بڑھتے جاتے ہیں رفتگاں میرے
رسائی بھائی ہمارے تہذیبی سانچے کے آدمی تھے اور اگلے وقتوں کی نشانیوں میں تھے۔
RAWALPINDI:
مرزا محتشم علی بیگ جنھیں ہمارے ادب کی دنیا رسا چغتائی کے نام سے پہچانتی ہے، 5 جنوری 2018ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اُن کی تدفین 6 جنوری کو بعد نمازِ ظہر کورنگی 6 کے قبرستان میں ہوئی۔
زندگی کے مختلف شعبوں اور خصوصاً ادب و شعر کی دنیا کے معروف لوگ اُن کے جنازے میں شریک تھے۔ عام طور سے شکایت کی جاتی ہے جو ایسی بے جا بھی نظر نہیں آتی کہ (خصوصاً) الیکٹرونک میڈیا ہماری تہذیبی اور ادبی شخصیات کے بارے میں بے پروائی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ تاہم اس بار دیکھا گیا کہ سیاسی اسکینڈلز کی گرماگرمی کے اس موسم میں بھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں ہی نے رسا چغتائی صاحب کے انتقال کی خبر کو مناسب توجہ اور وقت دیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔
رسا چغتائی نے ایک بھرپور اور تادمِ آخر فعال ادبی زندگی بسر کی۔ آخری دنوں کی معمولی علالت کے سوا وہ تمام عمر ادبی شخصیات اور تقریبات کے لیے ہمیشہ کشادہ دل رہے۔ انھوں نے لگ بھگ نوے برس کی عمر پائی۔ ضیف العمری کے باوجود وہ نہ صرف تخلیقی سطح پر فعال تھے، بلکہ احباب اور شاگردوں کی دل جوئی اور خوشی کے لیے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہتے تھے۔
اُن کے مداحوں اور قدر دانوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جو صرف کراچی تک محدود نہ تھا، بلکہ ملک کے مختلف شہروں اور متعدد ممالک میں جہاں اردو زبان و ادب کے حلقے ہیں، اُن سے محبت کرنے اور اُن کے کام کو سراہنے والے پائے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونِ ملک سے بھی انھیں مشاعروں کے لیے بہت محبت اور اصرار سے مدعو کیا جاتا تھا۔
رسا چغتائی برطانوی عہد کے ہندوستان کی ریاست راجستھان کے ضلع مادھوپور کے علاقے سوائے میں 1928ء میں متوسط طبقے کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اُن کا ارادہ یہی تھا کہ ہندوستان ہی میں رہیں گے۔ اس لیے کہ اہلِ خانہ، عزیز رشتے دار اور دوست احباب سب وہیں تھے، لیکن بعد میں ایک خیال نے انھیں پاکستان ہجرت پر مائل کیا۔ رسا چغتائی کے بقول یہ وہ دور تھا جب مے نوشی کی رغبت نے انھیں پوری طرح اپنا اسیر کیا ہوا تھا۔
پینے پلانے کا یہ شوق دن دیکھتا تھا اور نہ ہی رات۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ مذہبی رجحان رکھنے والے اہلِ خانہ کے لیے سخت الجھن اور کوفت کا باعث تھا۔ ایک روز رسا چغتائی صاحب نے بھی شدت سے اس بات کو محسوس کیا۔ بس یہی وہ دن تھا جب انھوں نے ہندوستان کو چھوڑنے اور پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔ چلنے سے پہلے انھوں نے بیوی سے کہا کہ اگر وہ اُن کے فیصلے پر راضی نہ ہوں یا مے نوشی کی اس لت سے نالاں ہوں تو بے شک ہندوستان میں ہی رُک جائیں۔ بیوی بولیں، جو بھی ہے، میرا تو مرنا جینا اب آپ ہی کے ساتھ ہے۔ چناںچہ اطمینان سے اُن کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔
یہ 1950ء کی بات ہے جب انھوں نے ہندوستان سے چلنے کی ٹھانی۔ حالات دگرگوں تھے۔ پاکستان پہنچنے کے لیے آگ اور خون کے دریا پار کرنے پڑتے تھے۔ رسا چغتائی صاحب ہندوستان سے نکلنے کی ٹھان چکے تھے۔ صورتِ حال سفر کی اجازت نہ دیتی تھی، لیکن وہ چل دیے۔ انھیں کئی مہینے ہندوستانی کیمپ میں گزارنے پڑے اور 1951ء میں یہ موقع ملا کہ وہ پاکستان پہنچیں۔ یہاں آکر انھوں نے کراچی میں رہائش اختیار کی۔ گزر اوقات کے لیے مالیات کے شعبے میں ملازمت مل گئی۔
طویل عرصہ اُس سے وابستہ رہے، لیکن پھر ملازمت سے سبک دوشی کا فیصلہ کیا اور 1977ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر الگ ہوگئے۔ اس کے بعد وہ روزنامہ ''حریت'' سے وابستہ ہوئے اور 1989ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کہیں ملازمت نہیں کی۔ گزربسر کے لیے مشاعروں میں شرکت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصار کیا۔
رسا چغتائی صاحب مزاجاً، طبعاً اور فطرتاً شاعر تھے- اور شاعر بھی اُس سانچے کے تھے کہ جس کے بارے میں عام تأثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی ہی دُھن میں رہتا ہے۔ وہ بھی ذاتی حیثیت میں کچھ اسی وضع کے فن کار تھے، لیکن جہاں تک عائلی زندگی اور اس کی ذمے داریوں کا معاملہ ہے، رسا چغتائی صاحب غافل یا بے پروا انسان نہیں تھے۔ بیوی بچوں کے لیے جو کچھ ممکن تھا، وہ ہمیشہ کرتے رہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ کورنگی کا وہ مکان جو اس بستی کے بسائے جانے کے بعد انھوں نے اہلِ خانہ کے لیے بڑے چاؤ سے بنایا تھا اور جہاں انھوں نے لگ بھگ نصف صدی سے زائد کا عرصہ بسر کیا، انتقال سے کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے بیچ دیا تھا۔ یقینا یہ فیصلہ اُن کے لیے پریشان کن، بلکہ تکلیف دہ بھی رہا ہوگا، لیکن ظاہر ہے اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ جائیداد میں اولاد کا جو حصہ ہے، وہ اپنے ہاتھ سے انھیں دے دیا جائے۔
رسا بھائی سے صاحب سلامت اور ذاتی ملاقاتوں کا موقع تو کہیں بعد میں آیا، اُن کی شاعری سے تعارف بہت پہلے ہوگیا۔ یہ ہماری جواں عمری کے دن تھے اور رسا بھائی کے ایسے شعر دل و دماغ پر کچھ اور انداز سے اثر کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو شعر کیا تھے، احوال کا بیان تھے اور جیسے قال کو حال کی سطح پر سمجھنے کا نسخہ بھی۔
گرمی اُس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی
-----
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
اور یہ شعر تو جیسے عجب طرح سے اثر کرتا تھا:
صرف مانع تھی حیا ، بندِ قبا کھلنے تک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا
رسا بھائی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بعد میں آغاز ہوا تو، راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں والا معاملہ یقینا نہیں تھا۔ ہاں اس کا ایک اہم سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مشاعروں میں تو آجاتے تھے، لیکن ادبی تقریبات میں ذرا کم کم ہی شریک ہوتے تھے۔ اِدھر یہ حال کہ مشاعرے میں جانے کا موقع بھولے سے بھی نہ آپاتا تھا۔ سو، ملاقات ہو تو کیوں کر۔ خیر، ملاقات کی صورت بھی خوب نکلی۔ ہوا یہ کہ ایک روز کوئی صاحب دفتر پہنچے۔ ہم کہیں باہر تھے۔ وہ ایک بند لفافہ چھوڑ گئے۔ کھول کر دیکھا۔ اس میں ایک مختصر سا رقعہ تھا۔ کچھ اس قسم کا مضمون تھا کہ تمھاری چیزیں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ خوشی ہوتی ہے۔
مزید توفیق کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اس وقت ایک کام سے رقعہ لکھ رہا ہوں، امید ہے مایوس نہ کرو گے۔ فلاں صاحب شعر کہتے ہیں اور اچھا کہتے ہیں۔ ان کا مجموعہ شائع ہوا ہے۔ اس کی رونمائی آرٹس کونسل میں ہو رہی ہے۔ ان کی خواہش ہے اور میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم اس کی کتاب پر تقریب میں آکر بات کرو۔ یہ رقعہ پہلے بھیج رہا ہوں۔ ایک آدھ دن میں شاعر صاحب خود آکر ملیں گے اور مجموعہ بھی تم کو دیں گے۔ وہ اپنی تقریب کی تفصیل سے بھی آگاہ کریں گے۔ دعائیں۔
یہ رقعہ رسا بھائی کی طرف سے تھا۔ رقعے کے سادہ اور راست اندازِ نگارش نے دل ہی تو موہ لیا۔ انکار کا بھلا کیا سوال تھا۔ تقریب میں پہنچے تو رسا بھائی پہلے سے آئے تھے، اور کھڑے ہوئے کچھ بات کررہے تھے۔ کئی لوگ حلقہ کیے ہوئے ہمہ تن گوش تھے۔ ہم نے جاکر سلام کیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انھوں نے گلے سے لگالیا۔ اُس کے بعد اُن کا یہ ہمیشہ کا معمول رہا۔ رسا بھائی سے جہاں ملاقات ہوتی، وہ اسی تپاک اور محبت سے پیش آتے۔ ہمارے چھوٹے موٹے کام کا ذکر کرتے اور دل بڑھاتے۔
اصل میں رسائی بھائی ہمارے تہذیبی سانچے کے آدمی تھے اور اگلے وقتوں کی نشانیوں میں تھے۔ وضع قطع، لباس، مزاج، طرزِ کلام اور تعلقات میں رکھ رکھاؤ غرضے کہ کسی بھی رُخ سے دیکھ لیجیے، اُن کے یہاں شخصیت کا ہر رنگ اُس تہذیب کا آئینہ دار نظر آتا ہے، اوائلِ عمر سے ہی وہ جس کے رنگ میں رنگتے چلے آئے تھے۔ انفرادی شخصیت کے خدوخال سے لے کر اجتماعی رویوں تک اُن کے یہاں پوری طرح اس تہذیب کی عمل داری نظر آتی تھی۔
رسا بھائی کوئی بہت مذہبی آدمی نہیں تھے، لیکن وہ اُن لوگوں میں بھی نہیں تھے جو اپنی آزاد مشربی اور روشن خیالی کے اظہار کے لیے مذہب اور اہلِ مذہب کو تفریح اور استہزا کا ذریعہ بنانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا کہ کہ وہ جس طرح گرم جوشی سے آزاد منش لوگوں سے ملتے تھے، وہی طور وہ اہلِ مذہب کے لیے بھی اختیار کرتے۔ وہ جس تہذیب کے پروردہ تھے، یہ اسی کی دین تھی۔ افکار و نظریات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اس تہذیب میں سب سے پہلے تو آدمی کی قدر کی جاتی تھی۔ اس کی تکریم کو اوّلیت دی جاتی تھی۔
رسا بھائی ویسے مذہب سے بالکل بیگانے بھی نہیں تھے۔ برادرم اجمل سراج بتا رہے تھے کہ میں ایک روز ملنے کے لیے گیا۔ یہ کوئی عصر کی نماز کا وقت تھا۔ کمرے میں پہنچا تو دیکھا وہ بڑے خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں۔ فارغ ہوئے تو میں نے کہا، ''رسا بھائی! آج تو آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ کیا روز پڑھتے ہیں؟''
وہ مسکرائے بولے، ''پیارے صاحب بس پڑھ لیتا ہوں، جب پڑھنی ہو۔'' ذرا تأمل کیا پھر کہا، ''دیکھو، میں تو بس اُس سے یہ کہتا ہوں کہ میں تیرا باغی تھوڑی ہوں۔ تیرا بندہ ہوں، بس تیرا۔''
سچ ہے، خداے بزرگ و برتر سے سب کا اپنا رشتہ ہوتا ہے۔
رسا بھائی نے زندگی تو اسی دنیا میں گزاری، لیکن جاننے والے جانتے ہیں اور دیکھنے والے گواہی دیں گے کہ انھیں دنیا طلبی اور دنیا داری سے کچھ علاقہ نہ تھا۔ طبیعت میں قناعت تھی۔ قلندرانہ مزاج تھا۔ انھوں نے زندگی کی ضرورتوں کو ضرورت ہی سمجھا، کبھی اُن کے لیے اپنی وضع نہ بدلی۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ کورنگی میں جاکر بسے تو باقی عمر کے پچاس پچپن برس وہیں گزار دیے۔ کسی دوڑ کا حصہ بنے اور نہ ہی طلب گاروں کی کسی قطار میں کھڑے نظر آئے۔ بیرونی ممالک سے مشاعروں کی دعوت آتی، جانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوتی تو صاف انکار کردیتے۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ منتظمین نے خیال کیا کہ شاید مشاہرہ یا نذرانہ کم معلوم ہوتا ہے، اس لیے انکار کرتے ہیں۔ انھوں نے بڑھا کر دینے کی بات کی اور اتنا بڑھا کر کہ دگنے سے بھی زیادہ کیا، تین گنا تک کہا، لیکن رسا بھائی کو نہ جانا تھا اور نہ گئے۔ مال کا زور انھیں کسی بات پر آمادہ کرے، یہ ممکن نہ تھا۔ دوسری طرف وضع داری کا یہ عالم کہ خوردوں میں سے بھی کسی نے مشاعرے یا تقریب میں آنے کی فرمائش کی تو رسا بھائی نے کوئی سوال کیا اور نہ تفصیل جاننی چاہی، فوراً آمادگی کا اظہار کردیا۔
سال بھر پہلے کی بات ہے، جمال بھائی (جمال پانی پتی) مرحوم کے بیٹے رضوان احمد نے قیصر عالم اور فراست رضوی سے اُن کا مجموعہ مرتب کروا کر اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس موقعے پر جمال بھائی کے لیے آرٹس کونسل کراچی میں ایک عمدہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ پہلے حصے میں جمال بھائی کی شخصیت اور کام کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ دوسرے حصے میں مشاعرہ تھا۔ رسا بھائی سے بات کرنے کی ذمے داری ہمیں سونپی گئی۔ ہم نے فون کیا اور بتایا کہ جمال بھائی کے لیے ایک پروگرام کررہے ہیں۔ مشاعرہ بھی ہوگا اور آپ کو صدارت کرنی ہے۔ رسا بھائی نے کسی تکلف کے بغیر ہامی بھرلی۔ پھر بولے، ''اسٹیج پر نہ بٹھاؤ۔ جاڑوں کے دن ہیں، مجھے پیشاب زیادہ آتا ہے، بار بار جانا پڑتا ہے۔''
عرض کیا، ''صدارت تو آپ ہی کی ہوگی۔ آپ جب کہیں گے آپ کو واش روم لے چلیں گے۔'' بولے، ''اچھا، جو تمھاری خوشی۔'' پروگرام سے ایک دن پہلے فون کیا اور بتایا کہ آپ کو لانے کی ذمے داری برادرم کاشف حسین غائر کو سونپی ہے۔ کہنے لگے، ''یہ بہت اچھا ہے، آسانی ہو جائے گی مجھے۔'' کراچی میں جیسی سردی اُن دنوں پڑ رہی تھی، ایسی کم ہی پڑتی ہے۔ رسا بھائی کی طبیعت اچھی نہیں تھی، لیکن وہ آئے اور مشاعرے کی صدارت بھی کی۔ طبیعت نے پریشان کیا تو بولے، ''بیٹھا نہیں جارہا۔ برا نہ مانو تو مجھے پڑھوا کر بھیج دو۔'' اللہ اکبر۔ کس وضع اور کیسی تہذیب کے آدمی تھے۔
رسا بھائی اگلے وقتوں کے آدمی تھے۔ اُن کی شاعری کا مزاج بھی روایت کے رنگوں سے ترکیب پاتا ہے۔ غمِ جاں، غمِ دنیا، آسماں سے شکایت اور وقت کی بے مہری اور وقت کا گلہ ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ تاہم یہ معاملہ صرف رنگِ سخن تک ہے۔ زندگی میں اُن کے یہاں ہم نے آسماں کی شکایت اور وقت کا گلہ کبھی نہیں دیکھا۔ دنیا کا شکوہ کرتے ہوئے وہ کبھی نظر نہ آئے۔ یہ سمجھنا تو سراسر غلط ہوگا کہ انھیں زندگی اور زمانے کی تلخیوں سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہوگا۔ ضرور پڑا ہوگا، آخر آدمی تھے وہ بھی اور دل بھی دکھا ہوگا، لیکن ایسے کسی بھی مسئلے کو انھوں نے کبھی دیر تک دل و دماغ میں نہیں رکھا۔
مسائل اور تکلیفوں سے ان کا معاملہ بہت سیدھا تھا۔ وہ انھیں زندگی کا حصہ سمجھتے تھے، کُل زندگی نہیں۔ اس لیے وہ ان کے اثر میں نہیں رہتے تھے۔ احباب سے بھی وہ اسی طریقے کی توقع رکھتے تھے۔ کسی عزیز کو یا دوست کو الجھن میں دیکھتے تو کہتے، ''پیارے صاحب، یہ زندگی ہے، اس کے ساتھ بکھیڑے تو لگے ہوں گے ناں۔'' کسی سے زیادہ بے تکلفی سے کہتے، ''ابے کاہے کو الجھتا ہے۔ جینا ہے تو جوکھم بھی اٹھانا ہی پڑے گا۔''
سچ یہ ہے کہ رسا بھائی نے بھرپور اور کارآمد زندگی گزاری۔ ایک ایسی زندگی جس میں اہلِ خانہ، شاگردوں اور دوست احباب سب کا حصہ تھا۔ وقت کا عمل اور عمر کا سفر سب پر تھکن لادتا چلا جاتا ہے۔ تھکن رسا بھائی پر بھی اُتری ہوگی، لیکن انھوں نے اس تھکن کو خود پر سوار نہیں کیا۔ جھاڑ کر خود کو ہلکا کرتے رہتے تھے، بلکہ دوستوں اور ملنے والوں کو بھی ہلکا رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ زندگی کو تاعمر زندگی سمجھا، بیگار نہیں بننے دیا۔ اس سانچے کے لوگ اور اس نمونے کی شخصیات تیزی سے مٹتی جاتی ہیں:
گھٹتی جاتی ہے رونقِ دنیا
بڑھتے جاتے ہیں رفتگاں میرے
لیجیے، آخر میں اُن کے چند شعر دیکھ لیجیے:
آئینہ آئینہ رہا پھر بھی
لاکھ در پردۂ غبار رہا
-----
کب تلک جھوٹ بولتے صاحب
اس طرح خاندان کے آگے
-----
لطفِ دیوانگی نہیں آیا
بزم میں لوگ تھے شناسا کچھ
-----
دیکھتی کیا ہے اے نگاہِ کرم
میرے دستِ سوال میں کیا ہے
تو نہیں ہے تو کون ہے مجھ میں
فرق ہجر و وصال میں کیا ہے
بات اظہارِ حال میں کیا تھی
راز اخفائے حال میں کیا ہے
-----
زلف اُس کی ہے جو اسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنالے جائے
خاک ہونا ہی جب مقدر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے
-----
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
اک چراغ بجھتا ہے، اک چراغ جلتا ہے
شرط غم گساری ہے ورنہ یوں تو سایہ بھی
دور دور رہتا ہے، ساتھ ساتھ چلتا ہے
مرزا محتشم علی بیگ جنھیں ہمارے ادب کی دنیا رسا چغتائی کے نام سے پہچانتی ہے، 5 جنوری 2018ء کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ اُن کی تدفین 6 جنوری کو بعد نمازِ ظہر کورنگی 6 کے قبرستان میں ہوئی۔
زندگی کے مختلف شعبوں اور خصوصاً ادب و شعر کی دنیا کے معروف لوگ اُن کے جنازے میں شریک تھے۔ عام طور سے شکایت کی جاتی ہے جو ایسی بے جا بھی نظر نہیں آتی کہ (خصوصاً) الیکٹرونک میڈیا ہماری تہذیبی اور ادبی شخصیات کے بارے میں بے پروائی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ تاہم اس بار دیکھا گیا کہ سیاسی اسکینڈلز کی گرماگرمی کے اس موسم میں بھی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا دونوں ہی نے رسا چغتائی صاحب کے انتقال کی خبر کو مناسب توجہ اور وقت دیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔
رسا چغتائی نے ایک بھرپور اور تادمِ آخر فعال ادبی زندگی بسر کی۔ آخری دنوں کی معمولی علالت کے سوا وہ تمام عمر ادبی شخصیات اور تقریبات کے لیے ہمیشہ کشادہ دل رہے۔ انھوں نے لگ بھگ نوے برس کی عمر پائی۔ ضیف العمری کے باوجود وہ نہ صرف تخلیقی سطح پر فعال تھے، بلکہ احباب اور شاگردوں کی دل جوئی اور خوشی کے لیے ادبی محفلوں اور مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہتے تھے۔
اُن کے مداحوں اور قدر دانوں کا ایک وسیع حلقہ تھا جو صرف کراچی تک محدود نہ تھا، بلکہ ملک کے مختلف شہروں اور متعدد ممالک میں جہاں اردو زبان و ادب کے حلقے ہیں، اُن سے محبت کرنے اور اُن کے کام کو سراہنے والے پائے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرونِ ملک سے بھی انھیں مشاعروں کے لیے بہت محبت اور اصرار سے مدعو کیا جاتا تھا۔
رسا چغتائی برطانوی عہد کے ہندوستان کی ریاست راجستھان کے ضلع مادھوپور کے علاقے سوائے میں 1928ء میں متوسط طبقے کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ قیامِ پاکستان کے بعد اُن کا ارادہ یہی تھا کہ ہندوستان ہی میں رہیں گے۔ اس لیے کہ اہلِ خانہ، عزیز رشتے دار اور دوست احباب سب وہیں تھے، لیکن بعد میں ایک خیال نے انھیں پاکستان ہجرت پر مائل کیا۔ رسا چغتائی کے بقول یہ وہ دور تھا جب مے نوشی کی رغبت نے انھیں پوری طرح اپنا اسیر کیا ہوا تھا۔
پینے پلانے کا یہ شوق دن دیکھتا تھا اور نہ ہی رات۔ ظاہر ہے کہ یہ رویہ مذہبی رجحان رکھنے والے اہلِ خانہ کے لیے سخت الجھن اور کوفت کا باعث تھا۔ ایک روز رسا چغتائی صاحب نے بھی شدت سے اس بات کو محسوس کیا۔ بس یہی وہ دن تھا جب انھوں نے ہندوستان کو چھوڑنے اور پاکستان ہجرت کا فیصلہ کیا۔ چلنے سے پہلے انھوں نے بیوی سے کہا کہ اگر وہ اُن کے فیصلے پر راضی نہ ہوں یا مے نوشی کی اس لت سے نالاں ہوں تو بے شک ہندوستان میں ہی رُک جائیں۔ بیوی بولیں، جو بھی ہے، میرا تو مرنا جینا اب آپ ہی کے ساتھ ہے۔ چناںچہ اطمینان سے اُن کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔
یہ 1950ء کی بات ہے جب انھوں نے ہندوستان سے چلنے کی ٹھانی۔ حالات دگرگوں تھے۔ پاکستان پہنچنے کے لیے آگ اور خون کے دریا پار کرنے پڑتے تھے۔ رسا چغتائی صاحب ہندوستان سے نکلنے کی ٹھان چکے تھے۔ صورتِ حال سفر کی اجازت نہ دیتی تھی، لیکن وہ چل دیے۔ انھیں کئی مہینے ہندوستانی کیمپ میں گزارنے پڑے اور 1951ء میں یہ موقع ملا کہ وہ پاکستان پہنچیں۔ یہاں آکر انھوں نے کراچی میں رہائش اختیار کی۔ گزر اوقات کے لیے مالیات کے شعبے میں ملازمت مل گئی۔
طویل عرصہ اُس سے وابستہ رہے، لیکن پھر ملازمت سے سبک دوشی کا فیصلہ کیا اور 1977ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر الگ ہوگئے۔ اس کے بعد وہ روزنامہ ''حریت'' سے وابستہ ہوئے اور 1989ء تک وہاں کام کرتے رہے۔ اس کے بعد کہیں ملازمت نہیں کی۔ گزربسر کے لیے مشاعروں میں شرکت سے حاصل ہونے والی آمدنی پر انحصار کیا۔
رسا چغتائی صاحب مزاجاً، طبعاً اور فطرتاً شاعر تھے- اور شاعر بھی اُس سانچے کے تھے کہ جس کے بارے میں عام تأثر یہ پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی ہی دُھن میں رہتا ہے۔ وہ بھی ذاتی حیثیت میں کچھ اسی وضع کے فن کار تھے، لیکن جہاں تک عائلی زندگی اور اس کی ذمے داریوں کا معاملہ ہے، رسا چغتائی صاحب غافل یا بے پروا انسان نہیں تھے۔ بیوی بچوں کے لیے جو کچھ ممکن تھا، وہ ہمیشہ کرتے رہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ کورنگی کا وہ مکان جو اس بستی کے بسائے جانے کے بعد انھوں نے اہلِ خانہ کے لیے بڑے چاؤ سے بنایا تھا اور جہاں انھوں نے لگ بھگ نصف صدی سے زائد کا عرصہ بسر کیا، انتقال سے کوئی سال ڈیڑھ سال پہلے بیچ دیا تھا۔ یقینا یہ فیصلہ اُن کے لیے پریشان کن، بلکہ تکلیف دہ بھی رہا ہوگا، لیکن ظاہر ہے اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ جائیداد میں اولاد کا جو حصہ ہے، وہ اپنے ہاتھ سے انھیں دے دیا جائے۔
رسا بھائی سے صاحب سلامت اور ذاتی ملاقاتوں کا موقع تو کہیں بعد میں آیا، اُن کی شاعری سے تعارف بہت پہلے ہوگیا۔ یہ ہماری جواں عمری کے دن تھے اور رسا بھائی کے ایسے شعر دل و دماغ پر کچھ اور انداز سے اثر کرتے تھے۔ سچ پوچھیے تو شعر کیا تھے، احوال کا بیان تھے اور جیسے قال کو حال کی سطح پر سمجھنے کا نسخہ بھی۔
گرمی اُس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی
-----
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسمِ بہار رہا
اور یہ شعر تو جیسے عجب طرح سے اثر کرتا تھا:
صرف مانع تھی حیا ، بندِ قبا کھلنے تک
پھر تو وہ جانِ حیا ایسا کھلا، ایسا کھلا
رسا بھائی سے ملاقاتوں کا سلسلہ بعد میں آغاز ہوا تو، راہ میں ہم ملیں کہاں بزم میں وہ بلائے کیوں والا معاملہ یقینا نہیں تھا۔ ہاں اس کا ایک اہم سبب یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ مشاعروں میں تو آجاتے تھے، لیکن ادبی تقریبات میں ذرا کم کم ہی شریک ہوتے تھے۔ اِدھر یہ حال کہ مشاعرے میں جانے کا موقع بھولے سے بھی نہ آپاتا تھا۔ سو، ملاقات ہو تو کیوں کر۔ خیر، ملاقات کی صورت بھی خوب نکلی۔ ہوا یہ کہ ایک روز کوئی صاحب دفتر پہنچے۔ ہم کہیں باہر تھے۔ وہ ایک بند لفافہ چھوڑ گئے۔ کھول کر دیکھا۔ اس میں ایک مختصر سا رقعہ تھا۔ کچھ اس قسم کا مضمون تھا کہ تمھاری چیزیں نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔ خوشی ہوتی ہے۔
مزید توفیق کے لیے دعا کرتا ہوں۔ اس وقت ایک کام سے رقعہ لکھ رہا ہوں، امید ہے مایوس نہ کرو گے۔ فلاں صاحب شعر کہتے ہیں اور اچھا کہتے ہیں۔ ان کا مجموعہ شائع ہوا ہے۔ اس کی رونمائی آرٹس کونسل میں ہو رہی ہے۔ ان کی خواہش ہے اور میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ تم اس کی کتاب پر تقریب میں آکر بات کرو۔ یہ رقعہ پہلے بھیج رہا ہوں۔ ایک آدھ دن میں شاعر صاحب خود آکر ملیں گے اور مجموعہ بھی تم کو دیں گے۔ وہ اپنی تقریب کی تفصیل سے بھی آگاہ کریں گے۔ دعائیں۔
یہ رقعہ رسا بھائی کی طرف سے تھا۔ رقعے کے سادہ اور راست اندازِ نگارش نے دل ہی تو موہ لیا۔ انکار کا بھلا کیا سوال تھا۔ تقریب میں پہنچے تو رسا بھائی پہلے سے آئے تھے، اور کھڑے ہوئے کچھ بات کررہے تھے۔ کئی لوگ حلقہ کیے ہوئے ہمہ تن گوش تھے۔ ہم نے جاکر سلام کیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انھوں نے گلے سے لگالیا۔ اُس کے بعد اُن کا یہ ہمیشہ کا معمول رہا۔ رسا بھائی سے جہاں ملاقات ہوتی، وہ اسی تپاک اور محبت سے پیش آتے۔ ہمارے چھوٹے موٹے کام کا ذکر کرتے اور دل بڑھاتے۔
اصل میں رسائی بھائی ہمارے تہذیبی سانچے کے آدمی تھے اور اگلے وقتوں کی نشانیوں میں تھے۔ وضع قطع، لباس، مزاج، طرزِ کلام اور تعلقات میں رکھ رکھاؤ غرضے کہ کسی بھی رُخ سے دیکھ لیجیے، اُن کے یہاں شخصیت کا ہر رنگ اُس تہذیب کا آئینہ دار نظر آتا ہے، اوائلِ عمر سے ہی وہ جس کے رنگ میں رنگتے چلے آئے تھے۔ انفرادی شخصیت کے خدوخال سے لے کر اجتماعی رویوں تک اُن کے یہاں پوری طرح اس تہذیب کی عمل داری نظر آتی تھی۔
رسا بھائی کوئی بہت مذہبی آدمی نہیں تھے، لیکن وہ اُن لوگوں میں بھی نہیں تھے جو اپنی آزاد مشربی اور روشن خیالی کے اظہار کے لیے مذہب اور اہلِ مذہب کو تفریح اور استہزا کا ذریعہ بنانا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم نے تو ہمیشہ یہی دیکھا کہ کہ وہ جس طرح گرم جوشی سے آزاد منش لوگوں سے ملتے تھے، وہی طور وہ اہلِ مذہب کے لیے بھی اختیار کرتے۔ وہ جس تہذیب کے پروردہ تھے، یہ اسی کی دین تھی۔ افکار و نظریات کی اہمیت اپنی جگہ، لیکن اس تہذیب میں سب سے پہلے تو آدمی کی قدر کی جاتی تھی۔ اس کی تکریم کو اوّلیت دی جاتی تھی۔
رسا بھائی ویسے مذہب سے بالکل بیگانے بھی نہیں تھے۔ برادرم اجمل سراج بتا رہے تھے کہ میں ایک روز ملنے کے لیے گیا۔ یہ کوئی عصر کی نماز کا وقت تھا۔ کمرے میں پہنچا تو دیکھا وہ بڑے خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں۔ فارغ ہوئے تو میں نے کہا، ''رسا بھائی! آج تو آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا۔ کیا روز پڑھتے ہیں؟''
وہ مسکرائے بولے، ''پیارے صاحب بس پڑھ لیتا ہوں، جب پڑھنی ہو۔'' ذرا تأمل کیا پھر کہا، ''دیکھو، میں تو بس اُس سے یہ کہتا ہوں کہ میں تیرا باغی تھوڑی ہوں۔ تیرا بندہ ہوں، بس تیرا۔''
سچ ہے، خداے بزرگ و برتر سے سب کا اپنا رشتہ ہوتا ہے۔
رسا بھائی نے زندگی تو اسی دنیا میں گزاری، لیکن جاننے والے جانتے ہیں اور دیکھنے والے گواہی دیں گے کہ انھیں دنیا طلبی اور دنیا داری سے کچھ علاقہ نہ تھا۔ طبیعت میں قناعت تھی۔ قلندرانہ مزاج تھا۔ انھوں نے زندگی کی ضرورتوں کو ضرورت ہی سمجھا، کبھی اُن کے لیے اپنی وضع نہ بدلی۔ اب یہی دیکھ لیجیے کہ کورنگی میں جاکر بسے تو باقی عمر کے پچاس پچپن برس وہیں گزار دیے۔ کسی دوڑ کا حصہ بنے اور نہ ہی طلب گاروں کی کسی قطار میں کھڑے نظر آئے۔ بیرونی ممالک سے مشاعروں کی دعوت آتی، جانے پر طبیعت آمادہ نہ ہوتی تو صاف انکار کردیتے۔
کئی بار ایسا بھی ہوا کہ منتظمین نے خیال کیا کہ شاید مشاہرہ یا نذرانہ کم معلوم ہوتا ہے، اس لیے انکار کرتے ہیں۔ انھوں نے بڑھا کر دینے کی بات کی اور اتنا بڑھا کر کہ دگنے سے بھی زیادہ کیا، تین گنا تک کہا، لیکن رسا بھائی کو نہ جانا تھا اور نہ گئے۔ مال کا زور انھیں کسی بات پر آمادہ کرے، یہ ممکن نہ تھا۔ دوسری طرف وضع داری کا یہ عالم کہ خوردوں میں سے بھی کسی نے مشاعرے یا تقریب میں آنے کی فرمائش کی تو رسا بھائی نے کوئی سوال کیا اور نہ تفصیل جاننی چاہی، فوراً آمادگی کا اظہار کردیا۔
سال بھر پہلے کی بات ہے، جمال بھائی (جمال پانی پتی) مرحوم کے بیٹے رضوان احمد نے قیصر عالم اور فراست رضوی سے اُن کا مجموعہ مرتب کروا کر اس کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ اس موقعے پر جمال بھائی کے لیے آرٹس کونسل کراچی میں ایک عمدہ تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ پہلے حصے میں جمال بھائی کی شخصیت اور کام کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔ دوسرے حصے میں مشاعرہ تھا۔ رسا بھائی سے بات کرنے کی ذمے داری ہمیں سونپی گئی۔ ہم نے فون کیا اور بتایا کہ جمال بھائی کے لیے ایک پروگرام کررہے ہیں۔ مشاعرہ بھی ہوگا اور آپ کو صدارت کرنی ہے۔ رسا بھائی نے کسی تکلف کے بغیر ہامی بھرلی۔ پھر بولے، ''اسٹیج پر نہ بٹھاؤ۔ جاڑوں کے دن ہیں، مجھے پیشاب زیادہ آتا ہے، بار بار جانا پڑتا ہے۔''
عرض کیا، ''صدارت تو آپ ہی کی ہوگی۔ آپ جب کہیں گے آپ کو واش روم لے چلیں گے۔'' بولے، ''اچھا، جو تمھاری خوشی۔'' پروگرام سے ایک دن پہلے فون کیا اور بتایا کہ آپ کو لانے کی ذمے داری برادرم کاشف حسین غائر کو سونپی ہے۔ کہنے لگے، ''یہ بہت اچھا ہے، آسانی ہو جائے گی مجھے۔'' کراچی میں جیسی سردی اُن دنوں پڑ رہی تھی، ایسی کم ہی پڑتی ہے۔ رسا بھائی کی طبیعت اچھی نہیں تھی، لیکن وہ آئے اور مشاعرے کی صدارت بھی کی۔ طبیعت نے پریشان کیا تو بولے، ''بیٹھا نہیں جارہا۔ برا نہ مانو تو مجھے پڑھوا کر بھیج دو۔'' اللہ اکبر۔ کس وضع اور کیسی تہذیب کے آدمی تھے۔
رسا بھائی اگلے وقتوں کے آدمی تھے۔ اُن کی شاعری کا مزاج بھی روایت کے رنگوں سے ترکیب پاتا ہے۔ غمِ جاں، غمِ دنیا، آسماں سے شکایت اور وقت کی بے مہری اور وقت کا گلہ ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ تاہم یہ معاملہ صرف رنگِ سخن تک ہے۔ زندگی میں اُن کے یہاں ہم نے آسماں کی شکایت اور وقت کا گلہ کبھی نہیں دیکھا۔ دنیا کا شکوہ کرتے ہوئے وہ کبھی نظر نہ آئے۔ یہ سمجھنا تو سراسر غلط ہوگا کہ انھیں زندگی اور زمانے کی تلخیوں سے کبھی واسطہ نہ پڑا ہوگا۔ ضرور پڑا ہوگا، آخر آدمی تھے وہ بھی اور دل بھی دکھا ہوگا، لیکن ایسے کسی بھی مسئلے کو انھوں نے کبھی دیر تک دل و دماغ میں نہیں رکھا۔
مسائل اور تکلیفوں سے ان کا معاملہ بہت سیدھا تھا۔ وہ انھیں زندگی کا حصہ سمجھتے تھے، کُل زندگی نہیں۔ اس لیے وہ ان کے اثر میں نہیں رہتے تھے۔ احباب سے بھی وہ اسی طریقے کی توقع رکھتے تھے۔ کسی عزیز کو یا دوست کو الجھن میں دیکھتے تو کہتے، ''پیارے صاحب، یہ زندگی ہے، اس کے ساتھ بکھیڑے تو لگے ہوں گے ناں۔'' کسی سے زیادہ بے تکلفی سے کہتے، ''ابے کاہے کو الجھتا ہے۔ جینا ہے تو جوکھم بھی اٹھانا ہی پڑے گا۔''
سچ یہ ہے کہ رسا بھائی نے بھرپور اور کارآمد زندگی گزاری۔ ایک ایسی زندگی جس میں اہلِ خانہ، شاگردوں اور دوست احباب سب کا حصہ تھا۔ وقت کا عمل اور عمر کا سفر سب پر تھکن لادتا چلا جاتا ہے۔ تھکن رسا بھائی پر بھی اُتری ہوگی، لیکن انھوں نے اس تھکن کو خود پر سوار نہیں کیا۔ جھاڑ کر خود کو ہلکا کرتے رہتے تھے، بلکہ دوستوں اور ملنے والوں کو بھی ہلکا رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ زندگی کو تاعمر زندگی سمجھا، بیگار نہیں بننے دیا۔ اس سانچے کے لوگ اور اس نمونے کی شخصیات تیزی سے مٹتی جاتی ہیں:
گھٹتی جاتی ہے رونقِ دنیا
بڑھتے جاتے ہیں رفتگاں میرے
لیجیے، آخر میں اُن کے چند شعر دیکھ لیجیے:
آئینہ آئینہ رہا پھر بھی
لاکھ در پردۂ غبار رہا
-----
کب تلک جھوٹ بولتے صاحب
اس طرح خاندان کے آگے
-----
لطفِ دیوانگی نہیں آیا
بزم میں لوگ تھے شناسا کچھ
-----
دیکھتی کیا ہے اے نگاہِ کرم
میرے دستِ سوال میں کیا ہے
تو نہیں ہے تو کون ہے مجھ میں
فرق ہجر و وصال میں کیا ہے
بات اظہارِ حال میں کیا تھی
راز اخفائے حال میں کیا ہے
-----
زلف اُس کی ہے جو اسے چھولے
بات اُس کی ہے جو بنالے جائے
خاک ہونا ہی جب مقدر ہے
اب جہاں بختِ نارسا لے جائے
-----
جب بھی تیری یادوں کا سلسلہ سا چلتا ہے
اک چراغ بجھتا ہے، اک چراغ جلتا ہے
شرط غم گساری ہے ورنہ یوں تو سایہ بھی
دور دور رہتا ہے، ساتھ ساتھ چلتا ہے