبح کو یکایک خاکساروںنے پولیس اور افسروں پر حملہ کیا۔ اس حملے کے جواب میں پولیس نے گولی چلادی اور کئی خاکسار گولیوں کا نشانہ بن گئے، بپھرے ہوئے خاکساروں نے پولیس سپرنٹنڈنٹ کا سر قلم کردیا، تھوڑی دیر کے بعد مسلح پولیس پہنچ گئی اور خاکساروں کا بڑی بے دردی سے قتل عام شروع کردیا، لاہور میں غم کے بادل چھاگئے اور ساتھ ہی دفعہ 144 نافذ کردی گئی۔
مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس سے عین دو روز قبل لاہور کی فضا تشویشناک ہوگئی، تمام شہر جس میں چند گھنٹے پہلے خوشیاں ہی خوشیاں تھیں، بعد میں ماتم کدہ بن گیا، کچھ لوگوں نے اجلاس ملتوی کرنے کو کہا لیکن لاہور سٹی مسلم لیگ کے صدر جسٹس نذیر احمد اور میاں فیروز الدین نے زور دیا کہ اجلاس ہر حال میں انھی تاریخوں پر ہوگا۔ پھر وہ دن بھی آیا جس دن کا سب کو انتظار تھا مسلم لیگ کا ستائیسواں سالانہ اجلاس 22 مارچ 1940 کو منٹو پارک میں جوش وجذبے سے منعقد ہوا، پنڈال کو خوبصورت رنگین جھنڈیوں اور شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے اشعار سے سجایا گیا تھا، نواب شاہ نواز ممدوٹ نے اس اجلاس میں مہمانوں کا خیر مقدم کیا اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور خطبہ استقبالیہ دیا۔
23 مارچ 1940 کو کھلے اجلاس میں پیش کی جانے والی قرارداد کا مسودہ 22 مارچ 1940 کی رات کو ہی تیار کیا گیا، قرارداد کا مسودہ بنیادی طور پر انگریزی زبان میں تیار کیا گیا، اس کی تیاری میں سر سکندر حیات خان، ملک برکت علی، نواب زادہ لیاقت علی خان، چوہدری خلیق الزمان اور مولانا ظفر علی خان نے بھرپور حصہ لیا۔ 23 مارچ کا اجلاس قائداعظم کی صدارت میں منعقد ہوا، اس اجلاس میں شیر بنگال مولوی فضل الحق نے قرارداد پیش کی جو ''قرارداد لاہور'' اور بعد میں ''قرارداد پاکستان'' کے نام سے مشہور ہوئی۔
1۔ مسلم لیگ کا یہ اجلاس پر زور الفاظ میں واضح کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کہ جس کے تحت فیڈریشن کی اسکیم پیش کی گئی ہے وہ موجودہ صورتحال میں ناقابل عمل ہونے کے باعث مسلمانان ہند کے لیے قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔2۔ اس اجلاس میں مزید یہ بھی اعلان کیا جاتا ہے کہ وہ اعلان جو 18 اکتوبر 1939 کو ملکہ معظم کی حکومت کی جانب سے وائسرائے ہند نے کیا تھا وہ تسلی بخش اور معقول ہے، جیسا کہ اس اعلان میں کہا گیا تھا کہ پالیسی اور پلان کہ جس پر گورنمنٹ آف انڈیا 1939 مدارکرتی ہے، اس کا از سر نو ہندوستان کی جماعتوں سے مشورے کے بعد جائزہ لیا جائے، مسلم ہندوستان اس وقت تک مطمئن نہیں ہوگا جب تک پورے آئینی منصوبے پر از سر نو غور نہ کیا جائے اور کوئی نیا منصوبہ مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا جب تک مسلمانوں کی رضامندی نہ لی جائے۔
3۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی رائے ہے کہ ہندوستان کے مسلمان صرف دستوری ڈھانچے کو ملک میں قابل عمل سمجھیں گے، جس کو مرتب کرتے ہوئے ان باتوں کا خیال رکھاجائے۔ جغرافیائی طور پر متصل وحدتوں کی حد بندی ایسے خطوں میں کی جائے جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، ان کی تشکیل ایسی آزادانہ ریاستوں کی صورت میں کی جائے کہ یہ خود مختار اور مقتدر ہوں، نیز ان وحدتوں اور خطوں میں اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق ومفادات کا تحفظ آئین کے ساتھ کیا جائے۔
اس اجلاس میں مزید ورکنگ کمیٹی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ ان بنیادی حقوق کی اساس پر ایک دستور کی اسکیم تیار کی جائے جس کی رو سے یہ خطے ان تمام اختیارات مثلاً دفاع، خارجہ، مواصلات، کسٹمز، اس طرح کے دوسرے امور جو ضروری ہیں خود مختار اور قابض ہوجائیں۔ سب سے پہلے اس قرارداد کی تائید و حمایت چوہدری خلیق الزمان نے کی، اس کے بعد دوسرے رہنما جس میں مولانا ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خاں، قاضی محمد عیسیٰ، آئی آئی چندریگر، نواب اسماعیل خان وغیرہ نے بھی حمایت کا اعلان کیا۔
پاکستان تو ہم نے حاصل کرلیا، 23 مارچ کا دن بھی ہم بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں لیکن جو اتحاد اس وقت کے مسلمانوں میں تھا کیا وہ اتحاد آج پاکستانی قوم میں ہے؟ آج ہم تفرقے بازی میں بٹے ہوئے ہیں اور ہمارے دشمن ہمیں مختلف طریقوں سے نقصان پہنچارہے ہیں، جو خواب ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے دیکھا تھا اور جس کی تعبیر قائداعظم محمد علی جناح نے پوری کی، دشمن آج اس کو ریزہ ریزہ کرنے کے درپے ہیں۔ آئیے آج کے دن ہم یہ عہد کریں کہ جس طرح 23 مارچ 1940 کو برصغیر کے مسلمانوں میں اتحاد تھا اسی طرح آج ہم مل کر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالیں اور اس ملک کو دنیا کا عظیم اور طاقتور ملک بنائیں۔