جواہرات کے قبیلے کا نرینہ نگینہ فیروزہ

اس کا انگریزی میں ٹورکوائس اس لیے کہا گیا کہ یہ ملک ٹرکس یعنی روم سے بہت بڑی تعداد میں آتا تھا۔

اس کا انگریزی میں ٹورکوائس اس لیے کہا گیا کہ یہ ملک ٹرکس یعنی روم سے بہت بڑی تعداد میں آتا تھا۔ فوٹو : فائل

اس کو انگریزی میںTurquoise ٹورکوائس یا ٹرکینا، فارسی میں فیروزہ، سنس کرت میں پیروج کہتے ہیں۔

اس کا انگریزی میں ٹورکوائس اس لیے کہا گیا کہ یہ ملک ٹرکس یعنی روم سے بہت بڑی تعداد میں آتا تھا۔ اسے دوسرے درجے کے جواہرات میں اعلیٰ ترین شمار کیا جاتا ہے۔ فیروزہ تین رنگوں میں دست یاب ہے، سبزی مائل، حسینی کہلاتا ہے، نیلے رنگ کو رزاقی، تیسرا رنگ فیروزی ہے اور یہ ہی سب سے اعلٰی ہے۔ یہ بہت پرانا اور روغنی چمک کا حامل مقبول پتھر ہے ۔ اس کا مزہ پھیکا اور مزاج سردوخشک ہے اس میںہائیڈریٹ، فاسفیٹ،کوپر،آئرن، المونیم اور پیوپیٹ پائے جاتے ہیں، Hardness اس کی چھے ہے۔

مقامات پیدائش اور تاریخی پس منظر
یہ پتھر زمانہ قدیم میں ہندوستان سے نکالا جاتا تھا اور اس کو کاٹ تراش کے لیے روم بھیجا جاتا تھا۔ انتہائی عمدہ قسم کا فیروزہ ایران کے صوبۂ خراساں میں مشہد اور نیشاپور کے ''میدان نیشاپور'' کے ایک کوہی مقام سے نکالا جاتا ہے اسے ''نیشا پوری فیروزہ'' کہتے ہیں۔ ماہر جواہرات مسٹر فریزر ایک صدی قبل اس کان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ نیشا پور میںصرف ایک پہاڑی میں فیروزہ موجود ہے، جہاں چھ مقامات پر کان کنی ہوتی ہے، پہلے پہل کان سے عمدہ قسم کے فیروزے نہیں نکلتے، اس میں بھورے رنگ کے پتھر کی قسم کی تِہ ہے جسے کھودنے سے فیروزہ سماق پتھر سے چمٹا ہوا ملتا ہے۔

دوسری کان میںبھی فیروزہ اسی قسم کی چٹانوں سے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں، تیسری کان پر اس وقت کھدائی شروع نہیں ہوئی تھی، چوتھی کان میں ایک بہت بڑی بھورے رنگ کی چٹان ہے، جس میں دو نشیب ہیں، ایک میں پانی بھرا ہوا ہے، پانچویں کان بڑے پہاڑ کی چوٹی کے نزدیک ہے جہاں فیروزہ سنگ سماق کی چٹانوں اور زرد مٹی میں پایا جاتا ہے، اس وقت چھٹی کان ختم ہو چکی تھی۔ مصر میں نہر سوئیز کے فیروزہ کی کانیں ایک بڑے وسیع میدان میں واقع ہیں، اس مقام پر فیروزہ سرخی مائل ریتلے پتھر کی چٹان سے نکلتا ہے۔ اس کے علاوہ فیروزہ فلسطین، روس، جرمنی، چین، پاکستان، افغانستان، تبت، امریکا اور نیپال میں بھی پایا جاتا ہے۔

فیروزہ کی اقسام
عام طور پر ماہرین جواہرات فیروزہ کی دو اقسام بیان کرتے ہیں۔
مشرقی فیروزہ: یہ قسم پرانی چٹانوں سے نکلتی ہے اوراس کی رنگت ہمیشہ قائم رہتی ہے۔
مغربی فیروزہ: اس کو استخوان یا بون بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ اس میں فاسفیٹ چونے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ فیروزہ کی یہ قسم نئی چٹانوں میں پائی جاتی ہے، اس کی رنگت خراب ہو کر سبز ہو جاتی ہے، یہ فرانس کی کانوں میں کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔

ماہرینِ فارس جواہرات فیروزہ کی آٹھ اقسام، سلیمانی، آسمانی، فتحی، اظہاری، ورلوی، گنجونیا، عبدالحمیدی اور آندیشی بتاتے ہیں۔
ان میں سے پہلی پانچ اقسام کی رنگت خاکی ہوتی ہے اس کے علاوہ فیروزہ ایران کے شہروں کرمان اور شیراز بھی میں پایا جاتا ہے جن میں سفید رنگ ملا ہوا ہوتا ہے اور انھیں ''سابانگی'' اور ''سربوم'' کہتے ہیں۔ جن پتھروں میں نیلے رنگ کی دھاری ہوتی ہے، ان کو ''نیل بوم'' کہا جاتا ہے۔

لداخ سے بھی معیاری فیروزہ نکلتا ہے لیکن اس میں خرابی یہ ہے کہ اس کا رنگ ہم وار نہیں ہوتا ہے، کہیں سے ہلکا اور کہیں سے گہرا ہو جاتا ہے، آج کل وہاں سے بھی بہت مشکل سے دست یاب ہے لیکن وہاں کے مقامی لوگوں نے قدیم دور ہی میں اس کو دریافت کر لیا تھا لہٰذا اس کی لڑیاں ان کے گھروں میں دست یاب ہیں اور اکثر لوگ ان کو گلے میں پہنا کرتے ہیں، انگوٹھی میں جڑوانا ہوتو اسی لڑی میں سے نکلوا کر ترشوا کر انگوٹھی میں جڑوا لیتے ہیں۔

فیروزہ کی شناخت
جواہرات کی دنیا میںفیروزہ واحد پتھر ہے جس کو پورا تیار نہیں کیا جاتا بل کہ اس کے نچلے حصے کو قدرتی حالت میں رہنے دیا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے چونکہ فیروزہ ایک نرم پتھر ہے جب یہ انگوٹھی میں پہنا جاتا ہے تو اس کا نچلا حصہ پہننے والے کی جلد سے چھوتا ہے اس طرح انسانی مساموں سے نکلنے وال قدرتی روغن اور پسینہ اسے رطوبت مہیا کرتا ہے جس کی وجہ سے یہ اپنا رنگ پکڑتا ہے۔ وضو کرنے والے لوگ پانی کا استعمال بکثرت کرتے ہیں اس وجہ سے ان کے فیروزے کا رنگ جلد تبدیل ہوتا ہے جسے دیکھ کر صاحبانِ نظر پہننے والے کے پرہیز گار ہونے کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔

یہ ایک قیمتی جواہر ہے اس لیے اس کو خریدنے سے پہلے اس بات کا اطمینان کرلینا چاہیے کہ فیروزہ اصلی ہے یا نقلی کیوںکہ عام طور پر بازار میں نقلی فیروزے فروخت کیے جاتے ہیں۔ اصلی فیروزے کی ایک نشانی یہ ہے کہ اگر اس کوحرارت دی جائے تو اس کا پانی خشک ہو جانے کی وجہ سے اس کی رنگت سیاہ ہو جاتی ہے، دھونکنی سے اس کی رنگت بھوری ہو جاتی ہے، اس پر کسی تیزاب کا اثر نہیں ہوتا لیکن رنگ ضرور متاثر ہوجاتا ہے۔ اصلی نگینے کی چمک اور آب زیادہ ہوتی ہے، پختہ اور خالص فیروزہ کا رنگ مستقل قائم رہتا ہے۔ نقلی فیروزے کی ایک خامی یہ ہے کہ اس کا رنگ بہت جلد خراب ہو جاتا ہے۔ اگر آپ فیروزہ فوری طور پر چیک کرنا چاہتے ہوں تو ریتی سے اس کونیچے سے تھوڑا سا رگڑ دیں یا فیروزہ کو گرمی پہنچائیں اور اس کو سونگھیں، اس میں سے ایک طرح کی بو آتی ہے جس کے باعث یہ اصلی کے مقابلے میں اپنا آپ بتا دیتا ہے، اگر اس کو کسی تیزاب کے ساتھ جوش دیں تواس کے تحلیل ہونے سے بری سی بو نکلتی ہے۔

ایران میں چونے سے نقلی فیروزے بھی بنائے جارہے ہیں جو دیکھنے میں بالکل اصلی نظر آتے ہیں لیکن اگر ان کو نیچے سے رگڑا جائے تو وہاں سے سفید چونا نمایاں ہو جاتا ہے۔ ہمار ے ہاں یہ روایت معروف ہے کہ فیروزے کو دودھ میں رکھنا چاہیے، یہ دودھ پیتا ہے، اس لیے اکثر لوگ اس کو جمعرات کے دن دودھ میں ڈال دیتے ہیں جس سے اس کی رنگت تھوڑی سفید ہو جاتی ہے، اسے فیروزے کے اصل ہونے کی نشانی قرار دیا جاتا ہے، یا یہ کہ ''میں فیروزہ پہن کر تندور کے پاس کھڑا ہو گیا تو ساری روٹیاں گر گئیں'' یا میں نے فیروزہ پہن کر شیو کرانے گیا تو حجام کے سارے استرے کند ہوگئے''۔

یہ محض قصے کہانیاں ہیں اگر ایسا ہی ہو فوجیو ں اور پولیس اہل کاروں کو فیروزہ پہنا دینا چاہیے تاکہ وہ دشمن پر قابو پانے میں سہولت پائیں۔ جہاں تک دودھ پینے والی بات ہے تو پرانے زمانے میں جوہری فیروزے کو دودھ میں اس لیے رکھتے تھے کہ اصل فیروزے کی نشانی یہ ہے کہ وہ دودھ میں ڈالتے ہی دودھ کو پھاڑ دیتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ فیروزے میں فاسفیٹ ہوتا ہے جس کے ردعمل میں وہ پھٹ جاتا ہے، یہ اس کے اصل ہونے کی نشانی ہے۔


جوہریوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ وہ فیروزہ کو دودھ میں کیوں ڈالتے ہیںتو وہ اصل بات چھپاتے ہیں اور یہ کہ کر ٹال دیتے ہیں کہ یہ دودھ پیتا ہے لیکن فیروزے کو دودھ میں رکھنے میں ایک حکمت ہے۔ وہ یہ کہ دودھ جب پھٹ جاتا ہے تو اس میں تیزابیت پیدا ہو جاتی ہے جو فیروزے کی جڑوں میں سے میل کچیل صاف کردیتی ہے، فیروزے کی رگیں صاف ہو جاتی ہیں اوراس کے بعد اس اگر ناریل کے تیل میں ڈال دیا جائے تو اس کا رنگ بہت نکھر جاتا ہے، لیکن اس سے بھی دل چسپ بات یہ ہے کہ آج کل نقلی فیروزہ بھی دودھ میں ڈال دیں تو وہ بھی دودھ کو پھاڑ دیتا ہے کیوںکہ چالاک جعل ساز نقلی فیروزے کی جڑ میںلاکھ لگا دیتے ہیں اور دودھ کی ترکیب آزمانے والے بھی دھوکا کھا جاتے ہیں۔

فیروزے کی جڑوں کو ہمیشہ غور سے دیکھیں ! اگر فیروزے کی جڑوں میں چمک ہو اور بے ترتیب ہونے کے بجائے ایسا محسوس ہو رہی ہوں کہ جیسے کو ئی پگھلی ہوئی چیز ہے تو اس فیروزہ کہ نقلی ہونے میں شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔

یا د رکھیے اصل فیروزہ ہمیشہ رنگ تبدیل کرتا رہتا ہے یعنی کبھی ہلکا کبھی گہرا، اس کی وجہ یہ ہے اس میں لوہا اور تانبا موجود ہیں، جن فیروزوں میں تانبے یعنی کاپر کی مقدار زیادہ ہوگی، اس کی رنگت نیلے رنگ کی ہوتی ہے، جس کو رزاقی بھی کہتے ہیں اور جس فیروزے میں لوہا زیادہ ہوتا ہے اس کی رنگت سبزی مائل ہوتی ہے جسے حسینی کہتے ہیں۔ حسینی فیروزہ اعصاب کو مضبوط کرتا ہے اور ''مردانگی'' بحال ہوتی ہے تاہم یہ انا پرستی اور ضدی پن بھی پیدا کرتا ہے، اس کے پہننے والے کو غصہ بہت آتا ہے جو ایک طرح سے قوت ارادی کے بلند ہونے کی علامت بھی ہے۔

حسینی فیروزہ بہ نسبت رزاقی فیروزے کے زیادہ قیمتی ہوتا ہے لیکن وہ لوگ جن کا عنصر آتش ہو یا وہ بلڈ پریشر کے مریض ہوںان کو چاہیے کہ وہ حسینی فیروزہ استعمال نہ کریں ورنہ وہ ہر وقت غصہ میں اور لڑتے جھگڑتے نظر آئیں گے۔ اگر وہ یہ فیروزہ لازمی پہننا چاہتے ہیں تو ان کو چاہیے کہ اس کے ساتھ عقیق ضرور پہنیں کیوںکہ وہ توازن برقرار رکھے گا، وجہ یہ کہ عقیق میں سِلیکیٹ یا سلیکون ڈائی آکسائیڈ ہوتا ہے جو اعصاب کو پرسکون رکھتا ہے، اسی لیے صوفیاء کرام عقیق اور فیروزے سے خصوصی انسیت رکھتے ہیں۔

فیروزہ کی حیرت انگیز صفات
فیروزہ پہننے سے مفلسی اور محتاجی قریب نہیں آتی کیوںکہ اس کے عناصر توانائی اور طراری پیدا کرتے ہیں، اس قسم کے لوگ مفلسی سے نکلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ فیروزے کو لاکٹ میں جڑوا کر گلے میں لٹکانے سے دل کو تقویت ملتی ہے۔ اس پتھر کی صفت ہے کہ صاف اور اچھی فضا میں اس کی رنگت زیادہ شفاف ہو جاتی ہے۔ اگر فیروزہ کو انگوٹھی میں ڈال کر پہنا جائے تو اس سے دل کو راحت ملتی ہے، خوف دور ہوتا ہے، جس کے پاس فیروزہ ہو اس پر آسمانی بجلی نہیں گرتی اور وہ ڈوبنے سے محفوظ رہتا ہے، دشمنوں پر فتح حاصل کرتا ہے۔

روایت ہے کہ جو شخص نیا چاند دیکھ کر فیروزہ کو دیکھے تو اسے بہت بڑی دولت ہاتھ لگتی ہے (وللّٰہ اعلم)، جس کے پاس فیروزہ ہو اسے سانپ اور بچھو وغیرہ ڈنک نہیں مارتے۔ یہ پتھر بہت کم نقصان دہ ثابت ہوا ہے، گھوڑوں کے شوقین لوگوںکے لیے فیروزہ اپنے پاس رکھنا بہت اچھا ہے۔ ارسطو کا کہنا ہے کہ فیروزہ پہننے سے انسان رحم دل اور خدا ترس رہتا ہے، جو شخص صبح وشام فیروزہ دیکھے وہ خوش گوار زندگی بسر کرتا ہے، فیروزہ پہننے سے انسان بری نظر سے محفوظ رہتا ہے اور اپنے دوستوں اور عزیزوں میں بڑا مرتبہ پاتا ہے چوںکہ یہ اعصاب کو بے پنا ہ مضبوط کرتا ہے اس لیے پرانے زمانے میں جنگ جو اور سپاہی فیروزے کے بازو بند یا جوشن (ایک طرح کا بریسلٹ) استعمال کیا کرتے تھے۔

بعض احادیث میں فیروزے کو مردانہ بانجھ پن کے ازالے کے لیے اکسیر قرار دیا گیا ہے، ان احادیث کی روشنی میں راقم نے اس کا تجربہ کیا اور صحیح پایا۔ یہ احادیث نظر سے گزرنے کے بعد جب راقم اس کے اجزاء ترکیبی کا جائزہ لیا تو یہ پایا کہ اس میں زیادہ مقدار فاسفیٹ، میگنشیم، کاپر اور آئرن کی ہے اور ان سے ہو کر جسم کے اندر سرایت کرنے والی شعاعیں ہمارے جسم میں بہت سے کیمیکل ری ایکشن کرتے ہیں جن سے Bonemarrow یعنی ہڈی کا گودہ بڑھتا بھی ہے اور اس میں زیادہ توانائی پیدا ہوتی ہے۔

اس عمل سے ہمارے Cells یعنی خلیوں کو اضافی تقویت فراہم ہوتی ہے۔ Cells زیادہ صحت مند ہو جائیں تو متعدد بیماریوں کا ازالہ ہو جاتا ہے، جس کے نتیجے میں تولیدی جرثوموں کی فعالیت میں اضافہ ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں انسان صاحبِ اولاد ہو جاتا ہے۔ اگر فیروزے یا کسی پتھر پر آیت لکھ دی جائے تو اس کو بغیر وضو کے نہیں پہنا جاسکتا اب جو بھی آیت والا فیروزہ پہنے گا اس کو ہمیشہ باوضو رہنا پڑے گا اورباوضو رہنے کی وجہ سے وہ پرہیز گاری کی طرف مائل ہو جائے گا، نماز بھی ادا کرنے لگ جائے گا جس سے جسمانی کے علاوہ حاملِ فیروزہ کو روحانی بالیدگی بھی میسر آئے گی۔

ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ پروردگار عالم فرماتا ہے کہ جس ہاتھ میں عقیق اور فیروزے کی انگوٹھی ہو وہ اگر میرے آگے دعا کے لیے پھیلا یا جائے تو مجھے اس سے شرم آتی ہے اور میں اسے ناامید نہیں پھیرتا (واللّٰہ اعلم)۔
کہا جاتا ہے کہ فیروزہ بلا اور مصیبت سے بچانے کے لیے بہترین ہوتا ہے یہ کسی مصیبت یا حادثہ سے پہلے فوراً چٹخ جاتا ہے اور اپنے پہننے والے کی تکلیف خود پر لے کر اپنے حامل کو محفوظ رکھتا ہے۔

فیروزہ کا طبی نقطہ نظر
اس کا استعمال خفقان (دل ڈوبنے کا مرض) اور نسیان (بھولنے کا عارضہ) میں مفید ہے، حافظے کو تقویت پہنچاتا ہے، یہ دل کو تفریح کی حالت میں رکھتا ہے جس سے ڈیپریژن یعنی بے زاری اور مراق یعنی مالی خولیا کو افاقہ ہوتا ہے۔ معدہ کے خلفشار اور سر کی تکالیف میں نافع پایا گیا ہے، اس کا سرمہ آنکھوں میں لگانے سے بصارت میں تیزی آتی ہے۔ بعض لوگوں کی بینائی رات کے وقت انتہائی کم زور ہوجاتی ہے، جسے شب کوری یا Night Blindness بھی کہا جاتا ہے، اس کی ایک وجہ حیاتین A یا جسم میں زنک کی کمی بھی ہو سکتی ہے اور ایک وجہ موتیا یعنی Cataract بھی ہوتی ہے۔

سو اگر مؤخرالذکر وجہ ہو تو فیروزے کا سرمہ استعمال کرنے سے شفا ملتی ہے۔ طبی طریق سے یعنی اگر اسے کشتے کے صورت میں شہد کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ تلی کے امراض کے لیے بھی بہترین دوا ہے، گردے اور مثانہ کی پتھری کو خارج کرنے میں اکیسر کا درجہ رکھتا ہے، عورتوں میں رحم کے امراض اس کے استعمال سے دور ہو جاتے ہیں، شوگر (ذیابطیس) کے مرض میں بھی اس کا کشتہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ طبی طریق پر فروزہ کا استعمال ریح کے درد سے نجات دلاتا ہے، ورم کوختم کرتا ہے، جنون کی کیفیت دور کرتا ہے اور ناسور کے لیے بھی اکیسر کی حیثیت رکھتا ہے۔ فیروزے کا مزاج سرد وخشک اورذائقہ پھیکا ہوتا ہے۔

مشہور وتاریخی فیروزے
۱:۔ ایک انتہائی نادر ونایاب فیروزہ، جس پر قرآن پاک کی آیت سنہری حروف کے ساتھ کندہ تھی، نادرشاہ کے بازو بند میں جڑا ہوا تھا، اس فیروزہ کی لمبائی دوانچ اور شکل صنوبری ہے، آج سے ایک صدی قبل اس کی قیمت آٹھ ہزار روپیہ پڑی تھی۔
۲:۔ ایران کے میوزیم میں شاہی حقے موجود ہیں، جن پر فیروزے جڑے ہوئے ہیں۔
۳:۔ ڈیوک آف آرلیز کے پاس انتہائی خوش نما اور دیدہ زیب دو فیروزے منقش موجو د تھے، دونوں پر عورتوں کے نقش کندہ ہیں تاہم ان میں ایک پر عورت کے ساتھ تیر و کمان بھی کندہ ہے۔
۴:۔ ۱۸۷۸ میں جواہرات کی ایک نمائش میں عمدہ قسم کے فیروزوں کی ایک مالا تین ہزار چھ سو روپے میں فروخت ہوئی تھی، اس میں بارہ فیروزے پروئے ہوئے تھے اور ہر ایک پر بارہ سیزروں میں سے ایک کا نقش کندہ تھا۔
Load Next Story