عوامی معاشی اور فوجی دفاع تیسرا حصہ
برطانیہ کی دیر سے شمولیت اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ برطانیہ غلام ملکوں سے آزادانہ وسائل، سرمایہ وصول کر رہا تھا
ایسٹ انڈیا کمپنی نے نفع تجارت سمیٹنے کے ساتھ ساتھ انڈیا میں اپنی حفاظت کے نام پر فوجی چوکیاں قائم کرنا شروع کردیں اور اس طرح برطانوی سامراج فوجی مداخلت کرتا اور بڑھاتا گیا۔ انگریز جن علاقوں یا ریاستوں کو فتح کرتے تھے وہاں پر اپنی مرضی کا تابعدار حکمران مقررکرتے تھے جو انگریزوں کو سالانہ باج گزاری ادا کرتا اس طرح انگریزوں نے ہندوستان سے اپنی آمدنی حاصل کرنی شروع کردی، جس میں انگریزوں کے فوجیوں کے اخراجات بھی شامل تھے۔
انگریزوں کی ہندوستان سے دشمنی اس بات کا ثبوت ہے کہ بنگال کے ململ کے کاریگروں کی بنی ہوئی ململ نہایت ہی عمدہ، پائیدار ہوتی تھی۔ ہندوستانی ململ کو برطانیہ کے امرا بڑے شوق سے استعمال کرتے تھے۔ برطانوی ململ کی مانگ سے کہیں زیادہ مانگ ہندوستانی ململ کی تھی۔ برطانوی حکومت نے بنگال کی ململ کی امپورٹ پر برطانیہ میں سب سے زیادہ ٹیکس لگادیا تاکہ بنگال کی ململ مہنگی ہوجائے اور برطانوی امرا برطانیہ کی ململ استعمال کرنے لگیں۔ انگریز حکومت ٹیکس بڑھاتی گئی لیکن بنگالی ململ کی مانگ میں کمی نہ آئی۔ حالانکہ برطانوی حکومت نے برطانوی ململ کی ہندوستان میں کم سے کم ڈیوٹی کردی۔ برطانوی حکومت کو ٹیکسوں کے ہیر پھیر کرنے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو انگریزوں نے بنگال کے کاریگروں کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ دیں۔کسی بھی ملک میں جب غیر ملکی برطانیہ کی طرح آتے ہیں تو ان کا مفاد کمزور و پسماندہ ملک کے وسائل اور افرادی قوت کی لوٹ مار ہوتا ہے۔
12 نومبر 2015ء کو اخبارات میں بزنس رپورٹرز کے حوالے سے یہ اہم خبر شایع ہوئی تھی کہ پاکستان نے گوادر فری ٹریڈ زون کی تعمیر کے لیے چھ سو ایکڑ زمین چین کے حوالے کردی تھی۔ چین کو پاکستان نے سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ پاکستان نے چین کو ایک جہاز تحفے میں دیا تھا۔ جو چینی لیڈر مائوزے تنگ کے زیر استعمال تھا۔ دو ملکوں کے معاشی اور سیاسی یا سفارتی تعلقات برابری کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں تو پائیدار ہوتے ہیں۔ اگر برطانوی طرز کے سابقہ ہندوستان کے راجوں، نوابوں کے جیسے غلامانہ تعلق ہوں تو کمزور ملک کو نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔
برطانوی سامراج ہندوستان میں اس لیے کامیاب ہوا کہ اس نے غداروں کو خریدا۔ ریاستوں کو فتح کرکے اپنے تابعدار حاکم مقرر کیے اور پھر پورے ہندوستان سے ٹیکس وصول کیا۔ ہندوستان، برطانوی سامراج کے لیے کمائومنٹری کا درجہ رکھتا تھا۔ برطانوی سامراج نے 1611ء میں ہندوستان میں تاجروں کی شکل میں مداخلت کی اور 336 سال یعنی 14 اگست 1947ء تک ہندوستان میں موجود رہا اور جنگ آزادی 1857ء کے بعد برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا نقاب اتار پھینکا اور 1858 سے براہ راست پورے ہندوستان کا حاکم بن گیا۔
ہندو، مسلم، بدھ مت و دیگر ان تمام کی جڑوں میں انگریزی کلچر کو کامیابی سے داخل کر گیا کہ آج تک ہم 70 سال بعد بھی انگریزی قانونی، انگریزی جمہوریت، انگریزی زبان، انگریزی لباس سے ہم چھٹکارا نہیں پاسکے۔ برطانوی سامراج سے ہمیں نام نہاد آزادی ملی لیکن ساتھ ہی نامکمل آزادی کے ساتھ ہمیں امریکی نئے سامراج نے معاشی غلامی اور سیاسی غلامی میں جکڑلیا۔
سامراج برطانیہ نے 336 سال انڈیا میں مداخلت جاری رکھی۔ عوام سے ٹیکس راجوں، نوابوں سے باجگزاری لے کر برطانیہ منتقل کرتا رہا، خام مال سستے سے سستا خریدتا رہا۔ برطانوی اشیا کو کم سے کم ٹیکس لگا کر پورے ہندوستان میں کھپاتا رہا۔ محکموں کی تعمیرات کا سامان و دیگر سامان برطانیہ سے لاتا رہا۔ ریلوں کی پٹریاں ریلوں کے انجن، ریلوں کے ڈبے، صنعتی کلچر کی تمام مشینری غلام ہندوستان میں من مانی قیمتیں وصول کرکے کھپاتا رہا۔ برطانیہ نے کئی محکمے قائم کیے ان محکموں کے افسران تمام انگریز ہوتے تھے۔ ہندوستانیوں کو نچلے درجے کی ملازمتیں دی جاتی تھیں۔
ایک طرف انگریز مسلمانوں کو اچھوتوں کی طرح برت رہے تھے دوسری طرف ہندوؤں نے مسلمانوں کو اچھوتوں کی طرح برتنا شروع کردیا۔ اور خاص کر 1883ء میں ''انڈین نیشنل کانگریس'' کے بنائے جانے کے بعد ہندوؤں کا رویہ متعصبانہ ہوگیا تھا۔ مسلمانوں کو دو طرف سے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ آزادی کے بعد کالے انگریز یعنی تمام بیوروکریٹ انگریزیت میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کا ضمیر مر چکا تھا۔ ان کالے انگریزوں نے برطانوی غلامی سے نکلتے ہی امریکی غلامی میں پاکستان کی معیشت اور خارجہ و داخلی پالیسیوں کا محور امریکا کو بنالیا۔ اشرافیہ خود امیر ہوتی گئی عوام غریب ہوتے گئے۔ سامراجی امریکا پہلی عالمی جنگ کے دوران بھیڑیے اور شیطان کی طرح جنگ زدہ یورپ کو اپنے پنجوں میں جکڑ چکا تھا۔ امریکا 2 سال 8 ماہ سے زیادہ عرصہ جنگ سے الگ تھلگ رہ کر معاشی ہتھکنڈے استعمال کررہا تھا۔
جنگ شروع ہوتے ہی یورپی ممالک (1)۔ کرنسی ایکسچینج بحران کی لپیٹ میں آگئے۔ (2)۔ ان ملکوں میں اشیا کی قلت بڑھ گئی، زراعت و فیکٹریاں تباہ ہوتی گئیں۔ (3)۔ تمام متحارب ممالک گولڈ معیار سے ہٹ گئے۔ جب یورپی ممالک آپس میں دفاعی معاہدے کرکے دو گروپوں میں تقسیم ہونے جا رہے تھے تو امریکا بھانپ چکا تھا، امریکا اردگرد کے تمام تر جغرافیائی حالات کا جائزہ لے کر اپنی منصوبہ بندیوں میں لگ چکا تھا۔ 1879ء میں جرمنی آسٹریا ہنگری اور اٹلی کا معاہدہ ہوا۔ 1894ء میں فرانس اور روس نے معاہدہ کرلیا۔ برطانیہ نے 1902ء میں جاپان سے معاہدہ کرلیا۔ 1904ء میں برطانیہ اور فرانس نے معاہدہ کرلیا۔ 1907ء میں روس اور برطانیہ نے معاہدہ کرلیا۔ جرمنی نے ترکی کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ ایک محوری گروپ بن گیا۔ جس میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور ترکی تھا۔ دوسرا اتحادی گروپ جس میں برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان شامل تھا۔
برطانیہ کی دیر سے شمولیت اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ برطانیہ غلام ملکوں سے آزادانہ وسائل، سرمایہ وصول کر رہا تھا۔ دوسرا غلام ہندوستان میں تمام ادارے انگریزوں کی عملداری میں بنانا اور منصوبہ بندیاں کرنا ایسے لگتا ہے کہ برطانیہ ہمیشہ حکومت کرنے کے لیے کر رہا تھا۔ 19 ویں صدی میں صنعتی کلچر عروج پا رہا تھا اور تمام سامراجی ملک ایک دوسرے سے غلام ممالک کی منڈیاں چھیننا چاہتے تھے۔ جب جنگ میں تمام سامراجی ادھ موئے ہوگئے تو چالاک لومڑ کی طرح امریکا نے امریکی ڈالر کا سونے (Gold) سے جڑے رہنے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس وقت 20.67 امریکی ڈالر کا ایک اونس سونا تھا۔ اسی بنیاد پر سونے کے بدلے امریکا نے یورپی ملکوں کو اشیا سپلائی کرنی شروع کردیں۔
ساتھ ہی ڈالر ان کی معیشت میں داخل کرنا شروع کردیا۔ ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کا قیدی یا غلام بناکر پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد بھی جوڑ توڑ کرتا رہا۔ 15 دسمبر 1923ء کو امریکا نے باقاعدہ اس کے لیے امریکی مالیاتیExchange Equalization Fund کا خصوصی ادارہ قائم کرلیا تھا۔ جو سونے کے بدلے یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے مقررکرتا تھا۔ امریکا کاغذی ڈالروں کے قرضے دے کر یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں مقرر کر رہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں بھی 2 سال 3 ماہ سے زیادہ عرصہ الگ رہ کر امریکا نے آئی ایم ایف کا ادارہ ای ایف ایف کی جگہ دسمبر 1945ء میں قائم کرلیا تھا۔
اس کی پلاننگ 1940ء سے امریکا نے دوران جنگ شروع کردی تھی۔ 1949ء میں امریکی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کردی جائے۔ شہید خان لیاقت علی خان نے امریکی حکم کو مسترد کردیا۔ جون 1955ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد کو بیوروکریٹس نے مل کر بیماری کی وجہ سے دو ماہ کی رخصت پر بھیج دیا۔ بیورو کریٹ میجر جنرل سکندر مرزا نے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا تو اس نے اگست 1955ء کو 3.3085 روپے سے 4.7697 روپے کا ڈالرکردیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد ہونے سے پورے ملک کی معیشت اسی نسبت سے پیچھے چلی گئی۔ (1)۔ 1952-53ء سے 1954-55ء تک پاکستان کی تجارت سرپلس آرہی تھی۔ مالی سال 1954-55ء تجارت 11 کروڑ97 لاکھ روپے سے سرپلس تھی۔ مالی سال 1955-56ء کو سڈمڈ لگتے ہی تجارت 45 کروڑ 86 لاکھ روپے سے پہلے سے کہیں زیادہ سرپلس ہوگئی۔ اس کی وجہ Currency Devaluation Minus Economic Development کا ہونا تھا۔
انگریزوں کی ہندوستان سے دشمنی اس بات کا ثبوت ہے کہ بنگال کے ململ کے کاریگروں کی بنی ہوئی ململ نہایت ہی عمدہ، پائیدار ہوتی تھی۔ ہندوستانی ململ کو برطانیہ کے امرا بڑے شوق سے استعمال کرتے تھے۔ برطانوی ململ کی مانگ سے کہیں زیادہ مانگ ہندوستانی ململ کی تھی۔ برطانوی حکومت نے بنگال کی ململ کی امپورٹ پر برطانیہ میں سب سے زیادہ ٹیکس لگادیا تاکہ بنگال کی ململ مہنگی ہوجائے اور برطانوی امرا برطانیہ کی ململ استعمال کرنے لگیں۔ انگریز حکومت ٹیکس بڑھاتی گئی لیکن بنگالی ململ کی مانگ میں کمی نہ آئی۔ حالانکہ برطانوی حکومت نے برطانوی ململ کی ہندوستان میں کم سے کم ڈیوٹی کردی۔ برطانوی حکومت کو ٹیکسوں کے ہیر پھیر کرنے کے باوجود ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو انگریزوں نے بنگال کے کاریگروں کے ہاتھ اور انگلیاں کاٹ دیں۔کسی بھی ملک میں جب غیر ملکی برطانیہ کی طرح آتے ہیں تو ان کا مفاد کمزور و پسماندہ ملک کے وسائل اور افرادی قوت کی لوٹ مار ہوتا ہے۔
12 نومبر 2015ء کو اخبارات میں بزنس رپورٹرز کے حوالے سے یہ اہم خبر شایع ہوئی تھی کہ پاکستان نے گوادر فری ٹریڈ زون کی تعمیر کے لیے چھ سو ایکڑ زمین چین کے حوالے کردی تھی۔ چین کو پاکستان نے سب سے پہلے تسلیم کیا تھا۔ پاکستان نے چین کو ایک جہاز تحفے میں دیا تھا۔ جو چینی لیڈر مائوزے تنگ کے زیر استعمال تھا۔ دو ملکوں کے معاشی اور سیاسی یا سفارتی تعلقات برابری کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں تو پائیدار ہوتے ہیں۔ اگر برطانوی طرز کے سابقہ ہندوستان کے راجوں، نوابوں کے جیسے غلامانہ تعلق ہوں تو کمزور ملک کو نقصان ہی نقصان ہوتا ہے۔
برطانوی سامراج ہندوستان میں اس لیے کامیاب ہوا کہ اس نے غداروں کو خریدا۔ ریاستوں کو فتح کرکے اپنے تابعدار حاکم مقرر کیے اور پھر پورے ہندوستان سے ٹیکس وصول کیا۔ ہندوستان، برطانوی سامراج کے لیے کمائومنٹری کا درجہ رکھتا تھا۔ برطانوی سامراج نے 1611ء میں ہندوستان میں تاجروں کی شکل میں مداخلت کی اور 336 سال یعنی 14 اگست 1947ء تک ہندوستان میں موجود رہا اور جنگ آزادی 1857ء کے بعد برطانیہ نے ایسٹ انڈیا کمپنی کا نقاب اتار پھینکا اور 1858 سے براہ راست پورے ہندوستان کا حاکم بن گیا۔
ہندو، مسلم، بدھ مت و دیگر ان تمام کی جڑوں میں انگریزی کلچر کو کامیابی سے داخل کر گیا کہ آج تک ہم 70 سال بعد بھی انگریزی قانونی، انگریزی جمہوریت، انگریزی زبان، انگریزی لباس سے ہم چھٹکارا نہیں پاسکے۔ برطانوی سامراج سے ہمیں نام نہاد آزادی ملی لیکن ساتھ ہی نامکمل آزادی کے ساتھ ہمیں امریکی نئے سامراج نے معاشی غلامی اور سیاسی غلامی میں جکڑلیا۔
سامراج برطانیہ نے 336 سال انڈیا میں مداخلت جاری رکھی۔ عوام سے ٹیکس راجوں، نوابوں سے باجگزاری لے کر برطانیہ منتقل کرتا رہا، خام مال سستے سے سستا خریدتا رہا۔ برطانوی اشیا کو کم سے کم ٹیکس لگا کر پورے ہندوستان میں کھپاتا رہا۔ محکموں کی تعمیرات کا سامان و دیگر سامان برطانیہ سے لاتا رہا۔ ریلوں کی پٹریاں ریلوں کے انجن، ریلوں کے ڈبے، صنعتی کلچر کی تمام مشینری غلام ہندوستان میں من مانی قیمتیں وصول کرکے کھپاتا رہا۔ برطانیہ نے کئی محکمے قائم کیے ان محکموں کے افسران تمام انگریز ہوتے تھے۔ ہندوستانیوں کو نچلے درجے کی ملازمتیں دی جاتی تھیں۔
ایک طرف انگریز مسلمانوں کو اچھوتوں کی طرح برت رہے تھے دوسری طرف ہندوؤں نے مسلمانوں کو اچھوتوں کی طرح برتنا شروع کردیا۔ اور خاص کر 1883ء میں ''انڈین نیشنل کانگریس'' کے بنائے جانے کے بعد ہندوؤں کا رویہ متعصبانہ ہوگیا تھا۔ مسلمانوں کو دو طرف سے ہر طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ آزادی کے بعد کالے انگریز یعنی تمام بیوروکریٹ انگریزیت میں ڈوبے ہوئے تھے اور ان کا ضمیر مر چکا تھا۔ ان کالے انگریزوں نے برطانوی غلامی سے نکلتے ہی امریکی غلامی میں پاکستان کی معیشت اور خارجہ و داخلی پالیسیوں کا محور امریکا کو بنالیا۔ اشرافیہ خود امیر ہوتی گئی عوام غریب ہوتے گئے۔ سامراجی امریکا پہلی عالمی جنگ کے دوران بھیڑیے اور شیطان کی طرح جنگ زدہ یورپ کو اپنے پنجوں میں جکڑ چکا تھا۔ امریکا 2 سال 8 ماہ سے زیادہ عرصہ جنگ سے الگ تھلگ رہ کر معاشی ہتھکنڈے استعمال کررہا تھا۔
جنگ شروع ہوتے ہی یورپی ممالک (1)۔ کرنسی ایکسچینج بحران کی لپیٹ میں آگئے۔ (2)۔ ان ملکوں میں اشیا کی قلت بڑھ گئی، زراعت و فیکٹریاں تباہ ہوتی گئیں۔ (3)۔ تمام متحارب ممالک گولڈ معیار سے ہٹ گئے۔ جب یورپی ممالک آپس میں دفاعی معاہدے کرکے دو گروپوں میں تقسیم ہونے جا رہے تھے تو امریکا بھانپ چکا تھا، امریکا اردگرد کے تمام تر جغرافیائی حالات کا جائزہ لے کر اپنی منصوبہ بندیوں میں لگ چکا تھا۔ 1879ء میں جرمنی آسٹریا ہنگری اور اٹلی کا معاہدہ ہوا۔ 1894ء میں فرانس اور روس نے معاہدہ کرلیا۔ برطانیہ نے 1902ء میں جاپان سے معاہدہ کرلیا۔ 1904ء میں برطانیہ اور فرانس نے معاہدہ کرلیا۔ 1907ء میں روس اور برطانیہ نے معاہدہ کرلیا۔ جرمنی نے ترکی کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ ایک محوری گروپ بن گیا۔ جس میں جرمنی، آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور ترکی تھا۔ دوسرا اتحادی گروپ جس میں برطانیہ، فرانس، روس اور جاپان شامل تھا۔
برطانیہ کی دیر سے شمولیت اس بات کو تقویت دیتی ہے کہ برطانیہ غلام ملکوں سے آزادانہ وسائل، سرمایہ وصول کر رہا تھا۔ دوسرا غلام ہندوستان میں تمام ادارے انگریزوں کی عملداری میں بنانا اور منصوبہ بندیاں کرنا ایسے لگتا ہے کہ برطانیہ ہمیشہ حکومت کرنے کے لیے کر رہا تھا۔ 19 ویں صدی میں صنعتی کلچر عروج پا رہا تھا اور تمام سامراجی ملک ایک دوسرے سے غلام ممالک کی منڈیاں چھیننا چاہتے تھے۔ جب جنگ میں تمام سامراجی ادھ موئے ہوگئے تو چالاک لومڑ کی طرح امریکا نے امریکی ڈالر کا سونے (Gold) سے جڑے رہنے کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس وقت 20.67 امریکی ڈالر کا ایک اونس سونا تھا۔ اسی بنیاد پر سونے کے بدلے امریکا نے یورپی ملکوں کو اشیا سپلائی کرنی شروع کردیں۔
ساتھ ہی ڈالر ان کی معیشت میں داخل کرنا شروع کردیا۔ ان ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتوں کو ڈالر کا قیدی یا غلام بناکر پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد بھی جوڑ توڑ کرتا رہا۔ 15 دسمبر 1923ء کو امریکا نے باقاعدہ اس کے لیے امریکی مالیاتیExchange Equalization Fund کا خصوصی ادارہ قائم کرلیا تھا۔ جو سونے کے بدلے یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے مقررکرتا تھا۔ امریکا کاغذی ڈالروں کے قرضے دے کر یورپی ملکوں کی کرنسیوں کی قیمتیں ڈالر کے مقابلے میں مقرر کر رہا تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں بھی 2 سال 3 ماہ سے زیادہ عرصہ الگ رہ کر امریکا نے آئی ایم ایف کا ادارہ ای ایف ایف کی جگہ دسمبر 1945ء میں قائم کرلیا تھا۔
اس کی پلاننگ 1940ء سے امریکا نے دوران جنگ شروع کردی تھی۔ 1949ء میں امریکی ادارے آئی ایم ایف نے پاکستان پر دباؤ ڈالا کہ پاکستانی کرنسی کی قیمت میں ڈالر کے مقابلے میں کمی کردی جائے۔ شہید خان لیاقت علی خان نے امریکی حکم کو مسترد کردیا۔ جون 1955ء کو گورنر جنرل ملک غلام محمد کو بیوروکریٹس نے مل کر بیماری کی وجہ سے دو ماہ کی رخصت پر بھیج دیا۔ بیورو کریٹ میجر جنرل سکندر مرزا نے قائم مقام گورنر جنرل کا عہدہ سنبھال لیا تو اس نے اگست 1955ء کو 3.3085 روپے سے 4.7697 روپے کا ڈالرکردیا۔ روپے کی قیمت میں کمی 44 فیصد ہونے سے پورے ملک کی معیشت اسی نسبت سے پیچھے چلی گئی۔ (1)۔ 1952-53ء سے 1954-55ء تک پاکستان کی تجارت سرپلس آرہی تھی۔ مالی سال 1954-55ء تجارت 11 کروڑ97 لاکھ روپے سے سرپلس تھی۔ مالی سال 1955-56ء کو سڈمڈ لگتے ہی تجارت 45 کروڑ 86 لاکھ روپے سے پہلے سے کہیں زیادہ سرپلس ہوگئی۔ اس کی وجہ Currency Devaluation Minus Economic Development کا ہونا تھا۔