برازیلی گاؤں جہاں والدین بچوں کو سگریٹ نوشی کی ترغیب دیتے ہیں
یہ تہوار ظہور حضرت عیسیؑ کی یاد میں منایا جاتا ہے۔
لاہور:
کرسمس کے بارہ روز کے بعد، چھے جنوری کو عیسائی ایپفینی کا تہوار مناتے ہیں جب کہ یہ تہوار ظہور حضرت عیسیؑ کی یاد میں منایا جاتا ہے، اسے تین بادشاہوں کی ضیافت بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز تین بزرگ شیرخوار حضرت عیسیؑ سے ملنے آئے تھے۔
عیسائی ممالک میں اس تہوار کو عام تعطیل ہوتی ہے اور اسے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ پُرتگال کے گاؤں Vale de Salgueiro میں بھی تہوار روایتی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر میٹھے پکوان بنائے جاتے ہیں اور طربیہ نغمے گائے جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ گاؤں میں ایک عجیب و غریب رسم بھی رائج ہے۔ ایپفینی کے موقع پر والدین بچوں کو تمباکو نوشی کی اجازت دیتے ہیں بلکہ خود انھیں سگریٹ پلاتے ہیں۔ گاؤں کے باسیوں کا کہنا ہے کہ یہ روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے مگر کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کا آغاز کیسے ہوا تھا۔ آیا کوئی واقعہ اس کی وجہ بنا تھا یا پھر ایسے ہی یہ روایت پڑگئی۔
پُرتگال میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد ہے مگر چھے جنوری کو اس گاؤں میں والدین خود اپنے بچوں کو تمباکو نوشی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ کہیں اور یہ رسم نہیں پائی جاتی۔ بچوں کو تمباکونوشی پر اکسانے کی اس رسم پر تنقید ہوتی رہی ہے مگر مقامی لوگ اس کا دفاع کرتے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے نے گاؤں میں قائم کافی شاپ کے پینتیس سالہ مالک سے اس بابت رائے معلوم کی تو اس کا کہنا تھا،'' یہ رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ اور مجھے اس میں بچوں کی صحت کے لیے کوئی خطرہ بھی نظر نہیں آتا کیوں کہ وہ درحقیقت تمباکو نوشی نہیں کرتے۔ بس دھواں نگلتے ہی اُگل دیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی بس دو تین دن تک ہوتی ہے۔ تہوار ختم ہونے کے بعد وہ سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔''
گاؤں کے بزرگ بھی اس بات سے خوش ہیں کہ ان کے بچوں اور پھر ان کی اولادوں نے اپنی صدیوں پرانی رسم کو زندہ رکھا ہے۔ اٹھاسی سالہ ایڈورڈو اوگسٹو کے دو پوتے ہیں۔ اس نے مقامی ریڈیو کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خود وہ بھی اپنے بچپن میں تمباکو نوشی کیا کرتا تھا مگر یہ ' مزے' صرف دو دن کے لیے ہوتے تھے۔ پھر والدین پورا سال اسے تمباکونوشی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
ایڈورڈو تمباکو نوشی کرتا ہے مگر اس کا اصرار ہے کہ یہ رسم اس کا سبب نہیں تھی۔ اوگسٹو کو یاد نہیں کہ یہ رسم کتنی قدیم ہے، مگر اس نے اپنے دادا سے بھی اس کے بارے میں سنا تھا کہ وہ بچپن میں تہوار کے دو دن تمباکو پیا کرتے تھے۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رسم خاصی پرانی ہے۔
Vale de Salgueiro پر ایک کتاب بھی شایع ہوئی ہے۔ کتاب کے مصنف جوز ریبرنہا ہیں۔ انھوں نے گاؤں میں رسوم و رواج اور ان کے تاریخی پس منظر کو اپنی تصنیف میں یکجا کیا ہے۔ تاہم اس مخصوص رسم کا پس منظر وہ بھی تلاش نہیں کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں ایسے خطے میں واقع ہے جہاں قدیم پاگان اور رومی تہوار اب بھی منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں میں بہت سے وہ کام کیے جاتے تھے جن کی عام دنوں میں ممانعت ہوتی تھی۔ غالباً بچوں کو سگریٹ پلانا بھی انھی کاموں میں شامل تھا، جو رفتہ رفتہ رسم کی شکل اختیار کرگیا۔
کرسمس کے بارہ روز کے بعد، چھے جنوری کو عیسائی ایپفینی کا تہوار مناتے ہیں جب کہ یہ تہوار ظہور حضرت عیسیؑ کی یاد میں منایا جاتا ہے، اسے تین بادشاہوں کی ضیافت بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس روز تین بزرگ شیرخوار حضرت عیسیؑ سے ملنے آئے تھے۔
عیسائی ممالک میں اس تہوار کو عام تعطیل ہوتی ہے اور اسے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے منایا جاتا ہے۔ پُرتگال کے گاؤں Vale de Salgueiro میں بھی تہوار روایتی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر میٹھے پکوان بنائے جاتے ہیں اور طربیہ نغمے گائے جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ گاؤں میں ایک عجیب و غریب رسم بھی رائج ہے۔ ایپفینی کے موقع پر والدین بچوں کو تمباکو نوشی کی اجازت دیتے ہیں بلکہ خود انھیں سگریٹ پلاتے ہیں۔ گاؤں کے باسیوں کا کہنا ہے کہ یہ روایت صدیوں سے چلی آرہی ہے مگر کسی کو یہ معلوم نہیں کہ اس کا آغاز کیسے ہوا تھا۔ آیا کوئی واقعہ اس کی وجہ بنا تھا یا پھر ایسے ہی یہ روایت پڑگئی۔
پُرتگال میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو سگریٹ کی فروخت پر پابندی عائد ہے مگر چھے جنوری کو اس گاؤں میں والدین خود اپنے بچوں کو تمباکو نوشی کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
واضح رہے کہ کہیں اور یہ رسم نہیں پائی جاتی۔ بچوں کو تمباکونوشی پر اکسانے کی اس رسم پر تنقید ہوتی رہی ہے مگر مقامی لوگ اس کا دفاع کرتے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے نمائندے نے گاؤں میں قائم کافی شاپ کے پینتیس سالہ مالک سے اس بابت رائے معلوم کی تو اس کا کہنا تھا،'' یہ رسم صدیوں سے چلی آرہی ہے۔ اور مجھے اس میں بچوں کی صحت کے لیے کوئی خطرہ بھی نظر نہیں آتا کیوں کہ وہ درحقیقت تمباکو نوشی نہیں کرتے۔ بس دھواں نگلتے ہی اُگل دیتے ہیں۔ سگریٹ نوشی بس دو تین دن تک ہوتی ہے۔ تہوار ختم ہونے کے بعد وہ سگریٹ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔''
گاؤں کے بزرگ بھی اس بات سے خوش ہیں کہ ان کے بچوں اور پھر ان کی اولادوں نے اپنی صدیوں پرانی رسم کو زندہ رکھا ہے۔ اٹھاسی سالہ ایڈورڈو اوگسٹو کے دو پوتے ہیں۔ اس نے مقامی ریڈیو کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خود وہ بھی اپنے بچپن میں تمباکو نوشی کیا کرتا تھا مگر یہ ' مزے' صرف دو دن کے لیے ہوتے تھے۔ پھر والدین پورا سال اسے تمباکونوشی کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
ایڈورڈو تمباکو نوشی کرتا ہے مگر اس کا اصرار ہے کہ یہ رسم اس کا سبب نہیں تھی۔ اوگسٹو کو یاد نہیں کہ یہ رسم کتنی قدیم ہے، مگر اس نے اپنے دادا سے بھی اس کے بارے میں سنا تھا کہ وہ بچپن میں تہوار کے دو دن تمباکو پیا کرتے تھے۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ رسم خاصی پرانی ہے۔
Vale de Salgueiro پر ایک کتاب بھی شایع ہوئی ہے۔ کتاب کے مصنف جوز ریبرنہا ہیں۔ انھوں نے گاؤں میں رسوم و رواج اور ان کے تاریخی پس منظر کو اپنی تصنیف میں یکجا کیا ہے۔ تاہم اس مخصوص رسم کا پس منظر وہ بھی تلاش نہیں کرسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ گاؤں ایسے خطے میں واقع ہے جہاں قدیم پاگان اور رومی تہوار اب بھی منائے جاتے ہیں۔ ان تہواروں میں بہت سے وہ کام کیے جاتے تھے جن کی عام دنوں میں ممانعت ہوتی تھی۔ غالباً بچوں کو سگریٹ پلانا بھی انھی کاموں میں شامل تھا، جو رفتہ رفتہ رسم کی شکل اختیار کرگیا۔