بُک شیلف

ڈا کٹر عبدالستار صدیقی اپنے وقت کے نامور محقق اور ماہر لسانیات تھے

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

آر ، یو ، آر
راسمز یونیورسل روباٹ
تصنیف: کیریل چپیک
ترجمہ: پطرس بخاری و سید امتیاز علی تاج
قیمت: 150روپے،صفحات: 104
ناشر:مجلس ترقی ادب،لاہور

ڈرامہ نویسی ادب کی ایسی صنف ہے جس میں دکھایا گیا ماحول اور کرداروں کے مکالمات اور تاثرات قاری اور دیکھنے والے پر گہرا اثر ڈالتے ہیں اور اس کی اثر پذیری ہی ڈرامے کی کامیابی ہے ، اگر کوئی ڈرامہ یا اس کے کردار معاشرے میں موضوع بحث نہیں بنتے تو کہا جائے گا کہ ڈرامے میں جان نہیں۔

کیریل چپیک کا ڈرامہ راسمز یونیورسل روباٹ جب پیش کیا گیا تو اسے بہت پسند کیا گیا ، نامور ادیب پطرس بخاری اور سید امتیاز علی تاج نے اس کا ترجمہ کیا۔ سید امتیاز علی تاج کہتے ہیں ، 1932ء میں اس کھیل کا گورنمنٹ کالج لاہور کے سٹیج پر آنا اردو ڈرامے کی تاریخ کا ایک بہت اہم واقعہ قرار دیا گیا تھا ۔

اخبارات نے بہت حوصلہ افزا تبصرے کئے تھے۔ ڈرامہ ہو چکنے کے بعد کلب میں حسب معمول جو ڈنر ہوا ، اس میں اس وقت کے دانش وران لاھور نے اپنی تقریروںمیں ایسے کھیل کے سٹیج پر آنے اور غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے پر گورنمنٹ کالج ڈریمیٹک کلب کو مخلصانہ مبارکباد دی تھی،۔ اس دور میں جب ابھی روبوٹ یعنی مشینی آدمی کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اس پر ڈرامہ لکھنا بڑا کارنامہ ہے ، روبوٹ انسانیت پر غلبہ پانے کی کوشش کرتا ہے مگر جیت انسانیت کی ہوتی ہے۔ اس دور میں روبوٹ کو روباٹ لکھا گیا ہے۔ ڈرامے میں ابتدا سے لے کر آخر تک تجسس موجود ہے جو ڈرامے کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

ہم نے لفظوں میںزندگی رکھ دی
شاعرہ: انمول گوہر
قیمت : 400 روپے،صفحات: 176
ناشر: نستعلیق مطبوعات،فیروز سنٹر اردو بازار، لاہور

شاعری اپنے جذبات اور محسوسات خوبصورت انداز میں دوسروں تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ انمول گوہر نے اپنا مشاہدہ، خیالات اور محسوسات بڑے دلنشین انداز میں بیان کئے ہیں ۔ ممتاز شاعر اور دانشور عطاء الحق قاسمی ان کی شاعری کے بارے میں کہتے ہیں '' انمول گوہر کی شاعری میں نامکمل رہنے کا دکھ ہے۔ادھورے پن کی کسک اس کے ہاں مختلف غزلوں میں صاف دکھائی دیتی ہے ۔

اس کی شاعری خارجی سے زیادہ باطنی احساسات پر مشتمل ہے اس لئے اس میں اداسی اس طرح پھیل گئی ہے جس طرح میدانی علاقوں میں دھند پھیل جاتی ہے۔'' کتاب میں حمد باری تعالٰی ، نعت رسول مقبول ﷺ، غزلیں ، نظمیں ، حجر وصال ،عشق مجازی، موجودہ حالات اور معاشرتی رویوں کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان کا دلکش انداز داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے جیسے

خواب گوہر بچا محبت کے
ہے مخالف ہوا محبت کے
اور کچھ بھی نہیں رہا باقی
پاس میرے سوا محبت کے
اسی طرح ایک اور غزل میں کہتی ہیں،
مرا مانو یہ کہنا تم
سدا میرے ہی رہنا تم
مجھے سارے ہی غم دے دو
کوئی بھی غم نہ سہنا تم
یہ کتاب اردو ادب میں خوبصورت اضافہ ہے ، اس سے پہلے انمول گوہر کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔



مقالات عبدالستار صدیقی
مرتب : مسلم صدیقی
صفحات : 316، قیمت : 400/ روپے
ناشر : مجلس ترقی ادب، لاہور
ڈا کٹر عبدالستار صدیقی اپنے وقت کے نامور محقق اور ماہر لسانیات تھے۔ انہوں نے متحدہ ہندوستان اور پھر تقسیم ہند کے بعد بھی اردو زبان وادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات انجا م دیں ۔ انہیں متعدد زبانوں پر عبور حاصل تھا ۔ان کا وطن مولوف ہندوستان تھا چنانچہ وہیں رہ کر انہوںنے تحقیق اور لسانیات کے لیے کام کیا ۔

پاکستان میں اردو ادب کے قارئین کے لیے شائد یہ نام زیادہ مانوس نہ ہو لیکن زبان وادب میں تحقیقات اور ریسرچ کے ذیل میں کام کرنے والے طلبائے ادب اور محققین کے لیے ان کا نام بڑے معتبر حوالے کے طورپر لیا جاتا ہے ۔ان مقالات کو ( جو 1910 سے 1961 تک کے عرصہ کے دوران ضبط ِ تحریر میں لائے گئے ) ان کے صاحبزادے مسلم صدیقی نے مرتب کیا اور مجلس ترقی ادب نے انہیں جلد اول کی صورت میں شائع کرکے اردو ادب کے قارئین کو عبدالستار صدیقی کو جاننے اور ان کے وقیع کام سے مکمل واقفیت اور آگاہی کا موقع فراہم کیا ہے ۔

کتاب میں شامل مضامین کا تنوع اور الفاظ کی تاریخ اور ان کی اصلیت کے بارے میں مواد ایسا جاندار اور دلچسپی کا حامل ہے کہ عام قاری بھی انہیں پڑھ کر خوشی اور دلی اطمینان محسوس کرے گا۔کتاب کے ناشر اور مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر ڈاکٹر تحسین فراقی کے الفاظ میں ' ' یہ مقالات جہاں فکرو نظر کے لیے نئے دریچے وا کرتے ہیں وہیں مزید تفتیش ، تحقیق او ر تفحص پر بھی مائل کرتے ہیں ''۔ اردو زبان کے بارے میں ریسرچ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ عام قاری کو بھی اس سے بھرپور استفادہ کرنا چاہئے ۔

رات ڈھلتی نہیں
شاعر: ایوب ندیم
صفحات: 144، قیمت: 300روپے
ناشر: سنگت پبلشرز ، لوئر مال ، لاہور

ایوب ندیم ایک ایسی ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے جو محض شاعر نہیں بہت اچھے شاعر ہیں اوراس کے علاوہ وہ ادیب ، ڈرامہ نگار اور محقق بھی ہیں ۔ان کے قلم کی جولانیاں ہر صنف ادب میں یکساںدکھائی دیتی ہیں ۔شاعری ان کا بڑا حوالہ ہے ۔ان کی شاعری سلاست، روانی ، برجستگی کا خوبصورت نمونہ ہے ۔ان کے مضامین متنوع اور خیالات میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی ۔

ڈاکٹر سلیم اختر کا کہنا ہے کہ '' ایوب ندیم کا یہ مجموعہ ایک گل دستے کی طرح ہے جس طرح گل دستے میں سے کسی ایک پسندیدہ پھول کا انتخاب کرنا مشکل ہے اس لیے کہ گل دستے کے تمام پھول ہی منتخب ہوتے ہیں ہر پھول کا اپنا رنگ اور اپنی مہک ہوتی ہے لہذا کسی ایک پھول کو باقی پھولوں پر ترجیح نہیں دی جاسکتی اسی طرح اس مجموعے میں سے چند اشعار منتخب کر کے بہ طور مثال پیش کرنا ممکن نہیں۔

ایوب ندیم کی غزلوں کے تمام اشعار بہ طور مثال پیش کیے جاسکتے ہیں '' ۔ڈاکٹر خورشید رضوی کاکہنا ہے کہ '' ایوب ندیم کی غزل میں برجستگی اظہار کے ساتھ ساتھ گاہ گاہ مضمون کی ندرت بھی ہمیں چونکاتی ہے ''۔ان دو ثقہ اہل قلم ڈاکٹر سلیم اختر اور ڈاکٹر خورشید رضوی نے ایوب ندیم کی شاعری کو جس انداز میں سراہا ہے اس کے بعد مزید کسی تبصرے ، خیال آرائی یا دلیل کی حاجت ہی باقی نہیں رہتی ۔ادبی حلقوں میں جس طرح ان کے پہلے مجموعہ کلام '' چاند میرا ہم سفر '' کو پذیرائی ملی ہے اسی طرح یقین واثق ہے کہ ان کے اس دوسرے مجموعہ کلام ''رات ڈھلتی نہیں '' کو بھی ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔

لوح ِ تحیر
مصنف آصف عمران
صفحات: 144، قیمت: 400 روپے
ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ ، لاہور


'' لوح ِ تحیر '' آصف عمران کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں ان کے گیارہ افسانے شامل ہیں ۔ ان افسانوں کی زبان ، اسلوب ، بنت اور اظہار اتنا خوب صورت ، پر تاثیر اور '' دِل کھینچواں '' ہے کہ قاری کو افسانہ ختم کیے بنا اٹھنے نہیں دیتا۔ یہی اس تحریر کا حسن ہے ۔

افسانوں اور ان میں برتی جانے والی زبان بجائے خود تحیر انگیز ہے اور اپنے اندر معانی کا ایک جہان لیے ہوئے ہے ۔کتاب کا دیباچہ غلام حسین ساجد نے تحریر کیاہے جب کہ اس میں ڈاکٹر اجمل نیازی ، اصغر ندیم سید، آسناتھ کنول اور سلمی ٰ اعوان کی آراء بھی درج ہیں ۔ان تمام خواتین و حضرات نے بالاتفاق آصف عمران کو عہد ِ حاضر کا کامیاب افسانہ نگار قراردیاہے ۔ ان اہل قلم خواتین و حضرات کی آراء کے بعد فکشن کے قاری کے لیے کتاب کا مطالعہ ایک ضرورت بن جاتا ہے ۔ یہ کتاب '' بک ہوم '' نے اپنے روائتی معیار کے مطابق بڑے حسن ، خوب صورتی اور اہتمام کے ساتھ شائع کی ہے ۔

قلم کا مزدور
مصنف : مقصود احمد چغتائی
صفحات: 159، قیمت : 1000/ روپے
ناشر : ولید پبلشرز ، جوہر ٹاون ، لاہور

مقصود احمد چغتائی ایک ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے جو بیک وقت بینکار بھی ہیں اور سیاح بھی ۔ سکاوٹ بھی ہیں اور سماجی کارکن بھی ۔ادیب بھی ہیں اور منتظم بھی ۔ گویا وہ کم و بیش ہر شعبہ ٗ زندگی سے وابستہ رہے ہیں ۔ اس لیے ان کے تجربہ کے ساتھ ساتھ ان کے مشاہدات میں بھی وسعت پیدا ہوگئی ہے ۔زیر نظر کتاب کو انہوں نے '' قلم کا مزدور '' کا نام دیا ہے جس میں ان کے متفرق موضوعات پر مختصر مضامین ، تاثرات اور بعض اداروں کے بارے میں تعارف شامل کیا گیاہے ۔ کتاب کی صخامت 159 صفحات پر محیط ہے لیکن اس کی قیمت 1000 روپے ظاہر کرتی ہے کہ یہ کتاب عام قاری کے لیے نہیں بل کہ سرکاری لائبریریوں اور اداروں کے لیے شائع کی گئی ہے ۔



My Thoughts In Solitude(Vol.1)
مصنف: بختیار حیدر
صفحات : 445، قیمت : 800/ روپے
ناشر : دارالنوادر ، الحامد مارکیٹ ، اردو بازار ، لاہور

زیر تبصرہ کتاب 1300 سے زائد اقوال (Qoutations) پر مشتمل ہے جو درحقیقت مصنف کے دلی جذبات، کیفیات اور بصیرت ووژن کے آئنہ دار اور ان کے علم ، وسیع مطالعہ اور عمیق مشاہدے پر دلالت کرتے ہیں ۔

انگریزی زبان میں تخلیق کردہ ان اقوال زریں میں تمام موضوعات اور شعبہ ہائے زندگی سے متعلق Thoughts کو احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے ۔جو ان کی فکر کے خمیر سے اٹھے ہیں ۔مصنف اپنی ماہر تعلیم والدہ کے علم ، تجربے اور قابلیت و لیاقت سے متاثر ہیں وہ ان کے لیے رول ماڈل کا درجہ رکھتی ہیں اورانہی کی تربیت ، ترغیب اور ہدایت کی روشنی میں ان کی فکر ، ان کی سوچ اور ان کے خیالات کو جلا ملی اور یہ کتاب ظہور میں آئی۔اس کا اعتراف وہ خود کرتے ہیں کہ ان کی والدہ ہی ان کے لیے ہمیشہ منبع فیض رہی ہیں اور یہ تحریر اسی فیض ہی کا پرتو ہے ۔کتاب کا مطالعہ ہر عمر کے افراد کے لیے فائدے اور دلچسپی کا باعث ہوسکتا ہے ۔

تقدیس ( نعتیہ مجموعہ )
شاعر : تفاخر محمود گوندل
صفحات: 224،قیمت: 500/ روپے
ناشر : نستعلیق مطبوعات ، لاہور

نعت لکھنا بلا شبہ ایک مشکل صنف ِ ادب ہے جس میں مشق ِ سخن کرنا ایسے ہی ہے جیسے تلوار کی دھار پر چلنا ۔ تفاخر محمود گوندل کا اعجاز یہ ہے کہ انہوںنے عشق ِ نبی ﷺ میں ڈوب کر بارگاہ ِ خیرالانام ﷺ میں عجزو نیاز کے پھول اس حسن و خوبی، شائستگی اور سادگی کے ساتھ نچھاو ر کیے ہیں کہ سہل ِ ممتنع کو بھی رشک آئے۔ آپ سارے مجموعہ شاعری کا مطالعہ کرلیں آپ کو یوں محسوس ہوگا کہ شاعر نے جس وارفتگی، شوق اور جذب کی کیفیت میں اشعار تخلیق کیے ہیں اسے بیان کرنے میںا لفاظ خود ہاتھ باندھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ کم وبیش نو اہل قلم نے ان کی نعتیہ شاعری پر اظہار خیال کرکے انہیں سند افتخار عطا کی ہے جو میری رائے کی تصدیق کرتی ہے سو اس خوبصورت نعتیہ کلام پر تفاخر محمود گوندل یقینی طور پر مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ ادارہ نستعلیق مطبوعات نے بھی خصوصی اہتمام اور محبت کے جذبے کے ساتھ مجموعہ نعت کو کتابی شکل میں پیش کرکے اپنا حق ادا کردیا ہے ۔



تبصرہ نگار، ہاجرہ
ہندوستانی گرائمر
مصنف: بنجمن شلزے
مترجم: ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی
قیمت:300روپے،صفحات: 282
ناشر: مجلس ترقی ادب ، ۲ کلب روڈ ، لاہور

اردو کے قواعد پر لکھی جانے والی دوسری کتاب شلزے کی ''ہندوستانی گرائمر'' ہے۔ یہ کتاب لاطینی زبان میں لکھی گئی۔ بعد میں اسے انگریزی میں منتقل کیا گیا۔ جان جوشواکیٹار کی کتاب جو اردو قواعد کی پہلی کتاب تصور کی جاتی ہے۔ وہ بھی لاطینی زبان میں شائع ہوئی تھی۔

شلزے ایک جرمن تھا۔ عیسائی مشنری سے تعلق رکھتا تھا جس کو ڈنمارک کے بادشاہ نے کرناٹک کے دربار میں مقرر کیا جس کی ہندوستان میں آمد کا مقصد عیسائیت کی تبلیغ تھا۔ کتاب تحریر کرنے کا مقصد عیسائی مبلغین کو زبان سیکھنے میں مدد فراہم کرنا تھا۔ قارئین کو اس بات پر حیرت ہوئی ہوگی کہ اردو قواعد کی اولین کتب اردو زبان میں نہیں لکھی گئیں جس کی اصل وجہ یہ ہے کہ اہل زبان کو قواعد سیکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی کسی بھی زبان کے قواعد سیکھنے کی ضرورت ان کو پڑتی ہے جو کوئی بھی زبان بطور ثانوی زبان سیکھتے ہیں۔

اردو کا قدیم نام ہندوستانی ہے۔ تیمور کے فتح ہند کے بعد سے یہاں کی زبان کو ہندوستانی کا نام ملا۔ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی نے کتاب کا ترجمہ اور تحقیق کے کام کو بہت احسن انداز میں انجام دیا ہے۔ لفظ ہندوستانی کی تحقیق بھی انہوں نے ہی کی ہے۔ ہندوستانی کی وجہ تسمیہ بیان کی ہے۔ کتاب کے ابواب کی تعداد پانچ ہے۔ قاری کی سہولت کے پیش نظر انگریزی کتاب اور ترجمہ ایک ہی جلد میں جمع کردیئے گئے ہیں۔ اس کارہائے نمایاں پر مجلس ترقی ادب لاہور خراج تحسین کی مستحق ہے۔

اردو کی دو قدیم مثنویاں
مرتبہ: نائب حسین نقوی
قیمت: 200 روپے،صفحات: 192
ناشر: مجلس ترقی ادب، کلب روڈ ، لاہور

زیر نظر کتاب میں میر اسماعیل امروہوی کی دو مثنویاں ''وفات نامہ بی بی فاطمہؓ اور ''معجزہ انار'' کے نام سے موجود ہیں ۔ نائب حسین نقوی نے کتاب کو مرتب کیا ہے جن کا تعلق ہندوستان کے علاقے امروہہ سے ہے۔

مخطوطے کی بازیافت کے حوالے سے نائب حسین صاحب لکھتے ہیں ۔1965ء میں اپنے وطن امروہہ میں قیام کے دوران ایک دن گھر کے ٹوٹے پھوٹے صندوق صحن میں نکالے، دیمک خوردہ کتابیں، رجسٹر، کاپیاں، ادعیہ و وظائف کی کتب اور سب کچھ تلپٹ کر ڈالا۔ کئی نایاب کتب ملیں ۔ ان میں ایک کاپی پر اسماعیل امروہوی کی مثنوی ''معجزہ انار'' بھی موجود تھی ۔ بعد میں تحقیق سے یہ معلوم ہوا کہ بازیافت مخطوطہ مصنف کی حیات کا ہے جبکہ یہ مثنوی 1708ء میں تصنیف کی گئی۔نائب حسین نقوی صاحب نے وہ کام انجام دیا جیسے کام آثار قدیمہ کہ ماہر کیا کرتے ہیں۔

وہ زمین کے سینے میں دفن ہوجانے والے آثار و عمارات کو ہمارے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں۔ آثار قدیمہ سے ہمیں اس قوم کی تہذیب و روایات اور ثقافت کا پتہ چلتا ہے۔ یہ قدیم مثنویاں بھی 1694ء کے معاشرے جس میں میر اسماعیل موجود تھے کے ذوق کی خبر دیتی ہیں۔ وہ معاشرہ نثر سے زیادہ نظم میں دلچسپی رکھتا تھا ۔ عوام الناس کی دلچسپی کے موضوعات کیا تھے؟ ان کا مذہب سے کتنا گہرا لگاؤ تھا ۔

پہلی مثنوی جو وفات نامہ بی بی فاطمہؓ کے عنوان سے ہے میں بی بی فاطمہؓ کی ولادت باسعادت اور اس موقع پر جنتی عورتوں کا جناب خدیجہؓ کے پاس تشریف لانا، بی بی فاطمہؓ کا نکاح جناب علیؓ سے ہونا اور بی بیؓ کا وصال و تدفین بچوں اور شوہر پر گزرنے والی کیفیت کو بیان کیا ہے۔ الغرض بی بی فاطمہؓ کی زندگی کا اجمالی ذکر اس مثنوی میں کیا گیا ہے جس کے کل اشعار کی تعداد 319 ہے۔دوسری مثنوی میں رسول خدا حضرت محمدؐ کا معجزہ انار بیان کیا گیا ہے۔بابائے اردو مولوی عبدالحق وفات نامہ بی بی فاطمہؓ کو شمالی ہند کی اس وقت تک کی جو پرانی اردو کتابیں دستیاب ہوئیں ان میں سے سب سے پرانی کتاب مانتے ہیں۔

قوموں کی بقا اس کی زبان سے جڑی ہوئی ہے۔ اگر زبان باقی نہ رہے تو قوم بھی ختم ہوجاتی ہے۔ زندہ قوموں کی نشانی ہے کہ وہ اپنے ورثے کی حفاظت کرتی ہیں۔ نائب حسین نقوی نے اردو ادب کے دفینے کو کھوج نکالا اور مجلس ترقی ادب لاہور نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو ادب کے نوادرات کو نئی نسل کے ہاتھ میں تھما دیا ہے۔

ہم بحیثیت پاکستانی قوم نائب حسین نقوی کے ممنون و مشکور ہیں جنہوں نے ہماری قومی زبان کی پہلی مثنوی کو تاریخ کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر نکال لیا ۔ ادارے نے اپنی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے کتاب کی چھپائی پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا۔ کتاب مجلد ہے اس کی جلد قدیم آرکیٹک کی عکاسی کرتی ہے۔ اردو ادب میں جب بھی مثنوی کا ذکر آئے گا وہ ذکر اس کتاب کے حوالے کے بغیر نامکمل ہوگا ۔ ایسی کتابیں صدیوں تک زندہ رہتی ہیں۔
Load Next Story