خودکش حملے حرام جہاد ریاست کا اختیار دہشت گردی کیخلاف متفقہ بیانیہ’’پیغام پاکستان‘‘ جاری
خودکش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں،1800 سے زائد علما کے فتوے کو اداروں کی تائید بھی حاصل ہے،صدر مملکت
لاہور:
صدر مملکت ممنون حسین نے انتہا پسندی کے سدباب اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوم کا متفقہ بیانیہ ''پیغام پاکستان'' جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن و سنت اور قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں تشکیل پانے والا آئین پاکستان ہی ہمارا بنیادی بیانیہ ہے، خودکش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں، خوشی ہے متفقہ فتوے کو اداروں کی تائید بھی حاصل ہے۔
علماء کا فتویٰ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ وہ ایوان صدر میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے زیراہتمام متفقہ قومی بیانیہ کے حوالہ سے شائع ہونے والی کتاب ''پیغام پاکستان'' کے اجراء کے موقع پر خطاب کر رہے تھے جس میں18سو سے زائد علماء کرام کا متفقہ فتویٰ شائع کیا گیا ہے اور اس میں دہشت گردی، خونریزی اور خود کش حملوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ صدر ممنون نے کہا پاکستان کا آئین قومی اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اس فتوے کی شکل میں تمام دینی مکاتب فکر نے قرآن و سنت کی روشنی میں اتفاق رائے کے ساتھ ایک اچھی دستاویز مرتب کردی ہے جس کے ذریعے فرقہ واریت اور دین کو فساد فی الارض کیلئے استعمال کرنے کی دلیل رد ہو جاتی ہے اور اسلام کا حقیقی چہرہ سامنے آتا ہے، اس کامیابی پر اہلِ علم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ''پیغام پاکستان'' کا بیانیہ ان لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنے گا جو بعض ناپسندیدہ عناصر کے منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر راستے سے بھٹک گئے تھے۔ شدت پسندی کے حوالے سے ایک جامع دستاویز کی تیاری میں کامیابی کے بعد معاشرے میں فرقہ واریت کی فروغ پذیر مختلف شکلوں پر بھی توجہ دی جائے کیونکہ حال ہی میں فرقہ واریت کے بعض ایسے مظاہر دیکھنے کو ملے ہیں جو کئی حوالوں سے تشویشناک ہیں۔
اس ناپسندیدہ رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں فتنوں کا ایک اور بڑا طوفان اٹھ کھڑا ہو گا۔ علمائے کرام، اہلِ فکرودانش اور ریاست کے تمام متعلقہ ادارے اس سلسلے میں ابھی سے خبردار ہو جائیں اور اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے انفرادی کوششوں کے علاوہ پورے قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی کام کریں تاکہ حقیر مقاصد کیلئے قوم کو تقسیم در تقسیم سے بچایا جا سکے۔ ستر اور نوے کی د ہائی کے درمیان ریاست و ریاستی اداروں نے فرائض کی ادائیگی نہیں کی۔ فرائض کی عدم ادائیگی کے باعث ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ توقع ہے آئندہ ایسی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی ۔
جن سے مشکلات پیدا ہوں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا تمام مسالک کے علماء کرام نے پیغام پاکستان پراتفاق کر کے ثابت کر دیا ہے کہ معاملے پر ملک کی سول و عسکری قیادت اور پوری قوم یکجا ہے۔ دنیا پر واضح کر رہے ہیں پوری قوم نے ہر طرح کی دہشت گردی کو مسترد کر دیا ہے۔ذاتی مفادات کیلئے بیمار ذہنیت سے دہشت گردی کی زبانی یا عملی حمایت کرنیوالے افراد کی ہمارے معاشرے میں قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ سہولت کاروں، انتہا پسند نظریہ کو آگے بڑھانے والے افراد سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا اب ہمیں دنیا کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہئے، پاکستان نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے امید ہے کہ بین الاقوامی برادری اپنے حصے کا کام کرے گی۔ قومی بیانیہ فوج، سکیورٹی اداروں اور عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ 400 سال پہلے جب دنیا میں صنعتی انقلاب آیا تو مسلم ممالک اس سے استفادہ نہیں کر سکے اور اب اس خطے میں علمی انقلاب، ٹیکنالوجی انوویشن دستک دے رہی ہے، اگر اس میں بھی ہم نے فائدہ نہ اٹھایا تو آنے والے400 سال مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ہمیں دوسروں پر سازش کا الزام لگانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بندوق کے ذریعے شریعت کا مطالبہ غلط ہے ہم اس سے برأت کا اعلان کرتے ہیں، ہماری اصل شناخت اسلام ہے مسلک نہیں۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بیانیہ درست سمت میں مثبت کوشش ہے جس سے مقصد کے حصول میں آسانی ہو گی۔
تقریب سے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد، ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی، صدر وفاق المدارس العربیہ ڈاکٹر عبدالرزاق، صدر تنظیم المدارس اہل سنت مفتی منیب الرحمان، صدر وفاق مدارس سلفیہ پروفیسر ساجد میر، صدر وفاق المدارس شیعہ علامہ سید ریاض حسین نجفی، صدر رابط المدارس مولانا عبدالمالک نے بھی خطاب کیا۔ مشترکہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشتگردی کی تمام صورتیں اسلامی شریعت کی ر وسے ممنوع اور قطعی حرام ہیں، خودکش حملے کرنے،کروانے، حملوں کی ترغیب دینے والے اور ان کے معاون پاکستانی اسلام کی روسے باغی ہیں۔
ریاست پاکستان شرعی طور پر ان عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کی مجاز ہے۔ دینی شعائر اور نعروں کو نجی عسکری مقاصد اور مسلح طاقت کے حصول کیلئے استعمال کرنا قرآن وسنت کی رو سے درست نہیں۔ جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قتال شامل ہیں کو شروع کرنے کا اختیار صر ف اسلامی ریاست کا ہے اور کسی شخص یا گروہ کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔
صدر مملکت ممنون حسین نے انتہا پسندی کے سدباب اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے قوم کا متفقہ بیانیہ ''پیغام پاکستان'' جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرآن و سنت اور قائد اعظم کے افکار کی روشنی میں تشکیل پانے والا آئین پاکستان ہی ہمارا بنیادی بیانیہ ہے، خودکش حملے فساد فی الارض کے زمرے میں آتے ہیں، خوشی ہے متفقہ فتوے کو اداروں کی تائید بھی حاصل ہے۔
علماء کا فتویٰ اسلامی تعلیمات کی روح کے عین مطابق ہے جس پر عملدرآمد سے انتہا پسندی کے فتنے پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ وہ ایوان صدر میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے زیراہتمام متفقہ قومی بیانیہ کے حوالہ سے شائع ہونے والی کتاب ''پیغام پاکستان'' کے اجراء کے موقع پر خطاب کر رہے تھے جس میں18سو سے زائد علماء کرام کا متفقہ فتویٰ شائع کیا گیا ہے اور اس میں دہشت گردی، خونریزی اور خود کش حملوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ صدر ممنون نے کہا پاکستان کا آئین قومی اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔
اس فتوے کی شکل میں تمام دینی مکاتب فکر نے قرآن و سنت کی روشنی میں اتفاق رائے کے ساتھ ایک اچھی دستاویز مرتب کردی ہے جس کے ذریعے فرقہ واریت اور دین کو فساد فی الارض کیلئے استعمال کرنے کی دلیل رد ہو جاتی ہے اور اسلام کا حقیقی چہرہ سامنے آتا ہے، اس کامیابی پر اہلِ علم مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ''پیغام پاکستان'' کا بیانیہ ان لوگوں کی اصلاح کا ذریعہ بھی بنے گا جو بعض ناپسندیدہ عناصر کے منفی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر راستے سے بھٹک گئے تھے۔ شدت پسندی کے حوالے سے ایک جامع دستاویز کی تیاری میں کامیابی کے بعد معاشرے میں فرقہ واریت کی فروغ پذیر مختلف شکلوں پر بھی توجہ دی جائے کیونکہ حال ہی میں فرقہ واریت کے بعض ایسے مظاہر دیکھنے کو ملے ہیں جو کئی حوالوں سے تشویشناک ہیں۔
اس ناپسندیدہ رجحان پر قابو نہ پایا گیا تو خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے ملک میں فتنوں کا ایک اور بڑا طوفان اٹھ کھڑا ہو گا۔ علمائے کرام، اہلِ فکرودانش اور ریاست کے تمام متعلقہ ادارے اس سلسلے میں ابھی سے خبردار ہو جائیں اور اس چیلنج سے نمٹنے کیلئے انفرادی کوششوں کے علاوہ پورے قومی اتفاقِ رائے کے ساتھ اجتماعی طور پر بھی کام کریں تاکہ حقیر مقاصد کیلئے قوم کو تقسیم در تقسیم سے بچایا جا سکے۔ ستر اور نوے کی د ہائی کے درمیان ریاست و ریاستی اداروں نے فرائض کی ادائیگی نہیں کی۔ فرائض کی عدم ادائیگی کے باعث ملک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ توقع ہے آئندہ ایسی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی ۔
جن سے مشکلات پیدا ہوں۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا تمام مسالک کے علماء کرام نے پیغام پاکستان پراتفاق کر کے ثابت کر دیا ہے کہ معاملے پر ملک کی سول و عسکری قیادت اور پوری قوم یکجا ہے۔ دنیا پر واضح کر رہے ہیں پوری قوم نے ہر طرح کی دہشت گردی کو مسترد کر دیا ہے۔ذاتی مفادات کیلئے بیمار ذہنیت سے دہشت گردی کی زبانی یا عملی حمایت کرنیوالے افراد کی ہمارے معاشرے میں قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ سہولت کاروں، انتہا پسند نظریہ کو آگے بڑھانے والے افراد سے بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے کہا اب ہمیں دنیا کی طرف دیکھنے کی بجائے اپنے گھر کو ٹھیک کرنا چاہئے، پاکستان نے اپنے حصے کا کام کر دیا ہے امید ہے کہ بین الاقوامی برادری اپنے حصے کا کام کرے گی۔ قومی بیانیہ فوج، سکیورٹی اداروں اور عوام کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ 400 سال پہلے جب دنیا میں صنعتی انقلاب آیا تو مسلم ممالک اس سے استفادہ نہیں کر سکے اور اب اس خطے میں علمی انقلاب، ٹیکنالوجی انوویشن دستک دے رہی ہے، اگر اس میں بھی ہم نے فائدہ نہ اٹھایا تو آنے والے400 سال مشکلات کا سامنا کرنا پڑیگا۔ ہمیں دوسروں پر سازش کا الزام لگانے کے بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا۔ جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بندوق کے ذریعے شریعت کا مطالبہ غلط ہے ہم اس سے برأت کا اعلان کرتے ہیں، ہماری اصل شناخت اسلام ہے مسلک نہیں۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ بیانیہ درست سمت میں مثبت کوشش ہے جس سے مقصد کے حصول میں آسانی ہو گی۔
تقریب سے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد، ریکٹر انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ڈاکٹر معصوم یٰسین زئی، صدر وفاق المدارس العربیہ ڈاکٹر عبدالرزاق، صدر تنظیم المدارس اہل سنت مفتی منیب الرحمان، صدر وفاق مدارس سلفیہ پروفیسر ساجد میر، صدر وفاق المدارس شیعہ علامہ سید ریاض حسین نجفی، صدر رابط المدارس مولانا عبدالمالک نے بھی خطاب کیا۔ مشترکہ فتوے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں نفاذ شریعت کے نام پر طاقت کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشتگردی کی تمام صورتیں اسلامی شریعت کی ر وسے ممنوع اور قطعی حرام ہیں، خودکش حملے کرنے،کروانے، حملوں کی ترغیب دینے والے اور ان کے معاون پاکستانی اسلام کی روسے باغی ہیں۔
ریاست پاکستان شرعی طور پر ان عناصر کے خلاف قانونی کاروائی کی مجاز ہے۔ دینی شعائر اور نعروں کو نجی عسکری مقاصد اور مسلح طاقت کے حصول کیلئے استعمال کرنا قرآن وسنت کی رو سے درست نہیں۔ جہاد کا وہ پہلو جس میں جنگ اور قتال شامل ہیں کو شروع کرنے کا اختیار صر ف اسلامی ریاست کا ہے اور کسی شخص یا گروہ کو اس کا اختیار حاصل نہیں۔