لاہور میں متحدہ اپوزیشن کا احتجاجی جلسہ مرکزی قائدین اسٹیج پر موجود
جلسے میں سیاسی رہنماؤں کی تقاریر کا سلسلہ جاری، پہلے سیشن میں آصف زرداری اور دوسرے میں عمران خان خطاب کریں گے
مال روڈ پر متحدہ اپوزیشن کا احتجاجی جلسہ جاری ہے جس میں حزب اختلاف کی تقریبا تمام جماعتوں کے رہنما شریک ہیں۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی قیادت میں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔ مال روڈ پر جلسہ کی وجہ سے چیئر نگ کراس چوک سے جی پی او چوک تک تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔ جلسے میں تقریبا تمام اپوزیشن جماعتیں شرکت کررہی ہیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی، مسلم لیگ (ق) اور دیگر چھوٹی بڑی جماعتوں کے رہنما اور کارکن شرکت کررہے ہیں۔
اس موقع پر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جب کہ حساس مقامات کی حفاظت کی ذمہ داری رینجرز کے سپرد کی گئی ہے۔ عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری، پی پی پی کے رہنما چیرمین آصف علی زرداری، خورشید شاہ، قمر زمان کائرہ، اعتزاز احسن، راجہ پرویز اشرف، مسلم لیگ (ق) کے چوہدری پرویز الہی جب کہ تحریک انصاف کے علیم خان، فردوس عاشق اعوان، جماعت اسلامی کے لیاقت بلوچ اور دیگر رہنما اسٹیج پر موجود ہیں۔ آصف زرداری اور عمران خان اپنے خصوصی کنٹینرز ساتھ لائے ہیں۔ جلسہ گاہ کے مرکزی اسٹیج سے تقاریر کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جب کہ پہلے سیشن میں آصف زرداری اور دوسرے سیشن میں عمران خان خطاب کریں گے۔ کیونکہ عمران خان نے آصف زرداری کے ساتھ ایک اسٹیج پر بیٹھنے سے انکار کردیا ہے۔
مال روڈ بند ہونے سے آس پاس کی سڑکوں پر ٹریفک جام ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ جلسے اور احتجاج کی وجہ سے شہریوں نے جلد از جلد دفاتر اور دکانیں بند کرکے گھروں کا رخ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: طاہر القادری کا حکومت کے خاتمے کیلیے ملک گیر تحریک کا اعلان
دھرنے اور جلسے کی وجہ سے آج صبح سے ہی علاقے کے تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج، اولڈ کیمپس جامعہ پنجاب، نیشنل آرٹس کالج اور تمام اسکولز بند کردیے گئے جبکہ پینوراما، مال روڈ ، ہال روڈ اور ریگل چوک کے تمام تجارتی مراکز کو بھی تالے لگادیے گئے۔ دکانوں اور تجارتی مراکز کی بندش کی وجہ سے تاجروں کو کروڑوں مالیت کا نقصان اٹھانا پڑے گا۔ رکاوٹوں کے باعث عدالتی امور بری طرح متاثر ہوئے جبکہ وکلا اور ججز تاخیر سے عدالتوں میں پیش ہوئے۔
لاہور ہائی کورٹ نے احتجاج رات 12 بجے تک ختم کرنے کا حکم دیا ہے جب کہ پنجاب حکومت نے جلسے میں دہشت گردی کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے سرکاری سیکیورٹی لینے سے انکار کردیا جس کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔
پولیس نے احتجاج کے حوالے سے خصوصی سیکورٹی منصوبہ تیار کیا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز ڈاکٹر حیدراشرف نے کہا کہ پولیس کے پاس نہ اسلحہ ہوگا اور نہ ہی ڈنڈا، مال روڈ کو جانے والے راستوں پر اسنیپ چیکنگ شروع کردی گئی ہے، جب کہ سیاسی جماعتوں کے رضاکار بھی جلسہ گاہ میں آنے والوں کی چیکنگ کررہے ہیں۔ حکومت نے امن وامان کی صورتحال کوکنٹرول کرنے اور سرکاری عمارتوں کی حفاظت کے لیے رینجرز کی تین کمپنیوں کو طلب کیا ہے۔ راناثنااللہ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں رینجرز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان عوامی تحریک کے زیر اہتمام سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ہونے والی اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس نے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون راناثنااللہ کو مستعفی ہونے کے لیے 7 جنوری کی مہلت دی تھی تاہم حکومت نے اپوزیشن کے مطالبے کو کوئی اہمیت نہیں دی جس پر طاہر القادری نے حکومت کے خاتمے کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا۔