خطیب دوراں علامہ احسان الٰہی ظہیر

علامہ احسان الٰہی ظہیر 31 مئی 1940 کو پیدا ہوئے۔ ان کا شمار چند جید اہلحدیث علما میں ہوتا ہے۔

لاہور کے قلعہ لچھمن سنگھ کے علاقے میں سیرت النبیﷺ کا جلسہ ہورہا تھا۔ خطیب عالم، مومن کی شان بیان کر رہے تھے۔ ابھی وہ علامہ اقبال کے شعر کے دوسرے مصرع کو مکمل ہی نہ کرپائے تھے کہ ایک زور دار دھماکا ہوا اور ان کی گرج دار آواز ''مومن ہے تو بے تیغ۔۔۔'' پر آکر خاموش ہوگئی اور یوں 23 مارچ 1987 کی تاریک شب مملکت خداداد پاکستان کے ایک مواحد سپوت کے زخمی ہونے کا اعلان کرگئی۔ جی ہاں! زخموں سے چور ہونے والوں میں علامہ احسان الٰہی ظہیر بھی شامل تھے، جو اپنے بہترین فن خطابت کے باعث عرب وعجم میں یکساں مقبول تھے۔

توحید الٰہی کے علمبردار علامہ احسان زخمی ہونے کے بعد لاہور کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے کہ لاہور ائیرپورٹ پر سعودی عرب اور عراق کے شاہی طیارے بھیج دیے گئے۔ دونوں طیارے ایک ہی مشن پر آئے تھے کہ علاج و معالجے کے لیے اﷲ کے اس ''زخمی شیر'' کو فوری طور پر اپنے ملک میں منتقل کیا جائے۔ عرب و عجم میں بہترین خطیب کا اعزاز پانے والے مرد مومن سے جب ان کی رائے معلوم کی گئی تو انھوں نے حجاز مقدس جانے کو اپنے لیے باعث سعادت قرار دیا اور پھر یوں وہ سعودی عرب کی حدود میں داخل ہوتے ہی 30 مارچ 1987 کو داعی اجل کو لبیک کہہ گئے اور وہ اپنی خواہش کے مطابق مدینہ منورہ میں واقع جنت البقیع کے قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر 31 مئی 1940 کو پیدا ہوئے۔ ان کا شمار چند جید اہلحدیث علما میں ہوتا ہے۔ وہ چٹانوں سے بھی زیادہ بلند اور مضبوط عزم و حوصلہ کے مالک تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ مرد مومن جس قدر محب وطن و اسلام تھے اسی قدر بے باکی اور جرات و بہادری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے والے مرد مجاہد اور جمعیت اہلحدیث کے ناظم اعلیٰ علامہ احسان الٰہی ظہیر کسی دنیاوی بادشاہ سے مرعوب ہوتے تھے نہ قدرت نے انھیں کسی کے سامنے جھکنے دیا۔ رب تعالیٰ نے انھیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی اور فارسی زبانوں پر بھی دسترس دے رکھی تھی۔

نو سال کی عمر میں انھوں نے حفظ قرآن کریم مکمل کرنے کی سعادت پائی جس کے بعد وہ زندگی کے آخری سال تک نماز تراویح میں قرآن سناتے رہے۔ بعد ازاں دینی و عصری تعلیم کا سلسلہ شروع کیا۔ دینی تعلیم برصغیر کے نامور عالم دین مولانا محمد گوندلویؒ کی زیر نگرانی حاصل کی ۔ مولانا گوندلوی ؒ کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جو کچھ پڑھ لیتے انھیں حفظ ہوجاتا۔ پاکستان میں دینی تعلیم حاصل کرلینے کے بعد انھوں نے مدینہ منورہ کی یونیورسٹی جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لیا، جہاں انھیں 92 مختلف ممالک کے طلبا میں سب سے نمایاں مقام حاصل ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ تعلیم کی تکمیل کے بعد انھیں مختلف عرب یونیورسٹیوں میں بطور لیکچرار خدمات انجام دینے کی درخواست کی گئی۔ انھوں نے اس پیش کش نما درخواست کے لیے معذرت کرتے ہوئے وطن عزیز میں توحید و سنت کی ترویج کو اپنا نصب العین بنالیا۔

وہ جانتے تھے کہ اپنے ملک میں جاگیردارانہ نظام سیاست کے تحت عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ نفاذ اسلام ہی سے ممکن ہے۔ اسی سوچ کے تحت انھوں نے وطن پہنچ کر نفاذ شریعت کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا۔ پاکستان لوٹ کر آئے تو پنجاب یونیورسٹی میں تعلیمی سلسلے کو مزید آگے بڑھایا۔ ایل ایل بی کے علاوہ انھوں نے مختلف مضامین میں ایم اے کی اسناد بھی حاصل کیں۔ حصول علم کے ساتھ ساتھ نفاذ شریعت کی جدوجہد بھی جاری رکھی، جس کے عوض انھیں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔

مملکت خداداد پاکستان پر مسلط عوامی استحصالی عناصر نے علامہ احسان کو خاموش کرانے کے لیے دھونس اور لالچ سمیت حکومتی عہدوں اور سرکاری مراعات کی پیش کش کے متعدد حربے استعمال کیے، لیکن ہر بار ان عناصر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ شاید ان عناصر کو اس بات کا ادراک نہ تھا کہ علامہ احسان الٰہی ظہیر کا سینہ عقیدہ توحید اور محبت رسول ﷺ سے بھرپور ہے۔ امام کائنات ﷺ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ امام الانبیاء کی سیرت بیان کرتے کرتے اکثر آبدیدہ ہوجایا کرتے۔ آپ لاہور میں جامع مسجد چینیاں والی کے خطیب اور جمعیت اہلحدیث کے علمی اور دعوتی رسالے ماہنامہ اہل حدیث کے مدیر بھی تھے۔


مملکت خداداد پاکستان میں عوامی جلسے کے دوران ہونے والا یہ پہلا بم دھماکا تھا، جس میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شدید زخمی ہو کر خلعت شہادت سے سرفراز ہوئے تھے۔ نظام مصطفیٰ کی تحریک ہو یا بحالی جمہوریت کی مہم، آپ سیاسی و مذہبی جلسوں کی جان ہوا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ لوگ انھیں سننے کے لیے دیوانہ وار شرکت کیا کرتے تھے۔ وہ فن خطابت کے بادشاہ تھے۔ جب آپ مدینہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھے تو آپ کی خطابت کا شہرہ ساتھیوں میں تھا۔ یونیورسٹی کا ماحول عربی تھا اور آپ کو ویسے بھی عربی زبان سے خاص لگائو تھا۔ آپ یونیورسٹی میں اس لیے بھی ممتاز حیثیت کے حامل تھے کہ عجمی ہونے کے باوجود عرب طالب علموں کے مقابلے میں عربی پر زیادہ عبور حاصل تھا۔ اسی سبب آپ نے وہیںعربی خطابت کا آغاز کردیا تھا اور اس میں اتنا ملکہ حاصل کیا کہ عربی کے بھی بے نظیر خطیب ٹھہرے۔

اس حوالے سے علامہ صاحب کو عرب ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کے نامور اور مستند خطیب آغا شورش کاشمیری بھی نماز عید کا خطبہ سن کر کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ''اگر احسان الٰہی ظہیر اس تقریر کے بعد مزید کوئی تقریر نہ بھی کریں تو اردو تاریخ کے صف اول کے خطیبوں میں ان کا شمار کیا جائے گا۔''

علامہ احسان کا عربی کے ساتھ ساتھ اردو خطابت میں بھی کوئی ثانی نہ تھا۔ مدلل انداز میںان کی للکار مخالفین کے پیروں تلے زمین کھینچ لیتی۔ ہمدردوں اور محبان کو رلا دیتی۔ علمی تحقیق نے ان کا انداز گفتگو فاتحین کی للکار میں بدل ڈالا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ دشمنان اسلام و پاکستان کے پاس علامہ صاحب کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرانے کے سوا ان کے سوالوں کا کوئی دوسرا جواب نہ تھا۔ آپ متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے جن میں سے اکثر مناظر کے موضوع پر ہیں۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر کے قتل کے محرکات میں بہت سے امور کا تذکرہ کیا گیا، تاہم علامہ شہید کے قتل کا سب سے بڑا سبب ان کا ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے بالمقابل کسی دوسری چیز کو تسلیم نہ کرنے کے معاملے پر غیر لچکدار اور اٹل موقف بھی تھا۔ صدر ضیاء الحق کی سربراہی میںعلامہ صاحب شریعت بل کی آڑ میں کسی فقہ کو ملک میں نافذ کرنے کے حامی تھے نا ہی روس کو افغانستان سے دھکیلنے کی آڑ میں امریکی تسلط جو ملک کی خود مختاری کو مشکوک بنا دیتا مسلط کرنے کے حق میں تھے۔

علامہ احسان الٰہی ظہیر کی تقاریردلوں سے خوف کو نکالنے اور طاقتوروں کے مقابلے میں لڑنے کا حوصلہ دیتی تھیں۔ کمزور دلوں سے کمزوری کا احساس ختم کردیتی تھی۔ ان کی آواز میں شیر کی گرج، اور دریا کی سی طغیانی تھی۔ تقریر کرتے ہوئے مصلحتوں کی زنجیریں توڑ کر پھینک دیتے۔ ان کے خطابت کے طوفان میں بڑے بڑے حاکم اور عہدیدار خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتے تھے۔انھوں نے ہر قسم کی ڈکٹیٹر شپ کے خلاف اپنی زبان اور قلم سے ہمیشہ جہاد کیا ہے۔

وہ عظیم قائد آج ہمارے درمیان نہیں ہے لیکن اس کی فکر، سوچ اور غلبہ دین کے لیے عصر حاضر کا اسلوب ہماری رہنمائی کررہا ہے۔ اگر آج ہم علامہ شہید کے ویژن کہ ''مملکت خداداد پاکستان اسلام کے نام پر کلمہ توحید کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے، لہٰذا اسی لیے اس کی بقا اور سالمیت بھی اسلام اور توحید باری تعالیٰ سے وابستہ ہے'' کو اپنا لیں تو ملک سے فرقہ واریت اپنی موت آپ مرجائے گی اور مذہبی یگانگت اور رواداری کا ماحول قائم ہوسکتا ہے۔
Load Next Story